نیویارک : اقوام متحدہ امدادی امور کے سربراہ ٹام فلیچر نے اسرائیل کے غزہ میں امدادی سامان کی تقسیم کے منصوبے کو "مکروہ" قرار دے دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل امداد کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے اور لاکھوں فلسطینی جان کے خطرے سے دوچار ہیں۔

سلامتی کونسل کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے ٹام فلیچر نے کہا کہ غزہ میں گزشتہ 10 ہفتوں سے خوراک، ادویات اور ضروری اشیاء نہیں پہنچ رہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ فوری اقدام نہ کیا گیا تو انسانی بحران مزید شدید ہو جائے گا۔

ٹام فلیچر نے واضح کیا کہ امداد عام فلسطینیوں تک پہنچانے کے لیے ایک سخت مانیٹرنگ میکنیزم موجود ہے تاکہ حماس کو کوئی فائدہ نہ پہنچے۔

ادھر فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے بھی اسرائیلی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے اسے "شرمناک" قرار دیا۔ انہوں نے کہا: "غزہ میں پانچ لاکھ افراد بھوک کا شکار ہیں۔ یورپی ممالک کو اسرائیل پر پابندیاں سخت کرنے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔"

 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

امریکا کا ایران پر حملہ قانونی قرار دینے پر اصرار ، صدر کی ’وار پاورز‘ پر بحث چھڑ گئی

امریکا نے ایران کے جوہری سہولتوں پر ہونے والی حالیہ فضائی حملوں کو اقوامِ متحدہ کے سلامتی کونسل کے تحت ’اجتماعی دفاع‘ کے حق میں تسلیم کر لیا ہے۔

امریکا نے ایک خط میں بتایا کہ یہ حملے ایران کی جوہری افزودگی کی صلاحیت کو ختم کرنے اور اسے جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ کی نئی دھمکیوں پر ایران کا کرارا جواب، خطے میں تناؤ میں اضافہ

امریکی نمائندہ اقوامِ متحدہ، ڈوروتھی شیعہ نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ یہ کارروائی اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت جائز دفاعی اقدام تھا، اور انہوں نے مزید کہا کہ واشنگٹن ایران کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بھی کھلے رکھے ہوئے ہیں ۔

بین الاقوامی ردعمل

قرار دیتے ہوئے اس کی مکمل حمایت کی ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام بین الاقوامی امن کے لیے خطرہ ہے اور فوری طور پر کشیدگی کم کرنے کی ضرورت ہے۔

چین اور روس نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کارروائی نے اقوام متحدہ کے چارٹر کو نقصان پہنچایا ہے۔ دونوں ممالک نے سفارتی راستہ اختیار کرنے پر زور دیا ہے۔

یورپی یونین، سعودی عرب، جاپان، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سمیت متعدد ممالک نے صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری مذاکرات اور سفارتی حل پر زور دیا ہے۔

ان ممالک کا کہنا ہے کہ مسئلے کا حل صرف بات چیت اور سفارتکاری کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

قانونی پہلو اور مستقبل

اس اقدام نے صدر کے ’وار پاورز‘ استعمال پر قانونی بحثیں بھی شروع کر دیں ہیں۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ الكونگریس کی منظوری کے بغیر یہ قدم امریکی آئین اور بین الاقوامی قانون دونوں کے تحت سوالات کھڑے کرتا ہے۔

عالمی تجزیہ کاروں نے بھی اس واقعے کو تاریخی موڑ قرار دیا، جہاں ایک جانب امریکہ نے خود کو قانونی دفاع کا حق دیا، اور دوسری جانب عالمی برادری نے اس کی قانونی حیثیت پر تنقید کی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اقوام متحدہ امریکا ایٹمی تنصیبات ایران وار پاورز

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں خوراک کی تلاش موت کی سزا نہیں بننی چاہیے،گوتریس
  • پانچ میں سے ایک افغان بھوک کا شکار ہے، اقوام متحدہ کا انتباہ
  • امریکا کا ایران پر حملہ قانونی قرار دینے پر اصرار ، صدر کی ’وار پاورز‘ پر بحث چھڑ گئی
  • غزہ میں امدادی آٹے کے تھیلوں سے "نشہ آور گولیاں" برآمد، فلسطینی معاشرے کی تباہی کیلئے اسرائیلی-امریکی سازش بے نقاب
  • اسرائیل کا مغربی کنارے میں بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کی بے دخلی کا منصوبہ
  • غزہ میں قیامت: 24 گھنٹوں میں 72 فلسطینی شہید، امداد کے منتظر بھی نشانہ بنے
  • اسرائیل نے غزہ میں امداد روک دی، حماس پر قبضے کا الزام عائد
  • حماس پر امداد قبضے میں لینےکاالزام، اسرائیل نے غزہ میں امداد کا داخلہ روک دیا
  • ایران کا امریکا کی جانب سے اقوام متحدہ کے آرٹیکل 51 کی من مانی تشریح پر سخت ردعمل
  • اسرائیل کی غزہ میں دہشت گردی بڑھ گئی، امداد کے متلاشی 80 فلسطینی شہید