UrduPoint:
2025-06-14@01:17:45 GMT
بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام میں 35کروڑ کی خوردبرد کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔29 اپریل ۔2025 )بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی ) میں مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے، جہاں مستحقین کے اکاﺅنٹس سے 35 کروڑ روپے کی رقم نکالے جانے کی تصدیق ہوئی ہے رپورٹ کے مطابق یہ انکشاف فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں سامنے آیا جس میں واضح تضادات کی نشاندہی کی گئی ہے.
(جاری ہے)
آڈٹ اعتراضات کے دوران انکشاف ہوا کہ 27,266 کیسز میں میاں بیوی دونوں کو مالی امداد جاری کی گئی جو پالیسی کے برخلاف ہے نوید قمر نے استفسار کیا کہ ان رقوم کی ریکوری کیسے کی جائے گی جس پر سیکرٹری بی آئی ایس پی نے اعتراف کیا کہ ادارے کے پاس ریکوری کا کوئی واضح طریقہ کار موجود نہیں ہے. سیکرٹری کے مطابق نادرا کے ساتھ ڈیٹا شیئر کر لیا گیا ہے اور تصدیق کے بعد ناموں کی جانچ پڑتال کرکے کمیٹی کو آگاہ کیا جائے گا آڈٹ حکام نے بتایا کہ سیلاب زدگان کی امداد کے لیے جاری کیے گئے 84 کروڑ روپے کی رقم دور دراز علاقوں کے اے ٹی ایمز سے نکلوائی گئی، جس پر نوید قمر نے کہا کہ آج کے ٹیکنالوجی کے دور میں یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں. آڈیٹر جنرل اجمل گوندل نے کہا کہ یہ معاملہ محض رقم نکلوانے کا نہیں بلکہ اس نظام کی خامیوں کا ہے، کیونکہ یہ کارڈ ملک کی غریب ترین خواتین کو دیا جاتا ہے، جو دور دراز علاقوں میں جا کر رقوم نہیں نکال سکتیں سیکرٹری وزارت تخفیف غربت کے مطابق وزارت کی سطح پر کیے گئے ڈیٹا تجزیے میں 11 فیصد ریکارڈ میں نقائص سامنے آئے ہیں جس کی مزید تحقیقات جاری ہیں چیئرمین کمیٹی جنید اکبر خان نے اس معاملے پر مکمل رپورٹ ایک ماہ میں طلب کرلی ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے مطابق
پڑھیں:
سندھ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے اجلاس میں 80 فیصد سے زائد نجی صنعتی اداروں کے مقررہ کم از کم تنخواہ ادا نہ کرنے کا انکشاف
کراچی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12 جون ۔2025 )سندھ اسمبلی کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے اجلاس میں صوبے کے 80 فیصد سے زائد نجی صنعتی اداروں کی جانب سے کم از کم تنخواہ کی سرکاری ہدایت پر عمل نہ کرنے کا انکشاف سامنے آیا ہے رپورٹ کے مطابق چیئرمین نثار احمد کھوڑو کی زیر صدارت پی اے سی کے اجلاس میں محکمہ محنت اور سندھ ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن (سیسی) کو ہدایت دی گئی کہ وہ صوبے بھر کے تمام صنعتی اداروں میں مزدوروں کو مقررہ کم از کم تنخواہ 37 ہزار روپے کی ادائیگی کو یقینی بنائیں.(جاری ہے)
اجلاس میں سیسی کی سال 2018 اور 2019 کی آڈٹ رپورٹس کا جائزہ لیتے ہوئے چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ 80 فیصد نجی صنعتی اداروں میں ماہانہ کم از کم اجرت کی عدم فراہمی لیبر قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے انہوں نے سیسی اور محکمہ محنت کو ہدایت کی کہ مزدوروں کو کم از کم ماہانہ تنخواہ کی فراہمی کے قانون پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے. سیسی کے کمشنر میانداد راہوجو نے پی اے سی کو بتایا کہ صوبے میں 67 ہزار صنعتی یونٹس میں سے 24 ہزار یونٹس سیسی کے پاس رجسٹرڈ ہیں، ان میں سے 6 ہزار یونٹس بند ہو چکے ہیں جبکہ 18 ہزار یونٹس فعال ہیں اور رجسٹرڈ یونٹس کے 8 لاکھ سے زائد مزدور سیسی میں رجسٹرڈ ہیں انہوں نے بتایا کہ کئی صنعتی یونٹس اپنے مزدوروں کو سرکاری طور پر مقرر کردہ کم از کم تنخواہ دے رہے ہیں، تاہم نجی سیکیورٹی ایجنسیوں کے گارڈز کو یہ تنخواہ نہیں دی جا رہی. پی اے سی چیئرمین کے سوال پر سیسی کمشنر نے بتایا کہ جعلی ڈگری رکھنے والے کئی ملازمین کو ملازمت سے نکالا جا چکا ہے انہوں نے مزید بتایا کہ سیسی کے 4200 کے قریب ملازمین کی حاضری ڈیجیٹل سسٹم کے ذریعے چیک کی جاتی ہے اجلاس میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ سیسی اداروں کی مرمت کے کام کے لیے جعلی بلوں کے ذریعے 5 کروڑ روپے کی بوگس ادائیگیاں کی گئیں. پی اے سی نے ان مالی بے ضابطگیوں کا نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری محنت کو ہدایت دی کہ وہ جعلی ادائیگیوں کی تحقیقات کر کے رپورٹ پیش کریں پی اے سی نے محکمہ محنت کے ماتحت 7 ہسپتالوں اور 42 ڈسپینسریوں کے لیے 9 ارب روپے مالیت کی ادویات کی سالانہ خریداری کے آڈٹ کا حکم بھی دیا یہ حکم ان شکایات کے بعد دیا گیا جن میں اربوں روپے کی ناقص ادویات اور مشینری کی خریداری میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی تھی. ایک سوال کے جواب میں سیسی کمشنر نے بتایا کہ صوبے بھر میں سیسی کے تحت 7 ہسپتال اور 42 ڈسپینسریاں کام کر رہی ہیں جہاں صنعتی مزدوروں کو علاج کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں انہوں نے بتایا کہ سیسی کو 13 ارب روپے کا سالانہ فنڈ ملتا ہے، جس میں سے 70 فیصد یعنی 9 ارب روپے ادویہ اور طبی سہولتوں کی خریداری پر خرچ کیے جاتے ہیں سیسی کمشنر نے بتایا کہ ان اداروں کے لیے 70 فیصد ادویات ٹینڈرز کے ذریعے خریدی جاتی ہیں جبکہ 30 فیصد ادویات سیسی کے ڈائریکٹرز مقامی سطح پر خریدتے ہیں جہاں خریداری میں مسائل کا سامنا ہوتا ہے. انہوں نے بتایا کہ سیسی ہسپتالوں کو موثر طریقے سے چلانے کے لیے مینجمنٹ کمیٹیاں بنائی گئی ہیں جبکہ سیسی گورننگ باڈی نے ولیکا ہسپتال کے لیے 1.4 ارب روپے کے انفرااسٹرکچر اور بلڈنگ کے منصوبے کی منظوری دی ہے جس پر کام ایک سال کے اندر شروع کیا جائے گا.