سرگودھا شہر کے مسیحی نوجوان نے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر دین اسلام قبول کر لیا
اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT
سرگودھا(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 مئی2025ء)سرگودھا شہر کے مسیحی نوجوان نے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر اپنے مذہب عیسائیت کو چھوڑ کر دین اسلام قبول کر لیا جس پر اس کا اسلامی نام تجویزکر کے اہل اسلام نے نومسلم نوجوان کو خوش آمدید کیا۔
(جاری ہے)
زرائع کے مطابق سرگودھا شہر کے علاقہ گل والا کے مسیحی نوجوان تیمان مسیح نے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر اپنے مذہب عیسائیت کو چھوڑ کر دین اسلام قبول کر لیا جس کو ماڈل مدرسہ کمپنی باغ میں مرکزی اتحاد العلما کے ضلعی صدر مولانا قاضی نگاہ مصطفی چشتی نے کلمہ طیبہ پڑھایا اور اس کا اسلامی نام محمد ابو تراب تجویز کیا اس موقع پر اہل اسلام نے نومسلم نوجوان کو خوش آمدید کہا اور اسے اسلام سے محبت اور الللہ تعالی کے احکامات پر قرآن مقدس کی تعلیم کی دعوت دی جسے اس نے قبول کرتے ہوئے کہا کہ کلمہ طیبہ پڑھنے سے جو ذہنی سکون اور دلی اطمینان نصیب ہوا وہ اس کے لئے اللہ تعالی کی رحمت ہے۔
اس موقع پر ایمان کی استقامت کیلئے دعا کروائی گئی۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے قبول کر
پڑھیں:
استنبول میں او آئی سی وزرائے خارجہ کا خصوصی اجلاس، ایران اور غزہ پر جارحیت ناقابل قبول قرار
استنبول:ترکیہ کے تاریخی شہر استنبول میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کا اہم اجلاس جاری ہے، جس میں مسلم دنیا کو درپیش چیلنجز اور خطے میں بگڑتی صورتحال زیر بحث ہے۔
اجلاس میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی سمیت 40 سے زائد ممالک کے سفارت کار شریک ہیں، جب کہ پاکستان کی نمائندگی نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کر رہے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ او آئی سی کے اس پلیٹ فارم پر اسحاق ڈار اور عباس عراقچی ایک ساتھ نشستوں پر جلوہ افروز ہیں، جو علاقائی اتحاد و مکالمے کی علامت قرار دیا جا رہا ہے۔
اجلاس کے دوران نہ صرف ایران میں حالیہ کشیدگی کا تفصیلی جائزہ لیا جا رہا ہے بلکہ ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی تناؤ، اور غزہ پر اسرائیلی حملوں کے حوالے سے خصوصی سیشن بھی منعقد کیا جائے گا۔ اس موقع پر اسحاق ڈار پاکستان کا مؤقف پوری شدت سے پیش کریں گے، جس میں خطے میں امن، سفارتکاری اور یکجہتی کے اصولوں پر زور دیا جائے گا۔
او آئی سی اجلاس سے قبل ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے میڈیا سے گفتگو میں دو ٹوک مؤقف اختیار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران اسرائیلی جارحیت کے خلاف اپنے دفاع کا بھرپور حق رکھتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل نے 15 جون کو ہونے والے مذاکرات سے صرف دو روز قبل ایران پر حملہ کرکے ثابت کردیا کہ وہ مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے اور سفارتکاری کا راستہ اختیار کرنے کا خواہاں نہیں۔
ترکیہ کے وزیر خارجہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسلام ہم سب کو متحد کرتا ہے، مسلمان کل دنیا کی آبادی کا تین تہائی حصہ ہیں، تقسیم شدہ مسلمان کامیاب نہیں ہوسکتے۔ دنیا بھر میں ہمارے مسلمان بھائی مشکل میں ہیں۔ غزہ کے لوگوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل اس وقت ایران پر حملہ آور ہے۔
ترکیہ کے وزیر خارجہ نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے جارحانہ اقدام خطے کےلیے مسائل پیدا کر رہے ہیں، اسرائیل ایران پر حملوں سے خطے کو تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔ معاملہ اب غزہ کا نہیں یا ایران کا نہیں، معاملہ اب اسرائیل کو روکنا ہے۔ ہمیں غزہ اور ایران کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنی چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ فلسطینی علاقے کا دو ریاستی حل ضروری ہے۔
وزیر خارجہ ترکیہ کا مزید کہنا تھا کہ ہم عالمی ناانصافی کے خلاف ہیں، ترکیہ او آئی سی میں تمام ممالک کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ او آئی سی کے تمام ممالک کی حفاظت اولیں ترجیح ہے۔
انھوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کا حل جنوبی ایشیا میں امن کے قیام کےلیے ضروری ہے۔
علاوہ ازیں اجلاس کے دوران ترک صدر رجب طیب اردوان نے اپنے خطاب میں مشرقِ وسطیٰ میں جاری بحران، فلسطینیوں کی حالتِ زار اور مسلم ممالک کے درمیان اتحاد کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔
ترک صدر اردوان نے اپنے خطاب میں امید ظاہر کی کہ اس اجلاس کے نتیجے میں ایسے فیصلے لیے جائیں گے جو مسلم دنیا کےلیے بہتری کا باعث بنیں گے۔ انہوں نے کہا، ’’غزہ کے عوام کا دکھ ہمارا اپنا دکھ ہے، اور ہم کسی صورت خاموش تماشائی نہیں بن سکتے۔‘‘
ترکیہ کے صدر نے اسرائیلی مظالم کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دو سال سے اسرائیل عالمی طاقتوں کی پشت پناہی میں جارحیت کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لاکھوں فلسطینی اسرائیلی حملوں میں شہید ہوچکے ہیں، اور غزہ میں اس وقت بھوک اور افلاس کا راج ہے۔
صدر اردوان نے خبردار کیا کہ اسرائیل کی موجودگی میں خطے میں کبھی امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ’’اسرائیلی حکومت نے ثابت کیا ہے کہ وہ امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اور جو کوئی بھی سفارتی حل چاہتا ہے، اسے سب سے پہلے اسرائیلی رکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے۔‘‘
استنبول میں جاری یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب مشرقِ وسطیٰ جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے، اور او آئی سی کے فیصلے مسلم دنیا کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔
Post Views: 4