امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر، اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل نمائندے اور سابق صدر آزاد کشمیر ایمبیسڈر مسعود خان نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ پاک بھارت فوجی ٹکراؤ کو لے کر دو امکانات ہیں۔ ایک یہ کہ معاملہ ہاتھ سے نکل جائے، دوسرا یہ کہ پس پردہ جو سفارتی کوششیں ہو رہی ہیں وہ کامیاب ہو جائیں۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کے عوام ان دوںوں امکانات کا سامنا کرنے کے لئے پوری طرح سے تیار ہیں۔جس وقت بھارت نے آزاد کشمیر میں بلال مسجد پر حملہ کیا میں اُس سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ بعد میں، میں بلال مسجد گیا وہاں شہید ہونے والوں کے لواحقین سے ملاقات کی، شہید مسجد دیکھی، ایک بچی جو زخمی ہوئی اُس کے والدین سے ملاقات کی ہے، وہاں موجود تمام لوگوں کے حوصلے بہت بلند تھے۔

اعصاب کی جنگ ہے لیکن طویل جنگ کی صورت بھارت بڑی قیمت ادا کرنے پر تیار نہیں۔

کیا بھارت اس جنگی صورتحال اور جنگی فضاء میں کمی پر آمادہ نظر آتا ہے، اس سوال کے جواب میں ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ فی الحال بھارت اس جنگی فضاء میں کمی پر آمادہ نظر نہیں آتا۔ لیکن وہ بڑی سزا بھی بھگتنے کے لئے بھی تیار نہیں۔ یہ اعصاب کی جنگ ہے اور وہ پاکستان کو آزماء رہے ہیں کہ اُس کا ردعمل کتنا شدید ہو گا۔ دوسرا وہ دنیا میں اپنی دھاک بٹھانا چاہتے ہیں کہ ہم نے اسرائیل کی طرح سے پاکستان کے خلاف اقدام کیا ہے۔ لیکن اگر بڑے پیمانے پر جنگ ہو گی تو اُس کی زد میں بھارت کی معیشت بھی آئے گی۔ اس وقت اُن کی ریاست کے پاس سب سے طاقتور عنصر اُن کی کامیاب معیشت ہے۔ اگر جنگ طول پکڑے گی تو اُن کی معیشت پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔ کارگل جنگ میں وہ امریکی صدر کلنٹن کے پاس جا کر گڑگڑائے تھے کہ ہمیں پاکستانیوں سے بچاؤ۔ اسی طرح سے 2019 میں بھارت نے امریکی وزیر خارجہ پومپیو کو رات کو جگایا کہ پاکستانی ہم پر حملہ کرنے والے ہیں اِن کو روکو۔

چین دونوں ملکوں کے درمیان کامیاب ثالثی کر سکتا ہے

ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ 2008 ممبئی حملوں کے بعد چین نے دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کی تھی۔ 2008 میں چین کے نائب وزیرخارجہ پہلے پاکستان اور بعد میں ہندوستان گئے تھے۔ اور اس وقت بھی وہ اپنا کردار ادا کر سکتا ہے کیونکہ بھارت کے چین کے ساتھ تعلقات بڑھ رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب کے کونسے سے ملک دونوں کے درمیان ثالثی کے لئے مؤثر ہو سکتے ہیں، ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ چین کے علاوہ امریکہ نے پہلے ہی ثالثی کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو نے دونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے مشیروں سے بات کی ہے اس کے بعد ہی دونوں مشیروں نے آپس میں بات چیت کی ہے۔

یکطرفہ سفارتکاری کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی بحالی کے لئے سفارتکاری کیسے کامیاب ہو سکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ یکطرفہ سفارتکاری کبھی کامیاب نہیں ہوتی۔ جب تک ہندوستان اپنے رعونت آمیز روّیے سے باہر نہیں آتا، اپنے اندرونی سیاسی مقاصد کے لئے اس طرح کی صورتحال کے استعمال سے نہیں رکتا، سفارتکاری کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ہندوستان نے جارحیت کی ہے خاص طور پر آبی جارحیت کی ہے، ہمارے اتاشیوں کو نکالا، ہمارے لوگوں کو 24 گھنٹے میں نکلنے کا الٹی میٹم دیا اور کئی جارحانہ اقدامات کئے۔سفارتکاری تب کامیاب ہو گی جب بھارت مانے۔ جارحیت بھارت نے کی ہے، اُسے بہت سارے ملکوں نے مشورہ دیا ہے کہ وہ پاکستان سے جنگ نہ کرے بلکہ بہت سے ممالک نے اُس سے ثبوت بھی مانگا ہے کہ پاکستان اس واقعے میں کیسے ملوث تھا جو وہ نہیں دے سکا۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنی ہٹ دھرمی پر بضد رہا۔

