برطانیہ جانا مشکل ہوگیا؟ برطانوی امیگریشن قوانین میں نئی تبدیلیاں کیا ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
برطانیہ کی حکومت نے امیگریشن قوانین کو سخت کرنے کے لیے ایک وسیع اصلاحات کا اعلان کیا ہے، جس کا مقصد بیرون ملک سے آنے والوں کی تعداد میں کمی لانا ہے۔
امیگریشن قوانین میں یہ تبدیلیاں صرف ہنر مند افراد کو ترجیح دینے اور برطانوی ورکرز کے لیے مواقع بچانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ برطانیہ میں مختلف حلقوں کی وجہ سے بیرون ملک سے روزگار کی تلاش یا شہریت حاصل کرنے کے خواہش مند افراد کی تعداد میں بے تحاشا اضافے پر حکومت پر ان اصلاحات کا دباؤ بڑھ گیا تھا جس کے بعد امیگریشن قوانین میں تبدیلیوں کا اعلان کیا گیا ہے۔
نئے برطانوی وزیر اعظم کیر اسٹارمر نے اعتراف کیا ہے کہ بہت عرصے تک کاروباری اداروں کو کم تنخواہ والے غیر ملکی ورکرز پر انحصار کرنے کی ترغیب دی گئی، بجائے اس کے کہ وہ ملکی صلاحیتوں میں سرمایہ کاری کریں اور برطانوی شہریوں کو روزگار دیں۔ نئی حکمت عملی اس رجحان کو پلٹنے کی کوشش ہے، تاکہ صرف ہنر مند امیگریشن کو فروغ دیا جائے اور مقامی افرادی قوت کو آگے لایا جائے۔
ڈگری کی شرطبرطانیہ میں امیگریشن میں کمی اور اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے غیر ملکی افرادی قوت کے لیے ہنر کی ضروریات کو ڈگری سطح کی تعلیم تک بڑھایا جا رہا ہے۔ اس اقدام کا مقصد کم ہنر مند درخواست گزاروں کو خارج کرنا ہے۔
امیگریشن ہنر چارج میں اضافہامیگریشن ہنر چارج، جو کہ برطانوی کمپنیوں کو غیر ملکی ورکرز کو ملازمت دینے پر ادا کرنا ہوتا ہے، کو پہلی بار 2017 کے بعد بڑھایا جا رہا ہے۔ حکومت کا ارادہ ہے کہ اس سے کاروباری کمپنیوں کو مقامی ملازمین کو مواقع دینے اور ہنر سکھانے کی ترغیب ملے گی، تاکہ وہ غیر ملکی مزدوروں پر انحصار کم کریں۔
نئے آبادکاری اور شہریت کے قواعدمستقل شہریت حاصل کرنے کے لیے درکار رہائش کی مدت کو 5 سے 10 سال تک بڑھایا جا رہا ہے، مگر اُن افراد کے لیے استثنا بھی ہے جو برطانیہ کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
انگریزی زبان کی شرائط میں سختینئی قوانین کے تحت بیرون ملک سے تعلیم اور روزگار کے لیے آنے والوں کے لیے اعلیٰ درجے کی انگریزی صلاحیتیں لازمی ہوں گی۔ پہلی بار ویزہ ہولڈرز کے ساتھ آنے والے بالغ افراد کو بھی بنیادی انگریزی مہارت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امیگریشن قوانین برطانیہ روزگار شہریت کیلر اسٹارمر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امیگریشن قوانین برطانیہ روزگار شہریت کیلر اسٹارمر امیگریشن قوانین غیر ملکی کے لیے
پڑھیں:
4.5 ملین برطانوی بچے غربت میں زندگی گزار رہے ہیں، رپورٹ
لندن اسکول آف اکنامکس میں سماجی پالیسی کی پروفیسر کیتی اسٹیورٹ کہتی ہیں کہ گزشتہ پانچ سے دس سال نے ملک میں انتہائی سطح کی غربت ہے۔ تازہ ترین سرکاری رپورٹ کے مطابق 31% برطانوی بچے غربت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ تقریباً 4.5 ملین بچوں کے برابر ہے۔ اسلام ٹائمز۔ برطانیہ میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندان اپنی معاشرتی پوزیشن تیزی سے کھو رہے ہیں، کیونکہ کرایوں، بچوں کی دیکھ بھال کے اخراجات اور خوراک کی قیمتوں میں اضافہ مزدوروں کی آمدنی سے کہیں زیادہ ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق برطانیہ میں بہت سے ایسے خاندان جو خود کو متوسط طبقے سے وابستہ سمجھتے تھے، گزشتہ برسوں میں شدید معاشی دباؤ کا شکار ہوئے ہیں۔
کرایوں میں اضافہ، بچوں کی نگہداشت کے اخراجات اور خوراک کی بڑھتی قیمتیں، جبکہ تنخواہیں تقریباً جمود کا شکار ہیں، اس صورتحال تک لے آئی ہیں کہ ملازمت پیشہ والدین بھی غربت سے باہر نہیں رہ پا رہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق، سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ برطانیہ میں بچپن کی غربت 2002 کے بعد سے اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، اور اب یورپ میں بھی سب سے زیادہ شرح رکھنے والے ممالک میں شامل ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ 2012 سے نافذ حکومتی کفایت شعاری کی پالیسیوں نے اس بحران کو مزید شدید کر دیا ہے، اور تین یا اس سے زیادہ بچوں والے خاندان سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ایک انتہائی متنازع حکومتی پالیسی دو بچوں کی حد ہے، جس کے تحت خاندان تیسرے یا اس سے زیادہ بچوں کے لیے سرکاری مالی امداد نہیں لے سکتے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، اس قانون نے سینکڑوں ہزار بچوں کو غربت کی لکیر کے نیچے دھکیل دیا ہے۔
لندن اسکول آف اکنامکس میں سماجی پالیسی کی پروفیسر کیتی اسٹیورٹ کہتی ہیں کہ گزشتہ پانچ سے دس سال نے ملک میں انتہائی سطح کی غربت ہے۔ شمالی لندن کی ایک سنگل ماں جافہ، جو سالانہ 45 ہزار پاؤنڈ کماتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ وہ اپنے تین بچوں کی نرسری کے مکمل اخراجات ادا کرنے کے قابل نہیں۔ اسی طرح تازہ ترین سرکاری رپورٹ کے مطابق 31% برطانوی بچے غربت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ تقریباً 4.5 ملین بچوں کے برابر ہے۔