اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل فیصلے کیخلاف اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا،سپریم کورٹ کے 7رکنی آئینی بنچ نے فیصلہ محفوظ کرلیا،جسٹس امین الدین نے کہاکہ محفوظ شدہ فیصلہ اسی ہفتے سنایا جائے گا۔

نجی ٹی وی سما نیوز کے مطابق سپریم کورٹ آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل فیصلے کیخلاف اپیلوں  پر سماعت ہوئی،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بنچ نے سماعت  کی، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں ایک سابق وزیراعظم کو پھانسی ہوئی تھی،اس پارٹی نے بھی ردعمل میں وہ کچھ نہیں کیا جو 9مئی کو ہوا، جمہوریت بحالی تحریک میں ساری جماعتوں پر پابندی تھی،ایم آر ڈی کی تمام قیادت پابند سلاسل تھی،اصغر خان بھی 3ساڑھے 3سال تک نظر بند رہے،اس دوران بھی کسی نے 9مئی جیسا قدم نہیں اٹھایا، 9اگرمئی کو ری ایکشن میں بھی اگر یہ ہوا تو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی،ہمارا ملک ایک عام ملک نہیں ہے،جغرافیائی محل وقوع ہمیں خطرات میں رکھتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ یہ سوال تو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں کہ جرم نہیں ہوا، آپ اپیل پر آئیں، اپیل کی بات کریں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ سوال نہ ہو تب بھی اس پر بات ضروری ہے۔

جارحیت مسلط کی گئی تو دشمن کو کرارا جواب دینے کیلئے تیار ہیں: ڈی جی آئی ایس پی آر

اٹارنی جنرل نے کہاکہ 9مئی کو دوپہر تین بجے سے شام تک 39جگہوں پر حملہ کیاگیا، پنجاب 23،خیبرپختونخوا8، سندھ7اور بلوچستان میں ایک واقعہ ہوا، جی ایچ کیو لاہور، میانوالی ایئر بیس سمیت حساس دفاتر پر حملے ہوئے۔

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: سپریم کورٹ

پڑھیں:

سپریم کورٹ: پولیس تحویل میں میڈیا پر اعترافی بیان ناقابلِ قبول، ملزم بری

سپریم کورٹ آف پاکستان نے قرار دیا ہے کہ پولیس کی تحویل میں میڈیا کے ذریعے ریکارڈ کیا گیا کسی ملزم کا اعترافی بیان قانونی طور پر ناقابلِ قبول ہے، جب تک وہ بیان کسی مجسٹریٹ کی موجودگی میں نہ دیا گیا ہو۔ عدالت عظمیٰ نے کراچی میں ایک بچے کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے ملزم کو بری کردیا، جسے اس سے قبل ٹرائل کورٹ نے سزائے موت سنائی تھی، اور سندھ ہائیکورٹ نے واقعاتی شواہد اور ٹی وی انٹرویو کی بنیاد پر اس سزا کی توثیق کی تھی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اس فیصلے پر مشتمل 25 صفحات پر مبنی تحریری حکم نامہ جاری کیا، جس میں فوجداری انصاف کے نظام، میڈیا کی طاقت، اور بنیادی انسانی حقوق کے اہم نکات پر مفصل ریمارکس دیے گئے ہیں۔

عدالت نے قرار دیا کہ یہ معمولی بات نہیں کہ کسی رپورٹر کو ایک زیرِ حراست ملزم سے انٹرویو کی اجازت دی جائے، اس کا بیان ریکارڈ کیا جائے اور پھر اسے عوامی سطح پر نشر کر دیا جائے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ اس مقدمے میں متعلقہ تھانے کے انچارج اور تفتیشی افسر نے ایک صحافی کو اجازت دی کہ وہ جسمانی ریمانڈ کے دوران پولیس کی تحویل میں موجود ملزم کا انٹرویو کرے، جو قانون اور انصاف کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔

مزید پڑھیں: نجی ایئر لائن کے طیارے کو رن وے پر جھٹکے، صدر سپریم کورٹ بار کا تحقیقات کا مطالبہ

