خیبرپختونخوا میں میگا مالیاتی اسکینڈل، ذمہ داران کو نہیں چھوڑوں گا،سپیکر اسمبلی
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
پشاور: خیبرپختونخوا کے ضلع اپر کوہستان کے سرکاری بینک اکاؤنٹس سے 36 ارب روپے سے زائد کی مبینہ خردبرد کے انکشاف کے بعد خیبرپختونخوا اسمبلی میں ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا۔
ہنگامی اجلاس اسپیکر اور چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بابر سلیم سواتی کی زیر صدارت ہوا جس میں اکاؤنٹنٹ جنرل خیبرپختونخوا، وزیراعلیٰ کے مشیر سہیل آفریدی، اراکین اسمبلی سجاد اللہ خان، میاں شرافت، شفیع اللہ جان اور آصف خان محسود کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلی سیکٹریٹ کے سینیئر افسران نے شرکت کی۔
اجلاس میں ان میڈیا رپورٹس کا تفصیلی جائزہ لیا گیا جن کے مطابق ضلع اپر کوہستان میں ضلعی اکاؤنٹس آفیسر، محکمہ مواصلات و تعمیرات، نیشنل بینک کے اہلکاروں اور دیگر کی مبینہ ملی بھگت سے جعلی تعمیراتی کمپنی کے ذریعے 36 ارب روپے سے زائد کی مشکوک مالی لین دین، سرکاری اکاؤنٹس سے ہزاروں جعلی چیکس کے اجرا کا انکشاف ہوا ہے.
اس معاملے کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے اسپیکر کے پی اسمبلی بابر سلیم سواتی نے فوری اور مؤثر ایکشن لیتے ہوئے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا خصوصی اجلاس پیر، 5 مئی 2025 بوقت صبح 11 بجے کو طلب کر لیا۔
اجلاس میں سکریٹری خزانہ، ڈی جی نیب پشاور، اکاؤنٹنٹ جنرل خیبرپختونخوا، آڈیٹر جنرل آف خیبرپختونخوا، سیکرٹری قانون و پارلیمانی امور، سیکرٹری مواصلات و تعمیرات اور ڈی جی آڈٹ خیبر پختونخوا کو باضابطہ طور پر شرکت کی ہدایت کی گئی ہے۔
سپیکر نے ہدایت کی کہ تحقیقات کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی جا ئے، خیبرپختونخوا اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے متعلقہ محکموں کو مراسلے جاری کر دیے گئے ہیں۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئےسپیکر بابر سلیم سواتی نے کہا عوام کے خون پسینے کی کمائی کو لوٹنے والوں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا اسمبلی کرپشن کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی پر عمل پیرا ہے اور تمام ذمہ داروں کو قانون کے مطابق انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ محکمہ خزانہ کے اہل افسران کے سامنے اس دھوکا دہی کو روکنے میں ناکامی کی پوری تحقیقات کی جائیں گی۔
بابر سواتی نے کہا کہ مالیاتی شفافیت اور مؤثر احتساب کے بغیر عوامی اعتماد بحال نہیں ہو سکتا اور اسمبلی اس مقصد کے حصول کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی۔ Post Views: 1
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس، بے ضابطگیوں کی نشاندہی
اجلاس میں بجٹ و اکاؤنٹس کے حوالے سے آڈٹ رپورٹ اور کمپلائنس رپورٹ پر غور کیا گیا، جس میں متعدد سنگین بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی۔ کمیٹی نے شفافیت پر زور دیتے ہوئے مختلف ہدایات جاری کیں۔ اسلام ٹائمز۔ صوبائی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی اصغر علی ترین کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے اراکین رحمت صالح بلوچ، غلام دستگیر بادینی، ولی محمد نورزئی، فضل قادر مندوخیل، زابد علی ریکی، صفیہ بی بی، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو قمبر دشتی، ڈائریکٹر جنرل آڈٹ بلوچستان شجاع علی، ڈپٹی اکاؤنٹنٹ جنرل نورالحق، سیکرٹری بورڈ آف ریونیو جاوید رحیم، ایڈیشنل سیکرٹری پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سراج لہڑی، ایڈیشنل سیکرٹری فنانس محمد عارف اچکزئی، ڈائریکٹر آڈٹ ثناء اللہ، ایڈیشنل سیکرٹری بورڈ آف ریونیو گرداری لعل، مجیب قمبرانی کمشنر رخشان ڈویژن، ڈی سی آواران عائشہ زہری، منیر سومرو ڈی سی خاران، عظیم جان ڈی سی کوہلو، عبداللہ کھوسہ ڈی سی بارکھان، محمد حسین ڈی سی نوشکی، بہرام سلیم ڈی سی مستونگ، جمیل احمد ڈی سی قلات، مہراللہ جمالدینی ڈی سی کوئٹہ، و دیگر ڈپٹی کمشنرز اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز شریک ہوئے۔
اجلاس میں بجٹ و اکاؤنٹس کے حوالے سے آڈٹ رپورٹ اور کمپلائنس رپورٹ پر غور کیا گیا، جس میں متعدد سنگین بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2016-17 میں نان ڈویلپمنٹ فنڈز کی مد میں 3,336.1 ملین روپے مختص کیے گئے تھے، جن میں سے 2,595.47 ملین روپے خرچ ہوئے جبکہ 740.6 ملین روپے کی بچت کو سرنڈر نہیں کیا گیا، جو کہ کمزور مالی نظم و نسق کی نشاندہی کرتا ہے۔ اسی طرح 2019-20 اور 2020-21 کے دوران بورڈ آف ریونیو کے مختلف دفاتر کی جانب سے 33.736 ملین روپے کے اخراجات کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا جس کے باعث اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال ممکن نہ ہو سکی۔ کمیٹی نے اس صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔
مزید برآں کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2020-21 اور 2021-22 میں مختلف ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر کی جانب سے 19,144.236 ملین روپے سرکاری خزانے میں جمع کرانے کے بجائے مختلف بینک اکاؤنٹس میں رکھے گئے، جو قواعد و ضوابط کے منافی ہے۔ کمیٹی نے یہ بھی نوٹ کیا کہ 2019-21 کے دوران عشر، آبپاشی ٹیکس (ابانہ) اور زرعی انکم ٹیکس کی مد میں 1,101.469 ملین روپے کی وصولی نہیں کی گئی جس سے سرکاری خزانے کو بھاری نقصان پہنچا۔ مزید انکشاف ہوا کہ 2019-22 کے دوران مختلف کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر کی جانب سے 228.964 ملین روپے کے اخراجات ڈی ڈی اوز کے نام پر چیک جاری کیے گئے، بجائے اس کے کہ ادائیگی براہ راست وینڈرز کو کی جاتی۔ یہ عمل بھی قواعد و ضوابط کے برخلاف قرار دیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بجٹ کی بچت بروقت سرنڈر کرنا لازمی ہے اور آئندہ ایسی غیر شفاف مالی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں گے۔
اراکین کمیٹی نے ہدایت کی کہ تمام ریکارڈ فوری طور پر آڈٹ اور پی اے سی کو برائے تصدیق فراہم کیا جائے، غیر قانونی طور پر روکے گئے فنڈز کو سرکاری خزانے میں جمع کرایا جائے اور ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔ کئی کیسز میں انکوائری کا حکم جاری کیا گیا۔ پی اے سی ممبرز نے اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا کہ 2020 میں کیے گئے پی اے سی کے احکامات پر تاحال متعدد ڈپٹی کمشنرز نے عملدرآمد نہیں کئے۔ پی اے سی نے فیصلہ کیا کہ اگر ایک ماہ کے اندر پرانے اور نئے کیسز پر دیئے گئے احکامات پر عمل نہیں کیا گیا تو مذکورہ ڈپٹی کمشنرز اور کمشنرز کے خلاف سخت فیصلے کیے جائیں گے۔ آخر میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے واضح کیا کہ قواعد و ضوابط کے بغیر مالی نظم و نسق بہتر نہیں ہو سکتا اور اس ضمن میں غفلت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