دنیا کا امیر ترین شخص دنیا کے غریب ترین بچوں کو قتل کر رہا ہے، بل گیٹس
اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT
LONDON:
مائیکرو سوفٹ کے بانی اور دنیا کے امیرترین افراد میں شامل بل گیٹس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے بااثر عہدیدار ایلون مسک کے اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کا امیر ترین آدمی امریکی بیرونی بجٹ میں کمی کرتے ہوئے دنیا کے غریب ترین بچوں کو قتل کر رہا ہے۔
غیرملکی خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکا سے تعلق رکھنے والے 69 سالہ ارب پتی بل گیٹس نے ان کا فلاحی ادارہ 2045 تک 200 ارب ڈالر خرچ کرے گا اور وہ اپنی تمام قیمتی مصنوعات فلاحی کاموں کی مد میں خرچ کرنے کے لیے تیزی لا رہے ہیں۔
بل گیٹس نے کہا کہ ان کا منصوبہ ہے کہ تمام جائیداد فلاحی کاموں میں خرچ کرلوں اور 31 دسمبر 2045 تک اپنی فاؤنڈیشن بند کردوں گا۔
انہوں نے کہا کہ یقین ہے اس سے ان کے کئی اہداف حاصل ہوں گے جیسا کہ پولیو اور ملیریا جیسے امراض کا خاتمہ، خواتین اور بچوں کی قابل علاج امراض کی وجہ سے ہونے والی اموات روکنے اور دنیا میں غربت کا خاتمہ شامل ہے۔
بل گیٹس کی جانب سے فلاحی کاموں میں تیزی لانے کا اعلان ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی طرف سے دنیا بھر میں موذی امراض اور قحط روکنے کے لیے استعمال ہونے بجٹ کے لیے حکومتی امدادی فنڈز کی کٹوتی کے بعد کیا گیا ہے۔
امریکی حکومت کی جانب سے فنڈز کی کٹوتی دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک کی سربراہی میں کی جا رہی ہے اور یوایس ایڈ پروگرام کے تحت ہونے فلاحوں کاموں میں تقریباً 80 فیصد کمی لائی جائے گی جبکہ ادارے نے دنیا بھر میں 2023 میں 44 ارب ڈالر خرچ کیا۔
بل گیٹس نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ دنیا کے امیر ترین شخص کی جانب سے دنیا کے غریب ترین بچوں کو قتل کرنے کی تصویر اچھی نہیں ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بل گیٹس نے دنیا کے
پڑھیں:
امیرِ علی شاہ، مخلص شخص
اسلام ٹائمز: وہ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کے ہم عصر تھے۔ شہید (رح) کی خدمات کا اکثر ذکر کرتے تھے اور انکی کمی کا شدت سے اظہار کرتے تھے۔ 1986ء تا حال آپ اکثر جلوسوں، جلسوں اور اجتماعات کا حصہ رہے۔ وہ اپنی ذآمہ داری سمجھتے تھے اور ادا کرتے تھے۔ اسٌی کی دہائی کے اخبارات میں آپکی تصاویر نظر آتی تھیں۔ آپکے صحافیوں سے اچھے روابط تھے، جنکا استعمال بھی بروقت کرتے تھے۔ دل چاہتا ہے کہ میں انکی باتیں لکھتا رہوں، مگر کب تک۔ اچھے لوگوں کی اچھی باتیں تو زندگی کا سرمایہ ہوتی ہیں۔ بقول سید ثاقب اکبر مرحوم "کچھ باتیں بتانے کی نہیں ہوتیں اور کچھ باتیں سب کو بتانے کی نہیں ہوتیں۔" تحریر: سید نثار علی ترمذی
