نواز الدین صدیقی بالی ووڈ میں اداکاروں کیساتھ ہونے والے امتیازی سلوک پر بول پڑے
اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT
بالی ووڈ کے معروف اداکار نواز الدین صدیقی نے حال ہی میں فلم انڈسٹری میں جاری امتیازی رویے پر کھل کر بات کی ہے۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق نواز الدین صدیقی کا کہنا تھا کہ بالی ووڈ میں فنکاروں کو مختلف درجات میں تقسیم کیا جاتا ہے جیسے ہیرو، اسٹار اور سپر اسٹار، جب کہ باصلاحیت اداکاروں کو عموماً صرف چھوٹے کرداروں تک محدود رکھا جاتا ہے۔
نواز الدین صدیقی نے فلم انڈسٹری میں جاری امتیازی سلوک پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ آج عرفان خان (مرحوم)، منوج باجپائی، نصیر الدین شاہ اور اوم پوری جیسے باکمال اداکاروں کی تعریف تو کی جاتی ہے، مگر ان پر کبھی اعتماد نہیں کیا گیا۔
A post common by Nawazuddin Siddiqui (@nawazuddin.
انہوں نے سوال کیا کہ کیا کسی نے ان اداکاروں کے ساتھ 20 یا 30 کروڑ کی فلم بنائی؟ کیا یہ بالی ووڈ کا ناکام پہلو نہیں ہے؟ یہ صرف اسی فلم انڈسٹری بالی ووڈ میں ہوتا ہے۔
نواز الدین صدیقی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دیگر فلمی صنعتوں میں اداکاروں کو ان کی صلاحیتوں کی بنیاد پر منتخب کیا جاتا ہے، نہ کہ صرف ظاہری شکل و صورت کو دیکھ کر، جب کہ بالی ووڈ میں برعکس رجحان پایا جاتا ہے اور خوبصورتی کو مین کردار کیلئے منتخب کیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ نواز الدین صدیقی نے گینگز آف واسے پور، بدلا پور، کک، بجرنگی بھائی جان، رئیس، تلاش اور مشہور ویب سیریز ’سیکریڈ گیمز‘ سمیت کئی کامیاب پروجیکٹس میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھا چکے ہیں اور انہیں بھارت سمیت دیگر ممالک میں بھی شہرت حاصل ہے۔
TagsShowbiz News Urdu
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: نواز الدین صدیقی نے بالی ووڈ میں جاتا ہے
پڑھیں:
جبراً بے گھر ہونے والوں کی تعداد ’ناقابل یقین حد تک زیادہ‘، اقوام متحدہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 جون 2025ء) اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے یو این ایچ سی آر کی ایک رپورٹ کے مطابق جنگ، تشدد اور ظلم و ستم سے بے گھر ہونے والوں کی تعداد گزشتہ دہائی میں تقریباً دوگنی ہو گئی ہے۔ اپریل 2025 کے آخر تک دنیا بھر میں زبردستی بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد 122.1 ملین تھی۔ یہ اعداد و شمار پچھلے سال کے اسی وقت کے مقابلے میں 2.1 ملین زیادہ ہے۔
تارکین وطن کے لیے سن 2023 سب سے خطرناک سال رہا، اقوام متحدہ
ایجنسی نے جمعرات کو اس تعداد کو ’’ناقابل یقین حد تک زیادہ‘‘ قرار دیا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب امدادی رقوم میں بہت زیادہ کمی کی جا رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، وسائل کی قلت کے باعث نقل مکانی کرنے والوں کے لیے مسائل بڑھ گئے ہیں اور علاقائی امن کو پہلے سے زیادہ نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔
(جاری ہے)
پاکستان سے افغان مہاجرین کی ملک بدری کا عمل تیز
