اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 07 مئی 2025ء ) پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ آئین اور قانون کے ساتھ کھلواڑ کرکے سویلینز کا ملیٹری ٹرائل جائز قرار دیدیا گیا۔ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے ترجمان پی ٹی آئی نے کہا کہ دو سال گزر گئے لیکن اب تک سی سی ٹی وی فوٹیج نہیں ملی، انصاف ندارد، ثبوت ندارد البتہ آئین اور قانون کے ساتھ کھلواڑ کر کے سویلینز کا ملیٹری ٹرائل جائز قرار دے دیا گیا، ایک طرف ملک پر قبضہ شدہ مافیا کو ملک ترقی کی راہ پر گامزن دکھائی دیتا ہے اور دوسری طرف اس قسم کے فیصلے ہنگامی بنیاد پر سنائے جا رہے ہیں جب پاکستان حملے کی زد میں ہے۔

ترجمان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک پر مسلط مافیہ نے اس حملے کو اپنے لیے ایک سنہری موقع گردانتے ہوئے نوجوانوں کے فوجی عدالتوں ٹرائلز پر مبنی اپنی سازش کو پایہ تکمیل تک پہنچایا، جب ان پر تشدد، جھوٹے مقدمے، ڈر خوف، جیل سے باہر خاندانوں کو رسوا کرنے پر بھی ان کے حوصلے نہ توڑ سکے تو قانون کو ہی توڑ مروڑ کر من چاہا فیصلہ سنا دیا گیا، سچ کو دبایا جا سکتا ہے ختم نہیں کیا جاسکتا۔

(جاری ہے)

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل درست قرار دے دیا گیا، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، پانچ رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دیا تھا، جس کے خلاف حکومت کی جانب سے انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کی گئیں، سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کیس کا مختصر فیصلہ سنا دیا، جس میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے حوالے سے انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کرلی گئیں۔

بتایا جارہا ہے کہ انٹراکورٹ اپیلیں پانچ دو کی اکثریت سے منظور کی گئیں، سپریم کورٹ نے انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کرتے ہوئے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل غیرآئینی قرار دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، اپنے فیصلے میں عدالت نے آرمی ایکٹ کی کالعدم قرار دی گئی شقیں بحال کردیں، عدالت نے فوجی عدالتوں کے فیصلے کےخلاف اپیل کا حق دینے کیلئے معاملہ حکومت کو بھجوا دیا اور کہا گیا ہے کہ حکومت 45 دن میں اپیل کا حق دینے کے حوالے سے قانون سازی کرے، ہائی کورٹ میں اپیل کا حق دینے کیلئے آرمی ایکٹ میں ترامیم کی جائیں، تاہم جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے فوجی عدالتوں میں سویلینز کورٹ اپیلیں قرار دے دیا سپریم کورٹ سویلینز کا دیا گیا

پڑھیں:

اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججوں نے چیف جسٹس کے اقدامات کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا

اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججوں نے چیف جسٹس کے اقدامات کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا WhatsAppFacebookTwitter 0 19 September, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(آئی پی ایس) اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججوں نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے اختیارات اور اقدامات کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس سمن رفعت اور جسٹس اعجاز اسحاق خان نے علیحدہ علیحدہ درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کیں۔

جسٹس کیانی، ستار، جہانگیری اور خان کی درخواستوں کی کاپیاں موصول ہوئی ہیں، جن میں سب نے ایک ہی مطالبہ کیا ہے۔
درخواستوں میں ججوں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ انتظامی اختیارات کو ہائی کورٹ کے ججوں کے عدالتی اختیارات کو کمزور کرنے یا ان پر غالب آنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

مزید کہا گیا کہ چیف جسٹس ہائی کورٹ اس وقت جب کسی بینچ کو مقدمہ دیا جا چکا ہو، نئے بینچ تشکیل دینے یا مقدمات منتقل کرنے کا مجاز نہیں ہے۔

درخواستوں میں یہ بھی کہا گیا کہ چیف جسٹس اپنی مرضی سے دستیاب ججوں کو فہرست سے خارج نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس اختیار کو ججوں کو عدالتی ذمہ داریوں سے ہٹانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

