لندن، پاکستانیوں کا بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کا عزم
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
دہشت گری کے ہر واقعے کا الزام پاکستان پر لگانا بھارتی فطرت ہے، بھارتی ہائی کمیشن پر احتجاج
بغیر ثبوت پاکستان پر الزام لگانے پر نئی دہلی سے جواب طلب کیا جائے،رہنماؤں کا خطاب
لندن میں بھارتی ہائی کمیشن پر پاکستانیوں نے احتجاج کرتے ہوئے کسی بھی جارحیت سے خبردار کردیا۔لندن میں بھارتی ہائی کمیشن پر پاکستانیوں نے اپنا احتجاج ریکار ڈ کروایا، اس دوران شرکا کا کہنا تھا کہ بھارت نے پاکستان پر حملے کی حماقت کی تو انہیں فروری 2019 جیسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مختلف رہنماوں نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد الزام پاکستان پر لگادینا بھارت کی پرانی عادت ہے، عالمی طاقتیں، بغیر ثبوت پاکستان پر الزام لگانے پر بھارت سے جواب طلب کریں۔یاد رہے کہ 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام کے سیاحتی مقام پر فائرنگ کے واقعے میں 26 افراد ہلاک اور ایک درجن کے قریب زخمی ہو گئے تھے جس کے بعد بھارت نے بنا کسی ثبوت کے پاکستان پر الزام تراشی شروع کردی اور سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کردیا۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
امریکا کا بڑا اقدام: بھارتی بزنس ٹائیکونز کے ویزے منسوخ، منشیات اسمگلنگ کا الزام
نئی دہلی میں امریکی سفارتخانے نے اعلان کیا ہے کہ فینٹانل بنانے والے کیمیائی اجزاء کی اسمگلنگ میں ملوث متعدد بھارتی کاروباری شخصیات اور کارپوریٹ ایگزیکٹوز کے ویزے منسوخ کر دیے گئے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق یہ اجزاء فینٹانل کی تیاری میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، جبکہ فینٹانل امریکا میں اوورڈوز کے باعث سب سے زیادہ اموات کی بڑی وجہ سمجھا جاتا ہے۔
سفارتخانے کے بیان میں ملزمان کے نام ظاہر نہیں کیے گئے، تاہم ترجمان نے تصدیق کی کہ وہ سب بھارتی شہری ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ بھارتی حکام منشیات کی اسمگلنگ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے امریکی اداروں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں بھارتی درآمدات پر 50 فیصد ٹیرف عائد کیا تھا، جس کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی آئی۔ اس سے قبل امریکا چین، میکسیکو اور کینیڈا سے درآمدات پر بھی بھاری محصولات لگا چکا ہے۔
ٹرمپ نے رواں ہفتے کانگریس کو دیے گئے ایک بیان میں بھارت کو ان 23 ممالک میں شامل کیا تھا جو منشیات کی ترسیل یا غیر قانونی پیداوار کے بڑے مراکز تصور کیے جاتے ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ کسی ملک کا اس فہرست میں آنا اس کی حکومت کی انسداد منشیات کوششوں پر سوالیہ نشان نہیں سمجھا جانا چاہیے۔