ادارے کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال ناقابل قبول ہے کیونکہ اس طرح پناہ گزینوں اور مسلح تنازعات، موسمیاتی تبدیلی اور معاشی بحرانوں سے تنگ آ کر نقل مکانی کرنے والوں کے لیے خطرات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
جبراﹰ نقل مکانی کی ایک اہم وجہ جنگیو این ایچ سی آر کی سالانہ عالمی رجحانات کی رپورٹ کے مطابق، 2024 کے آخر میں دنیا بھر میں ریکارڈ 123.2 ملین افراد کو زبردستی اپنے گھروں سے بے گھر کیا گیا۔
یعنی عالمی آبادی میں ہر 67 میں سے ایک شخص بے گھر ہو گیا۔ماحولیاتی بحران کے سبب مہاجرین کی حالت مزید ابتر، اقوام متحدہ
تاہم، اس تعداد میں سال کے پہلے تہائی حصے میں تقریباً ایک ملین کی کمی واقع ہوئی ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بہت سے شامی دسمبر میں آمر بشار اسد کی معزولی کے بعد اپنے جنگ زدہ ملک کے بہتر مستقبل کی امیدوں کے درمیان وطن واپس جا رہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نقل مکانی کے اصل محرک جیسے سوڈان، میانمار اور یوکرین میں بڑے تنازعات رہے ہیں۔
اندرون ملک بے گھر افراد میں تیزی سے اضافہرپورٹ مہں کہا گیا ہے کہ شام میں 13 سال سے زیادہ عرصہ تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے دوران 13.5 ملین لوگ اندرون ملک بے گھر ہوئے یا بیرون ملک پناہ لی۔ یہ دنیا میں نقل مکانی کا سب سے بڑا بحران تھا۔
لیکن اب سوڈان کے بحران نے اسے پیچھے چھوڑ دیا ہے جہاں دو سال سے جاری خانہ جنگی میں 14.3 ملین لوگوں نے نقل مکانی کی ہے جو کہ ملک کی مجموعی آبادی کا ایک تہائی ہے۔ ان میں 11.6 ملین لوگ اندرون ملک بے گھر ہیں۔
دنیا بھر میں گیارہ کروڑ افراد بے گھر ہیں، اقوام متحدہ
شام میں بھی 13.5 ملین جبری طور پر بے گھر ہوئے، اس کے بعد افغانستان میں 10.3 ملین اور یوکرین میں 8.8 ملین لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔
اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد 6.3 ملین سے بڑھ کر 2024 کے آخر تک 73.5 ملین تک پہنچ گئی، مطلب یہ ہے کہ اپنے گھروں سے بھاگنے پر مجبور ہونے والوں میں سے 60 فیصد کبھی اپنا ملک نہیں چھوڑتے۔
رپورٹ میں پتا چلا ہے کہ 67 فیصد پناہ گزین پڑوسی ممالک میں مقیم ہیں، جن میں سے تین چوتھائی مہاجرین کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں پناہ لے رہے ہیں۔
ایجنسی نے کہا کہ یہ بہت سے امیر ممالک میں وسیع پیمانے پر پائے جانے والے اس تاثر کے خلاف ہے کہ وہ پناہ گزینوں کی اہم منزلیں ہیں۔مہاجرین کی سب سے بڑی آبادی اس وقت ایران (3.5 ملین)، ترکی (2.9 ملین)، کولمبیا (2.8 ملین)، جرمنی (2.7 ملین) اور یوگنڈا (1.8 ملین) میں ہے۔
بہت سے لوگ اپنے گھر واپس بھی آ رہے ہیںاقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین فلیپو گرینڈی کا کہنا ہے، ’’دور حاضر میں بین الاقوامی تعلقات میں شدید کھنچاؤ پایا جاتا ہے اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے لڑی جانے والی جنگوں نے انسانی تکالیف میں بڑے پیمانے پر اضافہ کر دیا ہے۔
ہمیں امن کی تلاش اور پناہ گزینوں کے لیے دیرپا حل تلاش کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو دوگنا کرنا چاہیے۔‘‘اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہوئے کہ کئی ممالک ان کی ایجنسی کو اپنی فنڈنگ کم کر رہے ہیں، گرینڈی نے کہا کہ حال ہی میں کچھ مثبت رجحانات بھی سامنے آئے ہیں۔
