Express News:
2025-08-06@00:59:12 GMT

امن کے لیے مکالمہ ضروری

اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT

پاکستان نے پہلگام واقعہ کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اعتماد میں لیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بند کمرہ اجلاس میں بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیا ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق سلامتی کونسل کے ارکان نے کشیدگی کو کم کرنے، فوجی محاذ آرائی، تنازعات سے بچنے اور مسائل کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے بات چیت اور سفارت کاری پر زور دیا۔ ترجمان نے واضح کیا کہ دریاؤں کا بہاؤ روکنا یا اس کا رخ موڑنا دراصل جنگ کے مترادف ہوگا۔

 پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی نے عالمی برادری کو ایک بار پھر اس حقیقت کا ادراک کرایا ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن کا قیام محض دو ہمسایہ ممالک کی خواہش پر منحصر نہیں بلکہ اس کے لیے عالمی اداروں کی فعال مداخلت اور مؤثر سفارت کاری کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا حالیہ اجلاس اس بات کا غماز ہے کہ عالمی برادری اس خطے میں امن کے لیے سنجیدہ ہے، اس اجلاس میں پاکستان کی جانب سے پیش کردہ شواہد اور مؤقف نے ایک نئی سفارتی جہت اختیار کی ہے۔

پاکستان نے اس اجلاس میں بھارت کی اشتعال انگیزیوں کے ٹھوس ثبوت پیش کیے ہیں، جن میں لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال فائرنگ، آبی جارحیت کے اقدامات اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں شامل ہیں۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ بھارت کی پے در پے اشتعال انگیزیاں خطے میں امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔

پاکستان کا مؤقف واضح ہے کہ جنگ کے ہولناک اثرات سے کوئی نہیں بچے گا۔ پاکستان نے ہمیشہ امن کی خواہش ظاہر کی ہے اور خطے میں استحکام کے لیے اپنی بھرپور کوششیں کی ہیں۔ پاکستان کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت کی حمایت کرتا ہے اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل چاہتا ہے۔

 جنوبی ایشیا میں امن، سلامتی اور ترقی کے لیے پانی کی منصفانہ تقسیم ایک بنیادی ضرورت ہے۔ اس خطے میں واقع ممالک نہ صرف کثیر آبادی پر مشتمل ہیں بلکہ ان کی معیشتوں کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے، اور زراعت کا انحصار پانی پر۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی دہائیوں پر محیط تنازعات میں پانی ایک ایسا مسئلہ ہے جو شاید سب سے کم آواز کے ساتھ مگر سب سے زیادہ اثر کے ساتھ موجود ہے۔ بھارت کی آبی جارحیت پاکستان کے لیے ایک مستقل خطرہ بن چکی ہے۔

قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی آبی مسئلہ اس خطے میں پیدا ہوگیا تھا۔ بھارت نے 1948 میں مشرقی دریاؤں کا پانی روک کر پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔ اس عمل نے پاکستان کی زراعت، معیشت اور شہری زندگی کو سخت متاثر کیا۔ اس بحران کے بعد عالمی بینک کی ثالثی سے 1960 میں ایک معاہدہ طے پایا جسے معاہدہ سندھ طاس کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت دریاؤں کی تقسیم عمل میں آئی جس میں راوی، بیاس اور ستلج بھارت کو دیے گئے جب کہ سندھ، چناب اور جہلم پاکستان کے لیے مخصوص کیے گئے۔

اس معاہدے کو اس وقت دنیا کا سب سے کامیاب آبی معاہدہ قرار دیا گیا کیونکہ اس نے دو متحارب ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کے مسئلے کو ایک فریم ورک میں ڈھالا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بھارت نے اس معاہدے کی اصل روح کو پس پشت ڈال کر ایسے اقدامات کرنے شروع کیے جو بظاہر قانونی دائرے میں آتے ہیں لیکن حقیقت میں پاکستان کے پانی کے حقوق پر قبضہ کرنے کی کوشش ہیں۔ بھارت نے مغربی دریاؤں پر یکے بعد دیگرے کئی ڈیمز بنائے جن میں بگلیہار، کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس نمایاں ہیں۔

ان ڈیمز کے ذریعے بھارت پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے قابل ہو گیا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو پاکستان کے لیے نہایت تشویش ناک ہے۔ ان منصوبوں سے پاکستان کو خدشہ ہے کہ بھارت خشک سالی کے موسم میں پانی روک سکتا ہے اور سیلاب کے دنوں میں غیر متوقع طور پر پانی چھوڑ کر تباہی پھیلا سکتا ہے۔ بھارت کی جانب سے پانی کا بہاؤ روکنے یا کم کرنے سے پاکستان کی زرعی پیداوار شدید متاثر ہوتی ہے۔ خاص طور پر چناب اور جہلم جیسے دریا، جو پاکستان کے زرخیز علاقوں کو سیراب کرتے ہیں، جب ان کے پانی کی روانی متاثر ہوتی ہے تو لاکھوں کسانوں کا روزگار، ملکی غذائی تحفظ اور برآمدات متاثر ہوتی ہیں۔

آبی جارحیت کے اثرات صرف زراعت تک محدود نہیں۔ جب دریا خشک ہونے لگتے ہیں تو ماحولیاتی نظام بگڑنے لگتا ہے۔ آبی حیات، جیسے مچھلیاں، گھونگھے اور دوسرے جاندار ختم ہونے لگتے ہیں، اور زمین کی نمی کم ہو جاتی ہے۔ یہ عمل رفتہ رفتہ زمین کو بنجر بناتا ہے اور ریگستانی علاقوں میں اضافہ کرتا ہے۔ سندھ کے ساحلی اضلاع جیسے ٹھٹھہ اور بدین اس عمل کا شکار ہو چکے ہیں۔ وہاں سمندر کا کھارا پانی زمین کے اندرونی حصوں میں داخل ہو چکا ہے جس سے لاکھوں ایکڑ زرعی زمین ناقابلِ کاشت ہو چکی ہے۔

بھارت کی حکمت عملی بہت محتاط اور منصوبہ بندی پر مبنی ہے۔ وہ اس معاہدے کی تکنیکی باریکیوں کا فائدہ اٹھا کر ایسے ڈیمز بناتا ہے جنھیں ’’ رن آف دی ریور‘‘ کے زمرے میں لایا جاتا ہے، یعنی وہ بظاہر پانی ذخیرہ نہیں کرتے، بلکہ فوری بجلی پیدا کرتے ہیں۔ مگر اصل مقصد پانی پر کنٹرول حاصل کرنا ہے تاکہ پاکستان کو اس کے حق سے محروم رکھا جا سکے۔ یہ عمل درحقیقت ایک خاموش جنگ کے مترادف ہے، جو بغیر بندوق یا بارود کے لڑی جا رہی ہے لیکن اس کے اثرات کسی جنگ سے کم نہیں۔

پاکستان نے ان بھارتی منصوبوں کے خلاف کئی بار عالمی بینک اور بین الاقوامی ثالثی عدالتوں سے رجوع کیا ہے۔ کشن گنگا ڈیم کے خلاف پاکستان کو ایک حد تک کامیابی ملی تھی، لیکن بھارت نے عدالتی فیصلے کو مکمل طور پر تسلیم کرنے کے بجائے اسے نظرانداز کرتے ہوئے ڈیم کی تکمیل جاری رکھی۔ عالمی بینک جو اس معاہدے کا ضامن ہے، وہ بھی ان مسائل پر کوئی واضح مؤقف اختیار نہیں کر سکا۔ پاکستان کا یہ موقف بجا ہے کہ اگر ایسے تنازعات بروقت نہ روکے گئے تو وہ کسی بڑے بحران کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔

دنیا کے کئی خطے اس وقت پانی کی کمی کے شدید بحران کا شکار ہیں اور اقوام متحدہ کے ادارے یہ پیش گوئی کر چکے ہیں کہ اگلی عالمی جنگ پانی پر ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں جنوبی ایشیا جہاں پہلے ہی ایٹمی اسلحہ موجود ہے، اگر پانی کو بطور ہتھیار استعمال کیا جائے تو نتائج کسی قیامت سے کم نہ ہوں گے۔ عالمی برادری، اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور آبی تحفظ کے ادارے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور بھارت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ معاہدے کی روح کے مطابق رویہ اپنائے۔

پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ سفارتی محاذ پر اس مسئلے کو بھرپور انداز میں اجاگر کرے۔ بھارت کی آبی جارحیت کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر اس خطرے کو وقت پر نہ روکا گیا تو اس کے اثرات نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے پر مرتب ہوں گے۔پانی کے مسئلے پر سنجیدگی، تدبر، اور بین الاقوامی سطح پر حکمت عملی اپنانے کا وقت آ گیا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ کشیدگی دونوں ملکوں کے عوام کے مفاد میں ہے؟ کیا ہمیشہ جنگی ماحول اور دشمنی کی فضا میں رہ کر ہم اپنے بچوں کو ایک محفوظ، خوشحال اور ترقی یافتہ مستقبل دے سکتے ہیں؟ جواب واضح ہے: نہیں۔ آج کا دور مکالمے، تعاون اور سمجھوتے کا ہے۔

دنیا کے وہ ممالک جوکل تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، آج تجارت، تعلیم اور ترقی کے میدان میں ایک دوسرے کے شراکت دار ہیں۔ اگر یورپ، افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک اپنے اختلافات کو بات چیت کے ذریعے سلجھا سکتے ہیں تو پاکستان اور بھارت کیوں نہیں؟یہ حقیقت ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بنیادی مسائل کا حل محض جنگ یا الزام تراشی سے ممکن نہیں۔ کشمیر جیسے حساس مسئلے سمیت تمام تنازعات کے حل کے لیے ضروری ہے کہ فریقین ایک میز پر بیٹھیں، ایک دوسرے کا مؤقف سنیں اور سنجیدگی کے ساتھ حل تلاش کریں۔ امن کے راستے پر پہلا قدم ہمیشہ ’’مکالمہ‘‘ ہوتا ہے۔

اس وقت دونوں ملکوں کو داخلی مسائل، غربت، بیروزگاری، اور ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے وسائل کی ضرورت ہے، جو بدقسمتی سے دفاعی اخراجات اور اسلحے کی دوڑ میں صرف ہو رہے ہیں۔ اگر یہی وسائل تعلیم، صحت اور عوامی فلاح پر لگائے جائیں تو نہ صرف خطے میں خوشحالی آئے گی بلکہ ایک پائیدار امن کی بنیاد بھی رکھی جا سکتی ہے۔پاک بھارت کشیدگی کا خاتمہ صرف بندوق سے نہیں، بلکہ بات چیت سے ہی ممکن ہے۔ امن ایک خواب نہیں، ایک ضرورت ہے اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے مکالمہ ہی واحد راستہ ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان کے لیے سلامتی کونسل اقوام متحدہ ا بی جارحیت پاکستان نے اس معاہدے اور بھارت کے درمیان معاہدے کی بھارت کی بھارت نے ضرورت ہے متحدہ کی کرنے کے کے ساتھ پانی کی کو ایک ہے اور

پڑھیں:

بھارت کی سیاسی اور سفارتی مشکلات

بھارت کی پاکستان مخالف مہم جوئی ، جنگی جنوں اور سیاسی ایڈونچر نے اسے اپنے داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر سیاسی تنہائی میں مبتلا کردیا ہے۔

بھارت کی سطح پر یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ نریندر مودی کے حالیہ اقدامات نے اس کے لیے بہت سی سیاسی و سفارتی مشکلات کوبڑھادیا ہے۔یہ ہی وجہ ہے نریندر مودی اور بی جے پی کی حکومت کو اپنی ہی پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کی جماعتوں سے سخت تنقید کا سامنا ہے اور مودی سمیت ان کی حکومت اپنے اوپر اٹھنے والے سوالوں کا جواب دینے میں ناکامی سے دوچارہے۔بھارت کی لوک سبھا میں پہلگام اور رافیل سمیت آپریشن مہادیوپربھارت کی حزب اختلاف کے تابڑ توڑ حملوں نے بی جے پی کی حکومت کو لاجواب کردیا ہے۔

بھارتی اپوزیشن نے بی جے پی کی حکومت کو دفاعی پوزیشن پر کھڑا کردیا ہے ۔بھارت کی حزب اختلاف کی جماعتوں نے مودی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ ڈر اور خوف سے باہر نکل کر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعتراف کی تردید کرے کہ اس نے جنگ بندی کے لیے امریکی صدر سے مدد کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔اسی طرح حزب اختلاف کی جماعتوں نے مودی حکومت کی جانب سے پاکستان پر حملہ اور ان کی نااہلی سمیت کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر کڑی تنقید کی ہے۔

بھارت کے لیے یہ مسئلہ محض مخالف سیاسی جماعتوں تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی پہلگام واقعہ کی بنیاد پر پاکستان پر حملہ آور ہونے یا جنگ بندی میں پہل کرنے پر سخت تنقید کا مسئلہ ہے۔

ان کے بقول بھارت کے پاس پہلگام واقعہ پر ایسے کوئی ٹھوس شواہد نہیں تھے جو یہ ثابت کرسکتے تھے کہ پہلگام واقعہ میں پاکستان ملوث تھا۔بھارت کی اپوزیشن جماعت کے راہنما فرانسز جارج نے کہا کہ دنیا چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ پاکستان نے کم از کم بھارت کے تین رافیل، ایس یوتھرٹی ایم کے آئی ،اور ایک ایم آئی جی ٹوینٹی نائن مار گرائے ہیں ۔مگر وزیر دفاع کہتے ہیں کہ ہم سے سوال نہ پوچھیں کہ ہمارے کتنے طیارے گرے ہیں بلکہ یہ پوچھیں کہ ہم نے اپنا مقصد پورا کیا ہے یا نہیں ۔

اسی طرح بھارت سے یہ سوالات بھی پوچھے جارہے ہیں کہ پہلگام واقعہ پر بھارت نے کیا کچھ کھویا ہے اور ٹرمپ کی جنگ بندی کی تجویز فوراً کیوں قبول کی۔اگر دہشت گرد وہی تھے جن کا نام پہلے دن پولیس نے دیا تھا تو این ای آئی نے ان کی تردید کیوں کی ۔اگر تردید کی تو پھر تین ماہ بعد وہی لوگ دہشت گرد کیسے بن گئے اور اگر ابو حمزہ اور زاکر وغیرہ کل تک بھارتی میڈیا کے مطابق ہلاک ہوچکے تھے تو پھر آج امیت شاہ افغان اور جابر نامی لوگوں کے نام کیوں لے رہا ہے۔سب سے بڑھ کر چاکلیٹ کو بطور ثبوت پیش کرنے والی این آئی اے کو کوئی مصدقہ تحقیقاتی ایجنسی کیسے تسلیم کرے جب کینیڈا حکومت اور خود بھارتی عدالت ممبئی دھماکوں کیس میں ان کی تفتیش کو ردی کی ٹوکری میں ڈال چکی ہو۔

اسی طرح سے سفارتی محاذ پر بھارت کو اپنے بیانیہ کی سیاسی ناکامی کا سامنا ہے اور جو پارلیمانی وفد بھارت نے عالمی دنیا میں اپنی ساکھ قائم رکھنے کے لیے بھیجا تھا اسے بھی مطلوبہ نتائج نہیں مل سکے۔سب سے زیادہ پریشانی بھارت کے لیے امریکی صدر کا وہ طرز عمل ہے جو بھارت کی مخالفت میں اور پاکستان کی حمایت میں بالادست نظر آتا ہے۔

بھارت کو اس بات پر سخت تشویش ہے کہ اس کا اسٹرٹیجک اور اہم پارٹنر امریکا کا جھکاؤ پاکستان کی حمایت میں بڑھ رہا ہے اور اس میںغیر معمولی اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان جو اہم تجارتی معاہدہ ہونے جارہا ہے اس پر بھی بھارت میں کافی تشویش پائی جاتی ہے۔امریکی صدر کے بقول واشنگٹن اور اسلام آباد تیل کے بڑے ذخائر کی ترقی کے لیے مل کر کام کریں گے۔

