کس طرح صوبے کے اکاؤنٹس میں 40 ارب روپے کی کرپشن ہوئی: فیصل کیم کنڈی
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
---فائل فوٹو
گورنر خیبر پختون خوا فیصل کریم کنڈی نے کے پی حکومت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ کس طرح صوبے کے اکاؤنٹس میں سے 40 ارب روپے کی کرپشن ہوئی۔
پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ آج جب کہا جا رہا ہے 40 ارب لوٹ چکے ہیں تو نیب خاموش ہے، اگر یہ پیپلز پارٹی ہوتی تو پہلے پکڑا جاتا بعد میں ثابت کیا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ ڈی آئی خان میں 55 کروڑ روپے کا ہارس اینڈ کیٹل شو کرایا گیا، سمجھ سے باہر ہے کہ پیسے کہاں لگائے گئے اس کا آڈٹ کیوں نہیں ہوتا۔
پشاور خیبرپختونخوا میں 4ارب 40کروڑ روپے کی ادویات.
ان کا مزید کہنا ہے کہ جو 9 مئی واقعات میں شامل تھے ان کو سزا ملنی چاہیے۔
فیصل کریم کنڈی نے یہ بھی کہا کہ اسٹیٹس آف ویمن میں ابھی تک کوئی چیئرپرسن موجود نہیں، صوبائی حکومت باقی چیزوں سے فارغ ہو گئی ہو تو اس پر توجہ دے۔
ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
مغربی بنگال میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی ایک سنگین چیلنج ہے، رپورٹ
گورنر سی وی آنند بوس کے رپورٹ میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ انتظامی ہم آہنگی کی شدید کمی ہے اور پولیس کا ردعمل کمزور ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مغربی بنگال کے گورنر سی وی آنند بوس نے حال ہی میں مرشد آباد ضلع میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد پر بھارت کی مرکزی حکومت کو رپورٹ پیش کی ہے۔ یہ رپورٹ مرکزی وزارت داخلہ کو بھیجی گئی ہے، جس میں ریاست میں بڑھتی ہوئی بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کو ایک سنگین چیلنج قرار دیا گیا ہے۔ گورنر نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل مرشد آباد اور مالدہ اضلاع کی صورتحال تشویشناک ہے۔ ان اضلاع میں ہندو برادری اقلیت میں ہے جس کی وجہ سے سماجی توازن متاثر ہوا ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ مرشد آباد میں تشدد کا اثر دوسرے اضلاع تک پھیل سکتا ہے۔ گورنر نے یہ بھی لکھا کہ تشدد پہلے سے منصوبہ بند تھا اور ریاستی حکومت خطرے سے آگاہ تھی، پھر بھی حفاظتی انتظامات ناکافی تھے۔
گورنر نے مرکزی فورسز کی تعیناتی، انکوائری کمیشن کا قیام اور ضرورت پڑنے پر آئین کی دفعہ 356 کے آپشن پر غور کرنے سمیت کئی سخت تجاویز دی ہیں۔ آرٹیکل 356 کا مطلب ریاست میں صدر راج نافذ کرنا ہے۔ تاہم گورنر نے واضح کیا کہ انہوں نے آرٹیکل 356 کے نفاذ کی سفارش نہیں کی ہے بلکہ صرف آپشن کھلے رکھنے کی بات کی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ریاستی حکومت کی طرف سے اقلیتوں کے مفادات کے تحفظ کے بار بار کئے گئے وعدوں سے صورتحال پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ رپورٹ میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ انتظامی ہم آہنگی کی شدید کمی ہے اور پولیس کا ردعمل کمزور ہے۔ گورنر نے مرکزی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ آئینی اقدامات پر غور کرے تاکہ ریاست میں امن و امان بحال ہو سکے اور عوام کا حکومت پر اعتماد ہو سکے۔
بوس نے رپورٹ میں لکھا کہ تقسیم اتنی گہری ہے کہ تشدد میں اضافے کے باوجود وزیراعلٰی کی طرف سے بار بار کئے گئے وعدے کہ وہ اقلیتی مفادات کا تحفظ کریں گی اور یہ کہ ریاست میں اس قانون کو نافذ نہیں کیا جائے گا، نے مسلمانوں کو پُرسکون کرنے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ قانون کی حکمرانی مضبوطی سے قائم ہو اور پولیس تشدد کو روکے۔ گورنر نے یہ بھی کہا کہ ریاست میں سیاسی تشدد کی تاریخ اور ریاست کے دیگر اضلاع پر مرشد آباد تشدد کے اثرات کو دیکھتے ہوئے، میں یہ تجویز کرنا چاہوں گا کہ حکومت ہند نہ صرف موجودہ حالات پر قابو پانے کے لئے آئینی اختیارات پر غور کرے بلکہ قانون کی حکمرانی میں لوگوں کا اعتماد پیدا کرنے کے لئے بھی کوشش کرے۔