اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پہلگام میں ہونیوالی دہشتگردی میں ہلاک ہونیوالے 26 لوگوں کی ہلاکت کے بعد اُٹھائے گئے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے اقدامات نے کئی خاندانوں کے افراد کے لیے ناقابل فراموش المیوں کو جنم دیا ہے۔

پہلگام میں ہونیوالی دہشتگردی میں ہلاک ہونیوالے 26 لوگوں کی ہلاکت نے جہاں ان کے خاندانوں اور گھرانوں کے افراد کیلئے ناقابل فراموش المیوں کو جنم دیا وہیں اس تناظر میں مودی حکومت کے بہت سے اقدامات نے بے گناہ اور معصوم لوگوں جن کا اس سارے معاملے سے کوئی تعلق نہیں ان کی زندگی کو بھی سماجی المیوں میں بدل دیا ہے ان میں مودی حکومت کی جانب سے بھارت میں مقیم پاکستانیوں کو واپس بھیجے جانے کے احکامات بھی شامل ہیں۔

نوبیاہتا جوڑے اور ماں کو بچوں سے دور کر دیا، 25 دن کی دلہن کی پہلے میکے پھر سسرال سے رخصتی کے جذباتی مناظر ، مینیل خان کی شادی کو بمشکل ایک ماہ ہی ہوا تھا، ماں باپ کے بعد ساس سسر اور شوہر کو آنسوئوں کے ساتھ الوداع کہا، یہاں تک کہ سارک ویزے کے تحت آنیوالوں کو بھی واپس جانے کے لیے یکم مئی تک کی ڈیڈ لائن دیدی گئی تھی یعنی بھارت اور جموں وکشمیر میں قیام پذیر پا کستانیوں کو ویزوں کی مدت موجود ہونے کے باوجود انہیں بیدخل کرنے کے لیے محض 8 دنوں کی مہلت دی گئی تھی۔

اپنے رشتے داروں عزیز واقارب اور دوست احباب سے ملنے کیلئے بھارت اور جموں میں مقیم پاکستانیوں نے جن مشکلات اور مصائب کے عالم میں ہنگامی طور پر نقل مکانی کی وہ بھی دکھی داستانوں سے کم نہیں رواں ہفتے بچوں کے علاج کے لیے بھارت جانیوالی کراچی کی ایک فیملی کو مایوسی کے عالم میں واپس آنا پڑا۔

ان بچوں کےوالدین کے مطابق کشیدگی کے حالات کے باعث ڈاکٹرز نے علاج کرنے سے معذرت کرلی تھی جبکہ ایک اور فیملی جو اپنے بچوں کے ہمراہ علاج کروانے بھارت گئی تھی ماں کے پاس چونکہ بھارتی پاسپورٹ تھا اس لیے انہیں تو بھارت میں قیام کی اجازت مل گئی لیکن بچوں کو واپس بھیج دیا گیا جنہوں نے واپس آکر بھارتی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ ہماری والدہ کو جلدی واپس بھیج دیں۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کے لیے

پڑھیں:

تعلیم اور صحت کے شعبے میں حکومتی اقدامات

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں تعلیم اور صحت وہ شعبے ہیں جن پر نہ صرف عوام کی فلاح کا دارومدار ہوتا ہے بلکہ قومی ترقی کا راستہ بھی انہی ستونوں سے ہو کر گزرتا ہے۔ ماضی میں بدقسمتی سے ان دونوں شعبوں کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کے وہ مستحق تھے، لیکن موجودہ حکومت نے ان شعبوں کی بہتری کے لئے جو اصلاحات متعارف کروائیں، وہ قابلِ تحسین ہیں۔ ان اصلاحات نے نہ صرف اداروں کی ساخت کو بہتر بنایا بلکہ عوام کو بھی براہِ راست سہولتیں پہنچانے کا آغاز کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ چیلنجز اب بھی موجود ہیں، لیکن جس سنجیدگی سے ان مسائل کی طرف پیش رفت ہو رہی ہے، وہ ایک امید کی کرن ہے۔تعلیم کے میدان میں حکومت نے متعدد مثبت اقدامات کیے ہیں۔ سب سے پہلے، تعلیمی بجٹ میں تاریخی اضافہ کیا گیا۔حکومت نے مالی سال 2024-25ء کے ترقیاتی بجٹ میں 140 فیصد تک اضافہ کر کے حکومت نے یہ واضح پیغام دیا کہ وہ تعلیم کو ترجیحی بنیاد پر اہمیت دے رہی ہے۔ وفاقی سطح پر تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے لیے 20 ارب25کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا، جس کا مقصد سکولوں کی بہتری، اساتذہ کی تربیت، نصاب کی ترقی اور ڈیجیٹل تعلیم کو فروغ دینا ہے۔حکومت نے پہلی مرتبہ طلبہ کے لیے اسکالرشپ اسکیم میں اضافہ کرتے ہوئے ماہانہ وظیفہ 30ہزار روپے سے بڑھا کر50 ہزار روپے کر دیا ہے تاکہ قابل طلبہ کو وسائل کی کمی تعلیم سے دور نہ کر سکے۔ اس کے علاوہ،تعلیمی بورڈ کے پوزیشن ہولڈرز کے لئے لاکھوں روپے کے انعامات اور تعلیمی اخراجات کی ادائیگی کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ صوبہ پنجاب میں اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو فعال بنایا گیا اورپہلی مرتبہ ڈویژن، ڈسٹرکٹ اور تحصیل سطح پر میرٹ پر افسران کی تعیناتی کا عمل مکمل کیا گیا۔
نئی بھرتیوں میں شفافیت اور قابلیت کو اولین حیثیت دی گئی تاکہ نظامِ تعلیم میں بہتری لائی جا سکے۔ اساتذہ کی تربیت ایک ایسا پہلو ہے جسے اکثر نظرانداز کیا گیا، لیکن موجودہ حکومت نے اس پر بھی بھرپور توجہ دی۔ ٹیچرز ٹریننگ انسٹیٹیوٹس کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا اور نصاب سازی، تعلیمی مواد، اور تدریسی تکنیکوں کو اپ ڈیٹ کیا گیا تاکہ طلبہ کو عالمی معیار کی تعلیم فراہم کی جا سکے۔ مزید یہ کہ، پنجاب میں ابتدائی جماعتوں میں مصنوعی ذہانت (AI) کی تعلیم متعارف کروانے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے، جس کا مقصد طلبہ کو ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ بنانا ہے۔سکولوں کی حالت زار بہتر بنانے کے لیے 5 ہزار نئے کلاس رومز کی تعمیر، سمارٹ بورڈز، لیبارٹریز، اور لائبریریوں کے قیام پر کام جاری ہے۔ حکومت نے جنوبی پنجاب کے پسماندہ اضلاع جن میں ڈیرہ غازی خان ، راجن پور اور مظفر گڑھ کے سکولوں میں4لاکھ سے زائد غذائیت کی کمی کا شکار بچوں کے لیے ’’دودھ اسکیم‘‘ شروع کی، جس کے تحت بچوں کو اسکولوں میں دودھ فراہم کیا جا رہا ہے تاکہ ان کی جسمانی اور ذہنی نشوونما بہتر ہو۔ڈیجیٹل تعلیم کے فروغ کے لیے سکولوں میں انٹرنیٹ، سمارت اسکرینز ، کروم بکس اور ٹیبلٹس فراہم کئے جا رہے ہیں تاکہ دور دراز علاقوں میں موجود طلبہ بھی آن لائن تعلیمی مواد تک رسائی حاصل کر سکیں۔ حکومت کا منصوبہ ہے کہ ملک بھر میں تعلیم کے لیے یکساں نصاب رائج کیا جائے تاکہ طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ ہو۔جہاں تک صحت کے شعبے کا تعلق ہے، موجودہ حکومت نے اس محاذ پر بھی کئی انقلابی اقدامات کئے ہیں۔ صحت کارڈ اسکیم ان میں سب سے نمایاں ہے، جس کے تحت غریب اور متوسط طبقے کے افراد کو نجی اور سرکاری ہسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔
لاکھوں افراد اس سہولت سے مستفید ہو چکے ہیں اور اس سے نہ صرف عوام کا اعتماد بحال ہوا ہے بلکہ صحت کے شعبے پر مالی دباؤ بھی کم ہوا ہے۔سرکاری ہسپتالوں کی حالت بہتر بنانے کے لئے حکومت نے متعدد منصوبے شروع کئے ہیں، جن میں جدید طبی مشینری کی فراہمی، عمارتوں کی مرمت اور طبی عملے کی تربیت شامل ہے۔ حکومت نے بنیادی صحت مراکز (BHU) اور دیہی صحت مراکز (RHC) کو بھی فعال بنانے کی جانب توجہ دی ہے تاکہ دیہاتی عوام کو ان کی دہلیز پر صحت کی سہولتیں دستیاب ہوں۔ایک اہم قدم جو حالیہ برسوں میں اٹھایا گیا وہ ویکسینیشن پروگرامز ہیں، جن کے ذریعے بچوں کو پولیو، خسرہ، کالی کھانسی اور دیگر بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے قومی سطح پر مہمات چلائی گئیں۔ کورونا کے دوران حکومت کی جانب سے شروع کیا گیا حفاظتی ٹیکہ جات کا نظام اس وقت بھی جاری ہے اور اس میں مسلسل بہتری لائی جا رہی ہے۔حکومت نے ماں اور بچے کی صحت کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل رکھا ہے۔ زچہ بچہ سینٹرز کی بہتری، حاملہ خواتین کے لیے مفت معائنے اور ادویات کی فراہمی جیسے اقدامات کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔
پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں درجنوں نئے ہسپتالوں کی تعمیر اور موجودہ ہسپتالوں میں بستروں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے۔ہیلتھ ورکرز کو جدید تربیت دی گئی ہے تاکہ وہ دیہی علاقوں میں بھی معیاری طبی خدمات فراہم کر سکیں۔ موبائل ہیلتھ یونٹس کے ذریعے ان علاقوں میں خدمات فراہم کی جا رہی ہیں جہاں مستقل ہسپتال موجود نہیں۔ اس کے علاوہ، ایمرجنسی میڈیکل سروسز جیسے ریسکیو 1122 کی توسیع کی گئی ہے تاکہ فوری طبی امداد یقینی بنائی جا سکے۔حکومت نے ایک اور بڑی پیش رفت میں دیہی علاقوں میں پانی کی صاف فراہمی کے لئے واٹر فلٹریشن پلانٹس کا آغاز کیا ہے، کیونکہ پانی کی آلودگی کئی بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔ ان اقدامات سے نہ صرف بیماریوں میں کمی آئی بلکہ عوامی صحت پر مجموعی اثر بھی بہتر ہوا۔یہ سب اقدامات اپنی جگہ، مگر یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا ہو گی کہ کئی چیلنجز بدستور موجود ہیں۔ دیہی علاقوں میں صحت و تعلیم کی سہولتوں کی کمی، عملے کی قلت اور مالی وسائل کی محدودیت وہ رکاوٹیں ہیں جنہیں دور کرنے کے لیے مزید سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، شفافیت، کرپشن کے خاتمے اور اداروں کی خودمختاری کو یقینی بنانا ہو گا تاکہ یہ اصلاحات مستقل بنیادوں پر جاری رہ سکیں۔عوام کی فلاح کے لئے حکومت کے یہ اقدامات اگر اسی تسلسل کے ساتھ جاری رہیں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان نہ صرف تعلیم اور صحت کے میدان میں خود کفیل ہو گا بلکہ ایک فلاحی ریاست کے خواب کو بھی شرمندہ ٔ تعبیر کیا جا سکے گا۔ ترقی کا سفر طویل ضرور ہے، مگر صحیح سمت میں کیا گیا ایک قدم کئی منزلیں آسان بنا دیتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • این آئی سی وی ڈی کی بھارت سے واپس آنیوالے 2 بچوں کیلئے دل کی مفت سرجری کی پیشکش
  • کس قانون کے تحت بچوں کو ماؤں سے الگ کیا جارہا ہے، بھارتی بارڈر پر خواتین کا احتجاج
  • بھارت سے بغیر علاج واپس آئے دو بچوں کا علاج اب این آئی سی وی ڈی میں ہوگا
  • بھارت سے واپس آنیوالے بچوں کا علاج پاکستان میں ممکن ہے، میڈیکل بورڈ
  • کامران ٹیسوری کا بھارت میں ادھورا علاج چھوڑ کر آنے والے معذور بچے کا علاج کروانے کا اعلان
  • تعلیم اور صحت کے شعبے میں حکومتی اقدامات
  • بھارت سے واپس آنیوالے مریض بچوں کے علاج کے انتظامات مکمل
  • وفاقی وزیر کی ہدایت پر بھارت سے واپس آنے والے 2 بہن بھائیوں کے سرکاری خرچ پر علاج کے انتظامات مکمل
  • مزدوروں کے حقوق کا تحفظ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے، قومی ترقی میں محنت کشوں کا کردار ناقابلِ فراموش ہے،سردار ایاز صادق