کراچی:

سندھ کے ساحلی شہروں میں انتہائی محدود پیمانے پرکپاس کی نئی فصل کی چنائی شروع ہونے سے روئی کے ایڈوانس سودوں کا بھی آغاز ہوگیا اور ملکی تاریخ میں پہلی بار پاکستان میں نیا کاٹن جیننگ سیزن مئی کے پہلے ہفتے میں شروع ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔ 

چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے ایکسپریس کو بتایاکہ پاکستان میں کپاس کی نئی فصل سے پہلے مرحلے میں تیار ہونیوالی روئی کے ایڈوانس سودے شروع ہوگئے ہیں۔ 

مزید پڑھیں: روئی کی امپورٹ سے کپاس کی کاشت میں غیر معمولی کمی کا خدشہ

ابتدائی طور پر10 تا 15مئی ڈلیوری کی بنیاد پر پنجاب کے شہروں بورے والا اور منڈی جہانیاں کی 2 جننگ فیکٹریوں نے روئی کی 600 گانٹھوں کے ایڈاونس فروخت کے سودے17ہزار روپے سے 17 ہزار 300 روپے فی من کے حساب سے ہوئے ہیں۔

جبکہ ان فیکٹریوں نے کپاس سندھ کے ساحلی علاقوں سے 8 ہزار 300 روپے سے 8 ہزار 500 روپے فی 40 کلو گرام کے حساب سے خریدی ہیں، انھوں نے بتایا کہ سندھ کے بعض ساحلی علاقوں میں انتہائی کم مقدار میں کپاس کی چنائی کا آغاز ہوا ہے جنھیں پنجاب کے کاٹن جنرز خرید رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کپاس کی

پڑھیں:

الیکٹرک بائیکس اور رکشوں پر 50 ہزار روپے کی سبسڈی، کیا عام صارف کو بھی فائدہ ہوگا؟

وفاقی حکومت 14 اگست کو ملک کی نئی 5 سالہ الیکٹرک وہیکل (EV) پالیسی متعارف کرانے جا رہی ہے، جس کا مقصد الیکٹرک بائیکس اور رکشوں کو فروغ دینا ہے۔

 واضح رہے کہ اس پالیسی کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کی معاونت حاصل ہے، جس نے موجودہ مالی سال کے دوران توانائی کی بچت پر مبنی ٹرانسپورٹ سسٹم کے فروغ کے لیے 9 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ یہ رقم حکومت کے 100 ارب روپے کے سبسڈی پیکیج کا حصہ ہے، جس کے تحت اگلے 2 سال میں 116,000 الیکٹرک بائیکس تقسیم کیے جائیں گے۔

اس پالیسی کے تحت ہر الیکٹرک بائیک اور رکشے پر تقریباً 50 ہزار روپے کی سبسڈی دی جائے گی تاکہ ماحولیاتی آلودگی میں کمی لائی جا سکے اور توانائی کے مؤثر استعمال کو فروغ دیا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیے ہونڈا نے سی جی 150 اور الیکٹرک بائیک لانچ کردی، قیمتیں بھی حیران کن

تاہم ماہرین اس پالیسی کی کامیابی کو صرف سبسڈی تک محدود نہیں سمجھتے بلکہ اس کی اصل افادیت مقامی سطح پر پیداوار، پرزہ جات کی لوکلائزیشن اور انفراسٹرکچر کی دستیابی سے جوڑتے ہیں۔

 آل پاکستان موٹر کار ڈیلرز ایسوسی ایشن کے نمائندے ایچ ایم اکبر شہزاد کے مطابق حکومت کو چاہیے کہ وہ مقامی وینڈرز اور اسمبلرز کو اس عمل کا حصہ بنائے تاکہ آنے والے وقت میں یہ گاڑیاں عام شہریوں کی پہنچ میں آ سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت سنجیدگی سے چارجنگ اسٹیشنز کا جال بچھائے اور مقامی مینوفیکچرنگ کو فروغ دے تو الیکٹرک ٹرانسپورٹ نہ صرف سستی ہو سکتی ہے بلکہ اس سے پیٹرول پر انحصار کم ہو کر ملکی درآمدی بوجھ میں بھی واضح کمی آ سکتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس پالیسی کے ذریعے غریب طبقہ بہتر اور ماحول دوست سواری سے مستفید ہو سکتا ہے، لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ رکشے اور موٹر بائیکس کی قیمتیں کن حدود میں رہتی ہیں اور سبسڈی کتنے افراد تک پہنچتی ہے۔

