عمران خان پیرول درخواست: اعتراضات پر آرڈر پاس کردوں گا. قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 14 مئی ۔2025 )اسلام آباد ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کی پیرول پر رہائی کی درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے ساتھ سماعت ہوئی قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے ریمارکس دیئے کہ اعتراضات پر آرڈر پاس کر دوں گا. وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ اسسٹنٹ رجسٹرار قابل سماعت ہونے کا معاملہ نہیں دیکھ سکتا، یہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ کوئی درخواست قابل سماعت ہے یا نہیں؟ اسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران خان کی پیرول پر رہائی کی درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے ساتھ قائم مقام چیف جسٹس نے سماعت کی .
(جاری ہے)
جسٹس سرفراز ڈوگر نے کہا کہ جو اعتراضات لگے ہیں میں ان پر آرڈر پاس کر دوں گا، کیا یہ اس معاملے کو ڈویژن بینچ میں لیکر جانا چاہتے ہیں؟ پی ٹی آئی وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ اسسٹنٹ رجسٹرار قابل سماعت ہونے کا معاملہ نہیں دیکھ سکتا، یہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ کوئی درخواست قابل سماعت ہے یا نہیں؟. قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت کیلئے ہر کوئی قابل احترام ہے لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ یہ تاثر ختم ہونا چاہئے کہ ایک شخص کو انصاف نہیں مل رہا عدالت نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو حکومت کا کام ہے آپ ادھر جائیں، یہاں کیوں آگئے؟ اگر حکومت آپ کا کام نہیں کرتی تو پھر عدالت کے پاس آئیں. لطیف کھوسہ نے کہا کہ پروبیشن اور پیرول دونوں الگ الگ معاملات ہیں، حکومت نہیں کرتی تو اپیل آپ کے پاس زیر سماعت ہے، ہماری اپیل بھی ابھی تک نہیں لگی، استدعا ہے وہ تو لگا دیں، انہوں نے درخواست دے رکھی ہے صوبائی حکومت کے پاس ہے جسٹس سرفراز ڈوگر نے کہا کہ یہ تو ہمارے دائرہ اختیار میں بھی نہیں . لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اپیل آپ کے پاس زیر التوا ہے اور یہ آپ کا ہی اختیار ہے،عمران خان کا جیل سے باہر آنا موجودہ حالات میں بہت ضروری ہے انہوں نے عدالت کو بتایا کہ رات بھی لاہور ایئرپورٹ کے پاس ڈورن گرا ہے،سابق وزیراعظم نے ہم سب کو بھی متحد ہونے کا کہا ہے، یہ درخواست بھی آپ کے دائرہ اختیار میں ہی آتی ہے عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ اس درخواست کو ڈویژن بینچ کو بھجوانا چاہتے ہیں؟. سرکاری وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملاقاتوں سے متعلق توہین عدالت درخواستیں بھی زیر سماعت ہیں، ملاقاتوں کی درخواستیں منظور ہوگئیں، توہین عدالت والی زیر سماعت ہیں، آپ کے پاس توہین عدالت کی 7درخواستیں زیر التوا پڑی ہوئی ہیں لطیف کھوسہ نے کہا کہ عمران خان سے ملنے بھی نہیں دیا جا رہا، حالت حبس بے جا والی ہے، کہ جس طرح جیل میں رکھا گیا یہ بھی غیر قانونی حراست کے زمرے میں آتا ہے. جسٹس سرفراز ڈوگر نے کہا کہ انہیں تو ٹرائل کورٹ سے سزا ہوچکی، وہ سزا یافتہ ہیں، ان سے وزیراعلی خیبرپختونخوا کو بھی نہیں ملنے دیا جارہا ہے، علی امین صوبے کی نمائندگی کرتے ہیں، ان کا عمران خان سے ملنا قومی مفاد ہی ہے لطیف کھوسہ نے کہا کہ 190ملین پانڈ کیس میں سزا معطلی کی درخواست بھی مقرر نہیں ہوئی. جسٹس سرفراز ڈوگر نے کہا کہ اس پر تو میں نے اعتراضات دور کر دیئے تھے پی ٹی آئی کے وکیل نے بتایا کہ اس ہفتے 190 ملین پاﺅنڈ سزا معطلی مقرر کرنے کا کہا تھا لیکن نہیں ہوا، یہ پیرول پر رہائی کا کیس بھی سزا معطلی کیس کے ساتھ فکس کردیں اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ یہ مکمل مختلف معاملہ ہے یہ میں الگ دیکھ لوں گا.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسلام آباد ہائیکورٹ قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ اس کی درخواست عدالت نے کے پاس
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ، سی ڈی اے کو تحلیل کرنے کا حکم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت کی ترقیاتی اتھارٹی (سی ڈی اے) کے مستقبل پر ایک بڑا عدالتی فیصلہ سامنے آیا ہے، جس کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت کو سی ڈی اے کو تحلیل کرنے اور اس کے تمام اختیارات و اثاثے میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد (ایم سی آئی) کے حوالے کرنے کی ہدایت دی ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی کی جانب سے جاری کیے گئے تفصیلی تحریری فیصلے میں سی ڈی اے کی جانب سے جاری کردہ رائٹ آف وے اور ایکسس چارجز کا ایس آر او کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس نوٹیفکیشن کے تحت اٹھائے گئے تمام اقدامات غیر قانونی تصور کیے جائیں گے۔
عدالتی فیصلے میں واضح کیا گیا کہ اگر سی ڈی اے نے اس ایس آر او کی بنیاد پر کسی شہری یا ادارے سے مالی رقوم وصول کی ہیں تو وہ رقم فی الفور واپس کی جائے۔ عدالت نے مزید کہا کہ سی ڈی اے آرڈیننس ایک مخصوص مقصد کے تحت جاری کیا گیا تھا، لیکن وقت گزرنے اور نئی قانون سازی کے بعد اس کی قانونی افادیت ختم ہو چکی ہے۔
فیصلے میں حکومت کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ سی ڈی اے کی تحلیل کا عمل فوری طور پر شروع کرے اور مکمل کرے، تاکہ میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد کو باقاعدہ انتظامی، مالیاتی اور ترقیاتی اختیارات منتقل کیے جا سکیں۔
عدالت نے اس امر پر بھی زور دیا کہ مقامی حکومت کے ادارے شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں اور اسلام آباد کا مکمل ایڈمنسٹریٹو، ریگولیٹری اور میونسپل فریم ورک لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت چلایا جائے۔
فیصلے کے مطابق منتخب بلدیاتی نمائندوں کی منظوری کے بغیر کسی بھی قسم کے ٹیکس نافذ نہیں کیے جا سکتے، جب کہ سی ڈی اے کو ٹیکس عائد کرنے کا کوئی قانونی اختیار حاصل نہیں ہے۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ پیٹرول پمپس اور سی این جی اسٹیشنز پر عائد رائٹ آف ایکسس ٹیکس بھی غیر آئینی ہے۔