امریکا کا بھارت کے ساتھ13کروڑ ڈالر کا دفاعی معاہدہ
اشاعت کی تاریخ: 2nd, May 2025 GMT
بھارت کی بحری نگرانی کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا، سمندری ویژن سافٹ ویئر ، تربیت شامل
معاہدہ جنوبی ایشیا میں استحکام میں مدد دے گا،خطے میں فوجی توازن متاثر نہیں ہوگا، امریکی حکام
امریکا نے بھارت کے ساتھ 13 کروڑ ڈالر کا دفاعی معاہدہ منظور کرلیا، معاہدے میں سمندری ویژن سافٹ ویئر اور تربیت شامل ہے ۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی حکام کا موقف ہے کہ معاہدے سے خطے میں فوجی توازن متاثر نہیں ہوگا، معاہدہ جنوبی ایشیا میں استحکام لانے میں مدد دے گا۔دفاعی مبصر کا کہناتھا کہ معاہدے سے بھارت کی بحری نگرانی کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
امریکا، پاکستان تجارتی معاہدہ
پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارتی معاہدے طے پا گیا ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اعلان کیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تیل کے وسیع ذخائر نکالنے کا منصوبہ اس معاہدے کا حصہ ہے۔ معاہدے کے اہم نکات میں پاکستانی مصنوعات پر امریکی درآمدی محصولات (ٹیرف) میں خاطر خواہ کمی، توانائی، معدنیات، انفارمیشن ٹیکنالوجی،کرپٹو کرنسی اور دیگر ابھرتے ہوئے شعبوں میں تعاون شامل ہے۔
امریکا اور پاکستان کے درمیان حالیہ تجارتی معاہدہ دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک نئے موڑکی نشاندہی کرتا ہے۔ برسوں پر محیط اتار چڑھاؤ، باہمی شکوک و شبہات اور سفارتی سرد مہری کے باوجود یہ معاہدہ ایک امید افزا آغاز ہے جو نہ صرف دونوں ممالک کے لیے اقتصادی فوائد لا سکتا ہے بلکہ خطے میں توانائی، سرمایہ کاری اور استحکام کے نئے دروازے بھی کھول سکتا ہے۔
پاکستان کے لیے یہ معاہدہ اس لحاظ سے انتہائی اہم ہے کہ یہ ایسے وقت پر طے پایا ہے جب ملک شدید مالی بحران سے گزر رہا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر دباؤ میں ہیں، درآمدی بل بلند ترین سطح پر ہے اور توانائی کی قلت نے صنعتی پیداوار اور روزمرہ زندگی کو متاثر کر رکھا ہے۔ معاہدے کے تحت امریکا پاکستان کی برآمدات پر محصولات (ٹیرف) میں کمی کرے گا، جس سے پاکستانی مصنوعات کو امریکی منڈی میں زیادہ مسابقت حاصل ہوگی۔ اس کے علاوہ امریکی کمپنیاں پاکستان میں توانائی، معدنیات، ٹیکنالوجی اور دیگر اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کریں گی، جس سے ملک کی معیشت کو براہِ راست فروغ حاصل ہو گا۔
اس معاہدے کو جنوبی ایشیا میں امریکا اور پاکستان کے تعلقات کوگہرائی فراہم کرنے والا اور چین اور بھارت جیسے خطے کے دیگر بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ توازن قائم کرنے والا قدم سمجھا جا رہا ہے۔ اس تجارتی معاہدے سے امریکا اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں گہرا تعاون سامنے آرہا ہے، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں۔ اس معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کی معیشتوں کو مستحکم کرنا اور علاقائی استحکام میں مدد فراہم کرنا ہے، جس میں ٹیرف کی کمی بھی شامل ہے۔
ایک امریکی کمپنی کے انتخاب کا عمل نہایت اہم ہوگا، جس کے بارے میں ٹرمپ نے شفاف طریقہ کار کی یقین دہانی کروائی ہے، البتہ کسی حتمی ٹائم لائن کا اعلان نہیں کیا گیا۔ پاکستانی تیل کی بھارت کو ممکنہ فروخت، جو دنیا کا تیسرا سب سے بڑا تیل درآمد کنندہ ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے مشرق وسطیٰ اور روس کے ساتھ توانائی تعلقات کو ترجیح دی ہے، لہٰذا ٹرمپ کا بیان ممکنہ طور پر تجارتی کشیدگی کم کرنے کی ایک کوشش کہی جا سکتی ہے۔
