ویرات کوہلی کی ایک ’’غلطی‘‘ نے اونیت کور کی قسمت بدل دی
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
نئی دہلی(نیوز ڈیسک)انسٹاگرام پر ایک معمولی سی حرکت نے سوشل میڈیا کو ہلا کر رکھ دیا، جب بھارتی کرکٹر ویرات کوہلی نے اداکارہ اور انفلوئنسر اونیت کور کی ایک تصویر کو غلطی سے لائیک کردیا۔
ویرات کوہلی نے اس لائیک کو ’الگورتھم کی غلطی‘ قرار دیا، مگر اس چھوٹے سے واقعے نے اونیت کور کی قسمت کو ایسا پلٹا دیا کہ وہ راتوں رات انٹرنیٹ سنسیشن بن گئیں۔
یہ واقعہ 30 اپریل کو اُس وقت منظر عام پر آیا جب اونیت نے انسٹاگرام پر کچھ دلکش تصویریں پوسٹ کیں۔ لیکن جو بات عام فالوورز کی نظروں سے نہ چھپ سکی، وہ یہ تھی کہ ویرات کوہلی کا ’لائیک‘ بھی ان تصاویر میں شامل تھا۔ اگرچہ کچھ دیر بعد یہ لائیک ہٹا دیا گیا، مگر تب تک اسکرین شاٹس گردش میں آچکے تھے، اور #ViratLikedAvneet کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے لگا۔
بھارتی اسٹار کرکٹر کی اس غلطی کے بعد سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی۔ فین پیجز میمز سے بھر گئے، کچھ صارفین نے مذاق بنایا تو کچھ نے سنجیدہ سوالات بھی اٹھائے۔ انوشکا شرما کا نام بھی بیچ میں گھسیٹا جانے لگا اور اونیت کور کو ’Accidental Viral Queen‘ کا لقب مل گیا۔ سوشل میڈیا کی دنیا میں جیسے سب کی نظریں ایک ہی طرف مرکوز ہوگئیں۔
اس سارے ہنگامے کے بعد ویرات کوہلی کو بھی صفائی دینا پڑی۔ انہوں نے انسٹاگرام اسٹوری میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی فیڈ کلیئر کر رہے تھے اور غالباً الگورتھم کی وجہ سے کسی تصویر پر غلطی سے انٹریکشن ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعے کو بڑھا چڑھا کر نہ پیش کیا جائے اور غیر ضروری قیاس آرائیوں سے گریز کیا جائے۔
مگر ویرات کی یہ وضاحت اونیت کی بڑھتی ہوئی شہرت کو روک نہ سکی۔ ان کے انسٹاگرام فالوورز کی تعداد میں حیران کن رفتار سے اضافہ ہوا، جو 30 ملین سے بڑھ کر 31.
اونیت کو صرف 72 گھنٹوں میں 12 نئے برانڈز کی طرف سے پرکشش تشہیری آفرز موصول ہوئیں، جن میں بیوٹی، فیشن اور فنٹیک کمپنیاں شامل ہیں۔ ان کے فالوورز نے اس لمحے کو ’مین کیریکٹر مومنٹ‘ قرار دیا، اور میڈیا میں ان کا نام مسلسل زبان زد عام ہے۔
یہ وہی اونیت کور ہیں جنہوں نے شوبز میں قدم ڈانس ریئلٹی شوز سے رکھا تھا، اور اب وہ ایک مکمل سوشل میڈیا آئیکون بن چکی ہیں۔ ان کی موجودہ نیٹ ورتھ 41 کروڑ روپے (یعنی تقریباً 5 ملین ڈالر) سے تجاوز کرگئی ہے، اور ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر ان کا گراف یوں ہی بلند رہا تو یہ رقم دگنی بھی ہوسکتی ہے۔
ادھر، کوہلی کی طرف سے ’الگورتھم کی غلطی‘ والی وضاحت کے بعد مارک زکربرگ بھی تنقید کی زد میں آگئے۔ بھارتی صارفین نے ان کے انسٹاگرام کمنٹ سیکشن کو میدانِ جنگ بنا دیا اور مطالبہ کیا کہ وہ کوہلی سے معافی مانگیں اور انسٹاگرام کے الگورتھم کو ’کنگ کوہلی‘ کے وقار کے مطابق درست کریں۔
