—فائل فوٹو

پشاور ہائی کورٹ نے حیات آباد سے لاپتہ 5 افراد کی بازیابی سے متعلق درخواست نمٹا دی۔

عدالت عالیہ میں پشاور کے علاقے حیات آباد سے لاپتہ 5 افراد کی بازیابی سے متعلق درخواست کی سماعت قائم مقام چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے کی۔

سماعت میں آئی جی پولیس، ایڈووکیٹ جنرل، سی سی پی او اور ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔

پشاور: عمان سے آئی خاتون سمیت 5 لاپتہ افراد کی بازیابی کا حکم

پشاور ہائی کورٹ میں عمان سے آئی خاتون سمیت 5 لاپتہ افراد کی بازیابی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ لاپتہ افراد کو چھوڑا دیا گیا، ان کو بھی عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔

جس پر قائم مقام چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس نے چھوڑا ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل صاحب آپ بتائیں۔

ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا ہے کہ عمان سے آئی خاتون لاپتہ ہے، اس الزام میں ان لوگوں کو اٹھایا گیا تھا، اُس لاپتہ خاتون کا پاسپورٹ اور لیپ ٹاپ، 2 موبائل اور سامان ان کے گھر سے برآمد ہوا ہے اور ملزمان کے خلاف 2 مئی کو مقدمہ درج کیا گیاتھا۔

قائم مقام چیف جسٹس نے اسفتسار کیا کہ آپ کو کہاں سے خاتون کے لاپتہ ہونے کا پتا چلا؟ جس کے جواب میں ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ سوشل میڈیا سے پتہ چلا کہ خاتون لاپتہ ہے۔

قائم مقام چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے استفسار کیا کہ کیا خاتون اب بھی لاپتہ ہے؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ جی خاتون اب بھی لاپتہ ہے۔

جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے مزید استفسار کیا کہ آئی جی صاحب آپ بتائیں، پولیس کیا کر رہی ہے؟ خاتون لاپتہ ہے اور ابھی تک اس کا کچھ پتہ نہیں، کیا لاپتہ افراد کو اس کیس میں گرفتار کیا گیا تھا؟ جس پر آئی جی ذوالفقار حمید نے عدالت کو بتایا کہ اس بارے میں تفتیش جاری ہے۔

اس پر قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خاتون لاپتہ ہے، پولیس کو کچھ پتہ نہیں۔

آئی جی نے تفتیش کے حوالے سے مزید بتایا کہ اس معاملے میں سوشل میڈیا سے ان کی انفارمیشن لے رہے ہیں اور تفتیش کر رہے ہیں۔ جس پر قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ آئی جی صاحب آپ جو بھی آپ کریں گے، قانون کے مطابق کریں گے، آئی جی صاحب اس صوبے کے عوام 40 سال سے متاثر ہو رہے ہیں، کسی کو ہراساں نہ کیا جائے۔

قائم مقام چیف جسٹس نے ایڈوکیٹ جنرل سے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل صاحب آپ آرٹیکل 8، 9، 10 اور 14 پڑھ لیں، لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ لاپتہ افراد آچکے ہیں، اس درخواست کو نمٹا دیتے ہیں۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: قائم مقام چیف جسٹس نے افراد کی بازیابی ایڈووکیٹ جنرل لاپتہ افراد کیا کہ

پڑھیں:

ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس: سپریم کورٹ کا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو بھی سننے کا فیصلہ

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی سنیارٹی اور تبادلے سے متعلق اہم آئینی مقدمے کی سماعت جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے کی۔

دوران سماعت ایڈووکیٹ حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ ججز کے تبادلے کے لیے ایڈوائس وفاقی کابینہ دے سکتی ہے اور مصطفیٰ ایمپکس فیصلے کے مطابق ’وفاقی حکومت‘ سے مراد بھی ’کابینہ‘ ہی ہے۔

جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ کیا مصطفیٰ ایمپکس فیصلے کے بعد آئین کے آرٹیکل 48 میں استعمال ہونے والا لفظ ’وزیرِاعظم‘ غیر مؤثر ہو چکا ہے؟