دوسری جانب آٹو انڈسٹری سے وابستہ ماہر شوکت قریشی اس پالیسی کو ایک اور سرکاری ’اعلان برائے اعلان‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی 3 پانچ سالہ پالیسیاں آ چکی ہیں جو مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئیں۔ خدشہ ہے کہ یہ نئی اسکیم بھی محض کاغذوں تک محدود رہے گی۔

ان کے مطابق جب تک حکومت پالیسی کو زمینی حقائق سے جوڑ کر نافذ نہیں کرتی، ایسے اعلانات محض دکھاوے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتے۔

پالیسی کی حتمی تفصیلات اور اس کا نفاذ ہی طے کرے گا کہ آیا یہ اقدام واقعی ماحولیاتی بہتری، توانائی کی بچت اور عوامی ریلیف کا مؤثر ذریعہ بنے گا یا صرف ایک اور سرکاری دعویٰ ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے پاکستان میں الیکٹرک وہیکلز کا کیا فیوچر ہے؟

آٹو ایکسپرٹ فاروق پٹیل کا کہنا تھا کہ ملک میں 13 سے زائد چائنیز کمپنیاں ہیں جو الیکٹرک بائیکس بنا رہی ہیں۔ مگر ان کی سیل 50 ہزار سے زائد کی نہیں ہے۔ کیونکہ الیکٹرک بائیکس نہ صرف مہنگے ہیں بلکہ ان کی مینٹیننس بھی بہت مشکل اور دوسرے بائیک کی نسبت مہنگی ہے۔ جس کی وجہ سے صرف شوقین افراد ہی اس کی خریداری کرتے ہے۔

ان کا کہنا تھا اگرچہ حکومت سبسڈی دے رہی ہے تاہم اس کے باوجود الیکٹرک بائیکس مہنگے ہیں۔ سبسڈی کے باوجود عام صارفین کے لیے بائیک لینا مشکل ہوگا جن کے لیے یہ سکیم بنائی گئی ہے۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ راستے میں کہیں چارجنگ ختم ہو جائے تو چارجنگ اسٹیشنز بھی موجود نہیں ہیں۔اس اعتبار سے یہ غریب عوام کے لیے زیادہ مہنگا سودا ہوگا۔ اس لیے حکومت کو پہلے انفراسٹرکچر پر دیہان دینا چاہیے، پھر اس طرح کی سبسڈی دینی چاہیے تاکہ غریب سبسڈی کے چکر میں ذلیل نہ ہو جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

الیکٹرک بائیکس الیکٹرک رکشا الیکٹرک وہیکل پالیسی شہباز شریف

متعلقہ مضامین

  • راولپنڈی :کرپشن کیس کے ملزم کو 29 سال قید کی سزا
  • اسکولوں میں گرمیوں کی چھٹیاں ختم
  • کرپشن کے ملزم کو 29 سال قید بامشقت اور 20 لاکھ جرمانے کی سزا
  • سندھ اور بلوچستان کے اسکولوں میں گرمیوں کی چھٹیاں ختم، تدریسی عمل شروع
  • ٹیوٹا نے ’کرولا کراس ‘کی قیمت میں 6 لاکھ روپے سے زائد کمی کر دی
  • سرپرست اعلی ایف پی سی سی آئی ایس ایم تنویر کی کاوش بغیر ڈیوٹی درآمدی کپاس،دھاگہ اور کپڑا پر 18فیصد ڈیوٹی عائد ترمیمی آرڈیننس جاری مقامی کپاس کے لئے لیول فیلڈ ہونے سے مقامی کپاس اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے ایک بڑی کامیابی
  • مزدوروں کی کم ازکم ماہانہ اجرت 40 ہزار روپے مقرر
  • سندھ میں مزدوروں کی کم از کم اجرت 40 ہزار مقرر، نوٹیفکیشن جاری
  • سندھ میں کم از کم ماہانہ اُجرت 40 ہزار روپے مقرر، نوٹیفکیشن جاری
  • الیکٹرک بائیکس اور رکشوں پر 50 ہزار روپے کی سبسڈی، کیا عام صارف کو بھی فائدہ ہوگا؟