22 اپریل 2025 کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر ایک مشکوک حملہ ہوا ہے، حسب روایت انڈیا نے اس بار بھی لمحہ ضائع کیے بغیر اس کا الزام پاکستان پر دھر دیا۔ انڈیا نے صرف الزام ہی نہیں لگایا بلکہ 24 گھنٹے کے اندر اندر صورتحال کو جنگی ماحول میں بھی بدل دیا، مسخرے پن میں انڈین سیاستدان اپنی مثال آپ ہیں، حالات نارمل ہوں تو یہ واشنگٹن، ماسکو اور برسلز جا کر کہتے ہیں:
’ہم علاقائی سپر طاقت ہیں، ہمارا مقابلہ چائنا سے ہے‘
لیکن الیکشن آجائے تو کہتے ہیں:
’ہمیں ووٹ دیجیے، کیونکہ پاکستان کا مقابلہ بس ہم ہی کرسکتے ہیں‘
عقل کے کسی بھی پیمانے پر پرکھ لیجیے، آبادی، رقبے، معیشت اور فوجی طاقت کے لحاظ سے پاکستان سے کئی گنا بڑے ملک کے سیاستدان اپنے عوام سے ووٹ اس وعدے پر مانگ سکتے ہیں کہ ہم تمہیں پاکستان سے بچائیں گے، اور ووٹرز کا یہ حال کہ وہ اسی وعدے پر 75 سال سے ووٹ دے بھی رہے ہیں۔ گویا جیسے راجا ویسی ہی پرجہ۔ اب اسی معاملے کا اگلا رخ دیکھیے کہ اگر کبھی پاکستان کے ساتھ تناؤ کی صورتحال پیدا ہوجائے تو پھر یہ واشنگٹن، ماسکو اور برسلز جا کر کہتے ہیں:
’اپن کو پاکستان سے شدید خطرہ ہے، اپن کی مدد کرو‘
گورے ایک دوسرے کی شکل تکنے لگتے ہیں کہ یہ نمونہ تو جب پچھلی بار آیا تھا تو کہہ رہا تھا ہم علاقائی سپر طاقت ہیں، ہمارا مقابلہ چائنا سے ہے۔ یوں گورے کو یہ فکر لاحق ہوجاتی ہے کہ ہم ان کے بھروسے چین سے پنگے لے رہے ہیں؟ جنہیں چھوٹے سے پاکستان کے خلاف ہماری مدد درکار ہے، وہ چین جیسے عالمی دیو کے خلاف ہماری کوئی مدد کرسکیں گے؟ سفارتی محاذ پر ہی ایک اور چیز دیکھیے۔
جب امریکی مداخلت پر کارگل کی جنگ بند ہوئی تو پروپیگنڈا یہی کیا گیا تھا کہ پاکستان اس جنگ میں بری طرح پھنس گیا تھا۔ سو یہ جنرل مشرف تھے جنہوں نے نواز شریف سے کہاکہ امریکا جا کر اس جنگ سے ہماری جان چھڑائیے، اور جب نواز شریف گئے تو ان پر ساز باز کا الزام لگا کر اقتدار سے برطرف کردیا گیا۔ یہی آپ نے پڑھ اور سن رکھا ہے ناں؟ کیا آپ جانتے ہیں بھارت اور امریکا کے کئی اہم ترین افراد اسی موضوع کو اپنی کتب میں زیر بحث لاچکے ہیں؟ جاننا چاہیں گے کہ اس وقت کے انڈین وزیر خارجہ جسونت سنگھ سمیت کئی ٹاپ سفارتکاروں نے اس موضوع پر کیا لکھا ہے؟ حوالے کئی ہیں، آپ بس تین پر گزارہ کر لیجیے۔ سابق انڈین وزیر خارجہ جسونت سنگھ اپنی کتاب A Call to Honour: In Service of Emergent India میں لکھتے ہیں:
’کارگل تصادم کے دوران میں امریکی وزیر خارجہ میڈیلین آلبرائٹ اور نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر سینڈی برگر کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھا۔ ہم نے امریکا کو مطلع کیا کہ پاکستان نے لائن آف کنٹرول عبور کی ہے اور یہ جارحیت ہے، ہم نے امریکی سفارتی مداخلت کی درخواست کی تاکہ پاکستان کو روکا جا سکے۔‘
اسی موضوع پر سابق انڈین سیکریٹری خارجہ شیام سرن اپنی کتاب How India Sees the World: Kautilya to the 21st Century میں فرماتے ہیں:
’بھارت نے چالاک سفارتکاری کے ذریعے یہ یقینی بنایا کہ بین الاقوامی برادری جس کی قیادت امریکا کررہا تھا، کارگل جارحیت کا مکمل الزام پاکستان پر عائد کرے۔ یہ ایک نادر لمحہ تھا جب دنیا کی رائے مکمل طور پر بھارت کے حق میں تھی۔‘