امریکی صدر کے اس بیان پر روس سے مسلسل فوجی ساز وسامان اور تیل خریداری پر انڈیا کو جرمانہ بھی دینا ہوگا اور ایران سے تیل خریدنے والی سات بھارتی کمپنیوں پر پابندی اور نئے امریکی ٹیرف پر بھارت کو سخت پریشانی کا سامنا ہے۔ بھارت کو اس بات پر بھی پریشانی ہے کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں کہ اچانک امریکا کو بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی ضرورت پڑگئی ہے اور بھارت اس کی ترجیحات میں پیچھے نظر آتا ہے۔

پاکستان کے فوجی سربراہ اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ بھارت کی پاکستان مخالف حالیہ مہم جوئی کی ناکامی کے بعد اسے اس کی پراکسیزجو بلوچستان اور پختونخواہ میں جاری ہیں اسے بھی ہائبرڈ جنگ میں ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انھوں نے تسلیم کیا کہ معرکہ حق میں شکست کے بعد بھارت نے پاکستان میں اپنی پراکسی جنگ بڑھا دی ہے اور فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان اس کے مہرے بنے ہوئے ہیں اور ہمیں اس سے ہر سطح پر خبردار رہنا ہوگا۔بھارت میں اس بات پر بھی تشویش پائی جاتی ہے کہ اس علاقائی سیاست میں جو اس کی سیاسی سطح پر حاکمیت کا تاثر یا امیج بنا ہوا تھا وہ عالمی اور علاقائی سیاست میں کمزور ہوا ہے اور پاکستان کی علاقائی اور عالمی حیثیت میں اضافہ ہوا ہے جو یقینی طور پر بھارت کے لیے قابل قبول نہیں ہوگی۔اسی طرح بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی عالمی سطح پر دفاعی صلاحیتوں کا اعتراف بھی یقیناً بھارت کے لیے بڑا سیاسی دھچکا ہے۔

کیونکہ بھارت تو پاکستان کے خلاف اپنی مہم جوئی کی بنیاد پر ایک عالمی تصور یہ باور کروانا چاہتا تھا کہ وہ ہی اصل طاقت ہے اور بڑی طاقتوں کو ہماری طرف ہی دیکھنا ہوگا۔لیکن اب بھارت کی صورتحال وہ نہیں ہے جو پاکستان پر حملہ کرنے سے پہلے کی تھی اور اب پاکستان اس کے مقابلے میں ایک نئی دفاعی طاقت کے طور پر سامنے آیا ہے۔

پاکستان کو اب بھی بھارت سے خبردار رہنا ہوگا جو پاکستان کی مخالفت میں اور زیادہ آگے بڑھ گیا ہے۔کیونکہ بھارت کوپاکستان کی مضبوطی اور عالمی سطح پر اس کی قبولیت کسی بھی طور پر قبول نہیں ۔

متعلقہ مضامین

  • عالمی سطح پر بھارت کی دوغلی پالیسی
  • حکومت اربعین کے لئے ایران اور عراق جانے والے زائرین کی سہولت کے لئے تمام ضروری اقدامات کر رہی ہے، وزیردفاع
  • بھارت پر مزید ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی؛ روس کا بڑا بیان سامنے آگیا
  • پاکستان کی ڈیجیٹل ڈرائیو کو معاشی گیم چینجر میں بدلنے کے لیے مستقل پالیسیاں ضروری ہیں. ماہرین
  • ایران میں گرمی کی شدید لہر، دفاتر بند کرنے کا حکم
  • مودی کے غیرقانونی اقدام کو 6 سال مکمل، پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج یوم استحصال کشمیر
  • بھارت کی سیاسی اور سفارتی مشکلات
  • راول ڈیم کے اسپل ویز دوبارہ کھولنے کا فیصلہ
  • گڈانی کے سمندر کا پانی اچانک گلابی ہوگیا
  • نوعمرلڑکیوں میں سروائیکل کینسرکی ویکسینیشن کیوں ضروری ہے؟