دنیا جانتی ہے بھارت خطے میں دہشتگردی کا سب سے بڑا مجرم، اُس کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں، مسعود خان
اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر، اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل نمائندے اور سابق صدر آزاد کشمیر ایمبیسڈر مسعود خان نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ پاک بھارت فوجی ٹکراؤ کو لے کر دو امکانات ہیں۔ ایک یہ کہ معاملہ ہاتھ سے نکل جائے، دوسرا یہ کہ پس پردہ جو سفارتی کوششیں ہو رہی ہیں وہ کامیاب ہو جائیں۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کے عوام ان دوںوں امکانات کا سامنا کرنے کے لئے پوری طرح سے تیار ہیں۔جس وقت بھارت نے آزاد کشمیر میں بلال مسجد پر حملہ کیا میں اُس سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ بعد میں، میں بلال مسجد گیا وہاں شہید ہونے والوں کے لواحقین سے ملاقات کی، شہید مسجد دیکھی، ایک بچی جو زخمی ہوئی اُس کے والدین سے ملاقات کی ہے، وہاں موجود تمام لوگوں کے حوصلے بہت بلند تھے۔
اعصاب کی جنگ ہے لیکن طویل جنگ کی صورت بھارت بڑی قیمت ادا کرنے پر تیار نہیں۔کیا بھارت اس جنگی صورتحال اور جنگی فضاء میں کمی پر آمادہ نظر آتا ہے، اس سوال کے جواب میں ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ فی الحال بھارت اس جنگی فضاء میں کمی پر آمادہ نظر نہیں آتا۔ لیکن وہ بڑی سزا بھی بھگتنے کے لئے بھی تیار نہیں۔ یہ اعصاب کی جنگ ہے اور وہ پاکستان کو آزماء رہے ہیں کہ اُس کا ردعمل کتنا شدید ہو گا۔ دوسرا وہ دنیا میں اپنی دھاک بٹھانا چاہتے ہیں کہ ہم نے اسرائیل کی طرح سے پاکستان کے خلاف اقدام کیا ہے۔ لیکن اگر بڑے پیمانے پر جنگ ہو گی تو اُس کی زد میں بھارت کی معیشت بھی آئے گی۔ اس وقت اُن کی ریاست کے پاس سب سے طاقتور عنصر اُن کی کامیاب معیشت ہے۔ اگر جنگ طول پکڑے گی تو اُن کی معیشت پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔ کارگل جنگ میں وہ امریکی صدر کلنٹن کے پاس جا کر گڑگڑائے تھے کہ ہمیں پاکستانیوں سے بچاؤ۔ اسی طرح سے 2019 میں بھارت نے امریکی وزیر خارجہ پومپیو کو رات کو جگایا کہ پاکستانی ہم پر حملہ کرنے والے ہیں اِن کو روکو۔
چین دونوں ملکوں کے درمیان کامیاب ثالثی کر سکتا ہےایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ 2008 ممبئی حملوں کے بعد چین نے دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کی تھی۔ 2008 میں چین کے نائب وزیرخارجہ پہلے پاکستان اور بعد میں ہندوستان گئے تھے۔ اور اس وقت بھی وہ اپنا کردار ادا کر سکتا ہے کیونکہ بھارت کے چین کے ساتھ تعلقات بڑھ رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب کے کونسے سے ملک دونوں کے درمیان ثالثی کے لئے مؤثر ہو سکتے ہیں، ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ چین کے علاوہ امریکہ نے پہلے ہی ثالثی کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو نے دونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے مشیروں سے بات کی ہے اس کے بعد ہی دونوں مشیروں نے آپس میں بات چیت کی ہے۔
