پاکستان نے پہلگام واقعہ کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اعتماد میں لیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بند کمرہ اجلاس میں بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق سلامتی کونسل کے ارکان نے کشیدگی کو کم کرنے، فوجی محاذ آرائی، تنازعات سے بچنے اور مسائل کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے بات چیت اور سفارت کاری پر زور دیا۔ ترجمان نے واضح کیا کہ دریاؤں کا بہاؤ روکنا یا اس کا رخ موڑنا دراصل جنگ کے مترادف ہوگا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی نے عالمی برادری کو ایک بار پھر اس حقیقت کا ادراک کرایا ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن کا قیام محض دو ہمسایہ ممالک کی خواہش پر منحصر نہیں بلکہ اس کے لیے عالمی اداروں کی فعال مداخلت اور مؤثر سفارت کاری کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا حالیہ اجلاس اس بات کا غماز ہے کہ عالمی برادری اس خطے میں امن کے لیے سنجیدہ ہے، اس اجلاس میں پاکستان کی جانب سے پیش کردہ شواہد اور مؤقف نے ایک نئی سفارتی جہت اختیار کی ہے۔
پاکستان نے اس اجلاس میں بھارت کی اشتعال انگیزیوں کے ٹھوس ثبوت پیش کیے ہیں، جن میں لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال فائرنگ، آبی جارحیت کے اقدامات اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں شامل ہیں۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ بھارت کی پے در پے اشتعال انگیزیاں خطے میں امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
پاکستان کا مؤقف واضح ہے کہ جنگ کے ہولناک اثرات سے کوئی نہیں بچے گا۔ پاکستان نے ہمیشہ امن کی خواہش ظاہر کی ہے اور خطے میں استحکام کے لیے اپنی بھرپور کوششیں کی ہیں۔ پاکستان کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت کی حمایت کرتا ہے اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل چاہتا ہے۔
جنوبی ایشیا میں امن، سلامتی اور ترقی کے لیے پانی کی منصفانہ تقسیم ایک بنیادی ضرورت ہے۔ اس خطے میں واقع ممالک نہ صرف کثیر آبادی پر مشتمل ہیں بلکہ ان کی معیشتوں کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے، اور زراعت کا انحصار پانی پر۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی دہائیوں پر محیط تنازعات میں پانی ایک ایسا مسئلہ ہے جو شاید سب سے کم آواز کے ساتھ مگر سب سے زیادہ اثر کے ساتھ موجود ہے۔ بھارت کی آبی جارحیت پاکستان کے لیے ایک مستقل خطرہ بن چکی ہے۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی آبی مسئلہ اس خطے میں پیدا ہوگیا تھا۔ بھارت نے 1948 میں مشرقی دریاؤں کا پانی روک کر پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔ اس عمل نے پاکستان کی زراعت، معیشت اور شہری زندگی کو سخت متاثر کیا۔ اس بحران کے بعد عالمی بینک کی ثالثی سے 1960 میں ایک معاہدہ طے پایا جسے معاہدہ سندھ طاس کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت دریاؤں کی تقسیم عمل میں آئی جس میں راوی، بیاس اور ستلج بھارت کو دیے گئے جب کہ سندھ، چناب اور جہلم پاکستان کے لیے مخصوص کیے گئے۔
اس معاہدے کو اس وقت دنیا کا سب سے کامیاب آبی معاہدہ قرار دیا گیا کیونکہ اس نے دو متحارب ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کے مسئلے کو ایک فریم ورک میں ڈھالا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بھارت نے اس معاہدے کی اصل روح کو پس پشت ڈال کر ایسے اقدامات کرنے شروع کیے جو بظاہر قانونی دائرے میں آتے ہیں لیکن حقیقت میں پاکستان کے پانی کے حقوق پر قبضہ کرنے کی کوشش ہیں۔ بھارت نے مغربی دریاؤں پر یکے بعد دیگرے کئی ڈیمز بنائے جن میں بگلیہار، کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس نمایاں ہیں۔
ان ڈیمز کے ذریعے بھارت پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے قابل ہو گیا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو پاکستان کے لیے نہایت تشویش ناک ہے۔ ان منصوبوں سے پاکستان کو خدشہ ہے کہ بھارت خشک سالی کے موسم میں پانی روک سکتا ہے اور سیلاب کے دنوں میں غیر متوقع طور پر پانی چھوڑ کر تباہی پھیلا سکتا ہے۔ بھارت کی جانب سے پانی کا بہاؤ روکنے یا کم کرنے سے پاکستان کی زرعی پیداوار شدید متاثر ہوتی ہے۔ خاص طور پر چناب اور جہلم جیسے دریا، جو پاکستان کے زرخیز علاقوں کو سیراب کرتے ہیں، جب ان کے پانی کی روانی متاثر ہوتی ہے تو لاکھوں کسانوں کا روزگار، ملکی غذائی تحفظ اور برآمدات متاثر ہوتی ہیں۔
آبی جارحیت کے اثرات صرف زراعت تک محدود نہیں۔ جب دریا خشک ہونے لگتے ہیں تو ماحولیاتی نظام بگڑنے لگتا ہے۔ آبی حیات، جیسے مچھلیاں، گھونگھے اور دوسرے جاندار ختم ہونے لگتے ہیں، اور زمین کی نمی کم ہو جاتی ہے۔ یہ عمل رفتہ رفتہ زمین کو بنجر بناتا ہے اور ریگستانی علاقوں میں اضافہ کرتا ہے۔ سندھ کے ساحلی اضلاع جیسے ٹھٹھہ اور بدین اس عمل کا شکار ہو چکے ہیں۔ وہاں سمندر کا کھارا پانی زمین کے اندرونی حصوں میں داخل ہو چکا ہے جس سے لاکھوں ایکڑ زرعی زمین ناقابلِ کاشت ہو چکی ہے۔
بھارت کی حکمت عملی بہت محتاط اور منصوبہ بندی پر مبنی ہے۔ وہ اس معاہدے کی تکنیکی باریکیوں کا فائدہ اٹھا کر ایسے ڈیمز بناتا ہے جنھیں ’’ رن آف دی ریور‘‘ کے زمرے میں لایا جاتا ہے، یعنی وہ بظاہر پانی ذخیرہ نہیں کرتے، بلکہ فوری بجلی پیدا کرتے ہیں۔ مگر اصل مقصد پانی پر کنٹرول حاصل کرنا ہے تاکہ پاکستان کو اس کے حق سے محروم رکھا جا سکے۔ یہ عمل درحقیقت ایک خاموش جنگ کے مترادف ہے، جو بغیر بندوق یا بارود کے لڑی جا رہی ہے لیکن اس کے اثرات کسی جنگ سے کم نہیں۔
پاکستان نے ان بھارتی منصوبوں کے خلاف کئی بار عالمی بینک اور بین الاقوامی ثالثی عدالتوں سے رجوع کیا ہے۔ کشن گنگا ڈیم کے خلاف پاکستان کو ایک حد تک کامیابی ملی تھی، لیکن بھارت نے عدالتی فیصلے کو مکمل طور پر تسلیم کرنے کے بجائے اسے نظرانداز کرتے ہوئے ڈیم کی تکمیل جاری رکھی۔ عالمی بینک جو اس معاہدے کا ضامن ہے، وہ بھی ان مسائل پر کوئی واضح مؤقف اختیار نہیں کر سکا۔ پاکستان کا یہ موقف بجا ہے کہ اگر ایسے تنازعات بروقت نہ روکے گئے تو وہ کسی بڑے بحران کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔
دنیا کے کئی خطے اس وقت پانی کی کمی کے شدید بحران کا شکار ہیں اور اقوام متحدہ کے ادارے یہ پیش گوئی کر چکے ہیں کہ اگلی عالمی جنگ پانی پر ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں جنوبی ایشیا جہاں پہلے ہی ایٹمی اسلحہ موجود ہے، اگر پانی کو بطور ہتھیار استعمال کیا جائے تو نتائج کسی قیامت سے کم نہ ہوں گے۔ عالمی برادری، اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور آبی تحفظ کے ادارے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور بھارت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ معاہدے کی روح کے مطابق رویہ اپنائے۔
پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ سفارتی محاذ پر اس مسئلے کو بھرپور انداز میں اجاگر کرے۔ بھارت کی آبی جارحیت کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر اس خطرے کو وقت پر نہ روکا گیا تو اس کے اثرات نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے پر مرتب ہوں گے۔پانی کے مسئلے پر سنجیدگی، تدبر، اور بین الاقوامی سطح پر حکمت عملی اپنانے کا وقت آ گیا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ کشیدگی دونوں ملکوں کے عوام کے مفاد میں ہے؟ کیا ہمیشہ جنگی ماحول اور دشمنی کی فضا میں رہ کر ہم اپنے بچوں کو ایک محفوظ، خوشحال اور ترقی یافتہ مستقبل دے سکتے ہیں؟ جواب واضح ہے: نہیں۔ آج کا دور مکالمے، تعاون اور سمجھوتے کا ہے۔
دنیا کے وہ ممالک جوکل تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، آج تجارت، تعلیم اور ترقی کے میدان میں ایک دوسرے کے شراکت دار ہیں۔ اگر یورپ، افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک اپنے اختلافات کو بات چیت کے ذریعے سلجھا سکتے ہیں تو پاکستان اور بھارت کیوں نہیں؟یہ حقیقت ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بنیادی مسائل کا حل محض جنگ یا الزام تراشی سے ممکن نہیں۔ کشمیر جیسے حساس مسئلے سمیت تمام تنازعات کے حل کے لیے ضروری ہے کہ فریقین ایک میز پر بیٹھیں، ایک دوسرے کا مؤقف سنیں اور سنجیدگی کے ساتھ حل تلاش کریں۔ امن کے راستے پر پہلا قدم ہمیشہ ’’مکالمہ‘‘ ہوتا ہے۔
اس وقت دونوں ملکوں کو داخلی مسائل، غربت، بیروزگاری، اور ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے وسائل کی ضرورت ہے، جو بدقسمتی سے دفاعی اخراجات اور اسلحے کی دوڑ میں صرف ہو رہے ہیں۔ اگر یہی وسائل تعلیم، صحت اور عوامی فلاح پر لگائے جائیں تو نہ صرف خطے میں خوشحالی آئے گی بلکہ ایک پائیدار امن کی بنیاد بھی رکھی جا سکتی ہے۔پاک بھارت کشیدگی کا خاتمہ صرف بندوق سے نہیں، بلکہ بات چیت سے ہی ممکن ہے۔ امن ایک خواب نہیں، ایک ضرورت ہے اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے مکالمہ ہی واحد راستہ ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان کے لیے سلامتی کونسل اقوام متحدہ ا بی جارحیت پاکستان نے اس معاہدے اور بھارت کے درمیان معاہدے کی بھارت کی بھارت نے ضرورت ہے متحدہ کی کرنے کے کے ساتھ پانی کی کو ایک ہے اور
پڑھیں:
اسلامی دفاعی و سیاسی اتحاد کی تشکیل پر غور ضروری ہے، علامہ مقصود ڈومکی
جیکب آباد میں نماز جمعہ سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ تمام اسلامی ممالک کو آپس میں تعاون اور یکجہتی کو فروغ دینا چاہیے تاکہ مشترکہ مسائل کا حل ممکن ہو۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ اصحاب آئمہؑ نے آئمہ اہل البیتؑ کی پاکیزہ تعلیمات اور حقیقی اسلام کی ترویج کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے حضرت امامِ محمد باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی خدمات کو دنیا تک پہنچانے میں حضرت محمد بن مسلم ثقفی، حضرت زرارہ بن عین، حضرت ابو بصیر اور حضرت برید بن معاویہ العجلیؒ جیسی شخصیات کے کردار کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کی خدمات کو سنہری حروف میں لکھنے کے قابل قرار دیا۔ جیکب آباد میں نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ حضرت محمد بن مسلم ثقفی نے امام محمد باقر علیہ السلام سے تیس ہزار اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے سولہ ہزار روایات نقل کیں۔ یہ وہ خزانے ہیں جن کے ذریعے اہل بیت علیہ السلام کے علم کی روشنی آج بھی عالم انسانیت تک پہنچ رہی ہے۔
انہوں نے اصحاب ائمہؑ میں حضرت ابو حمزہ ثمالی اور حضرت سعید بن جبیرؓ کے بلند مقام کا ذکر کیا اور حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے اس جملے کی طرف اشارہ کیا کہ ابو حمزہ ثمالی اپنے زمانے کے سلمان فارسی ہیں۔ علامہ مقصود علی ڈومکی نے دنیا کے موجودہ سیاسی منظرنامے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عرب حکمران اپنے ہی عوام اور قوموں سے خوفزدہ ہیں۔ کیونکہ ان بادشاہوں نے ملکی وسائل کو ذاتی بنا کر یورپ میں سرمایہ گذاری کی ہے۔ یہ عوامی حقوق اور آزادیوں کو پامال کر رہے ہیں، اور عوامی بیداری، انقلاب یا آزادانہ انتخابات سے خوفزدہ عرب حکمران امریکی اور اسرائیلی غلامی پر راضی ہیں۔ اور یہ عرب بادشاہ اسرائیل اور امریکا کے خلاف عملی قدم اٹھانے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام اسلامی ممالک کو آپس میں تعاون اور یکجہتی کو فروغ دینا چاہیے تاکہ مشترکہ مسائل کا حل ممکن ہو۔
انکا کہنا تھا کہ اسلامی دفاعی و سیاسی اتحاد (اسلامی نیٹو) کی تشکیل پر غور ضروری ہے، مگر ایسی تنظیم تبھی بامقصد ہوگی جب وہ کسی بیرونی قوت خصوصاً امریکا کے غلامانہ مفادات کی نگہبانی کی بجائے امتِ مسلمہ کے مفادات کی محافظ ہو۔ انہوں نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک خصوصاً متحدہ عرب امارات کو بھارت کی بجائے مسلمان ممالک خصوصاً پاکستان سے اپنے تعلقات کو بڑھانا چاہئے۔ کیونکہ بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ امت مسلمہ کے لئے خطرہ ہے۔ علامہ مقصود علی ڈومکی نے اقوام عالم، حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ کے قتل عام کو رکوائیں، غزہ کی ناکہ بندی اور قحط کو ختم کریں اور دنیا کے چوالیس ممالک کے امدادی کارواں کی غزہ کے لئے امداد پہنچانے کی جدوجہد کی بھرپور حمایت کریں، اور گلوبل صمود فلوٹیلا کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