سپریم کورٹ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس انٹرویو کا ترمیم شدہ حصہ بعد ازاں ایک نجی ٹی وی چینل پر نشر کیا گیا، جو غیر قانونی اور غیر اخلاقی عمل ہے۔ عدالت نے نشاندہی کی کہ یہ پہلا کیس نہیں ہے جس میں کسی زیرِ حراست ملزم کے ساتھ اس نوعیت کا سلوک روا رکھا گیا ہو۔ یہ رجحان عام ہوتا جا رہا ہے اور بغیر کسی مؤثر روک ٹوک کے جاری ہے، جو نہ صرف ملزم کے حقوق بلکہ متاثرین کے مفادات کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ کسی جرم کی خبریں عمومی طور پر عوامی دلچسپی کا باعث بنتی ہیں، خاص طور پر جب معاملہ ہائی پروفائل ہو یا جرم کی نوعیت سنسنی خیز ہو۔ ایسی صورت میں میڈیا ٹرائل کا امکان بڑھ جاتا ہے، جس کے نتائج نہ صرف ملزم بلکہ متاثرہ فریقین کے لیے بھی ناقابلِ تلافی ہو سکتے ہیں۔

عدالت نے خبردار کیا کہ میڈیا کے پاس بیانیہ تخلیق کرنے کی ایک بے پناہ طاقت ہے جو سچ یا غلط ہو سکتی ہے، اور یہی صلاحیت ملزمان اور ان کے خاندانوں کی زندگیوں اور ساکھ کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ میڈیا، جان بوجھ کر یا غیر ارادی طور پر، کسی کو ہیرو یا ولن بنا سکتا ہے، اور ایسی طاقت ایسے معاشرے میں خطرناک ہو سکتی ہے جہاں ریاست اظہار رائے پر قدغن لگاتی ہو یا میڈیا کو کنٹرول کرتی ہو۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ بار کا پیٹرولیم مصنوعات اور چینی کی قیمتوں میں اضافہ پر اظہارِ تشویش

سپریم کورٹ نے کہا کہ میڈیا کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ ضابطہ اخلاق پر سختی سے عمل کرے، تاکہ ملزموں کے بنیادی حقوق اور مفاد عامہ کے درمیان توازن قائم رہے۔ فوجداری انصاف کا نظام اسی وقت مکمل ہوتا ہے جب ہر ملزم کو منصفانہ ٹرائل کا حق حاصل ہو، اور جب تک کسی عدالت سے جرم ثابت نہ ہو، اسے بے گناہ تصور کیا جائے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ زیر بحث مقدمے میں ٹی وی پر نشر ہونے والا ملزم کا اعترافی بیان نہ صرف قانونی تقاضے پورے نہیں کرتا بلکہ اس کی بنیاد پر دی جانے والی سزا ناقابلِ قبول ہے۔ بظاہر ایسا اقدام شاید اپنی کارکردگی دکھانے یا عوامی دباؤ سے نمٹنے کے لیے کیا گیا ہو، مگر یہ ہرگز عوامی مفاد میں شمار نہیں ہو سکتا۔

عدالت نے حکم دیا کہ فیصلے کی کاپی سیکریٹری وزارت داخلہ، وزارت اطلاعات و نشریات، چیئرمین پیمرا اور تمام صوبائی چیف سیکرٹریز کو ارسال کی جائے تاکہ فیصلے میں دی گئی ہدایات اور مشاہدات کی روشنی میں فوجداری مقدمات میں انصاف، شفافیت اور فریقین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کیے جا سکیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پولیس تحویل جسٹس اطہر من اللّٰہ سپریم کورٹ سندھ ہائیکورٹ میڈیا پر اعترافی بیان

متعلقہ مضامین

  • جسٹس محسن کا اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی سنیارٹی کو چیلنج کرنے کا فیصلہ
  • سپریم کورٹ ، سابق وفاقی وزیر فواد چودھری کیخلاف 9مئی کیسز سماعت کیلئے مقرر
  • بینک کا گوشوارہ آمدن ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں، سپریم کورٹ کا ٹیکس سے متعلق کیس میں فیصلہ
  • اسلام آباد ہائیکورٹ ججز منتقلی و سینیارٹی کیس، سپریم کورٹ فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں دائر
  • الیکشن کمیشن نے عمر ایوب نااہلی کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا
  • الیکشن کمیشن نے عمر ایوب کے انتخاب سے متعلق کیس میں دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا
  • چیف جسٹس آف پاکستان نے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس طلب کرلیا
  • زیر حراست ملزم کا انٹرویو قابل قبول شہادت نہیں، سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ: پولیس تحویل میں میڈیا پر اعترافی بیان ناقابلِ قبول، ملزم بری
  • مخصوص نشستوں پر بحال 77 اراکین اسمبلی سے متعلق اہم فیصلہ