بات گذشتہ صدی کی ہے۔ 24 فروری 1986ء کو لاہور میں ایک اجلاس ہوا تھا، جس میں چالیس کے قریب ملازمین و مزدور رہنماء جمع ہوئے تھے۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید نے اس کی میزبانی کی تھی۔ گفتگو کے نتیجے میں ایک کمیٹی بنی اور مجھ بندہ ناچیز کو اس کا رکن بنایا گیا تھا۔ کمیٹی کے ایک دو اجلاس ہوئے، مگر پھر عملاً یہ کمیٹی یک رکنی بن گئی۔ امامیہ ایمپلائز ویلفیئر آرگنائزیشن کے نام سے ملازمین سے رابطے کا کام شروع کیا گیا۔ 2۔دیو سماج کے دفتر کا منفرد مزاج تھا۔ یہ دفتر تقریباً چوبیس گھنٹے کھلا رہتا تھا۔ شام کے وقت خوب رونق ہوتی۔ پورے لاہور سے کارکن آتے رہتے۔ معلومات حاصل کرتے، ذمہ داریاں قبول کرتے اور چلے جاتے۔ گپ شپ بھی چلتی رہتی۔ نئے لوگ قافلے میں شامل ہوتے رہتے۔ ہر آنے جانے والے سے میرا تعارف کروایا جاتا اور تعاون کے لیے کہا جاتا۔
ایک دن ایک نوجوان لمبا تڑنگا آیا۔ بے تکلفی سے گفتگو کرنے میں یکتا ۔ کسی نے کہا کہ اگر امیر علی شاہ تعاون کریں تو کام بہت آگے جا سکتا ہے۔ بس پھر کیا تھا کہ میں نے جلدی سے رکنیت فارم ان کے آگے رکھ دیا۔ بس پھر کیا رابطے بڑھنے لگے۔ شاہ صاحب اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن، لٹن روڈ لاہور کے مستقل ملازم تھے۔ وقت لے کر آپ کے دفتر میں حاضر ہوگیا۔ دوسری منزل پر ایک بڑے ہال کے کونے میں بڑی میز کے پیچھے تشریف فرما تھے۔ میز پر جو شیشہ لگا ہوا تھا، اس کے نیچے وزٹنگ کارڈز ہی کارڈز تھے۔ متواتر فون آرہے تھے، جس کے سننے کے لیے شاہ صاحب کو بار بار اٹھ کر جانا پڑتا تھا۔ میز پر چند کاغذات پڑے ہوئے تھے، جن پر نا جانے کیا لکھ رہے تھے۔ اسی دوران نماز و طعام کا وقفہ ہوگیا۔ چلتے قلم گئے۔ شاہ صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے چلیں۔ سیڑھیاں اتر کر یونین کے دفتر میں آگئے۔ نومنتخب صدر سے ملاقات کرائی۔
شائد ان سے پہلے ہی میرا ذکر خیر ہوچکا تھا۔ بڑی خوشی و محبت سے ملے۔ کہنے لگے کہ کھانے پر باتیں ہوں گیں۔ کنٹین میں بہترین کھانا کھایا اور بہت سی باتیں سنیں۔ تعاون کا یقین دلایا۔ قریب کی مسجد میں نماز کے لیے چلے گئے۔ جہاں اسٹیٹ لائف سے متعلقہ چند ملازمین سے بھی ملاقات ہوئی، ان سے میں نے اپنے عرائض پیش کیے۔ چند سوالات بھی ہوئے۔ سید فقیر حسین کاظمی صاحب جو بعد ازاں مرکزی عہدہ دار بھی رہے، ان سے تعارف ہوا۔ رکنیت فارم دیئے گئے۔ بس شاہ صاحب سے رابطہ استوار ہوگیا۔ جب لاہور کے سرکاری اداروں میں علیحدہ شیعہ نماز باجماعت کا پروگرام بنا تو اسی مسجد میں نماز باجماعت کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ عشرہ محرم کا بڑا اجتماع امام بارگاہ حسینیہ، لٹن روڈ، لاہور پر ہوتا تھا۔ جہاں مولانا گلفام حسین ہاشمی خطاب کرتے تھے۔ یہاں اسٹال لگایا گیا۔ میں اور حاجی فضل عباس اسٹال پر بیٹھتے اور شاہ صاحب کھڑے ہو کر ہر آنے والے سے پوچھتے کہ "تسیں ملازم ہو؟ "اگر وہ ہاں کہتا تو اس کا بازو پکڑ کر اسٹال پر لے آتے اور کہتے کہ "فارم پر کراؤ۔"
