اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 مئی 2025ء) کشمیر لائن آف کنٹرول کے قریب ہی مکین پچاس سالہ بشیر ڈار کے لیے یہ گولہ باری نہ صرف خوف کا باعث ہے بلکہ فائرنگ کی آوازیں ماضی کی تلخ یادیں بھی تازہ کر رہی ہے۔

سن 2020 میں لائن آف کنٹرول پر جب جھڑپیں ہوئیں تو بشیر کی اہلیہ ماری گئی تھیں، ''مارٹر گولہ میری بیوی کے بالکل قریب آ کر گرا اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئی تھیں‘‘۔

بھارتی علاقے کے پہاڑی گاؤں بالکوٹ کے قریب رہنے والے بشیر کا گھر پاکستانی زیر انتظام کشمیر سے بمشکل ایک میل کے فاصلے پر ہے۔

بشیر نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''آج کل وہ لمحہ ( جب میری اہلیہ ماری گئی تھیں) بار بار میری آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے‘‘۔

(جاری ہے)

اپنی متوفی بیوی کی تصویر دکھاتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا، ''ہر رات میں اپنے چار بچوں کے ساتھ ایک ہی کمرے میں دبک کر بیٹھ جاتا ہوں اور بارڈر سے اٹھنے والی فائرنگ کی آوازیں سنتا رہتا ہوں۔

‘‘ مقامی لوگ تو ''جنگی حالات‘‘ میں ہی ہیں

سرکاری ملازم منصور احمد نے اپنے گاؤں میں بنے ایک بنکر کی صفائی کے لیے دو دن کی چھٹی لی۔ خوف کے مارے اڑتیس سالہ منصور نے اس بنکر کی تعمیر پر تقریباً دو لاکھ روپے خرچ کیے۔

انہوں نے بتایا، ''میں نے سن 2021 کے بعد پہلی بار اپنا بنکر صاف کیا اور ضروری سامان ذخیرہ کیا‘‘۔

واضح رہے کہ کشیدگی کے بعد سن 2021 میں بھارت اور پاکستان نے ایک بار پھر جنگ بندی کا معاہدہ کیا تھا۔

جو لوگ اپنی حفاطت کے لیے بنکرز نہیں بنا سکتے ہیں، وہ پہلے ہی محفوظ مقامات منتقل ہو چکے ہیں۔

ٹرک ڈرائیور محمد ابراہیم نے بتایا، ''میرے محلے کی چھ فیملیز پچھلے چند دنوں میں اپنے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات پر جا چکی ہیں۔

انہوں نے ہم سے کہا کہ ہم ان کے گھر اور مویشیوں کا خیال رکھیں۔‘‘

ایک نوجوان دیہاتی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا، ''یہاں صرف چھ بنکر ہیں اور ہر بنکر میں زیادہ سے زیادہ 15 لوگ ہی آ سکتے ہیں۔‘‘

کشمیر کے دونوں اطراف کے مقامی باسی خوف میں مبتلا ہیں اور مسلسل خبریں دیکھتے رہتے ہیں۔ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں واقع تیلاوری نامی گاؤں کی ایک نوجوان خاتون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، ''ہم ہر وقت اس خوف میں رہتے ہیں کہ ہم اس تنازعے کے متاثرین نہ بن جائیں۔

‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''ہم امن چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں اور بغیر خوف کے اپنی زندگی گزاریں۔‘‘

جنگ بندی کی خلاف ورزی کون کر رہا ہے؟

بھارت کی فوج نے اتوار کے روز بتایا کہ لائن آف کنٹرول کے مختلف مقامات پر بھارتی اور پاکستانی فوجیوں کے درمیان رات بھر فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ فوج کے مطابق یہ جھڑپیں 24 اپریل سے ہر رات جاری ہیں۔

فوج کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے ''ہلکے ہتھیاروں سے بلا اشتعال فائرنگ‘‘ کی گئی، جس کا بھارتی فوجیوں نے ''فوری اور مناسب جواب‘‘ دیا۔

پاکستان کی جانب سے اس کی فوری تصدیق نہیں ہو سکی تاہم اسلام آباد حکومت بھارت پر ''جنگ بندی کی خلاف ورزی‘‘ کا الزام عائد کرتی ہے۔

یاد رہے کہ مسلم اکثریتی کشمیر سن 1947 میں تقسیم ہند کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان تقسیم ہے اور دونوں ممالک اس متنازعہ علاقے کے مکمل دعوے دار ہیں۔

کشمیر کے کچھ حصوں پر چین بھی دعویٰ کرتا ہے۔

سن 1989 سے کشمیر میں بھارتی حکمرانی کے خلاف مسلح تحریک جاری ہے، جس میں اب تک دسیوں ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔

تازہ کشیدگی کی وجہ کیا ہے؟

بھارت اور پاکستان کے تعلقات اُس وقت مزید کشیدہ ہو گئے، جب بھارت نے پاکستان پر الزام لگایا کہ وہ بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہوئے حملے کا ذمہ دار ہے۔

حالیہ برسوں میں ہونے والے اس خونریز ترین حملے میں چھبیس افراد مارے گئے تھے، جن میں زیادہ تر ہندو تھے۔

اسلام آباد نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ اس حملے میں ملوث نہیں اور حقائق جاننے کے لیے بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے، جس میں وہ بھرپور تعاون کے لیے تیار ہے۔

بھارتی پولیس نے پہلگام حملے میں مبینہ طور پر ملوث تین افراد کے خاکے جاری کیے ہیں، جن میں سے دو پاکستانی اور ایک بھارتی ہے۔

بھارتی پولیس کے مطابق یہ افراد پاکستان میں قائم لشکر طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اقوام متحدہ لشکر طیبہ کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکی ہے۔

ادارت: امتیاز احمد

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اور پاکستان انہوں نے کے لیے

پڑھیں:

حکومت کشمیر پر دوٹوک موقف اختیار کرے،مرکز شوریٰ جماعت اسلامی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250616-01-16
لاہور (نمائندہ جسارت) جماعت اسلامی کی مرکزی شوری ٰ کے اجلاس میں کشمیر پر فوری مذاکرات شروع کرنے اور مذاکرات میں اصل فریق کشمیریوں کو شریک کرنے پر زور دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کو دوٹوک موقف اختیار کرنا ہوگا کہ کوئی بھی حل کشمیری عوام کی شمولیت اور مرضی کے بغیر قابل قبول نہیں۔ اصل فریق کی شرکت سے مذاکرات موثر اور حل طلب ہوں گے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو جنوبی ایشیا کا امن دو جوہری طاقتوں کی کشمکش کی وجہ سے برباد ہو جائے گا جس کے اثرات مدتوں قائم رہیں گے۔یہ قرارداد ڈاکٹر محمد مشتاق خان امیر جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر نے پیش کی ۔ شوریٰ نے قرار دیا کہ بھارت لاتوں کا بھوت ہے جو باتوں سے کبھی بھی نہیں مانے گا۔ حالیہ جنگ میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ بھارت طاقت کے نشے میں چور ہو کر مسئلہ کشمیر سے دنیا کی نظریں ہٹانا چاہتا تھا لیکن پاکستان کی طرف سے بروقت جواب نے اسے نہ صرف ہزیمت سے دوچار کیا بلکہ عالمی سطح پر اس کا گھنائونا کردار بری طرح بے نقاب ہوا ہے۔ پاکستان ایسے حالات میں کسی طرح کی کمزوری دکھانے کی بجائے کشمیریوں کے جائز حق کے لیے سفارتی اور عسکری سطح پر جدو جہد تیز کرے۔ یہ وہ موقع ہے جسے پانے کے لیے قو میں برسوں جدو جہد کرتی ہیں۔ پاکستان کو قدرت نے جو شاندار موقع دیا ہے اس کی وجہ سے اہل کشمیر کی توقعات بڑھ چکی ہیں۔ اس لیے کسی بھی سطح کے مذاکراتی عمل میں پہلا اور غیر متزلزل مطالبہ یہی ہو کہ بھارت 5 اگست 2019 سے پہلے والی آئینی حیثیت (آرٹیکل 370 اور 35 A.) بحال کرے، تا کہ مسئلہ کشمیر کی حیثیت ایک متنازعہ مسئلہ کے طور پر دنیا کے سامنے برقرار رہے۔ شوریٰ نے مطالبہ کیا کہ پاکستان کو اس بات پر زور دینا چاہیے کہ اگر عالمی امن، اصول اور انصاف کا احترام مطلوب ہے تو پھر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو رائے شماری کا حق دینا ہوگا، جس کی ضمانت سلامتی کونسل متعدد بار دے چکی ہے۔ بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے پاکستان اور بھارت نے وقتی طور پر سیز فائر کیا ہے لیکن بھارت ایک نا قابل اعتبار ملک ہے جس نے کبھی اپنے وعدوں کی پاس داری نہیں کی اس لیے پاکستان کسی بھی طرح کے مذاکراتی عمل میں جاتے وقت مطالبہ کرے کہ بھارت جموں کشمیر کو بنیادی مسئلہ سمجھتے ہوئے فوجی محاصرہ ختم کرے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرتے ہوئے انسانی حقوق کی تنظیموں اور آزاد میڈیا کو ریاست میں داخلے کی اجازت دے۔ برسوں سے عقوبت خانوں میں محصور کشمیری قیادت کو رہا کرے۔بھارت سندھ طاس معاہدے کی پابندی کرتے ہوئے دریاؤں پر ڈیم بنا کر پاکستان کے پانی کو محدود کرنے کی کوششیں بند کرے۔ مذاکرات میں اس معاہدے کی بین الاقوامی نگرانی اور ثالثی پر زور دیا جائے۔اجلاس امید رکھتا ہے کہ پاکستان جموں کشمیر کی آزادی کا یہ بہترین موقع ضائع نہیں ہونے دے گا۔

لاہور: امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن منصورہ میں مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس کی صدارت کررہے ہیں

 

متعلقہ مضامین

  • پاکستان نیوی کا انڈین شہری کی کھلے سمندر میں مدد کیلئے آپریشن
  • بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے طلبہ کو ایران میں بے یار و مددگار چھوڑ دیا
  • 10 ارب روپے کا آن لائن فراڈ، مقامی و غیر ملکی کمپنیاں ملوث نکلیں
  • بھارت مسئلہ کشمیر پر امریکی ثالثی قبول نہیں کرے گا
  • بھارت مسئلہ کشمیر پر امریکی ثالثی قبول نہیں کرے گا، مودی کا ٹرمپ کو پیغام 
  •  ٹرمپ کشمیر پر ثالثی کے لیے بھارت یا پاکستان پر دباؤ نہیں ڈال سکتے، امریکی محکمہ خارجہ
  • ٹرمپ کشمیر پر ثالثی کے لیے بھارت یا پاکستان پر دباؤ نہیں ڈال سکتے، امریکی محکمہ خارجہ
  • اسرائیلی فورسز کی خوراک کے متلاشی افراد پر گولہ باری، مزید 65 فلسطینی شہید
  • مسئلہ کشمیر صدر ٹرمپ کا امتحان
  • حکومت کشمیر پر دوٹوک موقف اختیار کرے،مرکز شوریٰ جماعت اسلامی