نریندر مودی بمقابلہ مولانا محمد مسعود ازہر
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
پاک فوج کے ترجمان نے کہا تھا کہ جب ہم حملہ کریں گے تو ان کے میڈیا کو بتانا نہیں پڑے گا، ہمارا حملہ نظر بھی آئے گا اور پھر پاکستان نے بھارت پر جب جوابی حملے کئے تو ان حملوں کی شدت و حدت کو صرف دہلی ہی نہیں، بلکہ دنیا بھر میں محسوس کیا گیا، پاک فوج کے شاہینوں کے ہاتھوں بھارتی فوج کی درگت بنتی دیکھ کر ایک عرب نے سوشل میڈیا پر عربی میں تحریر کیا کہ ’’بہت وقت گزر گیا۔ ان محروم آنکھوں نے ایک ہی منظر بار بار دیکھا ۔کا فروں کو مسلمانوں پر آسمان سے آگ اور لوہا برساتے ہوئے۔کبھی عراق کے آسمان شعلوں سے بھر گئے،کبھی فلسطین کی گلیاں خون سے رنگین ہو گئیں،کبھی افغانستان کے پہاڑ لرز اٹھے اور کبھی شام و لبنان کی زمین پر آسمان سے قیامت نازل ہوئی۔لیکن آج…! آج ان آنکھوں نے وہ منظر دیکھا جس نے برسوں کی پیاس بجھا دی۔ہم نے دیکھا کہ پاکستان کے شاہینوں نے گائوپوجنے والوں پر آسمان سے آگ برسائی۔دل کی دھڑکنیں سجدہ ریز ہو گئیں۔ایسا سکون دل میں اترا جو لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتا۔اے اللہ!تیرے ہی لئے ہے تمام تعریف۔ہزار بار شکر کہ تو نے ہمیں یہ دن دکھایا۔یہ تیرا ہی فضل ہے کہ مظلوموں کی دعائیں سنی گئیں اور ظالموں پر آسمان سے بجلی گری!‘‘
پاک فوج کے ترجمان نے اپنی پریس کانفرنس میں سوال اٹھایا تھا کہ دنیا کا کون سا مذہب عبادت گاہوں اور مقدس کتابوں کو نشانہ بنانے کی اجازت دیتا ہے ؟یہ بات حقیقت ہے کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب عبادت گاہوں اور مقدس کتابوں کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیتا ، سوائے ’’ہندو توا مودی ازم‘‘کے ’’ہندو توا مودی ازم‘‘ دراصل مغلوبہ ہے،شیطنت و دنگا و فساد کا،یہ کوئی مذہب نہیں، بلکہ فتنہ ہے فتنہ اور اس فتنے کا قرآنی علاج جہادو قتال بتایا گیا ہے،کہنے کی حد تک بھارت اپنے اپ کو ایشیا ء کی سپر پاور سمجھتا ہے لیکن اس کے وزیراعظم اور آرمی چیف کی بزدلی کی انتہا یہ ہے کہ انہیں پاکستان میں سب سے زیادہ خوف ایک درویش صفت مجاہد مولانا محمد مسعود ازہر سے محسوس ہوتا ہے، کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر پاکستان کی حکومتوں نے مولانا مسعود ازہر اور حافظ سعید جیسے ہیروز کو پابندیوں میں نہ جکڑا ہوتا تو بھارت میں ہندو توا مودی ازم اس وقت تک ’’وڑ‘‘چکا ہوتا ،افسوس کہ مولانا مسعود ازہر جیسے خدا پرستوں کو ہمیشہ اپنوں نے غیروں کے ساتھ مل کر نقصان پہنچانے کی کوشش کی، وگرنہ ہندو ازم تو کبھی بھی طاقتور نہیں رہا، آپ سلطان محمود غزنوی کو دیکھ لیں، آج بھی ہندوستانی بتوں پر محمود غزنوی کا نام سن کر لرزہ طاری ہو جاتا ہے، مسلمان اللہ کا نام لیوا ہو، اور اس کے دل و دماغ پر جہاد کی عبادت چھائی ہو، ہو نہیں سکتا کہ کوئی مشرک اس پر غالب آجائے، مودی کے ہندوستان میں مولانا محمد مسعود ازہر کے خاندان کے معصوم بچوں عفت مآب عورتوں اور بوڑھوں کو شہید کر کے جشن منایا جا رہا ہے ،جو ریاست