یوں ہمیں چند دنوں میں شہر لاہور سے کافی ڈیٹا جمع ہوگیا، جن کے جمع کرنے میں کافی مدت لگ جاتی۔ شاہ صاحب بلا جھجھک بول سکتے تھے۔ آپ مجالس میں شرکت کرتے تو اسٹیج سے اعلان کر دیتے تھے کہ ایک شیعہ ملازمین کی تنظیم بنائی ہے۔ سب ملازم شریک ہوں۔ بعض خدشات کی بنا پر آپ کو منع بھی کرتے مگر شاہ جی اپنے جذبے اور شوق سے کہاں باز آنے والے تھے۔ ہم نے بھی جمع شدہ مواد کو جلد محکمہ وایز یونٹ تشکیل دے دیئے۔ اس وقت تحریک جعفریہ کے بھی لاہور میں اتنے یونٹ نہیں تھے، جتنے امامیہ ایمپلائز کے تھے۔ ایک اجلاس میں مختلف محکموں کے پچیس کے قریب نمائندگان شریک تھے۔ تعارف کے بعد ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید (رح) نے دوران میٹنگ ہی میرے کندھے کو تھپتھپا کر شاباش دی۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ افتخار حسین نقوی صاحب 1989ء اپنی کابینہ کے آخری اجلاس منعقدہ بورے والا میں بیان دیا کہ "اس وقت تحریک، پنجاب میں ایمپلائز کے نام سے موجود ہے۔" اس بیان کو پروفیسر خادم حسین لغاری مرحوم نے اپنی سوانح عمری میں محفوظ کیا ہے۔ 1988ء میں امامیہ آرگنائزیشن کے اصرار پر "امامیہ" کا لفظ "اسلامک" سے بدل دیا تھا۔
کوئی پروگرام ہوتا تو پہلے اطلاع امیر علی شاہ مرحوم کو دی جاتی تو اس سے یہ مراد لی جاتی کہ خبر بہت جلد لاہور میں پھیل جائے گی۔ شاہ صاحب مجلس مجلس اور محفل محفل جاتے تھے اور دی گئی خبر پہنچا دیتے۔ ان دنوں اس سے بہتر اطلاعات کا کوئی اور ذریعہ تھا بھی نہیں۔ تحریک یا ایمپلائز کے پروگراموں کے معروف مقرر کو دعوت دینا اور اسے پروگرام میں لے کر آنا بھی شاہ صاحب انجام دیتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایمپلائز کے ایک سیمینار کی دعوت دینے کے لئے معروف ہاکی کے کھلاڑی اور وزیر برائے کھیل اختر رسول کے گھر گئے۔ وہ سیمینار میں شریک بھی ہوئے اور خطاب بھی کیا۔ ان کی شرکت کی وجہ اخبارات میں خوب کوریج ہوئی۔ ہمارے اکثر پروگراموں میں شاہ صاحب تلاوت سے آغاز کرتے۔ شاہ جی سورہ مزمل تلاوت کرتے۔ یوں بابرکت آغاز ہو جاتا۔ لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر لانا اور قافلہ میں شریک کرنا، آپ کی عادت رہی ہے۔
ایک کارنامہ
1985ء کے غیر جماعتی انتخاب کے نتیجہ میں اسمبلیاں تشکیل پا چکی تھیں۔ ایک دن میں دفتر میں بیٹھا ڈاک دیکھ رہا تھا۔ منظور احمد چنیوٹی کے دو صوبائی اسمبلی سوالات پر نظر پڑی۔ ایک سوال قادیانی ملازمین کے بارے میں تھا، دوسرا شیعہ ملازمین کے بارے میں تھا۔ سوالات ایک جیسے تھے، بس فرق شیعہ اور قادیانی کا تھا۔ پوچھا گیا تھا کہ سکیل سترہ اور اس سے بالاتر کتنے شیعہ ملازمین ہیں۔؟ یہ کن کن عہدوں پر تعینات ہیں۔؟ ان کی تعیناتی کس طرح ہوئی۔؟ حکومت ان عہدے داروں کو ہٹانے کے لیے کیا اقدام کرے گی۔؟ اس سوال سے معلومات حاصل کرنا اور غلط نیت کا اظہار تھا نیز شیعوں سے قادیانیوں جیسے رویہ کا رکھا جانا تھا۔ اس سوال کی ایک نقل فوراً تحریک کے دفتر پہنچا دی۔
ابھی اس سوال کے مطالعہ اور مضمرات پر غور ہو رہا تھا کہ شاہ صاحب وارد ہوگئے۔ سوال کی نقل لے کر کربلا گامے شاہ چلے گئے، جہاں ایک بڑی مجلس ہو رہی تھی۔ اب جو بھی اسٹیج پر آتا، وہ احتجاج ریکارڈ کرواتا۔ یوں یہ بات گلی گلی پہنچ گئی۔ شیعہ ارکان صوبائی اسمبلی پنجاب نے سیکرٹری اسمبلی سے استفسار کیا تو اس نے کہا کہ یہ سوال صرف نظر ہوگیا تھا، معذرت کی اور اس سوال کو ختم کر دیا۔ بعض محکموں میں یہ معلومات جمع ہوچکیں تھیں، ان میں محکمہ ایجوکیشن شامل تھا۔ اس ریکارڈ سے امامیہ ٹیچرز آرگنائزیشن نے خوب استفادہ کیا۔
عزاداری کونسل
پولیس ایکٹ کی دفعہ 30 میں ترمیم کی گئی تھی، جس کے مطابق مقامی ایس ایچ او، امن و امان کا مسئلہ قرار دے کر کوئی بھی جلوس ملتوی کرسکتا ہے۔ اس پر غور و خوض کے لیے شادمان لاہور کی مسجد میں ایک اجلاس ہوا، جس میں لاہور کی تنظیمیں اور چیدہ چیدہ افراد شریک ہوئے تھے۔ بحث کے نتیجہ میں عزاداری کونسل پاکستان تشکیل دی گئی۔ اس اجلاس میں پہلی مرتبہ میں نے ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید (رح) کی زیارت کی اور گفتگو سنی تھی۔ اسٹیج سے اعلان ہوا اب آئی ایس او کے نمائندہ ڈاکٹر محمد علی نقوی اظہار خیال کریں گے۔ ڈاکٹر صاحب ابتدائی گفتگو کے بعد فرمایا کہ "اگر تنظیم بنانے کا سوچ رہے ہیں تو ایک تنظیم کی ضرورت مالیات بھی ہوتے ہیں، اگر ایک گھر کی تنظیم بغیر پیسے کی نہیں چل سکتی تو ایک بڑی تنظیم کس طرح بغیر مالیات کے چل سکتی ہے۔ مجوزہ تنظیم کے لیے بھی مالیات کا بندوست کرنا ہوگا۔" یہ ادارہ چند سرگرمیاں جاری رکھ کر فعال نہیں رہا تھا، لیکن ایک میرے ہم نام پروفیسر کے ساتھ مل کر شاہ صاحب نے لاہور میں اس پلیٹ فارم پر بہت کام کیا۔ سید محمد علی زیدی مرحوم بھی ان کے ساتھ تھے۔ یہ عزاداری کونسل کا دوسرا فیز تھا۔
1988ء کے انتخابات
تحریک جعفریہ نے تختی کے نشان پر انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ گو کہ امیدوار میسر نہیں تھے، مگر لاہور میں سب سے زیادہ امیدوار تھے۔ ان میں سے تین امیدوار صرف سید امیر علی شاہ مرحوم کے تیار کردہ تھے۔ سید محمد علی زیدی ایڈووکیٹ، سید سہیل حیدر شاہ اور علی حسین شاہ کو اس انتخاب کے لیے آمادہ کیا۔ گو کہ شاہ صاحب اپنے علاقے میں پیپلز پارٹی کے حامی تھے، مگر دیگر جماعتوں میں بھی یکساں مقبول تھے۔
امام خمینی فاؤنڈیشن
لاہور کے چند لوگوں نے فلاح و بہبود کے لیے ایک ادارہ امام خمینی فاؤنڈیشن بنایا تھا۔ اس کا ایک دستور بھی شائع ہوا تھا۔ اس کی ایک کاپی میری لائبریری میں موجود ہے۔ ایک بڑی تنظیم کے مقاصد کی طرح اس کے کثیر المقاصد تھے۔ ایک ایمبولینس بھی خریدی گئی، جس پر ادارہ کا نام درج تھا۔ امیر علی شاہ مرحوم اس کے کرتا دھرتا تھے۔ علی کمپلیکس کے تہ خانے میں اس کا دفتر تھا اور اس کے ساتھ اسلامک ایمپلائز کا دفتر بھی تھا۔ شاہ صاحب شام کو بیٹھتے تھے۔ دو تین رجسٹر رکھے ہوئے تھے، جن پر بے روزگاروں کے کوائف اور رشتہ کی تلاش کرنے والوں کے کوائف درج ہوتے تھے، نیز لوگ اپنے عمومی مسائل کے حل کے لیے بھی رجوع کرتے تھے۔ شاہ صاحب ہر ایک کو تسلی بخش جواب دیتے تھے یا مسئلہ حل کر دیتے تھے۔ کوئی نوجوان روزگار کے تلاش میں رابطہ کرتا تو شاہ صاحب اس کا تفصیلی انٹرویو لیتے، اگر وہ کوئی مصروفیت نہ رکھتا ہوتا تو شاہ صاحب اسے دعوت دیتے کہ وہ روزانہ دفتر میں آکر بیٹھا کرے، خود بھی روزگار تلاش کرے اور دیگر کے لیے بھی کوشش کرے۔
یوں یہ دفتر آباد رہتا۔ شاہ صاحب یہ خدمت بلا معاوضہ کے انجام دیتے تھے۔ کئی لطیفے زبان زد عام تھے۔ کوئی اپنے بیٹے کے لیے رشتے کی تلاش میں شاہ صاحب کے پاس آتا تو آپ نے تین چار فون نمبرز دے دیتے۔ جب مطلوبہ نمبر پر رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس لڑکی کی تو عرصہ پہلے شادی ہوچکی ہے اور اس کے بچے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ روزگار حاصل کرنے والوں اور گھر بسانے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ آپ کے تعلقات اعلیٰ شخصیات کے علاؤہ عمومی افراد تک سب سے ہوتے تھے۔ جن دنوں موبائل فون نہیں تھا یا عام نہیں تھا، شاہ صاحب جیب میں قدرے ضخیم چھوٹے سائز کی ڈائری ہوتی تھی۔ جس پر لکھے ہوئے نام اور فون نمبر پسینہ اور خستگی کی وجہ سے صرف شاہ صاحب ہی پڑھ سکتے تھے۔ اس ڈائری میں دن بدن اضافہ ہوتا رہتا تھا۔
باڈی بلڈنگ سنٹر
ڈونگی گراؤنڈ، سمن آباد، لاہور میں ایک باڈی بلڈنگ سنٹر بنایا ہوا تھا، جس میں الصبح خود بھی شرکت کرتے اور نوجوانوں کو سہولت و ترغیب دیتے۔ یہ معاشرے میں صحت مند سرگرمی تھی اور خدمت بھی۔ اس میں بعض اوقات مسائل بھی پیدا ہوئے، مگر شاہ صاحب نے حکمت سے انہیں حل کیا۔ یہ علاقے میں آپ کی پہچان بھی تھی۔
عزاداری
لاہور میں اکثر مجالس عزا و جلوس عزا میں شرکت شاہ صاحب کا معمول تھا۔ بانیان سے تعلق و دوستیاں تھیں۔ لنگر کی محفل میں بیٹھ کر محسوس ہوتا تھا کہ شاہ صاحب ہی اس مجلس کے بانی ہیں۔ اب مجالس کی یہ رونق نظر نہیں آئے گی۔ مجھے متعدد مرتبہ شاہ صاحب کا مہمان بننے کا موقع میسر آیا۔ ندیم شہید روڈ کے اندر ایک گلی میں پرانا گھر ہوتا تھا۔ سادہ کھانا اور محبت کے ساتھ پیش کرتے اور وضاحت کرتے کہ "اسیں دیسی گھی استعمال کر دے ہیں۔" انہوں نے آغاز میں کوشش کی کہ میں بھی اسٹیٹ لائف انشورنس کے کام میں آجاؤں۔ متعدد مرتبہ اپنے سینیئر سے نشستیں کروائیں، مگر یہ "درویش" قابو میں نہیں آیا۔ ایک مرتبہ سیکرٹریٹ میں نظر آئے تو میں نے اپنے دفتر میں آنے کی دعوت دی۔ کہنے لگے "میرا بھار چک لیں گا؟" میں نے پوچھا وہ کیا ہے۔؟ کہنے لگے "فری فون ہوئے تے چاہ۔،" میرے پاس یہ دونوں سہولتیں موجود تھیں۔ آگئے اور لگاتار فون کرنے لگے۔ کافی دیر رہے۔ چلنے لگے تو کہا "شاہ دوبارا آواں گا" کہ کر چلے گئے۔
