پیپلز پارٹی محنت کشوں کی نمائندہ جماعت ہے، وزیراعلیٰ سندھ
اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT
یوم مئی پر پیغام میں مراد علی شاہ نے کہا کہ حکومتِ سندھ نے یکم جولائی 2024ء سے تمام غیر ہنر مند مزدوروں کے لیے کم از کم ماہانہ اجرت 37 ہزار روپے مقرر کی ہے، جو محنت کشوں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے یومِ مزدور کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ شکاگو کے مزدوروں کی عظیم قربانی کو پوری دنیا میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یکم مئی کا دن ہمیں مزدوروں کے جائز حقوق کے تحفظ اور ان کی فلاح و بہبود کے عزم کی تجدید کا موقع فراہم کرتا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ مزدور ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی روزِ اول سے محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ اور فلاح کے لیے سرگرم عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی حقیقی معنوں میں محنت کشوں کی نمائندہ جماعت ہے۔
مراد علی شاہ نے بتایا کہ حکومتِ سندھ نے یکم جولائی 2024ء سے تمام غیر ہنر مند مزدوروں کے لیے کم از کم ماہانہ اجرت 37 ہزار روپے مقرر کی ہے، جو محنت کشوں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ حکومت نے مزدوروں کے حقوق اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں، جن میں گھریلو ملازمین سمیت تمام مزدوروں کی رجسٹریشن مہم کا آغاز شامل ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ صوبے بھر میں ورکرز ماڈل اسکولز اور ورکرز انٹرمیڈیٹ کالجز قائم کیے گئے ہیں، جہاں مزدوروں کے بچوں کو مفت کتابیں، یونیفارم اور دیگر سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں، سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ کے تحت مزدوروں کے لیے رہائشی اسکیمیں اور اسکالرشپس بھی دی جا رہی ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے مزید کہا کہ نجی اداروں کے محنت کشوں کے تحفظ کے لیے سندھ ایمپلائیز سوشل سیکیورٹی انسٹیٹیوشن (سیسی) قائم کیا گیا ہے، جس کے ذریعے ملازمین اور ان کے اہلِ خانہ کو علاج کی سہولیات اور حادثات کی صورت میں براہِ راست مالی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ حکومت محنت کشوں کو باوقار طرزِ زندگی فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔ انہوں نے تاجر برادری، صنعت کاروں اور سول سوسائٹی سے اپیل کی کہ وہ مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے حکومتی کوششوں کا ساتھ دیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: محنت کشوں کے مزدوروں کے نے کہا کہ انہوں نے کے لیے
پڑھیں:
بھارتی حکمران جماعت بی جے پی اندرونی خلفشار کا شکار اور دھڑوں میں تقسیم
بھارتی حکمران جماعت ’بی جے پی‘ اس وقت ایک سنگین داخلی خلفشار کا شکار ہے، جو نہ صرف پارٹی کی اندرونی یکجہتی پر سوالات اٹھا رہا ہے بلکہ ملکی سیاست میں بھی غیریقینی کیفیت پیدا کر رہا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق پارٹی کے اندر نظریاتی اور تنظیمی سطح پر تقسیم واضح ہوتی جا رہی ہے، جو آنے والے دنوں میں پارٹی کی کارکردگی اور عوامی تاثر پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
بی جے پی اس وقت ایک قیادت کے بحران سے بھی دوچار ہے، کیونکہ موجودہ پارٹی صدر جے پی نڈا کی مدت صدارت اپنے اختتام کے قریب ہے۔ نڈا اس وقت صحت کی وزارت کا قلمدان بھی سنبھالے ہوئے ہیں، جس کے باعث وہ پارٹی کی تنظیمی امور پر پوری توجہ نہیں دے پا رہے۔ پارٹی میں قیادت کی تبدیلی کے معاملے پر جاری مشاورت نے اندرونی اختلافات کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔
پارٹی کے مختلف گروہ اپنے اپنے مفادات اور نظریاتی وابستگیوں کے ساتھ سرگرم ہیں، اور بی جے پی کے اندرونی حلقوں میں بڑھتی ہوئی یہ تقسیم نظریاتی بنیادوں پر بھی دکھائی دے رہی ہے۔ ہندوتوا نظریے کے شدت پسند حامی سخت گیر قیادت کے متمنی ہیں، جو پارٹی کی پالیسیوں میں زیادہ جارحانہ انداز اپنانے کے خواہاں ہیں، جبکہ کچھ حلقے نسبتاً معتدل اور ہم آہنگی پر مبنی قیادت کی تلاش میں ہیں۔
اگرچہ قیادت کی تبدیلی سے متعلق حتمی فیصلہ تاحال سامنے نہیں آیا، لیکن بھارتی میڈیا کے مطابق بی جے پی جنوبی بھارت سے کسی مضبوط چہرے کو سامنے لانے پر غور کر رہی ہے تاکہ وہاں کے ووٹ بینک کو مزید مستحکم کیا جا سکے۔ اس تناظر میں مرکزی وزیر جی کشن ریڈی اور بی جے پی مہیلا مورچہ کی صدر و ناتھی سری نواسن کو ممکنہ امیدواروں کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اسی دوران پارٹی کے اندرونی حلقوں میں سنیل بنسل، ونود تاوڑے اور دشینت گوتم جیسے کئی دیگر نام بھی زیر غور ہیں، جنہیں تنظیمی تجربہ اور پارٹی کے مختلف طبقات میں اثر و رسوخ حاصل ہے۔ ان تمام امکانات کے درمیان بی جے پی کو اپنے اتحاد، نظریاتی ہم آہنگی اور عوامی تاثر کو برقرار رکھنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ قیادت کا بحران اور نظریاتی تقسیم بیک وقت کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہو سکتی ہے۔
Post Views: 3