15 ہزار تنخواہ لینے والے کلرک کی کروڑوں روپے کی جائیداد نکل آئی
اشاعت کی تاریخ: 1st, August 2025 GMT
بھارت کی ریاست کرناٹک میں 15 ہزار کی تنخواہ وصول کرنے والا سابق سرکاری ملازم 30 کروڑ بھارتی روپے کے اثاثوں کا مالک نکلا۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق کرناٹک رورل انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ لمیٹڈکے دفتر میںبڑے پیمانے پر کرپشن کا انکشاف ہوا ۔
اس ادارے میں 72 کروڑ بھارتی روپے کی بدعنوانی کی تحقیقات کے سلسلے میں ایک سابق ملازم کے گھر پر چھاپہ مارا گیا جو اس ادارے میں ماضی میں بطور کلرک کام کرتا تھا۔
اس چھاپے کے دوران پتہ چلا کہ ‘کالا کپہ نیگاگندی نامی سابق ملازم 30 کروڑ بھارتی روپے مالیت اثاثوں کے مالک ہیں جن میں 24 مکانات، 6 پلاٹس اور 40 ایکڑ زرعی اراضی شامل ہیں۔
سابق ملازم کے گھر سے ایک کلو سے زائد کا سونا اور متعدد گاڑیاں بھی برآمد کرلی گئیں۔
حکام کے مطابق ملزم کے گھر سے کچھ جائیدادوں کے کاغذات بھی برآمد کیےگئے جو ان کی اہلیہ اور بھائی کے نام پر رجسٹرڈ تھے۔
رپورٹ میں کہا گیاکہ کرناٹک رورل انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ لمیٹڈ میں بطور کلرک کام کرنے والے ‘کالا کپہ نیگاگندی’ نامی شہری کی ماہانہ تنخواہ صرف 15 ہزار بھارتی روپے تھی۔
بھارتی میڈیا نے سرکاری حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس تمام تر معاملے کی تفتیش کا آغاز کردیا گیا ہے، جلد مزید معلومات سامنے لائی جائیں گی۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
پی ایس ایل سیزن 10؛ 97 کروڑ روپے کی سلامی ہر فرنچائز کے لیے تیار
پی ایس ایل سیزن 10 میں حصہ لینے والی ہر فرنچائز کے لیے 97 کروڑ روپے کی سلامی تیار ہونے لگی۔ اس میں سے کھلاڑیوں کی فیس و دیگر اخراجات کی رقم منہا ہوگی، اپنی اسپانسر شپ علیحدہ ہے۔ یوں ایک ارب سے زائد فیس ادا کرنے والی ٹیم ملتان سلطانز کے سوا دیگر تمام فائدے میں رہیں گے۔
دوسری جانب ٹیموں کی اکاؤنٹس شیٹس میں تاخیر کے باعث پلیئرز کو اختتامی 30 فیصد معاوضہ آئندہ چند روز میں ملے گا۔ ’’2 رکنی‘‘ ٹیم کے حامل لیگ چیف سلمان نصیر ایشیا کپ کے معاملات میں مصروف رہے، اسی وجہ سے پی ایس ایل کے معاملات بدستور تاخیر کا شکار ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان سپر لیگ سیزن 10 کا انعقاد رواں برس اپریل، مئی میں ہوا۔ لاہور قلندرز نے تیسری بار فاتح ٹرافی حاصل کی۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ دنوں فنانس کمیٹی کی میٹنگ میں لیگ حکام نے فرنچائزز کو بتایا کہ سینٹرل پول سے 97 کروڑ روپے فی ٹیم آمدنی کی امید ہے۔
نویں ایڈیشن میں بھی لگ بھگ اتنی ہی رقم حصے میں آئی تھی۔ البتہ اسے مکمل منافع قرارنہیں دیا جاسکتا کیونکہ اس میں سے پلیئرز کی فیس، سفری، رہائشی و دیگر اخراجات منہا کیے جائیں گے۔ اپنی اسپانسر شپ وغیرہ سے بھی ٹیموں کو آمدنی ہوئی ہے۔ اس سب کو شامل کرکے بیشتر فائدے میں رہیں گی۔
البتہ ایک ارب روپے سالانہ فیس ادا کرنے والی ملتان سلطانز کو اس بار بھی خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اکاؤنٹس ابھی فائنل نہیں ہوئے اور معمولی رد و بدل ممکن ہے۔ پی سی بی کےلیے سب سے اہم مسئلہ بعض اسٹیک ہولڈرز سے رقم کی وصولی ہے۔ اس حوالے سے کچھ امور حل طلب ہیں۔ فرنچائز 5جولائی سے واجب الادا اپنے 50 فیصد شیئر کی منتظر ہیں۔ ادھر چند ٹیموں نے اپنی فائنل اکاؤنٹس شیٹس تاخیر سے فراہم کی تھیں جس کی وجہ سے ابھی کھلاڑیوں کو معاوضوں کی اختتامی 30 فیصد ادائیگی باقی ہے۔ ایونٹ کے دوران 70 فیصد رقم دے دی جاتی اور باقی فائنل کے بعد ملتی ہے۔ پلیئرز کو فیس کی ادائیگی پی سی بی براہ راست کرتا ہے۔
اس حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ ایونٹ ختم ہونے کے بعد ٹیمیں اکائونٹس شیٹس بھیجتی ہیں، اس میں لکھا جاتا ہے کہ کس پلیئر کو کتنی رقم دینی ہے، معاہدے کے تحت انجری کی وجہ سے میچ نہ کھیلنے پر 50 اور عدم انتخاب پر20 فیصد فیس دی جاتی ہے۔ بعض ٹیمیں کٹوتی نہیں بھی کرتیں، اسی طرح کچھ فرنچائز نے پاکستان ٹیم کی طرز پر مین آف دی میچ و دیگر انفرادی ایوارڈز کی رقم پوری ٹیم میں یکساں تقسیم کرنے کی پالیسی اپنائی ہوتی ہے۔
ٹیموں کے اپنے بونس اور دیگر انعامات ہوتے ہیں، ہوٹل اور ایئر ٹکٹ میں بھی تبدیلی ہو جاتی ہے، اسی لیے یہ شیٹ ادائیگی میں اہمیت رکھتی ہے۔ بورڈ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ چند روز میں تمام کھلاڑیوں کو باقی 30 فیصد رقم دے دی جائے گی۔
دوسری جانب پی ایس ایل کے معاملات بدستور سست روی کا شکار ہیں، نئے سی او او سلمان نصیر گزشتہ چند روز سے ایشیا کپ کے معاملات میں مصروف ہیں، انھوں نے اب تک اپنی ’’2 رکنی ‘‘ ٹیم ہی بنائی ہے۔ ایک عارضی تقرری کے مستقل ہونے پر فرنچائز بھی حیران ہیں۔ اپنے کام کی وجہ سے ٹیموں میں اچھی شہرت کے حامل منیجر پلیئرز ایکویزیشن شعیب خالد گزشتہ دنوں مستعفی ہوگئے۔ اب کھلاڑیوں سے معاہدے کیلیے کسی ماہر شخصیت کی تلاش بھی آسان نہ ہوگی۔
یاد رہے کہ سیزن 11 سے قبل اسپانسر شپ، میڈیا رائٹس و دیگر معاہدے، ٹیموں کی ویلویشن، فیس میں اضافے سمیت 2 نئی فرنچائزز کو بھی شامل کرنا ہے،ابھی تک نئی ونڈو کا اعلان بھی نہیں کیا جا سکا۔