یکطرفہ سفارتکاری کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی بحالی کے لئے سفارتکاری کیسے کامیاب ہو سکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ یکطرفہ سفارتکاری کبھی کامیاب نہیں ہوتی۔ جب تک ہندوستان اپنے رعونت آمیز روّیے سے باہر نہیں آتا، اپنے اندرونی سیاسی مقاصد کے لئے اس طرح کی صورتحال کے استعمال سے نہیں رکتا، سفارتکاری کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ہندوستان نے جارحیت کی ہے خاص طور پر آبی جارحیت کی ہے، ہمارے اتاشیوں کو نکالا، ہمارے لوگوں کو 24 گھنٹے میں نکلنے کا الٹی میٹم دیا اور کئی جارحانہ اقدامات کئے۔سفارتکاری تب کامیاب ہو گی جب بھارت مانے۔ جارحیت بھارت نے کی ہے، اُسے بہت سارے ملکوں نے مشورہ دیا ہے کہ وہ پاکستان سے جنگ نہ کرے بلکہ بہت سے ممالک نے اُس سے ثبوت بھی مانگا ہے کہ پاکستان اس واقعے میں کیسے ملوث تھا جو وہ نہیں دے سکا۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنی ہٹ دھرمی پر بضد رہا۔
پاکستان کی سفارت کاری تب کامیاب ہو گی جب ہندوستان کو بین الاقوامی عدالت میں لے جایا جائے گا۔پہلگام واقعے کے بعد کیا پاکستان کی سفارت کاری کامیاب رہی؟ اس سوال کے جواب میں ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ پاکستان کی سفارتکاری تب کامیاب ہو گی جب ہندوستان کو بین الاقوامی عدالت لے جایا جائے گا اور وہاں کٹہرا میں کھڑا کیا جائے گا۔ ہم نے ابھی اس لمبے سفر کا آغاز کیا ہے۔ پہلگام واقعے کے بعد بھارت کے مؤقف کو بین الاقوامی پذیرائی نہیں ملی جس کی وہ توقع کر رہا تھا لیکن ابھی بھی اُس کے بین الاقوامی تعلقات ہیں اور ہمیں قبل از وقت اپنے آپ کو مبارکباد نہیں دینی چاہیئے۔
بھارتی مؤقف کو 2016 میں بھی مکمل بین الاقوامی حمایت نہیں ملی تھی اور 2019 میں بھی نہیں ملی لیکن اس بار 2025 میں تو کسی نے بھی بھارت کا یقین نہیں کیا۔ بین الاقوامی میڈیا اور دیگر ممالک ثبوت مانگ رہے تھے جو وہ نہیں دے سکے۔
امریکہ یورپ اور خلیجی ریاستوں کے علم میں ہے کہ ہندوستان پاکستان میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتا ہے، اُس کو فنانس کرتا ہے اُس کی منصوبہ سازی کرتا ہے اُس کو پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے۔ وہ بلوچستان ہو یا خیبر پختونخواہ، چینیوں کے خلاف حملے ہوں، جعفر ایکسپریس کا واقعہ ہو، بھارت کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں۔
ہندوستان اس خطے میں دہشت گردی کا سب سے بڑا مجرم ہے اور خود کا دہشتگردی کا شکار ملک کے طور پر پیش نہیں کر سکتا۔ اور اس بار تو اُس نے ریاستی دہشت گردی جس طرح سے اُس نے پاکستان میں بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنایا۔ یہ جنگ کی نئی تاریخ لکھ رہا ہے اور اس کی مثال صرف اسرائیل میں ملتی ہے کہ جس طرح وہاں سویلین آبادی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ ہمارے قومی سلامتی کے مشیر کی بھارت میں اپنے ہم منصب سے بات ہوئی ہے لیکن اس کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہندوستان مان جائے۔ لیکن پاکستان نے اپنا ایک حق بھی محفوظ کیا ہے کہ ہم لوگ مخصوص وقت پہ، مخصوص جگہ پہ اُس کا جواب دیں گے۔ بیک چینل سفارت کاری میں دو ممالک اپنے مخصوص نمائندے مقرر کرتے ہیں جو بات چیت کرتے ہیں کیونکہ حالت جنگ میں کھلے عام بات کرنا مناسب نہیں لگتا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کثیرالقومی فورمز کو استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ اقوام متحدہ۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ طاقتور ممالک ثالثی کروائیں۔اس وقت سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت بیٹھ کر بات کریں اور ہم اُن سے پوچھیں کہ آپ کس حد تک جانا چاہتے ہیں۔
2019 اور 2025 کی سفارت کاری میں کیا فرق ہے؟اس سوال کے جواب میں ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ 2019 میں ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کو ہٹایا تو پاکستان نے اُس پر بھرپور ردعمل دیا اور دنیا نے ہندوستان کی مذمت کی تھی اور ساری دنیا کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہو گئی تھی۔ دنیا بھر کی پارلیمنٹس نے بھارتی اقدام کی مذمت کی تھی لیکن اُس وقت پاکستان کے اندرونی سیاسی اختلافات اور کرونا وباء کی وجہ سے دنیا کی توجہ کشمیر سے ہٹ گئی اور بھارت نے کشمیر میں ہندو آباد کرنے شروع کر دئیے لیکن بھارت مقبوضہ کشمیر میں کامیاب نہیں ہوا۔ اس بار ایک دفعہ پھر مسئلہ کشمیر دنیا بھر میں اُجاگر ہوا ہے لیکن ہمیں اس موقعے سے فائدہ اُٹھانے کے لئے اپنے آپ کو مضبوط کرنا ہوگا اپنے اندر اتفاق و یگانگت پیدا کرنا ہوگی۔
سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے پاکستان کو کیا کرنا چاہیئے؟ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے پر پاکستان کو ورلڈ بینک کے پاس جانا چاہیئے۔ ہندوستان نے غیر قانونی اقدام کیا ہے، بین الاقوامی قانون کے مطابق اس معاہدے کو معطل یا منسوخ نہیں کیا جاسکتا صرف دونوں فریقوں کی رضامندی سے اسے ایک نئے معاہدے سے تبدیل کیا جا سکتا ہے ہمیں یہ مسئلہ سلامتی کونسل میں مسلسل اٹھانا چاہیئے۔ اور ہم اس مسئلے کو عالمی عدالتِ انصاف میں بھی لے جا سکتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اس مسئلے کے لئے ہمیں بیک چینل سفارتکاری بھی جاری رکھنی چاہیئے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت پاکستان سندھ طاس کشمیر مسعود خان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارت پاکستان کامیاب نہیں ہو بین الاقوامی پاکستان اور پاکستان کے سفارت کاری کہ پاکستان کے درمیان کامیاب ہو کی سفارت بھارت کے بھارت نے کے بعد کیا ہے کیا جا کے لئے لیکن ا اپنے ا
پڑھیں:
اب بھارت پاکستان پر حملہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے گا؛ سردار مسعود خان
سٹی 42 : آزاد جموں و کشمیر کے سابق صدر اور سینئر سفارت کار سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ پاک سعودی اسٹرٹیجک باہمی دفاعی معاہدے کے بعد بھارت کے لیے پاکستان پر فوجی مہم جوئی کرنا انتہائی دشوار ہو گیا ہے اور اگر بھارت نے کوئی حماقت کی تو اسے دو ملکوں کی اجتماعی طاقت سے مقابلہ کرنا پڑے گا۔
سردار مسعود خان نے مختلف ٹی وی چینلز کو دیے گئے انٹرویوز میں بتایا کہ اس سال مئی میں بھارت کی جانب سے پاکستان پر جو بلا جواز جنگ مسلط کی گئی تھی اس کا پاکستان نے دندان شکن جواب دیا اور اس معرکے میں پاک فوج نے اپنی برتری ثابت کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ پاک سعودی دفاعی معاہدے کے بعد بھارت کو مستقبل میں کسی قسم کی جارحیت سے پہلے ہزار بار سوچنا ہوگا کیونکہ سعودی عرب کی بھارت میں وسیع سرمایہ کاری ہے اور 35 لاکھ بھارتی شہری سعودی عرب میں بسلسلہ روزگار مقیم ہیں۔
