WE News:
2025-06-17@07:33:27 GMT

ملک میں مہنگائی کی شرح مزید کم، اپریل میں 0.30 فیصد رہ گئی

اشاعت کی تاریخ: 2nd, May 2025 GMT

ملک میں مہنگائی کی شرح مزید کم، اپریل میں 0.30 فیصد رہ گئی

پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں مزید کمی آگئی ہے۔

ادارہ شماریات کے مطابق اپریل 2025 میں مہنگائی کی شرح  تاریخ کی کم ترین سطح 0.30 فیصد پر آگئی ہے، مارچ 25 میں مہنگائی کی شرح 0.70 فیصد تھی۔

یہ بھی پڑھیں: مہنگائی 38 فیصد سے ایک اعشاریہ 5 فیصد تک آگئی، پاکستان خوشحالی کی طرف گامزن ہے، وزیراعظم شہباز شریف

ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے 10 ماہ میں مہنگائی کی اوسط شرح 4.

73 تک گِرگئی جبکہ گزشتہ مالی سال کے پہلے 10 ماہ میں مہنگائی کی اوسط شرح 25.97 فیصد تھی، ایک سال میں مہنگائی کی اوسط  شرح 21.24 فیصد کی کمی ہوچکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مہنگائی کی شرح کم ہونے کے باوجود اس کا اثر عوام تک نہیں پہنچ رہا تو کوئی فائدہ نہیں، وزیر خزانہ

ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ حکومتی اقدامات اجناس کی قیمتوں میں کمی اور مہنگائی کی رفتار میں کمی کی وجہ بنے، مہنگائی کی شرح کم ہونے سے شرح سود میں ریلیف ملنے کی امید بڑھ گئی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news ادارہ شماریات پاکستان مالی سال مہنگائی

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ادارہ شماریات پاکستان مالی سال مہنگائی میں مہنگائی کی شرح

پڑھیں:

چند کروڑ بچانے کی خاطر 5 ادبی و علمی اداروں کے خاتمے کا منصوبہ

وفاقی حکومت اخراجات میں کمی اور انتظامی سادگی کے نام پر مختلف وفاقی اداروں کو ختم یا ضم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ رائٹ سائزنگ کے عنوان سے جاری اس مہم کا دائرہ اب ان اداروں تک جا پہنچا ہے جو علمی، ادبی اور فکری سرمائے کے امین ہیں۔

ذرائع کے مطابق، وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ کمیٹی نے حکومت سے سفارش کی ہے کہ اکادمی ادبیات پاکستان، اردو سائنس بورڈ، اردو لغت بورڈ اور اقبال اکادمی کو ادارہ فروغ قومی زبان میں ضم کر دیا جائے اور ادارہ فروغ قومی زبان کو کسی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے ماتحت کر دیا جائے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو انہیں ختم کردیا جائے۔

یہ تجویز نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ پاکستان کی تہذیبی، ادبی اور فکری بنیادوں پر ایک کاری ضرب ہے۔ ان اداروں کو قائم ہوئے کئی دہائیاں گزر چکی ہیں اور ہر ادارہ اپنے دائرۂ کار میں پاکستان کا واحد اور نمائندہ ادارہ ہے۔ ان کے انضمام یا خاتمے سے وہ تمام فکری، ادبی، اور ثقافتی بنیادیں متزلزل ہو جائیں گی جن پر پاکستان کی زبانوں، نظریات، اور علمی شناخت کی عمارت کھڑی ہے۔

ان اداروں میں ہر ایک اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے، جو دہائیوں سے پاکستانی زبانوں، ادب، تحقیق اور قومی تشخص کے فروغ کے لیے کام کر رہا ہے۔ ان کے وجود کا مطلب صرف چند عمارتیں یا سرکاری تنخواہوں کا بوجھ نہیں، بلکہ یہ پاکستان کی فکری شناخت کے ستون ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے، جو نواز شریف کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں ہیں، رواں ماہ 13 جون 2025 کو سینیٹ اجلاس میں ببانگ دہل ان تجاویز کی سخت مخالفت کی۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ہم دنیا کو اپنا سافٹ امیج دکھانے کے بجائے بطور دہشتگرد متعارف کروانا چاہتے ہیں؟