یہ بھی پڑھیں:

عدالت نے کہا کہ درخواست گزار وکلاء نے سنیارٹی اور حلف سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے فیصلے پر تفصیلی دلائل نہیں دیے اور نہ ہی فیصلے میں کسی غیر قانونی پہلو کی نشاندہی کی گئی۔

ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کراچی بار کی نمائندگی کرتے ہوئے جواب الجواب دلائل کا آغاز کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ آئین کے آرٹیکل 200 کی ذیلی شقیں تبادلے سے متعلق ہیں، اور مستقل ٹرانسفر آئینی طور پر ممکن نہیں۔

فیصل صدیقی کے مطابق تبادلہ نئی تقرری نہیں ہوتا، اور عارضی تبادلہ کے باوجود جج کی سنیارٹی متاثر نہیں ہوتی، انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر خاموشی ممکن نہیں کیونکہ اس کیس میں تین سابق چیف جسٹسز، موجودہ چیف جسٹس، وزیراعظم اور صدر بھی شامل ہیں۔

مزید پڑھیں:

فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ یہ ایسا ہے جیسے اندھا آدمی اندھیرے کمرے میں ایک ایسے سوراخ کو تلاش کر رہا ہو جو پہلے ہی چھپا ہوا ہو، انہوں نے اس نکتے پر زور دیا کہ آرٹیکل 194 کے الفاظ اس کیس کی کلید ہیں اور ٹرانسفر کی صورت میں جج کو نیا حلف لینا پڑے گا، تاہم یہ تقرری نہیں بلکہ ایک عارضی منتقلی ہے۔

جسٹس مظہر نے سوال کیا کہ اگر جج دوبارہ حلف لے تو کیا وہ جونیئر ہو جائے گا؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ ایسا نہیں، اور جج واپس جا کر اپنی پرانی سنیارٹی پر ہی برقرار رہتا ہے۔

دورانِ سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے نشاندہی کی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے ریپریزنٹیشن میں تبادلے پر آنے والے ججز کو ’ڈیپوٹیشنسٹ‘ قرار دیا، جس پر افسوس کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو بھی سماعت میں شامل کرتے ہوئے کہا کہ انہیں کل سنا جائے گا، منیر اے ملک نے کہا کہ وہ ایڈووکیٹ جنرل کے دلائل کا الگ سے جواب دیں گے، جبکہ فیصل صدیقی نے بھی جواب الجواب کے لیے دوبارہ موقع مانگا۔

وکیل فیصل صدیقی نے کراچی بار کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنا جواب الجواب مکمل کر لیا ہے، کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی، بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل ادریس اشرف کل اپنے دلائل کا آغاز کریں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ:’’صدر کو اختیار حاصل ہے‘‘ ججز ٹرانسفر آئین و قانون کے مطابق قرار
  • سپریم کورٹ: آئینی بینچ نے 3 ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلہ آئینی و قانونی قرار دے دیا
  • سپریم کورٹ نے ججز ٹرانسفر کیخلاف درخواست مسترد کردی، تبادلہ آئینی قرار
  • سپریم کورٹ کے ججز کیلئے بیرون ملک سفر اور چھٹیوں سے متعلق نیا ضابطہ کار جاری
  • سپریم کورٹ آئینی بینچ: ججز ٹرانسفر کیس کا فیصلہ محفوظ، آج ہی سنایا جائے گا
  • ججز سینیارٹی،ٹرانسفر کیس میں کئی اہم سوالات اٹھ گئے
  • ججز ٹرانسفر، سنیارٹی کیس: 14 جج چھوڑ کر 15ویں نمبر والے جج کو کیوں ٹرانسفر کیا گیا ؟ جج سپریم کورٹ
  • اسلام آباد ہائی کورٹ: گریڈ 22 میں ترقی سے متعلق ترامیم چیلنج، حکومت سے جواب طلب
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے رولز میں تبدیلی کے معاملے پر جسٹس بابر ستار کا قائم مقام چیف جسٹس سمیت دیگر ججز کو خط
  • ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس: سپریم کورٹ کا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو بھی سننے کا فیصلہ