مزیدپڑھیں:معروف ریسلر سیتھ رولنز کی پاکستانی کوٹ پہنے انٹری، قیمت جان کر دنگ رہ جائینگے
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ویرات کوہلی سوشل میڈیا اونیت کور اونیت کو
پڑھیں:
سزا سے پہلے سولی: میڈیا ٹرائل اور انصاف کا قتل
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 جون 2025ء) جیوتی ملہوترا کی پرانی ویڈیوز کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کیا جا رہا ہے، ان کی ذاتی ڈائری کے اقتباسات کو سوشل میڈیا پر اچھالا جا رہا ہے، اور ان کی ذاتی زندگی پر یوں تبصرے کیے جا رہے ہیں گویا عدالت نے مجرم قرار دے دیا ہو۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے پاکستانی سفارتکار دانش سے خفیہ شادی کی تھی اور وہ بھی سفارتخانے کے اندر یہاں تک کہ بعض چینلز نے بچوں کی کہانیاں بھی تراش لیں۔
صحافت کا دعویٰ رکھنے والے ادارے ایک خاتون کی نجی زندگی پر یلغار کیے ہوئے ہیں، جبکہ عدالت میں مقدمہ ابھی زیرِ سماعت بھی نہیں آیا۔اس سارے کھیل کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اگر کل عدالت جیوتی ملہوترا کو بری کر دیتی ہے تو میڈیا نہ اپنی غلطی تسلیم کرے گا، نہ معذرت کرے گا، اور نہ ہی اس طر ح ان کی عزتِ رفتہ واپس آ سکے گی۔
(جاری ہے)
انٹرنیٹ پر ان کا نام تلاش کریں تو الزامات، طعنوں، سنسنی اور غداری کے عنوانات کی بھرمار ہے۔
حقیقت کیا ہے، یہ کسی کو جاننے کی پروا نہیں۔دورِ حاضر کی صحافت میں، جہاں ریٹنگ اور سنسنی کی دوڑ نے اخلاقیات کو روند ڈالا ہے، میڈیا ٹرائل ایک ایسا تماشا بن چکا ہے جو انصاف کے عمل کو پامال کر کے انسانی ساکھ کو تہس نہس کر دیتا ہے۔
یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ یاد کریں اداکارہ ریا چکرورتی کا معاملہ، جب سوشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کے بعد میڈیا نے اسے قاتل کے طور پر پیش کیا۔
ہفتوں تک پرائم ٹائم پر اس کے خلاف کہانیاں نشر ہوتی رہیں۔ معاملہ سی بی آئی تک پہنچا، لیکن پانچ سال بعد کیس بند کر کے ریا کو کلین چٹ دے دی گئی۔ مگر جس میڈیا نے اس پر انگلیاں اٹھائیں، اس نے معذرت کرنے کی زحمت تک نہیں کی۔معروف صحافی افتخار گیلانی کی کہانی بھی کچھ کم کربناک نہیں۔ 2002 میں ان پر پاکستان سے روابط کے الزام میں مقدمہ چلا، اور وہ نو ماہ تک دہلی کی تہاڑ جیل میں قید رہے۔
بعد میں تمام الزامات خارج کر دیے گئے۔ اپنی کتاب "مائی ڈیز ان پریزن" میں وہ لکھتے ہیں کہ کس طرح میڈیا نے انہیں آئی ایس آئی کا ایجنٹ بنا کر پیش کیا، اور بغیر کسی تحقیق کے ان پر غداری کا ٹھپہ لگا دیا۔ ایک انگریزی روزنامے نے تو یہ بھی لکھا کہ گیلانی نے "اعتراف" کر لیا ہے، حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ اس وقت تک ان سے کسی ایجنسی نے پوچھ گچھ تک نہیں کی تھی۔گیلانی کہتے ہیں کہ وہ تو جیل میں تھے، مگر میڈیا کے اس رویہ کی وجہ سے ان کی فیملی کو نشانہ بنایا گیا۔ ان کی چار سالہ بیٹی اور دو سال کا بیٹا جب جنوبی دہلی کی ایک رہائشی سوسائٹی میں باہر دیگر بچوں کے ساتھ کھیلنے جاتے تھے، تو پڑوسی اپنے بچوں کو اندر بلاتے تھے۔ معصوم بچوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کل تک جن بچوں کے ساتھ وہ ہر شام کھیلتے تھے، وہ آخر کیوں ان سے کتراتے ہیں۔
