ایک چرسی چھت پر بیٹھا پکے سوٹے لگا رہا تھا۔ اس کا دماغ سوچ کو بادلوں میں لے گیا۔ تب چرسی کو خیال آیا کہ وہ اڑ سکتا ہے۔ چرسی خیال آتے ہی اٹھ کر کھڑا ہوا، اپنے ہاتھ پھیلائے اور دوڑ کر اڑ گیا۔ اڑتے ہی وہ سیدھا زمین پر آ کر گرا۔ دھڑام کافی بڑی ہوئی تھی۔ لوگ بھاگے آئے، اس سے پوچھا کہ کیا ہوا تھا؟ چرسی بولا کیا پتہ میں تو خود ابھی پہنچا ہوں۔
آپ اس چرسی والے واقعے سے عقل کشید کریں۔ انڈین ڈی جی ائیر آپریشن اودیش کمار بھارتی میڈیا کو دیے گئے جواب پر درگزر کریں۔ رافیل طیارہ گرنے پر سوال کے جواب میں اے کے بھارتی نے فرمایا ’نقصانات لڑائی کا حصہ ہوتے ہیں، تفصیل نہیں بتا سکتا، اس سے فریق مخالف کو فائدہ ہوگا‘۔ یہ کہہ کر بھارتی نے ہمارے چرسی والا سیانا پن ہی ظاہر کیا ہے۔ ان سے درگزر کریں۔
اک پنڈ میں بالکل مودی طبعیت ایک عملی (افیمی) تھا ۔ آتے جاتے پر اڑ اڑ کر گرتا۔ جسے دیکھتا اسے سنانی شروع کر دیتا۔ عملی کی زبان سے تنگ آ کر گاؤں والے جمع ہوئے۔ اس کی بہادری، عقل فراست اور منطقی دلائل دینے کی صلاحیت کا اعتراف کیا۔ اسے کہا کہ اگر وہ جا کر ساتھ والے پنڈ کے سرپنچ کو کہہ آئے کہ آئندہ ہم اپنے پنڈ سے پانی تمھاری طرف نہیں آنے دیں گے تو سارے پنڈ کا بھلا ہو جائے گا اور تمھاری دھاک بھی بیٹھ جائے گی۔
عملی نے مودی والی ساری فیل لی اور سرپنچ کو تڑی دینے چلا گیا۔ گھنٹے ڈیڑھ بعد عملی کی تقریباً لاش اس کے پنڈ کے باہر پھینک گئے۔ پنڈ والے بھاگ کر گئے، پانی وانی ڈالا، عملی کو جگایا، پوچھا کیا ہوا تھا؟ عملی بولا ہونا کیا تھا، میں نے جاتے ہی تڑیاں دی اور پانی روکنے کا کہا۔ بس! پھر سرپنچ نے خود مجھے اٹھا کر نیچے لٹایا اور اوپر چڑھ گیا۔ پھر میں نے نیچے لیٹے سرپنچ کی وہ ٹھکائی کی کہ ساری عمر یاد کرے گا، ہائے۔ اب جب مودی جی کہہ رہے ہیں کہ وہ جیتے ہیں تو ہمیں اسی عملی والی کہانی کی روشنی میں مان لینا چاہیے۔ کیوں نہیں مانتے آپ؟
مودی جی کو بی جے پی نے بھگوان بنا رکھا ہے تو ایسے اک بھگوان کی بھی سن لیں جو اک چھوٹی سی پہاڑی ریاست کا بھگوان تھا۔ ہر طرف امن سکون تھا۔ اک دن ایک شکاری طبعیت رانا صاحب رستہ بھول کر اس ریاست میں جا نکلے۔ امن سکون دیکھ کر ان سے رہا نہ گیا۔ انہوں نے اپنی بندوق کو ڈانگ بنایا اور ساری ریاست کا نظام اوپر نیچے کر کے رکھ دیا۔ سب کو اپنی اطاعت کا حکم دیا۔
عوام اکٹھی ہوئی اپنے زندہ بھگوان کے پاس پہنچ گئی۔ اس سے درخواست کی کہ رانا صاحب سے جان چھڑا دے ورنہ یہ ہم میں سے کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ بھگوان پھر بھگوان تھا، رانا صاحب سے ملنے چلا گیا۔ رانا صاحب نے بھگوان کی بڑی آؤ بھگت کی۔ ریاست کی اور لوگوں کی جان چھوڑنے کی درخواست بھی مان لی۔ بھگوان کو حیرت ہوئی کہ یہ تو آسان سا کام تھا۔ اس نے رانا صاحب سے پوچھا کہ آپ کی کوئی شرط نہیں؟ رانا صاحب بولے کیوں نہیں ہے، ایک شرط بس، آئندہ سے تو مجھے تاؤ (تایا ) کہا کر اپنا۔
آج آپ کو تین، تین لطیفے سنانے کی ایک وجہ ہے۔ انڈین میڈیا سوشل میڈیا ان کے نام نہاد صحافی جس طرح رپورٹنگ کرتے اور اپنی گیدڑ کٹ کے بعد چھاتی پیٹ کر فتح بتا رہے ہیں۔ اس کے جواب میں لطیفے ہی سنائے جا سکتے ہیں پھر۔ جنگ کی حمایت کوئی پاگل ہی کر سکتا ہے۔ پر جب یہ آپ پر مسلط کر دی جائے تو پھر اپنے لیے نہیں آنے والی نسلوں کے لیے لڑنا تو پڑتا ہے۔
سوشل میڈیا پر اپنی ایک پوسٹ میں یہ لکھا تھا کہ ’سٹرائک نہ ہونے کی ایک ہی صورت ہے کہ کوئی فیصلہ کن پیشرفت ہو اور دکھائی دیتی فیور ملے، یہ نہیں مل رہی۔ فیصلے ہو چکے، دوستوں اتحادیوں سے معذرت کی جا چکی، تڑیاں دینے والوں کو ان کی زبان میں سمجھایا جا چکا۔ اب ہونی ہو کے رہنی ہے۔ ہونی ہوئی تو دنیا ہمارا نام عزت سے لیا کرے گی ‘۔ ایسا ہی ہوا اس پر ہم دیسیوں کو عاجزی سے رب کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ البتہ سرینڈر مودی کو چاہیے کہ ہمیں اب تاؤ کہا کرے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔
مودی وسی بابا.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
ایدھی فلم پر بھی تنازع: سندھ حکومت اور فیصل ایدھی کے متضاد بیانات
پاکستان کے عظیم سماجی کارکن عبدالستار ایدھی کی زندگی پر بننے والی فلم کے حوالے سے ایک عجیب صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ جہاں ایک طرف سندھ حکومت نے اس منصوبے پر کام شروع کرنے کا اعلان کیا ہے، وہیں دوسری جانب ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی نے اسے اپنا ذاتی منصوبہ قرار دے کر حکومتی دعووں کو مسترد کردیا ہے۔
سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے حال ہی میں ایک تقریب میں اعلان کیا تھا کہ صوبائی حکومت معروف فلم ساز ستیش آنند کے اشتراک سے ایدھی صاحب کی زندگی پر فلم بنا رہی ہے۔ تاہم فیصل ایدھی نے اس بیان کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ دراصل ایدھی فاؤنڈیشن کی اپنی کاوش ہے جس پر وہ پچھلے ایک سال سے کام کر رہے ہیں۔
فیصل ایدھی نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’’ہم نے پہلے ہی ایک معروف ڈرامہ اداکار و پروڈیوسر کے ساتھ معاہدہ کر لیا تھا۔ ستیش آنند نے بعد میں رابطہ کیا تو انہیں مطلع کر دیا گیا کہ یہ منصوبہ پہلے ہی کسی اور کے ساتھ طے پا چکا ہے۔‘‘ انہوں نے زور دے کر کہا کہ فلم کا تمام تر تخلیقی کنٹرول فاؤنڈیشن کے پاس ہوگا۔
اس فلم کا اسکرپٹ معروف مصنفہ تہمینہ درانی کی کتاب ’ایدھی: آ مرر ٹو دی بلائنڈ‘ پر مبنی ہوگا، جس میں ایدھی صاحب نے خود اپنی زندگی کے اہم واقعات قلمبند کیے تھے۔ فیصل ایدھی کے مطابق، فلم میں ایدھی کی والدہ اور اہلیہ بلقیس ایدھی کے کرداروں کو خصوصی اہمیت دی جائے گی کیونکہ ان خواتین نے ایدھی کی شخصیت کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
فلم کی شوٹنگ کے لیے ایدھی صاحب سے منسلک تمام اہم مقامات کا انتخاب کیا گیا ہے، جن میں ان کا آبائی گاؤں بانٹوا (گجرات، بھارت) بھی شامل ہے۔ فیصل ایدھی نے واضح کیا کہ اگر بھارت میں شوٹنگ ممکن نہ ہو سکی تو اس مقام کو اسٹوڈیو میں ہی تیار کیا جائے گا۔
جب فیصل ایدھی سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ خود اپنے والد کا کردار ادا کریں گے، تو انہوں نے انتہائی سادگی سے جواب دیا: ’’میں اداکار نہیں ہوں، اس لیے یہ کردار نبھانا میرے لیے ممکن نہیں۔ یہ فیصلہ فلم کے ہدایتکار اور پروڈیوسر کریں گے کہ ایدھی صاحب کا کردار کون ادا کرے گا۔‘‘
فیصل ایدھی نے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ یہ فلم نہ صرف ایدھی صاحب کی بے مثال خدمات کو خراج تحسین پیش کرے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک مثال بنے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ یہ فلم عالمی معیار کی ہو تاکہ آنے والی نسلیں ایدھی صاحب کی قربانیوں اور خدمات سے آگاہ ہو سکیں۔‘‘
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تنازع کے بعد فلم بنانے کا اصل حق کسے ملتا ہے اور کون اس عظیم انسان کی زندگی کو پردہ سیمیں پر پیش کرنے کا حق دار ٹھہرتا ہے۔