علاقائی حریف کی سرپرستی میں دہشت گردی کا سامنا ہے: پاکستانی قونصلر جواد اجمل
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
نیویارک: اقوام متحدہ میں پاکستانی مشن کے قونصلر جواد اجمل نے کہا ہے کہ پاکستان طویل عرصے سے دہشتگردی کا شکار ہے، علاقائی حریف کی سرپرستی میں دہشت گردی کا سامنا ہے۔
اقوام متحدہ میں ’’دہشتگردی کے متاثرین کی ایسوسی ایشن نیٹ ورک‘‘ کے آغازپر پاکستانی قونصلر جواد اجمل نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے پاس ٹھوس شواہد ہیں کہ جعفر ایکسپریس حملہ علاقائی حریفوں کی بیرونی معاونت سے کیا گیا، حملے میں 30 بے گناہ پاکستانی شہری شہید ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو دہشت گرد حملوں کے متاثرین اور ان کے خاندانوں کی حمایت کرنی چاہیے، دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے، دہشتگردی اور حق خودارادیت کی جائز جدوجہد کے درمیان واضح فرق کرنا بھی لازم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں 9 لاکھ سے زائد فوجی تعینات کررکھے ہیں اوروہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں، عالمی برادری بھارتی مظالم کا نوٹس لے اور کشمیری عوام پر ہونے والی ریاستی دہشت گردی کو بند کرانے میں کردار ادا کرے، سلامتی کونسل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیری عوام کو حقِ خودارادیت دلانے کیلئے عملی اقدامات کرے۔
اقوام متحدہ میں پاکستانی مشن کے قونصلر جواد اجمل کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے پہلگام حملے کی مذمت کی ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: قونصلر جواد اجمل اقوام متحدہ
پڑھیں:
غزہ میں عالمی فورس کیلیے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے‘اردن ‘جرمنی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-01-19
عمان/برلن( مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ‘غزہ پلان’ کے تحت جنگ بندی کے بعد علاقے میں عالمی استحکام فورس کی تعیناتی کی تجاویز پراردن اور جرمنی، نے واضح کیا ہے کہ اس فورس کی کامیابی اور قانونی حیثیت کے لیے اسے لازماً اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا چاہیے۔ عالمی میڈیا کے مطابق، امریکا کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تحت زیادہ تر عرب اور مسلمان ممالک پر مشتمل ایک اتحاد فلسطینی علاقے میں فورس تعینات کرنے کی توقع ہے۔ بین الاقوامی استحکام فورس غزہ میں منتخب فلسطینی پولیس کو تربیت دینے اور ان کی معاونت کرنے کی ذمہ دار ہوگی، جسے مصر اور اردن کی حمایت حاصل ہوگی۔ اس فورس کا مقصد سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانا اور حماس کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ سے روکنا بھی ہوگا۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے کہا کہ “ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اس استحکام فورس کو مؤثر طریقے سے اپنا کام کرنا ہے تو اسے سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا ضروری ہے۔تاہم، اردن نے واضح کیا کہ وہ اپنے فوجی غزہ نہیں بھیجے گا۔ الصفدی کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے سے بہت قریب ہیں، اس لیے ہم غزہ میں فوج تعینات نہیں کر سکتے، تاہم انہوں نے کہا کہ ان کا ملک اس بین الاقوامی فورس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔دوسری جانب، جرمنی کے ویزرخارجہ یوان واڈیفول نے بھی فورس کے لیے اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کی حمایت کی اور کہا کہ اسے بین الاقوامی قانون کی واضح بنیاد پر قائم ہونا چاہیے۔جرمن وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ان ممالک کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے جو نہ صرف غزہ میں فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں بلکہ خود فلسطینیوں کے لیے بھی اہم ہے جبکہ جرمنی بھی چاہے گا کہ اس مشن کے لیے واضح مینڈیٹ موجود ہو۔خیال رہے کہ گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ یہ منصوبہ ’اسرائیلی قبضے کی جگہ امریکی قیادت میں ایک نیا قبضہ قائم کرے گا، جو فلسطینی حقِ خودارادیت کے منافی ہے‘۔واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ نے اس خطے میں بین الاقوامی امن فورسز کئی دہائیوں سے تعینات کر رکھی ہیں، جن میں جنوبی لبنان میں فورس بھی شامل ہے، جو لبنانی فوج کے ساتھ مل کر حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان نومبر 2024 کی جنگ بندی پر عملدرآمد کو یقینی بنا رہی ہے۔