غزہ میں توسیع کا اسرائیلی منصوبہ، فرانس اور یورپی یونین کی مذمت
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
یورپی یونین نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل غزہ سے ناکہ بندی ختم کرے، تاکہ انسانی امداد کی فراہمی ممکن ہو، تمام جارحیت کے خاتمے اور قیدیوں کی رہائی کا واحد راستہ مذاکرات ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیل کے غزہ میں توسیعی آپریشن منصوبے کی فرانس اور یورپی یونین نے شدید مذمت کی ہے۔ غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق فرانسیسی وزیرِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی منصوبہ ناقابلِ قبول ہے، اسرائیلی حکومت انسانی قوانین کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ خبر ایجنسی کے مطابق یورپی یونین نے بھی اسرائیل کے غزہ پر نئے آپریشن کے منصوبے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یورپی یونین نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل غزہ سے ناکہ بندی ختم کرے، تاکہ انسانی امداد کی فراہمی ممکن ہو، تمام جارحیت کے خاتمے اور قیدیوں کی رہائی کا واحد راستہ مذاکرات ہیں۔
واضح رہے کہ گذشتہ روز اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو نے فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اپنے بیان میں اسرائیلی وزیراعظم نے کہا تھا کہ غزہ میں شروع ہونے والی کارروائی شدید ہوگی، غزہ کی آبادی کو اس کے تحفظ کے لیے ہٹایا جائے گا۔ اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو نے یہ بھی کہا تھا کہ اسرائیلی فوج غزہ میں کارروائی کرے اور واپس آجائے، ایسا نہیں، بلکہ اس کے برعکس ہوگا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: یورپی یونین نے کہ اسرائیل
پڑھیں:
دوحا اجلاس،کھودا پہاڑ نکلی مذمت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250920-03-4
عارف بہار
قطر میں حماس کی قیادت پر حملوں نے عرب ملکوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ اعتراض حماس کے لیڈروں کو نشانہ بنانے پر نہیں کیونکہ ماضی میں اسرائیل کئی عرب ملکوں میں فلسطینی راہنماؤں کو مختلف انداز میں نشانہ بناتا رہا ہے معاملہ یہ تھا کہ اسرائیل نے ایک آزاد عرب ملک کی فضائی حدود کیوں پامال کیں۔ یہی وہ نکتہ تھا جو او آئی سی ملکوں کو سرجوڑنے پر مجبور کرنے کا باعث بنا۔ قطر میں امریکی ائر بیسز موجود ہیں۔ قطر کے دفاع کا امریکا ضامن ہے مگر صدر ٹرمپ بہت بھولپن کے ساتھ کہتے ہوئے پائے گئے کہ اسرائیل نے قطر پر حملے سے پہلے اعتماد میں نہیں لیا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جس ملک میں امریکا کے تزویراتی اثاثے مادی اور انسانی شکل میں موجود ہوں اس پر حملہ کرنے سے پہلے اسرائیل امریکا کی رضامندی نہ لے۔ کچھ ایسے ہی بھولپن کا مظاہرہ قطر کے وزیر اعظم نے یہ کہتے ہوئے کیا کہ ہمیں اسرائیل نے دھوکا دیا۔ اسرائیل اسی طرح عرب ملکوں کو دھوکا دیتا چلا آرہا ہے۔ اسرائیل نے عرب حکمرانوں کو ہمیشہ یہ باور کرایا ہے کہ ان کی جنگ تو دہشت گردوں اور اسرائیل مخالف دہشت گردوں کے خلاف ہے، عرب حکمرانوں سے نہیں۔ پھر یہ نقطہ ایک دائرہ بنا اور کہا گیا ہماری جنگ صدام اور حافظ الاسد جیسے اسرائیل مخالف عربوں سے ہے۔ پھر سنی دنیا کو کہا گیا کہ ہماری جنگ شیعہ ایران سے ہے۔ جب جب اسرائیل نے یہ یقین دلایا سب نے آنکھیں بند کرکے یقین کر لیا اور خاموشی یا خاموش معاونت سے اسرائیل کے اقدامات کو ایک راہ دی جاتی رہی۔ اب اس آگ شعلے ایسے عرب ملکوں کے دامن کی جانب بھی لپکنے لگے جو بین الاقوامی سسٹم کے احترام میں اسرائیل کے ساتھ خوش گوار تعلقات بھی رکھتے ہیں اور امن کی کوششوں کے لیے سہولت کاری بھی کرتے ہیں۔
