Express News:
2025-05-07@01:03:48 GMT

امن کے لیے مکالمہ ضروری

اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT

پاکستان نے پہلگام واقعہ کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اعتماد میں لیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بند کمرہ اجلاس میں بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیا ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق سلامتی کونسل کے ارکان نے کشیدگی کو کم کرنے، فوجی محاذ آرائی، تنازعات سے بچنے اور مسائل کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے بات چیت اور سفارت کاری پر زور دیا۔ ترجمان نے واضح کیا کہ دریاؤں کا بہاؤ روکنا یا اس کا رخ موڑنا دراصل جنگ کے مترادف ہوگا۔

 پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی نے عالمی برادری کو ایک بار پھر اس حقیقت کا ادراک کرایا ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن کا قیام محض دو ہمسایہ ممالک کی خواہش پر منحصر نہیں بلکہ اس کے لیے عالمی اداروں کی فعال مداخلت اور مؤثر سفارت کاری کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا حالیہ اجلاس اس بات کا غماز ہے کہ عالمی برادری اس خطے میں امن کے لیے سنجیدہ ہے، اس اجلاس میں پاکستان کی جانب سے پیش کردہ شواہد اور مؤقف نے ایک نئی سفارتی جہت اختیار کی ہے۔

پاکستان نے اس اجلاس میں بھارت کی اشتعال انگیزیوں کے ٹھوس ثبوت پیش کیے ہیں، جن میں لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال فائرنگ، آبی جارحیت کے اقدامات اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں شامل ہیں۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ بھارت کی پے در پے اشتعال انگیزیاں خطے میں امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔

پاکستان کا مؤقف واضح ہے کہ جنگ کے ہولناک اثرات سے کوئی نہیں بچے گا۔ پاکستان نے ہمیشہ امن کی خواہش ظاہر کی ہے اور خطے میں استحکام کے لیے اپنی بھرپور کوششیں کی ہیں۔ پاکستان کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت کی حمایت کرتا ہے اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل چاہتا ہے۔

 جنوبی ایشیا میں امن، سلامتی اور ترقی کے لیے پانی کی منصفانہ تقسیم ایک بنیادی ضرورت ہے۔ اس خطے میں واقع ممالک نہ صرف کثیر آبادی پر مشتمل ہیں بلکہ ان کی معیشتوں کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے، اور زراعت کا انحصار پانی پر۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی دہائیوں پر محیط تنازعات میں پانی ایک ایسا مسئلہ ہے جو شاید سب سے کم آواز کے ساتھ مگر سب سے زیادہ اثر کے ساتھ موجود ہے۔ بھارت کی آبی جارحیت پاکستان کے لیے ایک مستقل خطرہ بن چکی ہے۔

قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی آبی مسئلہ اس خطے میں پیدا ہوگیا تھا۔ بھارت نے 1948 میں مشرقی دریاؤں کا پانی روک کر پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔ اس عمل نے پاکستان کی زراعت، معیشت اور شہری زندگی کو سخت متاثر کیا۔ اس بحران کے بعد عالمی بینک کی ثالثی سے 1960 میں ایک معاہدہ طے پایا جسے معاہدہ سندھ طاس کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت دریاؤں کی تقسیم عمل میں آئی جس میں راوی، بیاس اور ستلج بھارت کو دیے گئے جب کہ سندھ، چناب اور جہلم پاکستان کے لیے مخصوص کیے گئے۔

اس معاہدے کو اس وقت دنیا کا سب سے کامیاب آبی معاہدہ قرار دیا گیا کیونکہ اس نے دو متحارب ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کے مسئلے کو ایک فریم ورک میں ڈھالا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بھارت نے اس معاہدے کی اصل روح کو پس پشت ڈال کر ایسے اقدامات کرنے شروع کیے جو بظاہر قانونی دائرے میں آتے ہیں لیکن حقیقت میں پاکستان کے پانی کے حقوق پر قبضہ کرنے کی کوشش ہیں۔ بھارت نے مغربی دریاؤں پر یکے بعد دیگرے کئی ڈیمز بنائے جن میں بگلیہار، کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس نمایاں ہیں۔

ان ڈیمز کے ذریعے بھارت پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے قابل ہو گیا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو پاکستان کے لیے نہایت تشویش ناک ہے۔ ان منصوبوں سے پاکستان کو خدشہ ہے کہ بھارت خشک سالی کے موسم میں پانی روک سکتا ہے اور سیلاب کے دنوں میں غیر متوقع طور پر پانی چھوڑ کر تباہی پھیلا سکتا ہے۔ بھارت کی جانب سے پانی کا بہاؤ روکنے یا کم کرنے سے پاکستان کی زرعی پیداوار شدید متاثر ہوتی ہے۔ خاص طور پر چناب اور جہلم جیسے دریا، جو پاکستان کے زرخیز علاقوں کو سیراب کرتے ہیں، جب ان کے پانی کی روانی متاثر ہوتی ہے تو لاکھوں کسانوں کا روزگار، ملکی غذائی تحفظ اور برآمدات متاثر ہوتی ہیں۔

آبی جارحیت کے اثرات صرف زراعت تک محدود نہیں۔ جب دریا خشک ہونے لگتے ہیں تو ماحولیاتی نظام بگڑنے لگتا ہے۔ آبی حیات، جیسے مچھلیاں، گھونگھے اور دوسرے جاندار ختم ہونے لگتے ہیں، اور زمین کی نمی کم ہو جاتی ہے۔ یہ عمل رفتہ رفتہ زمین کو بنجر بناتا ہے اور ریگستانی علاقوں میں اضافہ کرتا ہے۔ سندھ کے ساحلی اضلاع جیسے ٹھٹھہ اور بدین اس عمل کا شکار ہو چکے ہیں۔ وہاں سمندر کا کھارا پانی زمین کے اندرونی حصوں میں داخل ہو چکا ہے جس سے لاکھوں ایکڑ زرعی زمین ناقابلِ کاشت ہو چکی ہے۔

بھارت کی حکمت عملی بہت محتاط اور منصوبہ بندی پر مبنی ہے۔ وہ اس معاہدے کی تکنیکی باریکیوں کا فائدہ اٹھا کر ایسے ڈیمز بناتا ہے جنھیں ’’ رن آف دی ریور‘‘ کے زمرے میں لایا جاتا ہے، یعنی وہ بظاہر پانی ذخیرہ نہیں کرتے، بلکہ فوری بجلی پیدا کرتے ہیں۔ مگر اصل مقصد پانی پر کنٹرول حاصل کرنا ہے تاکہ پاکستان کو اس کے حق سے محروم رکھا جا سکے۔ یہ عمل درحقیقت ایک خاموش جنگ کے مترادف ہے، جو بغیر بندوق یا بارود کے لڑی جا رہی ہے لیکن اس کے اثرات کسی جنگ سے کم نہیں۔

پاکستان نے ان بھارتی منصوبوں کے خلاف کئی بار عالمی بینک اور بین الاقوامی ثالثی عدالتوں سے رجوع کیا ہے۔ کشن گنگا ڈیم کے خلاف پاکستان کو ایک حد تک کامیابی ملی تھی، لیکن بھارت نے عدالتی فیصلے کو مکمل طور پر تسلیم کرنے کے بجائے اسے نظرانداز کرتے ہوئے ڈیم کی تکمیل جاری رکھی۔ عالمی بینک جو اس معاہدے کا ضامن ہے، وہ بھی ان مسائل پر کوئی واضح مؤقف اختیار نہیں کر سکا۔ پاکستان کا یہ موقف بجا ہے کہ اگر ایسے تنازعات بروقت نہ روکے گئے تو وہ کسی بڑے بحران کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔

دنیا کے کئی خطے اس وقت پانی کی کمی کے شدید بحران کا شکار ہیں اور اقوام متحدہ کے ادارے یہ پیش گوئی کر چکے ہیں کہ اگلی عالمی جنگ پانی پر ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں جنوبی ایشیا جہاں پہلے ہی ایٹمی اسلحہ موجود ہے، اگر پانی کو بطور ہتھیار استعمال کیا جائے تو نتائج کسی قیامت سے کم نہ ہوں گے۔ عالمی برادری، اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور آبی تحفظ کے ادارے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور بھارت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ معاہدے کی روح کے مطابق رویہ اپنائے۔

پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ سفارتی محاذ پر اس مسئلے کو بھرپور انداز میں اجاگر کرے۔ بھارت کی آبی جارحیت کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر اس خطرے کو وقت پر نہ روکا گیا تو اس کے اثرات نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے پر مرتب ہوں گے۔پانی کے مسئلے پر سنجیدگی، تدبر، اور بین الاقوامی سطح پر حکمت عملی اپنانے کا وقت آ گیا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ کشیدگی دونوں ملکوں کے عوام کے مفاد میں ہے؟ کیا ہمیشہ جنگی ماحول اور دشمنی کی فضا میں رہ کر ہم اپنے بچوں کو ایک محفوظ، خوشحال اور ترقی یافتہ مستقبل دے سکتے ہیں؟ جواب واضح ہے: نہیں۔ آج کا دور مکالمے، تعاون اور سمجھوتے کا ہے۔

دنیا کے وہ ممالک جوکل تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، آج تجارت، تعلیم اور ترقی کے میدان میں ایک دوسرے کے شراکت دار ہیں۔ اگر یورپ، افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک اپنے اختلافات کو بات چیت کے ذریعے سلجھا سکتے ہیں تو پاکستان اور بھارت کیوں نہیں؟یہ حقیقت ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بنیادی مسائل کا حل محض جنگ یا الزام تراشی سے ممکن نہیں۔ کشمیر جیسے حساس مسئلے سمیت تمام تنازعات کے حل کے لیے ضروری ہے کہ فریقین ایک میز پر بیٹھیں، ایک دوسرے کا مؤقف سنیں اور سنجیدگی کے ساتھ حل تلاش کریں۔ امن کے راستے پر پہلا قدم ہمیشہ ’’مکالمہ‘‘ ہوتا ہے۔

اس وقت دونوں ملکوں کو داخلی مسائل، غربت، بیروزگاری، اور ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے وسائل کی ضرورت ہے، جو بدقسمتی سے دفاعی اخراجات اور اسلحے کی دوڑ میں صرف ہو رہے ہیں۔ اگر یہی وسائل تعلیم، صحت اور عوامی فلاح پر لگائے جائیں تو نہ صرف خطے میں خوشحالی آئے گی بلکہ ایک پائیدار امن کی بنیاد بھی رکھی جا سکتی ہے۔پاک بھارت کشیدگی کا خاتمہ صرف بندوق سے نہیں، بلکہ بات چیت سے ہی ممکن ہے۔ امن ایک خواب نہیں، ایک ضرورت ہے اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے مکالمہ ہی واحد راستہ ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان کے لیے سلامتی کونسل اقوام متحدہ ا بی جارحیت پاکستان نے اس معاہدے اور بھارت کے درمیان معاہدے کی بھارت کی بھارت نے ضرورت ہے متحدہ کی کرنے کے کے ساتھ پانی کی کو ایک ہے اور

پڑھیں:

سلامتی کونسل کا اجلاس؛ بھارت کے پاکستانی  دریاؤں کے پانی کا معاہدہ معطل کرنے پرتشویش

سٹی42:  اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے  سندھ طاس معاہدے کی معطلی پر تشویش اور تحفظات کا اظہار کیا ہے، سکیورٹی کونسل نے انڈیا اور پاکستان پر  فوجی تصادم سے بچاؤ اور سفارتی راستے اپنانے پر زور دیا ہے۔ 
 

اسلام آباد میں پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے نیویارک میں سکیورٹی کونسل کے پاکستان کی درخواست پر ہونے والے بند کمرے کے اجلاس کے بعد بتایا کہ  اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے سندھ طاس معاہدے کی معطلی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت پر فوجی تصادم سے بچاؤ اور سفارتی راستے اپنانے پر زور دیا ہے۔

ایل ڈی اے کمرشل و رہائشی پلاٹوں کی قرعہ اندازی؛ 744 درخواست گزار کامیاب

پاکستان کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بھارت کی جناب سے پاکستان کے خلاف بلا اشتعال جارحانہ اقدامات خصوصاً سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے اقدام سے پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال پر غور کرنے کے لئے خصوصی اجلاس ہوا جس میں خطےکی بگڑتی سکیورٹی صورتحال اور بھارتی اشتعال انگیزی اور جارحانہ حرکتوں پر غور  کیا گیا۔

سلامتی کونسل ارکان نے کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور فوجی تصادم سےبچاؤ اور سفارتی راستے اپنانے کی ضرورت پر زور دیا۔

تین ماہ کے دورا ن302 پولیس مقابلے

کشمیر عدم استحکام کی بنیادی وجہ

سکیورٹی کونسل کے  کئی ارکان نے مسئلہ کشمیر کوعلاقائی عدم استحکام کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیرکو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کےمطابق حل ہوناچاہیے۔

پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ اجلاس میں پاکستانی مندوب نے بھارت کی 23 اپریل کی یکطرفہ کارروائیوں پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کے اشتعال انگیز اقدامات کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔

ہائی سکولوں کے انچارج ہیڈز کو ہیڈماسٹرز کا عہدہ نہ مل سکا

بھارت بلا اشتعال  فوجی جارحیت کر سکتا ہے

پاکستان نے سکیورٹی کونسل کو بتایا کہ  انٹیلیجنس اطلاعات میں بھارت کی ممکنہ جارحیت اور فوجی کارروائی کاخدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ پاکستانی مندوب نے حالیہ سالوں کے دوران  بھارت کی ریاستی دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگز کا بھی حوالہ دیا۔

 پاکستان نے سلامتی کونسل کے ارکان کو بتایا کہ پاکستان اپنی خودمختاری کے دفاع کے لیے  تیار ہے۔ کسی بھی  جارحیت کی صورت میں پاکستان اقوام متحدہ چارٹرکے تحت دفاع کا حق رکھتا ہے۔

 جنگ بندی کی بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں, اسرائیل قبضہ کرنا چاہتا ہے، حماس کا بیان

پہلگام واقعہ پر انڈیا کے الزامات مسترد

 پاکستان نے پہلگام حملے سے متعلق بھارتی الزامات کو سختی سے مسترد کر دیا، بغیر تحقیق اور ثبوت کے الزامات لگانا قابل مذمت ہے، بھارت ایسے واقعات کا استعمال کشمیری جدوجہد کو کمزور کرنے کے لیے کرتا ہے۔

دریاؤں کا پانی روکنا یا رخ موڑنا جنگ کے مترادف

 پاکستانی مندوب نے واضح کیا کہ سندھ طاس معاہدہ کو معطل کرنا بھارت کی خطرناک چال ہے، دریاؤں کے بہاؤ کو روکنا یا موڑنا جنگ کے مترادف ہوگا اور سلامتی کونسل ارکان نے بھی سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے پر تحفظات کااظہار کیا۔

 پاکستان نے سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی ثالثی کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی برادری فوری طور پر ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔

Waseem Azmet

متعلقہ مضامین

  • بھارت کا پانی صرف بھارت استعمال کرے گا؛ مودی کی ایک بار پھر پانی بند کرنے کی دھمکی
  • سلامتی کونسل کا اجلاس؛ بھارت کے پاکستانی  دریاؤں کے پانی کا معاہدہ معطل کرنے پرتشویش
  • بھارت سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کا پانی بند نہیں کرسکتا: سید جماعت علی شاہ
  • بھارت کو پانی بطور ہتھیار استعمال کرنے کی قیمت چکانی پڑے گی: شیری رحمان
  • بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی ’خلاف ورزی شروع‘
  • بھارت نے پاکستان کا پانی روکنا شروع کر دیا، دریائے چناب میں پانی کے بہا ﺅ میں کمی
  • آبی تنازعہ‘ خطے میں ورلڈ آرڈر کو خراب کرنے کی مثال قائم ہو گئی: بی بی سی  
  • بھارت کی پانی کو ہتھیار بنانے کی ایک اور کوشش، بگلیہار ڈیم میں رخنے بازی، چناب میں بہاؤ کم
  • نئی دہلی کی نئی اششتعال انگیزی؛  بھارت نے چناب کا پانی روکنے کا آغاز کر دیا