سپریم کورٹ سے یہ بھی کہا گیا کہ بینچوں کی تشکیل، مقدمات کی منتقلی اور فہرست جاری کرنا صرف ہائی کورٹ کے تمام ججوں کی منظوری سے بنائے گئے قواعد کے مطابق کیا جا سکتا ہے، جو آئین کے آرٹیکل 202 اور 192(1) کے تحت اختیار کیے گئے ہیں۔

درخواست گزاروں نے مزید استدعا کی کہ بینچوں کی تشکیل، روسٹر ہائی کورٹ رولز اور مقدمات کی منتقلی سے متعلق فیصلہ سازی صرف چیف جسٹس کے اختیار میں نہیں ہو سکتی اور ماسٹر آف دی روسٹر کے اصول کو سپریم کورٹ کے فیصلوں میں ختم کر دیا گیا ہے۔

درخواستوں میں یہ بھی کہا گیا کہ 3 فروری اور 15 جولائی کو جاری ہونے والے نوٹیفکیشنز کے ذریعے بنائی گئی انتظامی کمیٹیاں اور ان کے اقدامات قانونی بدنیتی پر مبنی، غیر قانونی اور کالعدم ہیں۔

عدالت سے استدعا کی گئی کہ ان نوٹیفکیشنز اور کمیٹیوں کے تمام اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔

مزید کہا گیا کہ غیر قانونی طور پر تشکیل دی گئی انتظامی کمیٹی کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر رولز 2025 کی منظوری اور ہائی کورٹ کی پیشگی منظوری کے بغیر نوٹیفکیشن جاری کرنا آئین کے آرٹیکل 192(1) اور 202 کی خلاف ورزی ہے، اور ستمبر میں اس کی توثیق بھی غیر قانونی اور بے اثر ہے۔

ججوں نے دعا کی کہ سپریم کورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ کو ہدایت دے کہ وہ ڈسٹرکٹ جوڈیشری پر مؤثر نگرانی اور نگران عمل کرے، جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 203 میں درج ہے، تاکہ ہر ہائی کورٹ اپنے ماتحت عدالتوں کی نگرانی اور کنٹرول کر سکے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاکستان اور چین کے درمیان صنعتی تعاون کی 3 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط وزارت خزانہ کی آئی ایم ایف سے ریلیف لینے کی تیاری، منی بجٹ نہ لانے کا فیصلہ سی ڈی اے ہسپتال کے رجسٹرار ڈاکٹر راشد محمود کی ریٹائرمنٹ پر ساتھی ڈاکٹرز کے ساتھ خصوصی ملاقات سرگودھا میں الیکٹرک بسوں کا افتتاح، ترقی چھوٹے شہروں سے شروع ہوگی: مریم نواز نو مئی کے دو مقدمات میں خدیجہ شاہ کے وارنٹ گرفتاری جاری نئے گیس کنکشن کی پالیسی گائیڈ لائن جاری، صارفین آن لائن درخواست دے سکیں گے جی ایچ کیو حملہ کیس: ویڈیو لنک سماعت چیلنج، عمران کو پیش کرنے کیلئے درخواست دائر TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • خدیجہ شاہ نے پانچ سال کی سزا کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا
  • سنگل بینچ نے فیصلے میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے، ہائیکورٹ
  • پشاور ہائیکورٹ، فوجداری نظام عدل میں خامیوں کیخلاف درخواستوں پر لارجر بینچ تشکیل
  • سعودی عرب سے باہمی مفادات کا خیال رکھنے کی توقع ہے، بھارت کا پاک سعودی معاہدے پر ردعمل
  • اسلام آباد: بینچ کی تشکیل اور کیس کی منتقلی کیلیے درخواستیں دائر کرنے کیلیے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5ججز سپریم کورٹ جارہے ہیں
  •  آرمی ایکٹ کے تحت دادرسی نہیں توپھر کوئی کہاں جائے؟جسٹس منصور
  • عدلیہ میں تناؤ: ہائیکورٹ کے 5 ججز چیف جسٹس کے اقدامات سپریم کورٹ لے گئے
  • اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججوں نے چیف جسٹس کے اقدامات کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا
  • مفتی منیب کو قانون کی الف ب کا بھی نہیں پتہ
  • عدالتوں سمیت کوئی ایک ادارہ بتائیں وہ کام کر رہا ہو جو اس کو کرنا چاہیے، جسٹس محسن اخترکیانی