پاک بھارت کشیدگی میں کمی کیلئے کردار ادا کرنے پر صدر ٹرمپ کا شکریہ
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
ذرائع کے مطابق محمود احمد ساغر نے ایک خط میں ہمسایہ جوہری طاقتوں کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد جنگ بندی میں اہم کردار ادا کرنے پر امریکی انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی کے قائم مقام چیئرمین محمود احمد ساغر نے پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی میں کمی کیلئے اہم کردار ادا کرنے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق محمود احمد ساغر نے ایک خط میں ہمسایہ جوہری طاقتوں کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد جنگ بندی میں اہم کردار ادا کرنے پر امریکی انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے زور دیا کہ حل طلب دیرینہ تنازعہ کشمیر کی وجہ سے پاک بھارت کشیدگی نے ایک بار پھر خطے کو جوہری جنگ کے دھانے پر پہنچا دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور پاکستان کو پانی سے محروم کرنے کی دھمکیوں نے صورتحال کو مزید گھمبیر بنا دیا جسے پاکستان نے بجا طور پر جنگی اقدام قرار دیا تھا۔ محمود ساغر نے عالمی برادری کے دونوں ممالک سے ضبط و تحمل کامظاہرہ کرنے کے مطالبے کا خیر مقدم کیا اور خاص طور پر امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اور وزیر خارجہ مارکو روبیو کی کشیدگی میں کمی کیلئے دونوں ممالک کی قیادت سے رابطوں اور سفارتی کوششوں کو سراہا۔
دریں اثناء جموں و کشمیر کونسل فار ہیومن رائٹس نے امریکی ثالثی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ جنگ بندی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تنازعہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کا خیر مقدم کیا ہے۔ جے کے سی ایچ آر کے صدر ڈاکٹر سید نذیر گیلانی نے ایک بیان میں کہا کہ یہ پیشرفت طویل عرصے سے جاری سفارتی تعطل میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے جس میں ایک بار پھر کشمیر کو ایک حل طلب بین الاقوامی مسئلہ تسلیم کیا گیا ہے۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کی طرف مسئلہ کشمیر کے حل میں ثالثی کی پیشکش کو سراہتے ہوئے کہا کہ اسے تنازعہ کشمیر ایک بار پھر بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن گیا ہے اور کشمیر کو اپنا اندرونی معاملہ قرار دینے کے بھارتی بیانیے کو مسترد کیا گیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کے درمیان حالیہ پر امریکی کا شکریہ نے ایک
پڑھیں:
’غیرملکی طلبہ امریکا کیلئے اچھے ہیں،‘ ٹرمپ کا اپنے مؤقف پر یوٹرن
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سابقہ ’میک امریکا گریٹ اگین‘ پالیسی کے برعکس ایک نیا مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر ملکی طلبہ امریکی تعلیمی اداروں اور معیشت کے لیے فائدہ مند ہیں۔
ٹرمپ نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ بیرونِ ملک سے آنے والے طلبہ امریکی جامعات کے مالی ڈھانچے کو مضبوط رکھتے ہیں، اِن کے بغیر درجنوں تعلیمی ادارے بند ہونے کے خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں، اگر غیر ملکی طلبہ کی تعداد میں بڑی کمی کی گئی تو ’امریکی یونیورسٹیوں کا آدھا نظام تباہ ہو جائے گا۔‘
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکا میں چین سمیت مختلف ممالک کے طلبہ زیرِ تعلیم ہیں اور اگر ان کی تعداد محدود کر دی گئی تو ناصرف تعلیمی اداروں بلکہ معیشت کو بھی نقصان پہنچے گا۔
اِن کا کہنا تھا کہ غیر ملکی طلبہ فیس کی مد میں مقامی طلبہ کے مقابلے میں دُگنی رقم ادا کرتے ہیں، اس لیے یہ نظام امریکی یونیورسٹیوں کے لیے مالی طور پر بہت اہم ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ امریکا کے تعلیمی اداروں کو ترقی کرتے دیکھنا چاہتے ہیں، اگرچہ یہ فیصلہ ان کے لیے سیاسی طور پر آسان نہیں لیکن وہ اسے کاروباری نقطۂ نظر سے بہتر سمجھتے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کی سخت پالیسیاں
واضح رہے کہ ٹرمپ کا یہ نیا مؤقف اِن کی موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے متضاد ہے۔
رواں سال جنوری میں دوسری مدتِ صدارت سنبھالنے کے بعد اِن کی انتظامیہ نے ہزاروں غیر ملکی طلبہ کے ویزے منسوخ کیے، متعدد طلبہ کو گرفتار کیا جو pro-Palestine سرگرمیوں میں شریک تھے اور ویزا درخواستوں کے تقاضے مزید سخت کر دیے۔
انتظامیہ نے ہارورڈ اور اسٹینفورڈ سمیت کئی بڑے امریکی تعلیمی اداروں کو بھی نشانہ بنایا، ان پر غیر ملکی طلبہ کے اندراج کے حوالے سے قواعد کی خلاف ورزی کا الزام بھی لگایا۔
ہارورڈ یونیورسٹی نے حکومت کے اس اقدام کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا جس کے بعد عدالت نے ٹرمپ انتظامیہ کو غیر ملکی طلبہ پر پابندی عائد کرنے سے روک دیا تاہم حکومت نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے۔