قطر ان ملکوں میں سر فہرست ہے جو امریکا اور طالبان کے درمیان سہولت کاری بھی کرتا ہے اور اسرائیل اور حماس کے درمیان بھی معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے میں قطر کی سرزمین پر حماس کی قیادت کو نشانہ بنانا عرب دنیا کے لیے اچنبھے کا باعث تھا۔ شاید اکثر کو یقین ہی نہیں تھا کہ غزہ کے قتل عام میں مصروف اسرائیل کبھی ان کی جانب بھی میلی آنکھ سے دیکھے گا۔ اس سے پہلے مسلم حکمران غزہ کا تماشا دیکھتے رہے۔ وہ رقص بسمل سے لطف اندوز ہوتے رہے۔
غزہ عہد ِ حاضر کی سب سے بڑی قتل گاہ بن چکا ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق سات اکتوبر 2023 سے اب تک 65 ہزار افراد جن میں بڑی تعداد میں بچے ہیں شہید ہو چکی ہے۔ ہزاروں لوگ بے خانماں ہو کر نقل مکانی کرچکے ہیں۔ چہار سو ملبے کے ڈھیر ہیں جہاں کبھی پھول کھلتے اب وہاں دھول اْڑتی ہے۔ ایک سو پچاس مقامات کو بمباری سے کھڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔ یونیسف کے مطابق غزہ میں دس ہزار بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ایک سروے میں کہا گیا کہ غزہ میں ہر آٹھ میں سے ایک بچہ غذائی قلت کا سامنا کر رہا ہے۔ ڈیڑھ لاکھ افراد غزہ چھوڑ کو جنوب کی جانب نقل مکانی کر چکے ہیں۔ غزہ کی اس صورت حال پر فیصلہ سازی پر حاوی دنیا خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے۔ اسرائیل غزہ کا محاصرہ کیے ہوئے ہے اور مسلم حکمرانوں کو یہ محاصرہ توڑنے کی ہمت نہیں ہوسکی۔ حد تو یہ کہ مسلمان حکمرانوں نے اپنی رائے عامہ کو اہل غزہ کی زبانی کلامی حمایت سے بھی روک دیا۔ اس کی وجہ یہ خوف ہے اگر مسلم رائے عامہ میں اسرائیل مخالف جذبات بھڑک اْٹھے تو آگے چل کر یہ اپنے حکمرانوں کی اسرائیل نواز ی یا اسرائیل پروری کے خلاف نفرت کی لہر میں ڈھل سکتے ہیں۔ اس لیے مسلم معاشروں میں جذبات اور احساسات کو ایک حد میں رکھنے میں سب کی بقا ہے۔
مغربی ملکوں میں غزہ کے قتل عام پر احتجاج کی آزادی تھی مگر مسلمان معاشروں میں فلسطین کا جھنڈا لہرانا بھی جرم بنا دیا گیا تھا۔ مسلمان حکمرانوں کی حساسیت کا یہی لٹمس ٹیسٹ تھا کہ وہ اسرائیل کا ہاتھ روکنے یا توڑنے کے لیے کس حدتک جا سکتے ہیں۔ ایسے میں قطر کے اقتدار اعلیٰ کو اسرائیل نے چیلنج کیا تو خیال تھا کہ مسلم حکمران جب سرجوڑ کر بیٹھیں گے تو کئی انقلابی فیصلے کر کے الوداع ہوں گے مگر ہمیشہ کی طرح یہ خواہش بھی ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘ کے انجام سے دوچار ہوگئی۔ مسلم حکمرانوں نے کوئی ٹھوس قدم اْٹھایا نہ ہی اسرائیل کو کوئی مسکت جواب دینے کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔ لفظی مذمت سے کام چلا لیا گیا اور یوں یہ اجلاس بھی نشتند گفتند وبرخاستند کا عملی نمونہ قرار پایا۔ ناٹو طرز پر مسلم اتحاد کی باتیں بھی زیر گردش رہیں مگر نتیجہ صفر۔ ماضی میں چھتیس ملکوں کی فوج اور ایک عدد کمانڈر انچیف صاحب کی سرپرستی میں قائم ہوئی تھی۔ اس فوج کا غزہ میں کوئی سراغ نہ ملا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا اسرائیل کا سرپرست ہے۔ مسلم دنیا میں اعلانیہ اور غیر اعلانیہ امریکی اڈے ہیں۔ جہاں باضابطہ اڈے نہیں وہاں بھی دفاعی تعاون یا دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مضبوط اتحاد قائم ہیں تو ایسے میں مسلم دنیا امریکا کے راج دلارے اور دنیا کے واحد اسٹرٹیجک شراکت دار اسرائیل کے خلاف کوئی ٹھوس قدم کیونکر اْٹھا سکتی ہے؟ پہلے اس زنجیر کا کچھ کرنا ہوگا پھر قدم بڑھائے جا سکتے ہیں۔ اس اجلاس پر کسی دل جلے کا یہ تبصرہ خوب رہا کہ کھودا پہاڑ نکلی مذمت۔