بھارت نے اچانک پانی چھو ڑ دیا، پانی کی سطح بلند ہوگئی
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
لاہور(نیوز ڈیسک)دریائے چناب میں بھارت کی جانب سے آنیوالے پانی میں اضافہہیڈ مرالہ پر پانی کا بہاو 27 ہزار 300 کیوسک ریکارڈ،بھارت کی جانب سے دریائے چناب میں بغیر اطلاع اچانک پانی چھوڑنے کے باعث دریا میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو گئی ہے۔
چند گھنٹوں پہلے تک خشک نظر آنے والا دریائے چناب اب 28 ہزار کیوسک پانی سے بھر گیا ہے جس کے باعث رات گئے سیلابی کیفیت پیدا ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
محکمہ آبپاشی کے ذرائع کے مطابق بھارت نے 24 گھنٹے تک پانی کی مکمل بندش کے بعد بغیر کسی پیشگی اطلاع کے دریائے چناب میں بڑی مقدار میں پانی چھوڑ دیا، جس سے ہیڈ مرالہ کے مقام پر پانی کی سطح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
اس غیر متوقع اقدام پر ماہرین نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نہ صرف سندھ طاس معاہدے کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ پاکستان کے لیے ممکنہ سیلابی خطرات بھی بڑھا دیتا ہے۔ ماہرین کے مطابق بھارت کی اس روش کو سیاسی دباؤ کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے، جو خطے میں عدم استحکام کو مزید ہوا دے سکتی ہے۔
دریائے چناب کی تازہ صورتحال کے پیش نظر مقامی انتظامیہ کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے اور نچلے درجے کے علاقوں میں مقیم آبادی کو احتیاط برتنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔
ادھر انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے بھی دریائے چناب کی صورت حال پر کڑی نظر رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ارسا حکام کے مطابق پانی کی آمد و رفت سے متعلق ڈیٹا کو مسلسل مانیٹر کیا جا رہا ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ ہنگامی صورتحال سے بروقت نمٹا جا سکے۔
پاکستانی حملے کا خوف، عوام کو تیار کرنے کیلئے پورے بھارت میں سول مشقوں کا اعلان
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: دریائے چناب پانی کی
پڑھیں:
غزہ کے کھنڈروں سے بلند ہوتی امید کی دھنیں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 01 جون 2025ء) غزہ شہر کے الجندی المجہول چوک میں قائم بہت بڑے پناہ گزین کیمپ کے باسی 19 ماہ سے بموں کے ہولناک دھماکے سنتے آئے ہیں لیکن اب انہیں اپنی خیمہ بستی میں بانسری کے سر بھی سنائی دینے لگے ہیں جو موت، تباہی اور مایوسی کا سامنا کرتے ان لوگوں کو زندگی، تعمیر اور امید کا پیغام دیتے ہیں۔
اس چوک میں کبھی زندگی کی چہل پہل ہوتی تھی لیکن حالیہ جنگ نے اسے کھنڈر بنا دیا ہے جہاں چار سو بے گھر لوگوں کے خیمے نظر آتے ہیں۔
انہی میں سے ایک خیمے میں احمد ابو امشا بچوں کو موسیقی کی تربیت دیتے ہیں۔وہ خود بھی اپنے خاندان کے ساتھ ایک بوسیدہ خیمے میں رہتے ہیں لیکن انہوں نے امید پر مایوسی کو غالب نہیں آنے دیا۔ وہ بے گھر بچوں کو موسیقی سکھاتے ہیں اور انہیں گیتوں کے ذریعے خوشی کی تلاش میں مدد دیتے ہیں۔
(جاری ہے)
امید کی تانیںابو امشا جنگ سے پہلے شمالی غزہ کے علاقے بیت حنون میں رہتے تھے۔
وہ گٹار بجانے کے ماہر اور ایڈورڈ سعید نیشنل کنزرویٹری آف میوزک کے ریجنل کوآرڈینیٹر بھی ہیں۔ غزہ کی حالیہ جنگ میں ان کا خاندان 12 مرتبہ بے گھر ہو چکا ہے اور ہر نقل مکانی میں انہوں نے آلات موسیقی کو اپنے ساتھ رکھا۔وہ کہتے ہیں کہ موسیقی ہی واحد چیز ہے جو ان کی امید کو ماند نہیں پڑنے دیتی۔
اس کیمپ میں روزمرہ زندگی تکالیف سے بھرپور ہے جہاں پانی حاصل کرنے کے لیے لوگوں کی قطاریں لگی رہتی ہیں اور جینے کے لیے روزانہ جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ تاہم، تاریک حالات میں بھی ابو امشا نے ایک غیرمعمولی کام کیا ہے۔ انہوں نے 'غزہ کے نغمہ سنج پرندے' کے نام سے موسیقی کا ایک گروپ بنایا ہے جو بے گھر بچوں پر مشتمل ہے۔
انہیں یہ خیال اس وقت آیا جب وہ نقل مکانی کے بعد خان یونس کے علاقے المواصی میں مقیم تھے۔ اس جگہ انہوں نے بچوں کو گیت گانے اور کھیلنے کی تربیت دینا شروع کی۔ ان کا قائم کردہ یہ موسیقی گروپ متعدد کیمپوں میں فن کا مظاہرہ کر چکا ہے۔ اس کی موسیقی سوشل میڈیا پر بھی گونجی جو تباہی کے درمیان امید کی غیرمعمولی کرن سے مشابہت رکھتی ہے۔
تحفظ کا احساسان کے بیٹے معین نے بجاتے ہیں جو بانسری سے مشابہ ساز ہے۔
یہ لوگ جہاں کہیں بھی جائیں معین اپنی نے ہمیشہ ساتھ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد یہ کیمپ ان کا 12واں ٹھکانہ ہے اور نے ہی انہیں بموں کی ہولناک آوازیں بھلانے میں مدد دیتی ہے۔ان کا کہنا ہےکہ غزہ کے موجودہ حالات میں موسیقی بجانے کے لیے خاموش جگہ ڈھونڈنا بہت مشکل ہے لیکن وہ جیسے تیسے اپنے خیمے میں ہی رہ کر اس کی مشق کرتے ہیں۔
ابو امشا سے وائلن سیکھنے والی نوعمر یارا بھی کئی مرتبہ بے گھر ہو چکی ہیں اور ہر نقل مکانی ان کی تھکن اور مصائب میں اضافہ کر دیتی ہے۔ تاہم، ان کا کہنا ہے کہ جب وہ خوف محسوس کریں تو وائلن بجاتی ہیں جس سے انہیں تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔
کیمپ میں خیموں کی ترپال سے بنی چھتوں تلے رہنے والے بچے ابو امشا کے پاس آ کر کھیلتے، آلات موسیقی کی تاریں چھیڑتے اور گیت گاتے ہیں اور یہ سرگرمی انہیں بموں کے دھماکوں کی دل دہلا دینے والی آوازیں بھلا دیتی ہے۔
غزہ کے لوگ اپنی بقا کے لیے درکار بنیادی ضرورت کی چیزوں سے محروم ہیں اور ایسے حالات میں موسیقی کی آواز بیک وقت تصوراتی اور مقدس محسوس ہوتی ہے۔
ابو امشا ثابت قدمی سے اپنے مقصد کو لے کر چل رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے شاگرد امن، زندگی اور غزہ کے لیے گاتے ہیں۔
یہ بات کرتے ہوئے ان کے عقب میں عود کی مدھر تان بلند ہوتی ہے جو جنگ سے تباہ حال منظر میں کومل خوبصورتی کا احساس بھر دیتی ہے۔