پاکستان نے کامن ویلتھ بیچ ہینڈ بال چیمپئن شپ میں سری لنکا کو شکست دیدی
آزاد جموں و کشمیر کے سابق صدر نے کہا کہ یہ معاہدہ پاکستان کی مشرقی سرحدوں کو عسکری اعتبار سے مضبوط کرے گا اور پاکستان کی اسٹرٹیجک رسائی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ دفاعی ٹیکنالوجی اور دفاعی پیداوار کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے معیشت کو بھی تقویت ملے گی ۔ بھارت کے ممکنہ ردعمل پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے سردار مسعود خان نے کہا کہ بھارت پہلے ہی مختلف محاذوں پر ناکامیوں کا شکار رہا ہے۔ جنگ میں عسکری شکست، سفارتی پسپائی، بیانیہ کے میدان میں ناکامی نے بھارت کو سفارتی ویرانی میں دھکیل دیا۔ اس پس منظر میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی تعلقات نے بھارت کی پوزیشن مزید کمزور اور پاکستان کو مضبوط کردیا۔
دہلی یونیوسٹی کا سٹوڈنٹ یونین الیکشن؛ آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم کا قبضہ ہو گیا
سردار مسعود خان نے کہا کہ پہلگام واقعے کے بعد بھارت کی جانب سے جو بیانیہ بنایا گیا تھا اسے عالمی برادری نے مسترد کر دیا تھا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اسٹرٹیجیک باہمی معائدے سے اسرائیل کے گریٹر اسرائیل بنانے کے منصوبے میں بھی رکاوٹ پیدا ہوگی تو انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے وسیع تر اسرائیل (گریٹر اسرائیل) کا جو نقشہ جاری کیا تھا اس میں سعودی عرب کا نصف حصہ بھی شامل تھا، اس کے علاوہ اسرائیل شام کے حصے بخرے کرنا چاہتا ہے، لبنان کے مشرقی اور جنوبی پہاڑوں میں آباد دروز اور دوسری اقلیتوں کے لیے راہداری بنانے کا ارادہ رکھتا ہے، گولان کی پہاڑیاں شام کو واپس کرنے سے انکاری ہے اور اب غزہ پر قبضہ کرنے میں مصروف ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے یہ بھی کہا تھا کہ فلسطینی عرب ہیں اسلئے وہ اسرائیل (فلسطین) چھوڑ کر مصر، لیبیا، سعودی عرب یا کہیں اور جاکر آباد ہو جائیں تاکہ پم خالص صہیونی ریاست کے قیام کا خواب پورا کرسکیں اور یوں اس پس منظر میں پاک سعودیہ دفاعی اتحاد بروقت ہے۔
دارالحکومت میں 12 قسم کی سرگرمیوں پر پابندی، دفعہ 144 میں دو ماہ کی توسیع
انہوں نے مزید کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ مسلمان دنیا میں دو ارب کے قریب ہیں، ستاون ممالک پر مشتمل ان کی اسلامی تعاون تنظیم ہے، عرب لیگ میں 22 اسلامی ممالک شامل ہیں، خلیج تعاون کونسل ہے جس میں دنیا کے امیر ترین ملک شامل ہیں لیکن ان کے پاس کوئی اجتماعی دفاعی نظام نہیں ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو بار بار فخر سے بتاتا ہے کہ اسرائیل کی سرحدیں کہاں سے شروع ہوکر کہاں ختم ہونگی۔ ان حالات میں مسلمانوں کے دو کلیدی ممالک سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان اس معاہدے سے مسلمانوں کا حوصلہ بڑھا کیونکہ ایک عرصے سے مسلمان بدترین اسلاموفوبیا کا شکار تھے اور ایسے ممالک جہاں وہ اقلیت میں تھے وہاں ان کا عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا تھا۔ ان حالات میں اس معائدے سے کم از کم مسلمان شہری تو بہت خوش ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا جس طرح بھارت کی طرف سے پاکستان پر حملے کے بعد بھارت کی جنگی صلاحیت کا بھرم پوری دنیا کے سامنے کھل گیا، اسی طرح اسرائیل کے قطر پر حملے نے مسلمان ممالک کو متحد کردیا۔