پاکستان اور امریکا کے درمیان حالیہ طے پانے والا تجارتی اور توانائی کا معاہدہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دنیا بھر میں توانائی کے وسائل پر مقابلہ شدید ہو چکا ہے اور جنوبی ایشیا میں اقتصادی اور سیاسی صف بندیاں ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہیں۔ یہ معاہدہ اگرچہ رسمی سطح پر صرف ایک تجارتی معاہدے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، لیکن اس کی نوعیت، اثرات اور ممکنہ امکانات اس سے کہیں زیادہ گہرے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کی جانے والی سوشل میڈیا پوسٹ جس میں پاکستان کے ’’ وسیع تیل ذخائر‘‘ کو ترقی دینے کی بات کی گئی، اس معاہدے کی اہمیت کو عالمی سطح پر اجاگر کر گئی ہے۔
ٹرمپ کے الفاظ میں نہ صرف توانائی کے وسائل کی ترقی کا ذکر تھا بلکہ اس خیال کا اظہار بھی شامل تھا کہ ایک دن یہ تیل بھارت جیسے ملک کو برآمد بھی کیا جا سکتا ہے، جو اس معاہدے کو محض تجارتی تعاون کے بجائے خطے کی توانائی سیاست میں ایک نیا موڑ بناتا ہے۔یہ معاہدہ صرف درآمدات و برآمدات کا معاملہ نہیں بلکہ پاکستان کی توانائی کی خود کفالت کے خواب کی جانب ایک عملی قدم بھی ہے۔
اگر صدر ٹرمپ کے دعوے درست ثابت ہوتے ہیں، اور واقعی پاکستان کے زیرِ زمین تیل کے ذخائر ’’ وسیع‘‘ اور ’’تجارتی‘‘ سطح پر قابلِ استخراج ہوتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان اپنی موجودہ توانائی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اضافی پیداوار کو برآمد بھی کر سکتا ہے، جو زرمبادلہ کے حصول اور مالیاتی استحکام کے لیے نہایت مفید ثابت ہوگا۔
ماہرین البتہ اس معاہدے کے کچھ پہلوؤں پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعی پاکستان کے پاس ایسے تیل کے ذخائر موجود ہیں جو عالمی معیار پرmassive reservesکہلا سکتے ہیں؟ پاکستان کے موجودہ تصدیق شدہ تیل کے ذخائر تقریباً 353 ملین بیرل ہیں، جو عالمی ذخائر کے مقابلے میں نہایت معمولی ہیں۔ ان ذخائر کے ساتھ اگر پاکستان اپنی موجودہ پیداوار کی رفتار سے کام کرے تو یہ ذخائر چند ہی برس میں ختم ہو سکتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے بیان کی روشنی میں یہ گمان کیا جا رہا ہے کہ یا تو حکومت پاکستان نے نئے تیل ذخائر کی تلاش میں اہم پیش رفت کی ہے یا پھر اس اعلان میں سیاسی مفادات کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔دوسری جانب پاکستان میں توانائی کے ذخائر سے متعلق حالیہ سیسمک سروے اور جیو فزیکل اسٹڈیز نے کچھ نئے امکانات کی نشاندہی ضرورکی ہے، خاص طور پر سندھ، بلوچستان اور زیرِ سمندر انڈس بیسن میں۔ تاہم ان ذخائر کو تجارتی قرار دینے کے لیے ابھی مزید تحقیق، ڈرلنگ اور مالیاتی تجزیے کی ضرورت ہے۔ اس وقت یہ ذخائر محض متوقع یا تخمینی حیثیت رکھتے ہیں، لہٰذا ٹرمپ کا بیان ایک امید ضرور پیدا کرتا ہے، مگر اس کی بنیاد سائنسی اور تکنیکی تصدیق پر ابھی قائم نہیں ہوئی۔
پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ اس معاہدے کی تمام تفصیلات کو شفاف انداز میں عوام کے سامنے لائے، تاکہ کسی بھی قسم کے ابہام یا سیاسی استعمال سے گریز کیا جا سکے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی میں پاکستان میں کئی توانائی اور معدنی منصوبے صرف اس وجہ سے ناکامی کا شکار ہوئے کہ ان میں شفافیت کا فقدان تھا یا وہ قومی مفاد کے بجائے مخصوص طبقوں کے مفاد کے تحت ڈیزائن کیے گئے۔ یہ وقت ہے کہ پاکستان اپنی پالیسی سازی میں شفافیت، احتساب اور دور اندیشی کو اولیت دے۔پاکستان کو اس موقع کو ایک نیا آغاز سمجھنا چاہیے۔ یہ معاہدہ محض ایک تیل منصوبہ نہیں، بلکہ اس کی بنیاد پر پاکستان اپنی طویل مدتی اقتصادی حکمت عملی مرتب کر سکتا ہے۔
اس کے لیے لازم ہے کہ داخلی سیاسی استحکام، ادارہ جاتی شفافیت اور عوامی اعتماد کو مرکز بنایا جائے۔ معاہدے میں مقامی صنعتوں، محنت کش طبقے اور ماحولیاتی تحفظ جیسے نکات کو بھی شامل کیا جائے، تاکہ ترقی صرف اعداد و شمار تک محدود نہ رہے بلکہ عوامی فلاح میں عملی طور پر ظاہر ہو۔اس بات کا خیال رکھنا بھی ناگزیر ہے کہ قدرتی وسائل پر بیرونی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ قومی خود مختاری کو بھی متوازن رکھا جائے۔
پاکستان کو اپنے قدرتی ذخائر کی ترقی میں نہ صرف شراکت دار بننا ہے بلکہ فیصلہ ساز بھی۔ امریکی کمپنیوں کی شمولیت اس وقت مفید ہو سکتی ہے جب وہ پاکستانی قوانین، ماحولیات، مزدور حقوق اور قومی مفاد کا احترام کریں، ورنہ یہ معاہدہ ایک اور معاشی انحصارکا دروازہ بن سکتا ہے۔امریکا اور پاکستان کے درمیان یہ معاہدہ صرف ایک اقتصادی معاہدہ نہیں بلکہ ایک اسٹریٹجک موڑ بھی ہے، اگر مناسب حکمت عملی، شفافیت، قومی دلچسپی اور ادارہ جاتی استحکام کے ساتھ اس پر عمل ہوا، تو یہ لامحالہ پاکستان کے لیے توانائی کی خود کفالت، توازن تجارت، اور خطے میں اہم مقام کا ذریعہ بن سکتا ہے۔پاکستان کے لیے یہ معاہدہ کئی حوالوں سے اہم ہے۔
اول، اسے ایسے وقت میں اقتصادی تعاون کی نئی راہیں میسر آئیں جب ملک کو مالی بحران، زرمبادلہ کی کمی اور توانائی کی قلت جیسے چیلنجز کا سامنا ہے، اگر یہ معاہدہ حقیقت میں تبدیل ہوتا ہے تو پاکستان کی معیشت کو نہ صرف فوری ریلیف ملے گا بلکہ طویل المدتی ترقی کی بنیاد بھی رکھی جا سکتی ہے۔ تیل کے ذخائر کی تلاش اور ترقی کے ساتھ روزگار کے نئے مواقعے پیدا ہوں گے، مقامی صنعت کو فروغ ملے گا اور درآمدی ایندھن پر انحصار کم ہو گا۔ بھارت کے ذکر اور ممکنہ تیل برآمد کی بات نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ اگر پاکستان، امریکا کی مدد سے، نہ صرف اپنے لیے توانائی میں خود کفیل بنتا ہے بلکہ خطے کے دیگر ممالک کو بھی توانائی فراہم کرنے کے قابل ہوتا ہے تو یہ جنوبی ایشیا کے لیے ایک گیم چینجر ہو سکتا ہے۔
تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اندرونی سیاسی استحکام، شفاف پالیسی سازی اور عالمی معیار کے انفرا اسٹرکچر کی تیاری کو اپنی ترجیح بنائے۔یہ معاہدہ پاکستان کے لیے ایک موقع ہے، لیکن یہ موقع صرف اس وقت حقیقت میں بدلے گا جب حکمت، شفافیت، قومی مفاد اور دوراندیشی کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر عملدرآمد کیا جائے۔ امریکا کی سرمایہ کاری کی دلچسپی ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان میں امکانات موجود ہیں، لیکن ان امکانات کو حقیقت بنانے کی ذمے داری پاکستان کے اپنے اداروں، قیادت اور عوام پر بھی عائد ہوتی ہے۔
یہ معاہدہ ایک مواقع سے بھرپور سفرکی شروعات ہے، ایک سفر جو صرف تب مکمل ہوگا جب پاکستان اپنے وسائل، پالیسیوں، حکومت اور حکمت عملی کو مستقبل کی بنیاد کے طور پر استعمال کرے۔ اس کا ثبوت صرف وقت دے گا، لیکن اگر آج یہ سفر ٹھیک سمت میں شروع ہوتا ہے تو پاکستان ایک مستحکم، توانائی میں خود کفیل اور معاشی طور پر مضبوط قوم کے طور پر آگے بڑھ سکتا ہے۔