پاکستان کی سفارت کاری تب کامیاب ہو گی جب ہندوستان کو بین الاقوامی عدالت میں لے جایا جائے گا۔

پہلگام واقعے کے بعد کیا پاکستان کی سفارت کاری کامیاب رہی؟ اس سوال کے جواب میں ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ پاکستان کی سفارتکاری تب کامیاب ہو گی جب ہندوستان کو بین الاقوامی عدالت لے جایا جائے گا اور وہاں کٹہرا میں کھڑا کیا جائے گا۔ ہم نے ابھی اس لمبے سفر کا آغاز کیا ہے۔ پہلگام واقعے کے بعد بھارت کے مؤقف کو بین الاقوامی پذیرائی نہیں ملی جس کی وہ توقع کر رہا تھا لیکن ابھی بھی اُس کے بین الاقوامی تعلقات ہیں اور ہمیں قبل از وقت اپنے آپ کو مبارکباد نہیں دینی چاہیئے۔
بھارتی مؤقف کو 2016 میں بھی مکمل بین الاقوامی حمایت نہیں ملی تھی اور 2019 میں بھی نہیں ملی لیکن اس بار 2025 میں تو کسی نے بھی بھارت کا یقین نہیں کیا۔ بین الاقوامی میڈیا اور دیگر ممالک ثبوت مانگ رہے تھے جو وہ نہیں دے سکے۔

بین الاقوامی برادری جانتی ہے بھارت کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں۔

امریکہ یورپ اور خلیجی ریاستوں کے علم میں ہے کہ ہندوستان پاکستان میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتا ہے، اُس کو فنانس کرتا ہے اُس کی منصوبہ سازی کرتا ہے اُس کو پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے۔ وہ بلوچستان ہو یا خیبر پختونخواہ، چینیوں کے خلاف حملے ہوں، جعفر ایکسپریس کا واقعہ ہو، بھارت کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں۔
ہندوستان اس خطے میں دہشت گردی کا سب سے بڑا مجرم ہے اور خود کا دہشتگردی کا شکار ملک کے طور پر پیش نہیں کر سکتا۔ اور اس بار تو اُس نے ریاستی دہشت گردی جس طرح سے اُس نے پاکستان میں بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنایا۔ یہ جنگ کی نئی تاریخ لکھ رہا ہے اور اس کی مثال صرف اسرائیل میں ملتی ہے کہ جس طرح وہاں سویلین آبادی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

بیک چینل سفارت کاری کیسے ہوتی ہے؟

اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ ہمارے قومی سلامتی کے مشیر کی بھارت میں اپنے ہم منصب سے بات ہوئی ہے لیکن اس کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہندوستان مان جائے۔ لیکن پاکستان نے اپنا ایک حق بھی محفوظ کیا ہے کہ ہم لوگ مخصوص وقت پہ، مخصوص جگہ پہ اُس کا جواب دیں گے۔ بیک چینل سفارت کاری میں دو ممالک اپنے مخصوص نمائندے مقرر کرتے ہیں جو بات چیت کرتے ہیں کیونکہ حالت جنگ میں کھلے عام بات کرنا مناسب نہیں لگتا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کثیرالقومی فورمز کو استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ اقوام متحدہ۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ طاقتور ممالک ثالثی کروائیں۔اس وقت سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت بیٹھ کر بات کریں اور ہم اُن سے پوچھیں کہ آپ کس حد تک جانا چاہتے ہیں۔

