WE News:
2025-10-13@18:02:31 GMT

سرینڈر مودی ہمیں اب تاؤ بولا کر

اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT

ایک چرسی چھت پر بیٹھا پکے سوٹے لگا رہا تھا۔ اس کا دماغ سوچ کو بادلوں میں لے گیا۔ تب چرسی کو خیال آیا کہ وہ اڑ سکتا ہے۔ چرسی خیال آتے ہی اٹھ کر کھڑا ہوا، اپنے ہاتھ پھیلائے اور دوڑ کر اڑ گیا۔ اڑتے ہی وہ سیدھا زمین پر آ کر گرا۔ دھڑام کافی بڑی ہوئی تھی۔ لوگ بھاگے آئے، اس سے پوچھا کہ کیا ہوا تھا؟ چرسی بولا کیا پتہ میں تو خود ابھی پہنچا ہوں۔

آپ اس چرسی والے واقعے سے عقل کشید کریں۔ انڈین ڈی جی ائیر آپریشن اودیش کمار بھارتی میڈیا کو دیے گئے جواب پر درگزر کریں۔ رافیل طیارہ گرنے پر سوال کے جواب میں اے کے بھارتی نے فرمایا ’نقصانات لڑائی کا حصہ ہوتے ہیں، تفصیل نہیں بتا سکتا، اس سے فریق مخالف کو فائدہ ہوگا‘۔ یہ کہہ کر بھارتی نے ہمارے چرسی والا سیانا پن ہی ظاہر کیا ہے۔ ان سے درگزر کریں۔

اک پنڈ میں بالکل مودی طبعیت ایک عملی (افیمی) تھا ۔ آتے جاتے پر اڑ اڑ کر گرتا۔ جسے دیکھتا اسے سنانی شروع کر دیتا۔ عملی کی زبان سے تنگ آ کر گاؤں والے جمع ہوئے۔ اس کی بہادری، عقل فراست اور منطقی دلائل دینے کی صلاحیت کا اعتراف کیا۔ اسے کہا کہ اگر وہ جا کر ساتھ والے پنڈ کے سرپنچ کو کہہ آئے کہ آئندہ ہم اپنے پنڈ سے پانی تمھاری طرف نہیں آنے دیں گے تو سارے پنڈ کا بھلا ہو جائے گا اور تمھاری دھاک بھی بیٹھ جائے گی۔

عملی نے مودی والی ساری فیل لی اور سرپنچ کو تڑی دینے چلا گیا۔ گھنٹے ڈیڑھ بعد عملی کی تقریباً لاش اس کے پنڈ کے باہر پھینک گئے۔ پنڈ والے بھاگ کر گئے، پانی وانی ڈالا، عملی کو جگایا، پوچھا کیا ہوا تھا؟ عملی بولا ہونا کیا تھا، میں نے جاتے ہی تڑیاں دی اور پانی روکنے کا کہا۔ بس! پھر سرپنچ نے خود مجھے اٹھا کر نیچے لٹایا اور اوپر چڑھ گیا۔ پھر میں نے نیچے لیٹے سرپنچ کی وہ ٹھکائی کی کہ ساری عمر یاد کرے گا، ہائے۔ اب جب مودی جی کہہ رہے ہیں کہ وہ جیتے ہیں تو ہمیں اسی عملی والی کہانی کی روشنی میں مان لینا چاہیے۔ کیوں نہیں مانتے آپ؟

مودی جی کو بی جے پی نے بھگوان بنا رکھا ہے تو ایسے اک بھگوان کی بھی سن لیں جو اک چھوٹی سی پہاڑی ریاست کا بھگوان تھا۔ ہر طرف امن سکون تھا۔ اک دن ایک شکاری طبعیت رانا صاحب رستہ بھول کر اس ریاست میں جا نکلے۔ امن سکون دیکھ کر ان سے رہا نہ گیا۔ انہوں نے اپنی بندوق کو ڈانگ بنایا اور ساری ریاست کا نظام اوپر نیچے کر کے رکھ دیا۔ سب کو اپنی اطاعت کا حکم دیا۔

عوام اکٹھی ہوئی اپنے زندہ بھگوان کے پاس پہنچ گئی۔ اس سے درخواست کی کہ رانا صاحب سے جان چھڑا دے ورنہ یہ ہم میں سے کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ بھگوان پھر بھگوان تھا، رانا صاحب سے ملنے چلا گیا۔ رانا صاحب نے بھگوان کی بڑی آؤ بھگت کی۔ ریاست کی اور لوگوں کی جان چھوڑنے کی درخواست بھی مان لی۔ بھگوان کو حیرت ہوئی کہ یہ تو آسان سا کام تھا۔ اس نے رانا صاحب سے پوچھا کہ آپ کی کوئی شرط نہیں؟ رانا صاحب بولے کیوں نہیں ہے، ایک شرط بس، آئندہ سے تو مجھے تاؤ (تایا ) کہا کر اپنا۔

آج آپ کو تین، تین لطیفے سنانے کی ایک وجہ ہے۔ انڈین میڈیا سوشل میڈیا ان کے نام نہاد صحافی جس طرح رپورٹنگ کرتے اور اپنی گیدڑ کٹ کے بعد چھاتی پیٹ کر فتح بتا رہے ہیں۔ اس کے جواب میں لطیفے ہی سنائے جا سکتے ہیں پھر۔ جنگ کی حمایت کوئی پاگل ہی کر سکتا ہے۔ پر جب یہ آپ پر مسلط کر دی جائے تو پھر اپنے لیے نہیں آنے والی نسلوں کے لیے لڑنا تو پڑتا ہے۔

سوشل میڈیا پر اپنی ایک پوسٹ میں یہ لکھا تھا کہ ’سٹرائک نہ ہونے کی ایک ہی صورت ہے کہ کوئی فیصلہ کن پیشرفت ہو اور دکھائی دیتی فیور ملے، یہ نہیں مل رہی۔ فیصلے ہو چکے، دوستوں اتحادیوں سے معذرت کی جا چکی، تڑیاں دینے والوں کو ان کی زبان میں سمجھایا جا چکا۔ اب ہونی ہو کے رہنی ہے۔ ہونی ہوئی تو دنیا ہمارا نام عزت سے لیا کرے گی ‘۔ ایسا ہی ہوا اس پر ہم دیسیوں کو عاجزی سے رب کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ البتہ سرینڈر مودی کو چاہیے کہ ہمیں اب تاؤ کہا کرے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

مودی وسی بابا.

ذریعہ: WE News

پڑھیں:

غزہ کے لوگوں اور مزاحمت کے قدم چومتے ہیں جنہوں نے رہائی دلوائی، اسرائیلی جیل سے رہا فلسطینی کی گفتگو

غزہ جنگ بندی معاہدہ کے تحت حماس نے 20 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کردیا جس کے نتیجے میں تقریباً 2 ہزار فلسطینی قیدی بھی اسرائیلی جیلوں سے رہا ہوچکے ہیں۔
اسرائیلی جیل سے رہائی کے بعد مغربی کنارے پہنچنے والے ایک فلسطینی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب سے پہلے اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور پھر غزہ کے لوگوں اور مزاحمت کے قدم چومتے ہیں جنہوں نے ہمیں عزت کے ساتھ رہائی دلوائی۔
رہائی پانے والے فلسطینی نے دعا کی کہ تمام فلسطینی قیدیوں کو آزادی ملے، ہم ان سب کے لیے آزادی کی دعا کرتے ہیں کہ جیسے ہم اپنے گھروالوں اور خاندانوں سے دوبارہ مل گئے ہیں وہ بھی اپنے خاندان سے آملیں۔
اس موقع پر صحافی نے رہائی پانے والے فلسطینی سے اسرائیلی جیل میں اس کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک سے متعلق سوال کیا۔
جواب میں فلسطینی شہری نے کہا کہ جیل کے حالات بہت زیادہ سخت تھے، ہمیں 4 دن پہلے اپنی کوٹھریوں سے نکالا گیا اور تب سے ہمیں مارا پیٹا جاتارہا اور ذلیل کیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • علی امین کے استعفیٰ منظوری تک اسمبلی اجلاس نہیں بلانا چاہیے تھا، رانا ثناءاللہ
  • غزہ کے لوگوں اور مزاحمت کے قدم چومتے ہیں جنہوں نے رہائی دلوائی، اسرائیلی جیل سے رہا فلسطینی کی گفتگو
  • بدلے کی آگ میں سلگتا مودی
  • بویوک چاملی جہ
  • پت جھڑ
  • اگر کوئی آپریشن ہورہا ہو تو کوئی صوبہ یا شخص آپریشن نہیں روک سکتا، بانی پی ٹی آئی کے بھاشن سے فرق نہیں پڑے گا، رانا ثنا اللہ
  • کے پی کے میں نامزد وزیرِ اعلیٰ کامیاب نہیں ہونا چاہیے: رانا تنویر
  • فیلڈ مارشل عاصم منیر کی دلیرانہ قیادت نے دشمن کو بھرپور جواب دیا۔ مشیر وزیر اعظم رانا ثنا اللہ
  • ننھی آوازیں، بڑے سوال: بچیوں کا دن، سماج کا امتحان
  • سعودی عرب اور چین کی مدد سے پاکستان میں توانائی کے اہم منصوبوں کا آغاز