پاک سعودی ڈیفینس معاہدہ دونوں ملکوں کیلئے مثبت ہے؛ بلاول بھٹو
سردار مسعود خان نے کہا کہ قطر پر اسرائیل کے حملے نے امریکہ کی طرف سے خلیجی ریاستوں کی سلامتی اور دفاع کی ضمانت کا تصور پاش پاش ہوگیا۔ تمام خلیجی ریاستوں کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ ان کے پاس دفاع اور اپنی سلامتی کی چھتری موجود نہیں اور اب انہیں اپنے دفاع کے لئے خود کوئی انتظام کرنا گا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ معائدہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہے ہے لیکن یہ ایک اعتبار سے بلواسطہ طور پر تمام خلیجی ریاستوں کے ساتھ بھی ہے کیونکہ عرب ممالک عام طور پر اس قسم کے فیصلے اتفاق رائے سے کرتے ہیں۔ اسلئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قطر پر اسرائیلی حملہ پاک سعودیہ دفاعی معاہدہ کا فوری موجب بنا لیکن یہ مسلمانوں کے اجتماعی دفاع کی جانب ایک قدم ہے جس کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ ہم مغرب کے خلاف لڑنے جا رہے ہیں۔ مغرب میں جو خطرے کی گھنٹیاں بجائی جا رہی ہیں وہ بلاجواز ہیں۔
لاہور میں بونداباندی شروع
آزاد جموں و کشمیر کے سابق صدر نے کہا کہ سعودی عرب مغربی ممالک سے قربت رکھتا تھا اور مغربی ممالک کے زیر اثر ہے لیکن اس نے اپنے مفاد میں ایک آزادانہ فیصلہ کیا، اسی طرح پاکستان کے بھی امریکہ کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں اور ہم چاہیں گے کہ یہ تعلقات مذید مضبوط ہوں لیکن پاکستان نے اپنے مفاد میں ایک آزادانہ فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ گیم نہایت ذہانت کے ساتھ کھیلنی ہوگی اور جس طرح ممتاز چینی رہنما ڈینگ ژیاؤ پِنگ نے کہا تھا‘اپنی طاقت چھپاؤ اور وقت کا انتظار کرو' اب سعودی عرب اور پاکستان کے لئے وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی اجتماعی صلاحیت کو بڑھائیں اور اپنے ساتھ دوسرے ممالک کو شامل کریں۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا آنے والے دنوں میں مذید ممالک اس معاہدے میں شامل ہوں گے۔
سردار مسعود خان نے کہا کہ ترکی اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات ہیں، قطر اور سعودی عربیہ کا زاویہ نگاہ بھی ایک دوسرے سے مختلف یے اسی طرح مصر اور سعودی عرب کے درمیان بھی روایتی طور پر کوئی قربت نہیں رہی۔ اب مصر اور ترکی بھی قطر کی صف میں کھڑے ہوگئے کیونکہ وہ بھی غزہ میں جنگ بندی کے لئے ثالث کے طور پر کام کر رہے تھے، اسلئے وہ بھی اسرائیل کے نشانے پر ہیں کیونکہ اسرائیلی وزیراعظم کہتا ہے کہ جہاں اور جس ملک میں حماس کے نمائندے ہوں گے وہاں حملہ کریں گے۔ اسلئے ہماری یہ رائے ہے اسلامی ممالک خاص طور پر خلیجی ممالک شعور کی پختگی کا ثبوت دیں اور اپنے باہمی اختلافات ختم کرکے کسی اجتماعی دفاعی اتحاد کا حصہ بنیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر مغربی ممالک اپنے اجتماعی دفاع کے لئے نیٹو بنا سکتے ہیں تو مسلمان ممالک ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