صنم جاوید کی سٹرک بلاک کرنے کے مقدمہ میں ضمانت منظور
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
صنم جاوید کی سٹرک بلاک کرنے کے مقدمہ میں ضمانت منظور WhatsAppFacebookTwitter 0 10 May, 2025 سب نیوز
لاہور(آئی پی ایس)انسداد دہشت گردی عدالت نے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ صنم جاوید کی آٹھ فروری کو سٹرک بلاک کرنے اور احتجاج کے مقدمہ میں ضمانت بعد از گرفتاری منظور کرلی۔
اے ٹی سی کے جج عرفان حیدر نے صنم جاوید کی ضمانت ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کی۔
ملزمہ کے خلاف تھانہ اسلام پورہ پولیس نے مقدمہ درج کررکھا ہے، ملزمہ کی جانب سے میاں علی اشفاق ایڈووکیٹ نے دلائل دیے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرہمارے صبر کی حد ختم ہوئی جس پر جواب دیا، اب بھارت رکے تو ہم بھی حملہ نہیں کرینگے: اسحاق ڈار ہمارے صبر کی حد ختم ہوئی جس پر جواب دیا، اب بھارت رکے تو ہم بھی حملہ نہیں کرینگے: اسحاق ڈار پاکستان کا بھارتی جارحیت کا جواب تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا: مریم نواز آئیسکو کا عملہ بجلی کی بلاتعطل فراہمی میں پیش پیش پاک فوج کا وار؛ صرف 5 گھنٹے میں بھارتی غروردفن کردیا؛ دشمن گھٹنے ٹیکنے پر مجبور دشمن پر لرزہ طاری: عالمی میڈیا نے بھارت میں تباہی کے مناظر دکھانا شروع کردیے ’مودی تمہیں خبردار کیا تھا ہمارا امتحان نہ لو‘، سابق کور کمانڈر کوئٹہ آصف غفور کی ٹوئٹCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: صنم جاوید کی
پڑھیں:
بھارت کا نرس سرلا بھٹ قتل کیس دوبارہ کھولنے کا فیصلہ، ماہرین نے کشمیری مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا قرار دے دیا
سری نگر(نیوز ڈیسک) بھارت کی اسٹیٹ انویسٹی گیشن ایجنسی نے 1990 میں پیش آنے والے نرس سرلا بھٹ کے قتل کے 35 سال پرانے مقدمے کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا ہے، جسے تجزیہ کار انصاف کی فراہمی کے بجائے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری کریک ڈاؤن کو جواز دینے اور کشمیری مسلمانوں کو بدنام کرنے کی ایک اور کوشش قرار دے رہے ہیں۔
یہ واقعہ بھارتی حکومت کے مطابق کشمیری پنڈتوں کی ہجرت کے آغاز کا سبب بنا، جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ہجرت زیادہ تر رضاکارانہ تھی۔ 11 اگست کو سری نگر میں آٹھ مقامات پر چھاپے مارے گئے، جن میں سابق جے کے ایل ایف ارکان پیر نور الحق شاہ اور یاسین ملک کے گھروں پر کارروائیاں شامل تھیں۔ یہ چھاپے دہائیوں پرانے واقعے کے شواہد اکٹھے کرنے کے لیے کیے گئے۔
سرلا بھٹ، جو شیرِ کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں ملازم تھیں، 18 اپریل 1990 کو ہوسٹل سے اغوا کے بعد قتل کر دی گئی تھیں۔ بھارتی حکام کا مؤقف ہے کہ یہ قتل پنڈت برادری کو وادی چھوڑنے پر مجبور کرنے کا حصہ تھا، تاہم متعدد کشمیری پنڈت اس دعوے کی تردید کر چکے ہیں۔
ناقدین کے مطابق یہ مقدمہ بھارتی ریاستی بیانیے کا حصہ ہے جس میں کشمیری آزادی تحریک کو ’دہشتگردی‘ سے جوڑ کر سیاسی مطالبات کو غیر قانونی ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس پالیسی کے تحت ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں، جعلی مقابلے اور بے گناہ شہریوں کی گرفتاری عام ہیں، جن کی مثالیں چٹہ سنگھ پورہ، کپواڑہ اور ہندواڑہ کے واقعات میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
سینیئر کشمیری صحافی گوہر گیلانی کے مطابق اُس وقت کچھ کشمیری مسلمانوں نے سینیئر بھارتی افسر وجاہت حبیب اللہ سے پنڈت برادری کو جانے سے روکنے کی درخواست کی تھی، لیکن گورنر جگموہن نے کہا کہ جانے والوں کے لیے کیمپ اور تنخواہوں کا بندوبست ہو سکتا ہے، البتہ رہنے والوں کی حفاظت کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کیس کو دوبارہ کھولنا اسلاموفوبیا اور فرقہ وارانہ نفرت کو ہوا دینے کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔
Post Views: 6