گرینڈی نے مزید کہا، ’’تباہ کن کٹوتیوں کے درمیان بھی، ہم نے پچھلے چھ مہینوں میں امید کی کچھ کرنیں دیکھی ہیں۔
‘‘ تقریباً 20 لاکھ شامی ایک دہائی سے زائد کشیدگی کے بعد اپنے گھروں کو لوٹنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ملک بدستور نازک ہے، اور لوگوں کو اپنی زندگیوں کی دوبارہ تعمیر کے لیے ہماری مدد کی ضرورت ہے۔رواں سال شام سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں سمیت 188,800 افراد اپنے میزبان ممالک میں مستقل طور پر آباد ہوئے جو گزشتہ چار دہائیوں میں سب سے بڑی تعداد ہے۔
علاوہ ازیں گزشتہ سال 98 لاکھ پناہ گزین اپنے ممالک اور گھروں کو واپس آئے جن میں 16 لاکھ پناہ گزین اور اندرون ملک بے گھر ہونے والے 82 لاکھ لوگ بھی شامل تھے۔ ان کی بیشتر تعداد نے افغانستان اور شام میں واپسی اختیار کی۔
تاہم، واپس آنے والوں میں سے بہت سے ایسے ممالک میں واپس چلے گئے ہیں جو اب بھی سیاسی طور پر غیر مستحکم یا انتہائی غیر محفوظ ہیں، جیسے کہ افغان جنہیں 2024 میں وطن واپس جانے پر مجبور کیا گیا تھا۔
مسئلے کا پائیدار حلایک سال میں 82 لاکھ پناہ گزینوں کی اپنے علاقوں اور ممالک کو واپسی نیا ریکارڈ ہے تاہم ان میں بہت سے لوگ اپنی مرضی سے واپس نہیں آئے۔ مثال کے طور پر افغانستان اور ہیٹی سے تعلق رکھنے والے بہت سے پناہ گزینوں کو ان کے میزبان ممالک سے جبراً واپس بھیجا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پناہ گزینوں کی واپسی رضاکارانہ، باوقار اور محفوظ ہونی چاہیے۔
اس مقصد کے لیے قیام امن کی طویل مدتی کوششوں اور وسیع پیمانے پر پائیدار ترقی کی ضرورت ہے۔فلیپو گرینڈی نے کہا ہے کہ پناہ گزینوں اور نقل مکانی پر مجبور ہونے والے دیگر لوگوں کے مسائل کو طویل مدتی طور پر حل کرنے کی کوششوں میں قیام امن کو مرکزی اہمیت دی جانی چاہیے۔
امدادی وسائل کی قلتیو این ایچ سی آر نے کہا ہے کہ گزشتہ دہائی میں نقل مکانی پر مجبور ہونے والے لوگوں کی تعداد دو گنا بڑھ گئی ہے لیکن ادارے کو فراہم کیے جانے والے امدادی مالی وسائل میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔
یو این ایچ سی آر دنیا بھر میں پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باوجود، جاری بحران سے نمٹنے کے لیے درکار فنڈز جمع کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔
اگرچہ ایجنسی نے اس بات کی نشاندہی نہیں کی کہ کن عطیہ دہندگان نے فنڈنگ میں کمی کی ہے، لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ غیر ملکی انسانی امداد میں کٹوتیاں کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جس سے ادارے کی سرگرمیاں کافی متاثر ہوں گی۔
برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک بھی اپنے فوجی اخراجات میں اضافے کے مدنظر ایجنسی کے حق میں امداد پر کم خرچ کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ یو این ایچ سی آر کے پروگراموں کی فنڈنگ جاری رکھے، اور کہا کہ اس طرح کی امداد علاقائی اور عالمی سلامتی میں ایک ضروری سرمایہ کاری ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین