بھارت پاکستان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا: فواد چوہدری
اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT
سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان نے یہ تاثر ختم کر دیا کہ بھارت سائوتھ ایشیا کا اسرائیل ہے۔انسداد دہشتگردی عدالت لاہور کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ پاکستان نے ہر محاذ پر بھارت کو مثر جواب دیا ہے،پاکستان کی ایئر فورس نے بھارت کے 6 جنگی طیارے مار گرائے اور انڈین ایئر بیس کو تباہ کر دیا۔ انڈین ایئر فورس کو اس نوعیت کا نقصان پہلے کبھی نہیں ہوا۔انہوں نے مزید کہا کہ بھارت پاکستان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا کیونکہ پاکستان کی عسکری طاقت اور قوم کا اتحاد اس کا اصل ہتھیار ہے۔ بھارت کے لوگ چین، سعودی عرب اور امریکہ سے رابطے میں تھے کہ جنگ بند کروائی جائے۔فواد چوہدری نے کہا کہ اصل جنون وہی ہوتا ہے جو عمل میں نظر آئے اور پاکستان نے دنیا کو دکھایا کہ ہم اپنے دفاع میں کتنے سنجیدہ اور مضبوط ہیں،پوری قوم پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہے اور پاکستان کے دفاع پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کی ایئرفورس نے چند گھنٹوں میں بھارت کے 5 طیارے گرائے، بھارتی جارحیت کے جواب میں پاکستان نے 20 ایئر بیسز تباہ کیں۔انہوں نے کہا کہ نیوکلیئر بہت بعد کی بات ہے، ٹریڈیشنل وار میں پاکستان نے بھارت کو دھول چٹائی ہے، پاکستان کو جو کرنا چاہیے تھا وہ کیا، پوری قوم افواج پاکستان، پاک فضائیہ کی شکرگزار ہے، دنیا میں تاثر پھیلا ہوا تھا کہ ہندوستان سائوتھ ایشیا کا اسرائیل ہے، پاکستان نے یہ بھی تاثر ختم کیا کہ ہندوستان سائوتھ ایشیا کا اسرائیل ہے۔سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان طے کرتا ہے کہ سائوتھ ایشیا کی پاور پولیٹکس کیسے ہونی ہے ۔انہوںنے کا کہ افواج پاکستان کے جوانوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر ہندوستان کو دھول چٹائی، افواج پاکستان نے ملک وقوم کا سر فخرسے بلند کیا ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: فواد چوہدری کہ پاکستان پاکستان نے نے کہا کہ
پڑھیں:
چین-وسطی ایشیا سربراہی اجلاس، سلک روڈ اور پاکستان
سلک روڈ سے منسلک ممالک کا دوسرا چین-وسطی ایشیاء سربراہی اجلاس 17 جون2025 کو آستانہ میں ہوا۔ قازقستان میں ہونے والا دوسرا چین-وسطی ایشیا سربراہی اجلاس محض ایک سفارتی ملاقات سے کہیں بڑھ کر رہا۔ جس میں دنیا بھر کے لیے معاشی ترقی اور دوطرفہ جیت پر توجہ مرکوز کی گئی۔ چینی صدر شی جن پنگ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دو سالوں میں چین اور وسطی ایشیائی ممالک نے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ کی مشترکہ تعمیر پر مزید گہرائی سے عمل درآمد کیا ہے، تجارتی حجم میں 35 فیصد اضافہ ہوا ہے، اور صنعتی سرمایہ کاری، سبز معدنیات، سائنسی اور تکنیکی اختراعات وغیرہ میں تعاون کو فعال طور پر آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
شی جن پنگ نے مزید کہا کہ سب سے پہلے، ہمیں باہمی اعتماد اور باہمی تعاون پر مبنی اتحاد کے حقیقی عزم پر قائم رہنا چاہیے۔ دوسرا، ہمیں عملی، موثر اور گہرائی سے مربوط تعاون کی ساخت کو بہتر بنانا چاہیے۔ تیسرا، ہمیں امن و استحکام کا ایک سلامتی نمونہ تشکیل دینا چاہیے اور دکھ سکھ کو بانٹنا چاہیے۔ چوتھا، ہمیں اتحاد، باہمی افہام و تفہیم اور محبت کے ثقافتی رشتوں کو مضبوط کرنا چاہیے۔ پانچواں، ہمیں ایک منصفانہ، معقول، مساوی اور منظم بین الاقوامی نظم برقرار رکھنا چاہیے۔
یہ اجلاس چین اور پانچ وسطی ایشیائی ممالک-قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان-کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کی جانب ایک اہم پیشرفت ہے۔ پہلا سربراہی اجلاس مئی 2023 میں چین کے شہر شیان میں منعقد ہوا تھا۔ اجتماعی کوششوں سے تشکیل پانے والا یہ پلیٹ فارم خطے میں استحکام، باہمی ترقی اور معیاری ترقی کے مشترکہ اہداف کی عکاسی کرتا ہے۔
بات ہو رہی تھی سلک روڈ یا شاہراہ ریشم کی، سلک روڈ کیا ہے؟ اور اس کی اہمیت کیا ہے؟
سلک روڈ (شاہراہ ریشم) قدیم زمانے سے تجارت، ثقافت اور تہذیب کے تبادلے کا ایک اہم نیٹ ورک رہا ہے۔ یہ روٹ چین، وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ، یورپ اور افریقہ کو آپس میں ملاتا تھا۔ اس کا نام ’سلک روڈ‘ چین کی مشہور ریشم کی تجارت کی وجہ سے پڑا، جو اس زمانے میں انتہائی قیمتی سمجھا جاتا تھا۔
قدیم دور سے شاہراہ ریشم تجارتی حوالے سے ایک اہم شاہراہ رہی ہے۔ ایشیا کو یورپ سے ملانے والی یہ شاہراہ یوں تو ریشم کی تجارت سے مشہور ہوئی لیکن بات ریشم تک رکی نہیں بلکہ مصالحے، زیورات، کپڑے اور دیگر قیمتی سامان کا تبادلہ ہوتا تھا۔ دوسری اہم بات یہ راستہ مختلف مذاہب، زبانیں، علوم و فنون اور مختلف تہذیبوں تک پہنچنے کا بہترین ذریعہ ہے اور ثقافتی اعتبار سے شاید ہی ایسا کوئی اور روڈ ہو جس پر چلتے ہوئے آپ کو شرق و غرب کی ثقافتوں سے آگاہی حاصل ہو ۔ اس روڈ کی ایک اور اہم بات اس سے جڑے ممالک اور سلطنتوں کی معاشی ترقی بھی رہی ہے۔ سلک روڈ کے ذریعے شہر اورسلطنتیں پروان چڑھیں، جیسے سمرقند، بخارا اور شاہراہِ ریشم کے دیگر اہم شہر بھی اس میں شامل ہیں۔
سلک روڈ میں شامل ممالک/قدیم سلک روڈدرج ذیل خطوں اور ممالک سے گزرتا تھا۔ جس میں چین ، دوسرا وسطی ایشیائی ممالک جن میں قازقستان، ازبکستان، ترکمانستان،تاجکستان شامل ہیں اسکے علاوہ جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت اور مشرقی وسطی میں ایران، عراق، شامل جبکہ یورپ سے ترکی، اٹلی اور یونان شامل ہیں
چین کا سلک روڈ سے متعلق وژن: ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو(BRI)‘2013میں چین کے صدر شی جن پنگ نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو(BRI) کا اعلان کیا، جو جدید دور میں سلک روڈ کی بحالی کا منصوبہ ہے۔ اس کا مقصد بین الاقوامی تجارت، انفراسٹرکچر اور معاشی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو(BRI)کے تین اہم پہلو ہیں، ایک زمینی راستے، دوسرا بحری راستے اور تیسرا معاشی راہداریاں: زمینی راستے سے چین تا یورپ ریل اور سڑک کے نیٹ ورک کی تعمیر ہے، جبکہ بحری راستے سے تجارت کو بڑھانے کے لیے بندرگاہوں کی ترقی اور تعمیر شامل ہے اور تیسرا پہلو معاشی راہداریاں تعمیر کرنے کا ہے۔ پاکستان میں ’چین پاکستان اقتصادی راہداری(CPEC)‘اس کا اہم حصہ ہے۔
پاک چین اقتصادی راہداری اور سلک روڈ:پاکستان تاریخی طور پر سلک روڈ کا اہم حصہ رہا ہے۔ جدید دور میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) BRIکا سب سے اہم منصوبہ ہے، جس کے تحت گوادر بندرگاہ کی ترقی، توانائی کے منصوبوں کی تعمیر جیسے کوئلہ، ہوا اور شمسی توانائی کے پلانٹس لگانا اور اسکے علاوہ سڑکوں اور ریلوے کا جال بنانا ہے۔CPECسے پاکستان کو معاشی ترقی، روزگار کے مواقع اور توانائی کے شعبے میں خودکفالت حاصل ہوگی۔ گوادر بندرگاہ چین، افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے تجارت کا اہم مرکز بن رہا ہے۔
جدید دور میں سلک روڈ کی بحالی: بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI)21ویں صدی میں چین نے ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو(BRI)‘کے ذریعے تاریخی سلک روڈ کو ایک نئی شکل دی ہے۔ اس منصوبے کا بنیادی مقصد بین الاقوامی تجارت، انفراسٹرکچر کی ترقی اور معاشی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ جدید سلک روڈ نہ صرف زمینی اور بحری تجارتی راستوں کو جوڑتا ہے بلکہ ڈیجیٹل اور توانائی کے شعبوں میں بھی تعاون کو بڑھارہا ہے۔
عالمی تجارت کو فروغقدیم ’شاہراہ ریشم ‘اور ’جدید بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو‘ کی بدولت چین سے یورپ تک تیز ترین تجارتی راستے کی بحالی ہوئی ہے۔ ریل اور سڑک کے ذریعے مال برداری کا وقت کم ہوا ہے۔ مثال کے طور پر، چین سے یورپ تک ریل گاڑیوں سے سامان پہنچانے میں بحری جہازوں کے مقابلے میں نصف وقت لگتا ہے۔ اسکے علاوہ بحری تجارت میں اضافہ ہواہے ۔ جیسے پاکستان کی گوادرکی بندرگاہ، ہمبنتوتا (سری لنکا) اور پیراموس (یونان) جیسی بندرگاہوں کی تعمیر سے عالمی تجارت کو نیا راستہ ملا ہے۔
انفراسٹرکچر اور معاشی ترقی’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو(BRI)‘کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کو معاشی ترقی کے مواقع میسر آرہے ہیں ۔ اس سے منسلک ممالک (جیسے پاکستان، وسطی ایشیائی ریاستیں، افریقی ممالک) کو جدید سڑکیں، ریلوے اور توانائی کے منصوبے مل رہے ہیں۔ اور خاص طور پر صنعتی اور اقتصادی زونز کی تعمیر جاری ہے۔ چین کی مدد سے متعدد ممالک میں خصوصی اقتصادی زونز (SEZs) بنائے جا رہے ہیں، جو برآمدات اور روزگار کو فروغ دے رہے ہیں۔
توانائی اور ڈیجیٹل کنیکٹیویٹیچین نے پاکستان، افریقہ اور وسطی ایشیا میں شمسی، ہوا اور ہائیڈرو پاور پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کی ہے، جو توانائی کے شعبے میں خود انحصاری پیدا کر رہے ہیں۔ جبکہ ڈیجیٹل سلک روڈ سے مراد چین کی 5G ٹیکنالوجی ، فائبر آپٹک نیٹ ورکس اور اسمارٹ شہروں کی تعمیر کے ذریعے ڈیجیٹل تجارت کو بڑھا رہا ہے۔اگر مندرجہ بالا منصوبے پائیدار طریقے سے مکمل ہوں، تو یہ یوریشیا اور افریقہ میں تجارت اور ترقی کا نیا دور شروع کر سکتے ہیں۔
21ویں صدی میں سلک روڈ نہ صرف تجارت بلکہ معاشی، ثقافتی اور تکنیکی تعاون کا اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ چین کاBRIمنصوبہ عالمی تجارت کو نئی سمت دے رہا ہے، جس میں پاکستان جیسے ممالک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگر چیلنجز کو مناسب طریقے سے حل کیا جائے، تو جدید سلک روڈ دنیا کی معیشت کو مزید مستحکم اور مربوط بنا سکتا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں