سپریم کورٹ: ججز کا اختلافی نوٹ بنچ سربراہ کی منظوری سے ہی اپ لوڈ ہو گا
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
اسلام آباد(این این آئی)سپریم کورٹ نے پالیسی کے طور پر یہ طے کیا ہے کہ اگر کوئی جج اختلافی نوٹ تحریر کرتا ہے تو اسے اسی بینچ کے سربراہ کی منظوری کے بعد ہی عدالت عظمیٰ کی ویب سائٹ پر پبلک کیا جائے گا۔ایکسپریس کو ایک ذمے دار ذریعہ نے بتایا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق بارہ جولائی کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی اپیلوں پر جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی کے اختلافی نوٹ آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کی منظور ی کے بعد ہی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ ہو سکیں گے۔ماضی میں کوئی جج اگر کیس کے آغاز پر ہی اختلاف کرکے بینچ سے اٹھ کر چلا جاتا تو اسکی اختلافی رائے اسی وقت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر پبلک کردی جاتی تھی۔چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کے نام لکھا گیا خط منظر عام پر آیا جس میں جسٹس عائشہ ملک نے چیف جسٹس سے کہا آئی ڈپارٹمنٹ نے دونوں ججز کا اختلافی نوٹ اپلوڈ نہیں کیا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: اختلافی نوٹ سپریم کورٹ
پڑھیں:
بیٹا والد کو گھر سے کیسے نکال سکتا ہے؟ دوسری شادی کرنا گناہ تو نہیں، سپریم کورٹ
اسلام آ باد:سپریم کورٹ کے ججز نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ بیٹا والد کو گھر سے کیسے نکال سکتا ہے؟ دوسری شادی کرنا گناہ تو نہیں۔
جسٹس ہاشم کاکڑ سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے والد کے ساتھ بیٹا بیٹی کے لڑائی جھگڑے کے کیس کی سماعت کی، جس میں وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ والد نے دوسری شادی کی ہے اب بیٹا بیٹی کو گھر سے نکالنا چاہتے ہیں۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ دوسری شادی کرنا گناہ تو نہیں ہے۔ وکیل نے بتایا کہ والد دوسری شادی کے بعد گھر چھوڑ گئے، بچوں نے نہیں نکالا۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ بیٹا والد کو گھر سے کیسے نکال سکتا ہے؟۔ مکان کی ملکیت والد کے نام پر ہے۔ والد چاہے تو پراپرٹی خیرات میں بھی دے سکتا ہے۔ یہ فیملی ایشو ہے۔ بہتر ہے بچے والد سے صلح کرلیں۔
وکیل نے بتایا کہ والد بچوں کے ساتھ سیٹلمنٹ کرنے کے لیے تیار نہیں۔
والد کا مؤقف ہے کہ میری بیٹی نے منہ پر تھوکا، تشدد کیا گیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ بیٹی ہے کوئی پھولن دیوی تھوڑی ہے کہ مارے گی۔ جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ بچوں نے لگتا ہے والد کو بہت ناراض کر دیا ہے ۔
جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ یہ گھریلو تشدد کا کیس تو ہو سکتا ہے، مکان پر غیر قانونی قبضے کا نہیں ۔
بعد ازاں عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