2019 اور 2025 کی سفارت کاری میں کیا فرق ہے؟

اس سوال کے جواب میں ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ 2019 میں ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کو ہٹایا تو پاکستان نے اُس پر بھرپور ردعمل دیا اور دنیا نے ہندوستان کی مذمت کی تھی اور ساری دنیا کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہو گئی تھی۔ دنیا بھر کی پارلیمنٹس نے بھارتی اقدام کی مذمت کی تھی لیکن اُس وقت پاکستان کے اندرونی سیاسی اختلافات اور کرونا وباء کی وجہ سے دنیا کی توجہ کشمیر سے ہٹ گئی اور بھارت نے کشمیر میں ہندو آباد کرنے شروع کر دئیے لیکن بھارت مقبوضہ کشمیر میں کامیاب نہیں ہوا۔ اس بار ایک دفعہ پھر مسئلہ کشمیر دنیا بھر میں اُجاگر ہوا ہے لیکن ہمیں اس موقعے سے فائدہ اُٹھانے کے لئے اپنے آپ کو مضبوط کرنا ہوگا اپنے اندر اتفاق و یگانگت پیدا کرنا ہوگی۔

سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے پاکستان کو کیا کرنا چاہیئے؟

ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے پر پاکستان کو ورلڈ بینک کے پاس جانا چاہیئے۔ ہندوستان نے غیر قانونی اقدام کیا ہے، بین الاقوامی قانون کے مطابق اس معاہدے کو معطل یا منسوخ نہیں کیا جاسکتا صرف دونوں فریقوں کی رضامندی سے اسے ایک نئے معاہدے سے تبدیل کیا جا سکتا ہے ہمیں یہ مسئلہ سلامتی کونسل میں مسلسل اٹھانا چاہیئے۔ اور ہم اس مسئلے کو عالمی عدالتِ انصاف میں بھی لے جا سکتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اس مسئلے کے لئے ہمیں بیک چینل سفارتکاری بھی جاری رکھنی چاہیئے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بھارت پاکستان سندھ طاس کشمیر مسعود خان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بھارت پاکستان کامیاب نہیں ہو بین الاقوامی پاکستان اور پاکستان کے سفارت کاری کہ پاکستان کے درمیان کامیاب ہو کی سفارت بھارت کے بھارت نے کے بعد کیا ہے کیا جا کے لئے لیکن ا اپنے ا

پڑھیں:

دنیا کو بتا دیا بھارت مزید کچھ نہیں کرے گا تو ہم بھی کچھ نہیں کریں گے، رانا ثناءاللہ

وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے بڑا پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کو بتا دیا بھارت مزید کچھ نہیں کرے گا تو ہم بھی کچھ نہیں کریں گے۔
اپنے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے حملہ کیا، ہم نے وعدے کے مطابق بھرپور جواب دے دیا، بھارت مزید کچھ نہیں کرے گا تو ہم نے دنیا کو بتا دیا ہے ہم بھی کچھ نہیں کریں گے۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ بھارت نے پہل کی تھی، ہم نے نہیں کی تھی، ہم نے بھارت کو جواب دیا، بھارت اب کچھ نہیں کرے گا تو ہم بھی بطور ذمہ دار ریاست کچھ نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے دنیا کو ایک بار پھر بتا دیا ہے کہ پہلگام واقعے پر تحقیقات کے لیے تیار ہیں، ہم دنیا کے کسی بھی فورم پر اپنے آپ کو پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔

Post Views: 2

متعلقہ مضامین

  • ہم جب جواب دیں گے تو دنیا خود سن لے گی، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے: حنیف عباسی
  • ’معافی دے دیں ایک سڑک بنا دیں‘، عابد شیر علی نے کراچی کی ابتر صورتحال پر ہاتھ جوڑ لیے
  • ہر دہشت گردی کے پیچھے ’را‘ کا ہی ہاتھ رہا ہے، بیرسٹر گوہر
  • ''ہم نے بھارت کو منہ توڑ جواب دے دیا ہے، اب وہ کارووائی نہ کرے تو ہم بھی نہیں کریں گے،،
  • دنیا کو بتا دیا بھارت مزید کچھ نہیں کرے گا تو ہم بھی کچھ نہیں کریں گے، رانا ثناءاللہ
  • آپ نے شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالا ہے، اداکار منیب بٹ کا بھارت کو انتباہ
  • وزیر اعظم پاکستان کی کامیاب سفارتکاری
  • ہماری مسلح افواج سرحدوں کی حفاظت کرنا جانتی ہے،بھارت نفرت کی آگ بجھا کر امن کا راستہ اختیار کرے‘احسن اقبال