ایک دن نائب قاصد نے بتایا کہ آپ کے وہ دوست نظر آئے، جنہوں نے بہت فون کیے تھے۔ میں سمجھ گیا کہ امیر علی شاہ ہوں گے، مگر وہ نہ آئے۔ آپ کے چاہنے والے بہت تھے۔ وہ کسی مرید کے پاس چلے گئے ہوں گے۔ شاہ صاحب کی ایک خوبی سب بیان کریں گے کہ وہ ایک مخلص انسان تھے۔ سوائے نیکیوں کے کوئی اور بیان ان کے بارے میں نہیں دیا جا سکتا۔ ان کے جانے سے ہر شخص یہی محسوس کرتا ہے کہ اس کا بہترین دوست اور مخلص دوست اس سے جدا ہوگیا۔ ان کے جنازے پر تمام مسالک و گروہوں کا اجتماع ان کی اجتماعی خدمات کا اعتراف تھا۔ آپ آخری وقت بھی ایک مجلس عزا سے اپنے ابدی گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ سعادت صرف سعادت مند لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ شاہ صاحب کسی تنظیم کے عہدہ دار نہیں تھے، مگر ہر تنظیم انہیں اپنا ہمدرد سمجھتی تھی۔
وہ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کے ہم عصر تھے۔ شہید (رح) کی خدمات کا اکثر ذکر کرتے تھے اور ان کی کمی کا شدت سے اظہار کرتے تھے۔ 1986ء تا حال آپ اکثر جلوسوں، جلسوں اور اجتماعات کا حصہ رہے۔ وہ اپنی ذآمہ داری سمجھتے تھے اور ادا کرتے تھے۔ اسٌی کی دہائی کے اخبارات میں آپ کی تصاویر نظر آتی تھیں۔ آپ کے صحافیوں سے اچھے روابط تھے، جن کا استعمال بھی بروقت کرتے تھے۔ دل چاہتا ہے کہ میں ان کی باتیں لکھتا رہوں، مگر کب تک۔ اچھے لوگوں کی اچھی باتیں تو زندگی کا سرمایہ ہوتی ہیں۔ بقول سید ثاقب اکبر مرحوم "کچھ باتیں بتانے کی نہیں ہوتیں اور کچھ باتیں سب کو بتانے کی نہیں ہوتیں۔" ایک عرصہ سے شاہ صاحب کی زیارت یوم القدس کے جلوس ہوتی تھی۔ آپ مسجد صاحب الزمان، حیدر روڈ، اسلام پورہ، لاہور کے باہر کھڑے ہو جاتے تھے اور نمازیوں کو پکار پکار کر یوم القدس کے جلوس میں شرکت کی دعوت دیتے تھے۔ اس مرتبہ دو مواقع میسر آئے۔ جناح سروسز اکیڈمی کی افطاری کے موقع پر دوسرے 29 مارچ 2025ء یوم القدس کے موقع پر۔
آپ حسب معمول بلند آواز سے لوگوں کو "چلو چلو قدس کے جلوس میں چلو" کی دعوت دے رہے تھے۔ اس موقع میں نے تصویر بھی بنا لی تھی۔ آپ نے اصرار کرکے اپنی تصویر منگوائی تھی۔ یہ آخری یاد تھی، جو مرحوم کے نام سے زندہ رہے گی اور ہر یوم القدس پر تڑپائے گی۔ کتنی یادیں یوم القدس سے وابستہ ہیں۔ آپ کو اپنے فرزند سے بہت زیادہ توقعات وابستہ تھیں۔ آپ کے فرزند کو بھی اپنے والد بزرگوار کے مشن کو جاری رکھنے کی سعی کرنا چاہیئے۔ وراثت فقط زمین و جائیداد ہی نہیں ہوتی بلکہ اخلاق، رشتے دار، دوست احباب اور روابط بھی وراثت میں منتقل ہونے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے بیٹے اور بیٹیوں کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین ثم آمین۔ اللہ تعالیٰ سید امیر علی شاہ مرحوم کی زندگی ابدی کو اس سے بہتر آسان کر دے، جس طرح مرحوم اپنی پوری زندگی لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں بانٹتے رہے۔ آمین ثم آمین۔