امید ہے ٹرمپ مسئلہ کشمیر کے حل میں بھی عملی دلچسپی لیں گے: چوہدری شجاعت
اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT
شجاعت حسین---فائل فوٹو
سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی سیز فائر میں دلچسپی حوصلہ افزاء ہے، امید ہے ٹرمپ مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل میں بھی عملی دلچسپی لیں گے۔
مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری شجاعت حسین نے ایک بیان میں کہا کہ عالمی طاقتیں امن چاہتی ہیں تو کشمیر کا دیرینہ تنازع نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔
چوہدری شجاعت حسین نے پاکستان کے خلاف بھارتی جارحیت پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ افواج پاکستان نے بھارتی بزدلانہ حملہ نہ صرف پسپا کیا بلکہ اسے بھاری نقصان بھی پہنچایا۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا کو اپنی خارجہ پالیسی میں مسئلہ کشمیر کو ترجیح دینا ہوگی، مسئلہ کشمیر کے حل سے جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کی بنیاد رکھی جاسکے گی۔
انہوں نے کہا کہ دنیا روس یوکرین، اسرائیل فلسطین جیسے تنازعات کے حل میں دلچسپی لے رہی ہے، دنیا کشمیر جیسے اہم مسئلے کو بھی نظرانداز نہ کرے، عالمی طاقتیں مصلحتوں سے بالاتر ہو کر خطے میں انصاف پر مبنی پالیسی اپنائیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: چوہدری شجاعت حسین مسئلہ کشمیر
پڑھیں:
پاکستان کا اصولی موقف دنیا اور افغانستان نے تسلیم کیا، طلال چودھری
وزیرِ مملکت برائے امور داخلہ طلال چوہدری—فائل فوٹووزیرِ مملکت برائے امور داخلہ طلال چوہدری نے کہا کہ پاکستان کا اصولی موقف دنیا نے بھی مانا اور ہمسائے نے بھی مانا ہے۔
طلال چوہدری نے کہا کہ پہلی بار افغانستان کے ساتھ تحریری طور پر طے ہوا کہ مکینزم بنایا جائیگا۔
انہوں نے کہا یہ طے ہوا کہ 6 نومبر کو اس سلسلے میں تفصیلی طور پر طے کیا جائیگا۔
وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کا کہنا ہے کہ بھارت مسلسل کہہ رہا ہے کہ آپریشن سندور ابھی چل رہا ہے، بھارت نے سامنے سے حملہ کیا تو اسے شکست ہوئی اب چھپ کر وار کر رہا ہے۔
وزیرِ مملکت کا کہنا تھا کہ پاکستان کا اصولی موقف دنیا نے بھی مانا اور ہمسائے نے بھی مانا ہے اور اب پہلی بار تحریری طور پر چیزیں سامنے آئیں ہیں، یہ پاکستان کی کامیابی ہے۔
طلال چوہدری نے بتایا کہ اس میں شک نہیں کہ افغانستان بھارت کی پراکسی کے طور پر کام آتا رہا ہے اور شواہد ہیں کہ افغانستان میں دہشتگرد گروپ موجود ہیں، پہلی جنگ بندی ہوئی تو کالعدم ٹی ٹی پی کا بیان آیا کہ کابل بھی ہمارا دشمن ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ دامن صاف ہو تو لکھ کر دینے میں کیوں گریز ہوگا اور اب بات تحریری اور 2 ثالثوں کی موجودگی میں ہوئی ہے۔