ان کا یہ سوال دراصل حکومتی ترجیحات پر واضح سوالیہ نشان ہے۔ عرفان صدیقی خود چوں کہ شاعر ادیب ہیں اور ان اداروں کی نگران وزارت کے، مشیر رہ چکے ہیں اس لیے انہیں، ان اداروں کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہے۔ یہاں ان کی تقریر کا وہ حصہ ہو بہو نقل کیا جا رہا ہے۔

’’میرے علم میں آیا ہے کہ ہمارے جو علمی ادبی ثقافتی ادارے ہیں جن سے ہمارا گہرا تعلق ہے، یہ بیشتر ادارے ذوالفقار علی بھٹو شہید کے دور میں قائم ہوئے۔ جن میں اکادمی ادبیات پاکستان، ادارہ فروغ قومی زبان، اردو سائنس بورڈ، اقبال اکادمی اور اردو ڈکشنری بورڈ اور اس طرح کے دیگر ادارے ہیں، ان کو بند کیا جارہا ہے۔ ان کو مرج کرکے یونیورسٹیوں کے سپرد کر دیا جا رہا ہے وہ یونیورسٹیاں جو پہلے سے مفلوق الحالی کا شکار ہیں اور اپنے ملازمین کو تنخواہیں نہیں دے سکتیں، ان اداروں کے ساتھ یہ کام نہ کریں۔ ان اداروں کی اصلاح کرنی ہے، ان کو نیا مینڈیٹ دینا ہے، ان کا دائرہ کار تبدیل کرنا ہے، اصلاحات کرنی ہے تو اس پر کمیٹی بنائیں اور اصلاحات ضرور کریں لیکن ان غریب اداروں کو معصوم اداروں کو جو ہماری پہچان ہیں، ادبی علمی ادارے ہیں ثقافتی ادارے ہیں اور ان کا بیرونی ممالک کے ساتھ بڑا گہرا رابطہ رہتا ہے۔ ہماری پہچان بنتی ہے کیا ہماری پہچان ٹیررزم رہنی چاہیے؟ کیا ہماری پہچان وہ غربت اور مہنگائی رہنی چاہیے۔ یہ علمی ادبی ادارے ہماری شناخت اور پہچان ہیں، ان کا تحفظ ہماری حکومت کو کرنا چاہیے۔ ان کے مینڈیٹ میں کوئی تبدیلی کرنی ہے توبے شک کریں لیکن یہ ادارے قائم رہنے چاہئیں‘‘۔

مجھے 2017 کا وہ دن یاد آرہا ہے جب میں اکادمی کے دعوت پر اسلام آباد میں منعقدہ بین الاقوامی ادبی کانفرنس میں شریک ہوا تھا۔ اس کانفرنس کا افتتاح اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کیا تھا۔انہوں نے ملک بھر سے آئے ہوئے اہل قلم سے کہا تھا۔’پاکستان کو امن و سکون کا گہوارہ بنانے کے لیے ضرب عضب کے ساتھ ساتھ ضرب قلم کی بھی ضرور ت ہے‘۔

انہوں نے شاعروں اور ادبیوں کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کئی بڑے اقدامات اٹھائے تھے، جن میں 50 کروڑ روپے کے انڈومنٹ فنڈ کا بھی اعلان کیا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس وقت کی وزارت نے یہ کہہ کر فنڈ اپنے ماتحت کرلیا تھا کہ اس پر دوسرے اداروں کا بھی حق ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس فنڈ کا کیا بنا؟

ان میں سے بیشتر ادارے پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے ذہن رسا کی پیداوار ہیں اور اکادمی ادبیات پاکستان کے صدر دفتر اسلام آباد میں انہی کے نام کی تختی لگی ہوئی ہے لیکن حیرانی اس بات کی ہے کہ پیپلز پارٹی جو موجودہ حکومت کی سب سے اہم اتحادی ہے اور حکومت اسی کے سہارے کھڑی ہے، اس اقدام پر خاموش ہے۔ ابھی تک پیپلز پارٹی کے کسی بھی عہدیدار کی طرف سے اس تجویز کی مخالفت سامنے نہیں آئی۔

حکومت ایک طرف اخراجات میں کمی اور انتظامی سادگی کے بہانے ادبی و علمی اداروں کو ضم یا ختم کرنے پہ تلی ہے، دوسری جانب اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں 500 فیصد سے زائد حیران کن اور ہوشربا اضافہ کردیا گیا ہے۔ امسال وفاقی وزرا اور اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں بھی کئی گنا اضافہ کیا جا چکا ہے۔ اس اضافے کا اطلاق ’کفایت شعاری‘ کے تناظر میں یکم جنوری 2025 سے ہوگا۔ ایسے تضادات دیکھ کر عام آدمی کی بے بسی اور مایوسی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ یہ حکومتی ’سادگی‘ کی محض ایک مثال ہے۔ ’سادگی‘ کی ایسی ایسی داستانیں زبان زدعام ہیں کہ ’اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا؟‘۔

واضح رہے کہ ان میں سے ہر ادارے کا بجٹ چند کروڑ روپے ہے اور سارے اداروں کا بجٹ ساٹھ ستر کروڑ روپے بھی نہیں بنتا اور یہ ادارے اتنے کم بجٹ میں وہ کام کر رہے ہیں، جو اربوں کا سالانہ بجٹ لینے والے بھی نہیں کر پاتے۔ مثلاً اکادمی ادبیات پاکستان نے کئی عالمی اداروں کے ساتھ باہمی یادداشتوں پر دستخط کر رکھے ہیں اور ان ممالک کے ادبی اداروں سے اکادمی مسلسل رابطے میں ہے۔ جن میں رائٹرز ایسوسی ایشن آف چائنا، دی نیشنل ایڈمنسٹریشن آف پریس اینڈ پبلی کیشن آف دی پیپل ریپبلک آف چائنا، یونین آف بلغارین رائٹرز ایسوسی ایشن، بلغاریہ، نیشنل اکیڈمی آف سائنسز بیلاروس، نیپال اکیڈمی، اومان ایسوی ایشن آف رائٹرز اینڈ لٹریچر اور استنبول یونیورسٹی آف ایسٹرن لینگوئیجز اینڈ لٹریچر، ترکیہ جیسے ادارے شامل ہیں۔

پاکستان، چائنا سائوتھ ایشیا لٹریچر فورم کا بھی رکن ہے اور اکادمی ادبیات پاکستان اس کی نمائندگی کرتی ہے۔ اکادمی ان ممالک کا ادب اردو میں شائع کرتی ہے اور پاکستان کے ادب کو ان ممالک کی زبان میں ترجمہ کرواتی ہے۔ چین کے ساتھ تو اکادمی 100 کتابوں کے تراجم پر بھی معاہدہ کرچکی ہے۔ ان اداروں کے انضمام یا اختتام کی صورت میں ان معاہدوں کا کیا بنے گا؟ یہ وہ سوال ہے جس کے بارے میں تجویز کنندگان نے سوچا ہی نہیں یا شاید وہ ان چیزوں سے لاعلم ہیں۔

حکومت اخراجات میں کمی اور انتظامی سادگی کے نام پر جن اداروں کو ختم یا ضم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ان کی علمی و ادبی خدمات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

اکادمی ادبیات پاکستان

اکادمی ادبیات پاکستان کا قیام 1976میں عمل میں لایا گیا۔ اہلِ قلم کی فلاح و بہبود اور پاکستانی زبانوں کی ترویج و اشاعت کے لیے ایک فعال قومی ادارہ ہے۔ یہ ادارہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قائم ہوا۔ اس کے ذیلی دفاتر کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ اور ملتان میں قائم ہیں۔

اکادمی نے 600 سے زائد کتابیں شائع کی ہیں، جن میں اردو اور پاکستانی زبانوں کے ادب کے تراجم، تحقیقی مضامین، یادداشتیں، سوانح، اور تخلیقی ادب شامل ہیں۔ یہ ادارہ ہر سال 20 ادبی ایوارڈز اور ایک ’کمال فن ایوارڈ‘ دیتا ہے جو کسی ادیب کی عمر بھر کی خدمات کا اعتراف ہوتا ہے۔ اس ادارے کے زیر اہتمام شائع ہونے والے ادبی جرائد، ادبیات، ادبیات اطفال اور پاکستانی لٹریچر(انگریزی) سب سے اہم ادبی جرائد سمجھے جاتے ہیں۔

اکادمی ہر ماہ ایک ہزار سے زائد مستحق اہل قلم کو وظیفے دیتی ہے اور دیگر ادبی اداروں کو مالی معاونت فراہم کرتی ہے، اور ملک بھر میں ادبی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے آئے روز کانفرنسیں، مشاعرے، اور سیمینار منعقد کرتی ہے۔ اس ادارے نے پاکستان کے سوفٹ امیج کو دنیا بھر میں ابھارا۔

ادارۂ فروغِ قومی زبان

اردو کو بطور دفتری زبان رائج کرنے کے لیے 1979 میں قائم یہ ادارہ آئین کے آرٹیکل 251 کے مطابق اردو کے فروغ اور نفاذ کی کوششوں میں پیش پیش ہے۔ ادارہ 700 سے زائد کتب شائع کرچکا ہے، جن میں دفتری اصطلاحات، سوانح عمریاں، تدریسی مواد اور تربیتی کتابیں شامل ہیں۔

ادارہ قومی انگریزی-اردو لغت کی ایپ بھی تیار کر چکا ہے، جس سے طلبہ، محققین اور عام افراد استفادہ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اردو خطاطی، سرکاری نوٹنگ ڈرافٹنگ، اور قانونی اصطلاحات جیسے شعبوں میں بھی ادارہ نمایاں خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس کے تربیتی کورسز اور ورکشاپس سرکاری ملازمین کے لیے اردو زبان میں کام کی استعداد بڑھانے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔

اس ادارے نے پاکستان کو دفتری زبان بنانے کے لیے تمام کام بہت پہلے مکمل کر دیا تھا لیکن بعض مقتدر حلقوں کی مخالفت کی وجہ سے اردو دفتری زبان نہیں بن پائی۔ادارے کا دعویٰ ہے کہ اگر آج بھی حکومت سنجیدہ ہو تو چند ماہ میں اردو بطور دفتری زبان نافذ ہو سکتی ہے۔

اردو سائنس بورڈ

اردو سائنس بورڈ 1962 میں قائم ہوا۔ ادارے نے سائنسی علوم کو اردو میں منتقل کرکے ایک انقلابی قدم اٹھایا۔ سائنسی اور سماجی موضوعات پر 700 سے زائد کتب کی اشاعت، سہ ماہی اردو سائنس میگزین، اردو سائنس انسائیکلوپیڈیا، اور سائنسی اصطلاحات کی تیاری اس کی نمایاں خدمات میں شامل ہیں۔

یہ ادارہ نہ صرف سائنسی مواد کو اردو میں منتقل کرتا ہے بلکہ اسے عام فہم انداز میں پیش کرتا ہے تاکہ عوام میں سائنسی شعور بیدار ہو۔ اسکولوں اور کالجوں میں اردو میڈیم سائنسی تعلیم کے لیے یہ ادارہ بنیادی ماخذ ہے۔ اس کے ادارہ جاتی تعاون نے قومی نصاب میں اردو سائنس کے مواد کو شامل کرنے کی راہ ہموار کی ہے۔

اقبال اکادمی پاکستان

ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے فکری ورثے کو محفوظ کرنے اور اس کی ترویج کے لیے صد سالہ تقریبات کے سال 1977 میں قائم اس ادارے نے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونِ ملک بھی فکری سطح پر اثرات مرتب کیے ہیں۔ اکادمی نے اقبال کی شاعری، خطبات، خطوط اور فلسفے پر مبنی درجنوں تحقیقی کتب شائع کی ہیں۔

ادارے نے عالمی سطح پر اقبال کانفرنسیں، سیمینارز اور ویب نارز منعقد کیے، مختلف یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں سے مفاہمتی یادداشتوں کے ذریعے تعاون حاصل کیا اور فکرِ اقبال کو نصاب کا حصہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ادارہ نئی نسل کو اقبال کے افکار سے روشناس کرانے کے لیے اسکول و کالج سطح کے لیکچرز اور پروگرامز بھی منعقد کرتا ہے۔

اردو لغت بورڈ

اردو لغت بورڈ کا قیام اردو زبان کی آکسفورڈ طرز پر لغت تیار کرنے کے لیے 1958 میں عمل میں آیا۔ اس ادارے نے 22 جلدوں پر مشتمل ’اردو لغت (تاریخی اصول پر)‘ شائع کی، جو قریباً 2 لاکھ 20 ہزار الفاظ پر مشتمل ہے۔ یہ اردو زبان کا سب سے وسیع لغوی خزانہ ہے۔