انڈیا ہی کیا آپ امریکا کا حوالہ بھی لیجیے۔ بروس رائیڈل کلنٹن انتظامیہ میں قومی سلامتی کونسل کے سینیئر ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا تھے۔ وہ اپنی کتاب Avoiding Armageddon: America, India, and Pakistan to the Brink and Back میں رقم طراز ہیں:
’کارگل میں امریکا نے خاموشی لیکن مؤثر انداز میں پاکستان کو جنگ کے دہانے سے واپس لانے کے لیے کام کیا۔ کلنٹن نواز شریف سے سخت ناراض تھے اور انہوں نے فوری طور پر پاکستانی افواج کو بھارتی علاقے سے واپس بلانے کا مطالبہ کیا۔‘
آپ کو ان حوالوں میں کہیں بھی یہ نظر آتا ہے کہ پاکستان کارگل میں پھنس گیا تھا، اور یہ پاکستان تھا جس نے امریکا سے رابطہ کیا تھا کہ ہمیں اس صورتحال سے نکالیے اور جنگ بندی کی کوئی سبیل پیدا کیجیے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ انڈیا تھا جو لڑنے کے بجائے سفارتی محاذ پر امریکا سے بھیک مانگ رہا تھا کہ فار گاڈ سیک ہماری پاکستان سے جان چھڑائیے۔ اور امریکا نے اس کی یہ درخواست قبول کرلی، مگر سوال یہ ہے کہ اگر آج کی تاریخ میں انڈیا صرف دھمکیوں تک نہیں رہتا بلکہ کوئی جنگی قدم بھی اٹھا لیتا ہے تو کیا امریکا اسے بچائے گا؟
ہمارے نزدیک صورتحال یہ ہے کہ اس بار امریکا درپردہ پاکستان کی مدد کرسکتا ہے، اور بیک ڈور سے کہہ سکتا ہے کہ ’اور مارو، بلکہ مارو کم اور گھسیٹو زیادہ‘ کیوں؟ یہ امکان کیوں ہے؟ آپ موجودہ عالمی سیاسی منظر نامہ دیکھیے۔ دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہوچکی۔ چند سال قبل انڈیا کے کہنے پر برکس میں پاکستان کی انٹری روکی گئی تو انڈیا نے بغلیں بجائیں۔ ہماری طرف ’سیانے‘ مسکرائے اور چپ کرکے مناسب وقت کا انتظار کرنے لگے۔ وہ جانتے تھے کہ برکس جن کے خلاف بنایا گیا ہے وہی وقت آنے پر ہمارے کام آئیں گے، چنانچہ لمحہ موجود میں صورتحال یہ کہ مغرب کو برکس کا سب سے نازک پرزہ انڈیا ہی لگتا ہے، چنانچہ پچھلے دو برسوں کے دوران آپ دیکھ چکے ہوں گے کہ مغرب اسی نازک پرزے پر مسلسل دباؤ ڈالے جا رہا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کینیڈا نے اپنے سکھ شہری کی موت کا الزام مودی حکومت پر بس ویسے ہی لگایا ہے؟ یہ بھی اسی دباؤ کا حصہ ہے۔
چنانچہ موجودہ صورتحال میں اگر انڈیا جنگ کی طرف جاتا ہے تو کوئی شک نہیں کہ مغربی اتحاد اسے بچانے نہیں آئے گا، بلکہ اس صورتحال کو انڈیا کے خلاف مؤثر انداز میں استعمال کرنے کی کوشش کرے گا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا برکس کی طرف سے ہم پر دباؤ آسکتا ہے؟ برکس کی جانب سے ہم پر دباؤ کوئی نہیں آسکتا، کیونکہ ہماری ممبر شپ کی درخواست مسترد کرکے یہ چینل وہ خود ہی بند کرچکے، ہاں ہمیں برکس کی جانب سے لالچ ضرور دیا جاسکتا ہے، اور وہ لالچ برکس میں انٹری کا ہوگا، ہم پر دباؤ کے معاملے میں برکس کی صورتحال بہت ہی دلچسپ ہوگی، کیونکہ برکس کے دو پاور ہاؤس ہیں۔ ایک ماسکو، دوسرا بیجنگ، ماسکو دلی کا خالو لگتا ہے تو بیجنگ اسلام آباد کا ماموں، اور صورتحال یہ ہے کہ بیجنگ کا دلی کی طرف بہت بھاری ادھار چل رہا ہے جس کے نتائج ہم آئے روز دیکھتے ہیں۔ جبکہ ماسکو کو اسلام سے کوئی شکایت نہیں۔ مگر روس اور چین اس صورتحال سے لاتعلق بھی نہیں رہ سکتے کیونکہ پوری برکس داؤ پر لگی ہوگی۔ یوں برکس کے ان دونوں بڑوں کے پاس بس ایک ہی آپشن بچتی ہے، وہ یہ کہ مسئلے کا کوئی پائیدار حل نکالیں ورنہ انڈیا کا برکس کا نازک پرزہ ہونا برکس کی سب سے بڑی کمزوری کے طور پر برقرار رکھنا وہ افورڈ نہیں کرسکتے۔ امریکا اس کا فائدہ اٹھائے بغیر رہے گا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ مسئلے کے پائیدار حل سے کیا مراد ہے؟ دیکھیے صاحب، مسئلہ تو ایک ہی ہے، مسئلہ کشمیر۔ پلیز اب یہ نہ پوچھیے گا کہ پائیدار حل سے کیا مراد ہے؟
پہلگام والی شاٹ ماری کس نے ہے، یہ ہم نہیں جانتے، مگر تجزیہ کار کے طور پر یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پائیدار حل کے لیے گیند پہنچ برکس کے ہی کورٹ میں گئی ہے، برکس نے نظر انداز کیا تو ٹرمپ جانے دے گا؟ وہ تو انتظار میں بیٹھا ہوگا کہ جسونت سنگھ کی طرح موجودہ وزیر خارجہ جے شنکر جی بھی رابط فرمائیں، مگر سوال یہ ہے کہ بھارتی دفتر خارجہ کے بابو امریکا سے رابطے کی غلطی کرسکتے ہیں؟ یہ رابطہ برکس ہضم کرجائے گا؟ یہی وہ صورتحال ہے جس کی وجہ سے ہمیں نہیں لگتا کہ انڈیا حملے کی غلطی کرسکتا ہے، جنگ سپلائی لائن کے بغیر نہیں لڑی جاسکتی، سپلائی لائن کی صورتحال یہ ہے کہ روس خود جنگ لڑ رہا ہے وہ انڈیا کو سپلائی نہیں دے سکتا، مغرب سے سپلائی مانگے گا تو وہ بدلے میں برکس سے علیحدگی مانگیں گے، اور ساتھ یہ ڈراوے بھی دیں گے کہ بھئی فیصلہ جلدی کرو ورنہ اگلے تو لال قلعہ پر پرچم لہرانے کی تیاری کرچکے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ مودی جی جنہیں ہم پیار سے ’موذی جی‘ کہتے ہیں بری طرح پھنس گئے ہیں، شاید یہی وجہ کہ ڈینگیں بھی بڑی بڑی مار رہے ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ امریکا انڈیا پاک بھارت کشیدگی پاک فوج پاکستان بھارت جنگ چین رعایت اللہ فاروقی کارگل جنگ مودی سرکار وی نیوز صورتحال یہ پائیدار حل کہ پاکستان پاکستان سے کہتے ہیں یہ ہے کہ سوال یہ برکس کی کے خلاف ہیں کہ
پڑھیں:
تورغر: چیئر لفٹ پھنس گئی، ریسکیو عملے نے تمام افراد کو بچالیا
کوٹلی نصرت خیل تورغر میں دریائے سندھ کے اوپر چیئر لفٹ پھنس گئی تاہم ریسکیو عملے نے کامیابی کے ساتھ پھنسے ہوئے افراد کو نیچے اتار لیا۔
یہ بھی پڑھیں: بٹگرام چیئرلفٹ حادثے کو 10 ماہ گزرنے کے بعد بھی کچھ نہ بدلا، تازہ صورتحال کیا ہے؟
ریسکیو 1122 کے مطابق چئیر لفٹ نے فنی خرابی کیوجہ سے کام چھوڑ دیا تھا اور اس میں 7 افراد پھنس گئے تھے۔
ریسکیو 1122 تورغر کی ٹیموں نے موقع پر پہنچ کر امدادی کاروائیاں شروع کیں اور چیئرلفٹ آپریشن کامیابی سے مکمل کرتے ہوئے تمام افراد کو بحفاظت ریسکیو کرلیا۔
مزید پڑھیے: دوبارہ لفٹ پر کبھی نہیں بیٹھوں گا، لفٹ حادثے میں بچ جانے والا گلفراز
ریسکیو1122 ڈیزاسٹر اور میڈیکل ٹیموں سمیت 25 اہلکاروں نے آپریشن میں حصہ لیا۔
ڈپٹی کمشنر تور غر صفدر اعظم قریشی نے موقعے پر تمام آپریشن کی نگرانی کی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
تورغر تورغر چیئر لفٹ ریسکیو 1122