کم ظرفی کی اس انتہا کو پہنچ جائے وہ ریاست صرف ایشیا ء کی ہی نہیں ، چاہے دنیا کی سپر پاور بھی کیوں نہ ہو اسے رب کے عذاب سے بچا کوئی نہیں سکتا، مسلمانوں کے معصوم بچوں ، عورتوں بوڑھوں، مسجدوں کے خلاف نریندر مودی کے جرائم میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، نریندر مودی پاکستان کا پانی بند کرکے 25کروڑ پاکستانیوں کو مارنا چاہتا ہے، انسانیت کے اس بدترین مجرم کو کڑی سزا دینا اس لئے لازم ہو چکا، تا کہ انسان اس کے ظلم و تعدی سے محفوظ رہ سکیں، مودی و نیتن یاہو جیسے انسانیت کے مجرموں کا علاج نہ تو مذمتی قراردادوں، نہ مذمتی بیانات ،نہ جلسے اور نہ جلوسوں سے ممکن ہے، بلکہ ان کا علاج صرف اور صرف جہاد و قتال ہی کے ذریعے ممکن ہے،اس خاکسار نے مولانا محمد مسعود ازہر کی تقریبا ً 30سالہ جہادی زندگی کے کارناموں پر بار بار نگاہ دوڑائی ،مجھے ان کے دامن پہ نہ تو دشمن کے بچوں اور عورتوں کے خون کے چھینٹے نظر آئے ،نہ مندروں پر نہ عام ہندوئوں پر اور نہ ہندوستانی شہریوں پر حملے نظر آئے ۔
مولانا محمد مسعود ازہر جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹائون کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ولی کامل شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ کے خلیفہ مجاز بھی ہیں،آپ تقویٰ کی دولت سے مالا مال، صاحب نسبت بزرگ ہیں ،تکبر،غرور،نخوت،بد اخلاقی اور سخت مزاجی جیسی بیماریوں سے کوسوں میل دوری کی وجہ سے صرف ہزاروں مجاہدین ہی نہیں، بلکہ پاکستان ،بنگلہ دیش ، ہندوستان اور کشمیر کے کروڑوں عام مسلمان بھی آپ سے عقیدت ومحبت رکھتے ہیں یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہندوستان میں مولانا مسعود ازہر کے بے شمار چاہنے والے موجود ہیں،اس کے برعکس ’’نریندر مودی مردودی‘‘ بھارتی گجرات میں ہزاروں انسانوں کا قتل عام کروانے کی وجہ سے ’’قصائی‘‘کا لقب پا چکا ہے،کشمیر سے لے کر بہاولپور تک، مودی کے دامن پر ہزاروں معصوم بچوں اور عورتوں کے خون کے دھبے موجود ہیں۔’’نریندر مودی مردودی‘‘نے صرف ایک بابری مسجد ہی نہیں،بلکہ ہندوستان کی مزید درجنوں مساجد شہید کروانے کے بعد مظفرآباد کی بلال مسجد اور بہاولپور کی مسجد سبحان اللہ کو بھی شہید کر ڈالا، نریندر مودی کٹر ہندو فرقہ پرست ہے، اس کے دل و دماغ میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے،پاکستان کی تباہی اس کا دیرینہ خواب ہے،ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کو سیاسی ہو،مذہبی ہو، معاشی ہو یا معاشرتی، ہر طرح سے کچلنا اس کا مشغلہ ہے، غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کے نزدیک مولانا محمد مسعود ازہر کو نریندر مودی پر اک ایسی شاندار اخلاقی برتری حاصل ہے کہ مودی جیسے ہزاروں، مولانا ازہر کے جوتوں کی خاک کے بھی برابر نہیں ،یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھارتی فوج نے آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں بلال مسجد کو نشانہ بنایا ،کوٹلی میں بھی مسجد کو نشانہ بنایا گیا ، بہاولپور میں بھی مسجد اور مدرسے کو نشانہ بنا یا،لیکن جواب میں پاک فوج نے ہندوستان کے کسی مندر کو نشانہ نہ بناکر بھارتی فوج پر اپنی اخلاقی برتری کی دھاک بٹھا دی ،ورنہ رام مندر کی اینٹ سے اینٹ بجانا پاکستانی فوج کے لئے کون سا مشکل تھا؟