ادارے نے لغت کا ڈیجیٹل ورژن اور موبائل ایپ بھی متعارف کروائی ہے جس میں تلفظ کی سہولت بھی شامل ہے۔ یہ ایپ نہ صرف محققین بلکہ طلبہ، صحافیوں، ادیبوں، اور عام صارفین کے لیے ایک نعمت ہے۔

ان اداروں کا انتظامی انضمام نہ صرف عملی طور پر مشکل ہے بلکہ قانونی پیچیدگیوں کا بھی باعث بنے گا۔ کچھ ادارے خود مختار حیثیت رکھتے ہیں اور کچھ اٹیچڈ ڈیپارٹمنٹ ہیں۔ ان کے ملازمین کا سروس اسٹرکچر، مراعات اور پینشن اسکیمز بھی مختلف ہیں۔ اگر انضمام ہوا تو ممکنہ طور پر عدالتوں میں چیلنج ہوگا، جیسا کہ اردو سائنس بورڈ اور اردو لغت بورڈ کا سابقہ انضمام آج تک عدالتی تنازع کا شکار ہے۔

اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان میں اکادمی ادبیات ہر حوالے سے ایک بڑا ادارہ ہے، جس کا سربراہ گریڈ 22 کا افسر ہوتا ہے یعنی وفاقی سیکرییڑی کے برابر۔ اس کو ایک ایسے ادارے میں جس کا سٹیٹس اس سے چھوٹا ہے، کس قانون کے تحت ضم کی جا سکتا ہے؟ واضح رہے کہ ادارہ فروغ قومی زبان کا پرانا نام مقتدرہ قومی زبان تھا اور یہ ایک بڑا ادارہ تھا لیکن اس کا اسٹیٹس کم کرکے اسے ایک اٹیچ ڈیپارنمنٹ میں پہلے ہی تبدیل کیا جا چکا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ’اصلی مقتدرہ‘ نے سوچا ہوگا کہ یہ کون ہے جو ہمارا نام استعمال کر رہا ہے۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ تمام ادارے جن حکومتوں کے وژن کا حصہ تھے، آج انہی کی اتحادی حکومت ان اداروں کے وجود کے درپے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر قوموں کا وقار ان کے ادبی، لسانی، سائنسی، اور فکری اداروں سے ہوتا ہے تو کیا ہم اپنے وقار کو خود ہی مٹا رہے ہیں؟ کیا ہم بجٹ کی سادگی کے نام پر اپنے قومی ورثے سے دستبردار ہو رہے ہیں؟ یہ وقت ہے سنجیدہ قومی مکالمے کا، بصورت دیگر ہماری آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مشکور علی

ادارۂ فروغِ قومی زبان اردو سائنس بورڈ اردو لغت بورڈ اقبال اکادمی پاکستان اکادمی ادبیات پاکستان سینیٹر عرفان صدیقی شہباز شریف علمی و ادبی ادارے میاں محمد نواز شریف

متعلقہ مضامین

  • عالمی ادارہ صحت، پاکستان میں غذائی قلت کے شکار 80 ہزار بچوں کو علاج میں مدد دیگا
  • مانیٹری پالیسی کا اعلان، شرح سود 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ
  • پاکستان اور یو اے ای کے درمیان گورننس اور ادارہ جاتی ترقی میں تعاون کا نیا سنگِ میل
  • اسٹیٹ بینک کا شرح سود 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ
  • سٹیٹ بینک کا مانیٹری پالیسی کا اعلان ، شرح سود 11فیصد پر برقرار
  • اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا بڑا اعلان، شرحِ سود 11 فیصد پر برقرار
  • چند کروڑ بچانے کی خاطر 5 ادبی و علمی اداروں کے خاتمے کا منصوبہ
  • چین کی قومی معیشت کا سفر مئی میں مستحکم پیشرفت کے ساتھ جاری رہا ،قومی ادارہ برائے شماریات
  • صدرایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ کا شرح سود میں 4فیصد کرنے کمی کا مطالبہ
  • پاکستان: یو این ادارہ غذائی قلت کا شکار 80,000 بچوں کو علاج میں مدد دے گا