ان کی اہلیہ کو دیکھ کر پاس پڑوس کی خواتین منہ پھیر دیتی تھیں۔ اس میں ان لوگوں کا کوئی قصور نہیں تھا، بلکہ میڈیا نے ہی ایسی بہتان آمیز کہانیاں ان تک پہنچائی تھیں، کہ وہ خوف زدہ ہوگئے تھے۔میڈیا، جیسے خبر کا بھوکا بھیڑیا ہوتا جا رہا ہے، ہر مبینہ ملزم کو اشتہاری بنانے پر تلا رہتا ہے۔ ممبئی کے اسکول ٹیچر عبد الواحد شیخ، جنہیں 2006 کے ممبئی ٹرین دھماکوں کے بعد گرفتار کیا گیا، نو سال تک قید رہے۔
بالآخر وہ بری ہو گئے، مگر ان نو برسوں میں میڈیا ان کی کردار کشی کا بازار گرم کیے رہا۔ وحید کے مطابق، جب عدالت میں پولیس پر تشدد کی شکایت کی گئی، تو میڈیا نے الٹا پولیس کی صفائی پیش کی کہ ملزمان کی شکایات القاعدہ کے طریقہ کار کا حصہ ہیں۔یہی عبد الواحد شیخ بعد ازاں 2022 میں دوبارہ گرفتار کیے گئے، اس بار پی ایف آئی سے تعلق کے الزام میں۔
ایک بار پھر میڈیا نے الزامات کو حقیقت کے طور پر پیش کیا، اور ان کے "اعترافات" کا دعویٰ کیا، جن کا انہوں نے کبھی اقرار نہیں کیا۔شیخ نے بعد از رہائی اپنی روداد "بے گناہ قیدی" کے عنوان سے لکھی، جو اردو کے ساتھ ہندی، انگریزی اور مراٹھی میں بھی شائع ہوئی۔ ان کا تجربہ اور افتخار گیلانی کی داستان ہمیں یہ سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ میڈیا ٹرائل صرف خبروں کی دنیا کا کھیل نہیں، بلکہ ایک انسانی المیہ ہے۔
یہ وہ کرب ہے جو فرد کی زندگی کو تاعمر بھگتنے پر مجبور کرتا ہے۔سوال یہ نہیں کہ ملہوترا بے گناہ ہے یا مجرم — یہ فیصلہ عدالت کو کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک شخص کو میڈیا کے ذریعے جرم کی علامت بنا دینا، اس کی نجی زندگی پر عوامی یلغار، اس کے مستقبل کو داغدار کر دینا، کیا یہ خود ایک جرم نہیں؟ کیا میڈیا اپنے آئینی و اخلاقی کردار سے منحرف ہو کر انصاف کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ تو نہیں بن گیا؟
جب میڈیا خود کو تفتیشی ایجنسی، جج اور جلاد سمجھنے لگے، تو سمجھ لیجیے کہ صحافت کے سنہری اصول قصۂ پارینہ ہو چکے ہیں۔
تب ہی تو کسی کے بے گناہ ہونے کی سند بھی اس کے داغدار ماضی کو صاف نہیں کر پاتی۔ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں "خبر" انسان سے زیادہ قیمتی ہو چکی ہے۔ ایک لمحے کی سرخی اگلے لمحے کا ناسور بن جاتی ہے۔ میڈیا ٹرائل، اس پورے منظرنامے میں، انصاف کے عمل پر سب سے بڑی ضرب ہے — ایک ایسی ضرب جو صرف قانون کو نہیں، ایک انسان کی زندگی، اس کی ساکھ اور اس کے مستقبل کو بھی پامال کر دیتی ہے۔ اور یہ سب، اس سے پہلے کہ عدالت کوئی فیصلہ دے — یا شاید کبھی دے بھی نہ سکے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