پاک فوج نے اپنے جوابی حملے بھارت کی عسکری تنصیبات اور بھارتی فوج تک ہی محدود رکھے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: مولانا محمد مسعود ازہر بھارتی فوج کو نشانہ پاک فوج ہی نہیں فوج کے
پڑھیں:
سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ بحیثیت نثر نگار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سید مودودی ؒ کو ہم سے جدا ہوئے 46 سال بیت گئے ہیں۔ ان کی فکر آج چہار عالم میں پھیل چکی ہے۔ دنیا ان کی فکر کی حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔ درحقیقت بیسویں اور اکیسویں صدی میں جن شخصیات کے افکار نے پوری دنیا، بالخصوص مسلم دنیا کو متاثر کیاہے ان میں علامہ اقبال ؒ، سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ، حسن البناء شہید، سید قطب شہید کے نام نمایاں ہیں۔ ان عظیم ہستیوں خصوصاً سید مودودی ؒ کے افکار، ان کی حیات، خدمات اور احیائے اسلام، اقامت دین کی جدوجہد کے تمام پہلوؤں کو آج کل سے زیادہ محفوظ کرنے اور نئی نسل تک منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ اب خال خال ہی وہ افراد بقید حیات ہیں جن کو مولانا مودودی ؒ کے ساتھ کام کرنے کا اتفاق ہوا اور جو ان کے ہم عصر تھے۔46برس گزرنے کے بعد نئی نسل تک ان کی فکر اور احیائے اسلام کے لیے جدوجہد کو منتقل کرنا جہاں ایک ضرورت ہے وہاں سید مودودی کا ہم پر قرض ہے۔ بلاشبہ اس حوالہ سے مولانا مودودی پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں ان کے رفقا ء نعیم صدیقی، سید اسعد گیلانی، آباد شاہ پوری، رفیع الدین ہاشمیمرحوم اور سلیم منصور خالد اور دیگر احباب نے بہت عمدہ کتابیں لکھی ہیں جو ہمارے لیے بہت قیمتی ورثہ کی حیثیت رکھتی ہیں لیکن ان پر سوانحی رنگ غالب ہے تاہم ادبیات مودودی کے نام سے پروفیسر خورشید احمدؒ صاحب نے ایک گراں قدر کاوش کی تھی جس کے تحت مولانا مودودی کے ادب اور ان کے طرز نگارش کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا، جس میں معروف اہل قلم کی تحریریں پیش کی گئیں اور مولانا مودودی کے طر ز نگارش کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا۔
مولانا مودودی ؒکے افکار اور ان کی جدوجہد اور لٹریچر تو زیر بحث آتے رہے ہیں لیکن مولانا مودودی بحیثیت نثر نگار کا جس علمی انداز میں جائزہ لینے کی ضرورت تھی اس طرف کم توجہ دی گئی۔ڈاکٹر محمد جاوید نے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی جو کہ خود مولانا مودودی کے ہم عصر اور ان کے رفقا میں سے تھے کی نگرانی میں اس موضوع پر کام کیا او راس کا حق ادا کیا۔
کسی بھی شخصیت کے کام کا صحیح معنوں میں اندازہ اسی وقت لگایا جاسکتاہے کہ وہ پس منظر اور حالات سامنے ہوں جن میں انہوں نے کام کیا اور جدوجہد کی۔ سید مودودی ؒ نے جس عہد میں علمی و فکری جدوجہد کا آغاز کیا اور اپنے افکار پیش کرنے کے لیے قلمی میدان چنا وہ کٹھن دور تھا۔ ایک طرف مغربی تہذیب کی بالادستی اور جادو سر چڑھ کر بول رہاتھا جس نے مسلمانوں کو سحر زدہ کر رکھاتھا اور شکست خوردگی کی کیفیت سے مسلمان دوچار تھے اور دوسری طرف الحاد، دہریت، اباحیت کے فتنے سے دین و ایمان کو خطرات لاحق تھے ایسے میں ایک ایسے فرد کی ضرورت تھی جو جدیدو قدیم پر نظر رکھتاہو اور پورے اعتماد سے مغربی افکار کا منہ توڑ جواب دے سکے۔ ایسے میں سید مودودی ؒ کی شخصیت ابھرتی ہے اور امت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہے۔
مولانا کی نثر کا ایک نمایاں پہلو تفسیر القرآن اور سیرت نگاری ہے۔ تفہیم القرآن جہاں شاہکار ہے، وہاں سیرت نگاری بھی انفرادیت کی حامل ہے۔ آپ نے سیرت نگاری کو واقعاتی انداز کے بجائے تحریکی انداز میں پیش کیاہے جو ایک منفرد انداز تحریر ہے۔ یہ بلاشبہ تفسیر اور سیرت میں مولانا مودودی کا اجتہاد ی کارنامہ ہے۔
مولانا غلام غوث ہزاروی صاحب ؒ اپنے دور میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ پر سخت تنقید کرنے والوں میں سے تھے۔1973 ء میں بنگلہ دیش نامنظور مہم کے سلسلے میں مجھے اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم پنجاب کی حیثیت سے وفد کے ساتھ ایم این اے ہاسٹل اسلام آباد میں ان سے ملاقات کا موقع ملا۔ ہم بنگلہ دیش نامنظور کے حوالے سے یاد داشت ممبران پارلیمنٹ کو دے رہے تھے جب مولانا غلام غوث ہزارو ی کے کمرہ میں ان سے گفتگو ہوئی تو دیکھا کہ ان کے کمرہ کی میز پر مولانا مودودی کی کتب تفہیم القرآن سوئم، پردہ، سود وغیرہ پڑی تھیں اور ان میں یاد داشت کے لیے کاغذ رکھے ہوئے تھے۔ ہم نے کہاکہ مولانا آپ تو ہمیں منع کرتے ہیں لیکن یہ کتب آپ کے پاس کیسے؟تو مولانا غلام غوث ہزارو ی نے فرمایا کہ ”بات تمہاری بھی ٹھیک ہے لیکن یہ ظالم لکھتا بہت اچھاہے، بڑے دلائل ہوتے ہیں اس کی تحریر میں ، اسمبلی میں گفتگو کے لیے اچھی تیاری ہو جاتی ہے۔“
آج کے دور میں مولانا مودودی ؒ کی فکر کی روشنی میں امت کے بکھرے شیرازہ کو اکٹھا کرنے کے لیے اتحاد امت، نظام ریاست میں غلبہ دین کے لیے طاقت کی بجائے دعوت و تبلیغ، ذہنی و فکری اصلاح اور افکار کی تطہیر کے ذریعے پرامن سیاسی، جمہوری، آئینی جدوجہد کے ذریعے قیادت و نظام کی تبدیلی ناگزیر ہو گئی ہے۔ عالمی استعماری قوتیں ناکام ہو رہی ہیں۔ دنیا میں طاقت کا توازن تبدیل ہورہاہے، اسلامی تحریکوں پر اگرچہ ابتلاو آزمائش کا دور ہے لیکن یہ امر نوشتہئ دیوار ہے کہ مستقبل کا نظام قرآن وسنت کی تعلیمات اور مسلمانوں کی بیدار قیادت سے وابستہ ہے۔
دانشور، نقاد حضرات سے اپیل ہے کہ نام نہاد ترقی پسندی اور فلسفہ اشتراکیت ڈوب گیا،اب سیکولرازم، روشن خیالی، مادر پدر فکری آزادی کی بجائے دینی اور نظریاتی بنیادوں پر ان تحریروں اور نگارشات پر بدلتے حالات کی حقیقت کو تسلیم کرلیں اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو ملی تعمیر کے لیے صحیح رخ پر استعمال کریں۔