Islam Times:
2025-11-14@10:33:17 GMT

ظہران ممدانی کی کامیابی، کیا امریکہ بدل رہا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 14th, November 2025 GMT

ظہران ممدانی کی کامیابی، کیا امریکہ بدل رہا ہے؟

اسلام ٹائمز: مجھے یوگنڈا میں پیدا ہونیوالے ظہران ممدانی کی ذاتی زندگی، نیویارک میں آمد، اس کی فلم پروڈیوسر ہندو والدہ، مسلمان والد کے خاندانی پس منظر اور تارکین وطن کی صورتحال پر کوئی بات نہیں کرنی، سوائے اس کے کہ امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام کو ایک ایشیائی نوجوان باشندے نے اپنی انتخابی مہم سے جو شکست دی ہے، اس سے بھی دنیا بھر کے اکثریتی طبقہ جسے بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ مستضعفین جہاں کہتے ہیں۔ تحریر: سید منیر حسین گیلانی

شعبہ تعلیم سے تعلق رکھنے والے پروفیسر محمود ممدانی اور فلم پروڈیوسر نرما نائر کے چونتیس سالہ بیٹے ظہران ممدانی امریکہ کی تاریخ میں پہلے مسلمان میئر منتخب ہوگئے، جس پر مختلف جہتوں سے تبصرے جاری ہیں۔ اس سے پہلے پاکستانی نژاد صادق خان لندن کے پہلے مسلمان میئر منتخب ہوئے اور وہ اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار کے طور پر ظہران ممدانی کی نیویارک میں فتح حیران کن اس حوالے سے ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کی بھرپور مخالفت کی اور ان پر الزامات بھی عائد کئے۔ لیکن اس کی منفرد انتخابی مہم کا حیران کن نتیجہ آیا۔ دنیا کی حالیہ تاریخ خاص طور پر امریکہ کی ریپبلکن حکومت میں اور اسرائیلی صیہونیت کے اثر و رسوخ کے باوجود انتخابی معرکے میں انسانیت کی دشمن دونوں قوتوں کو شکست ہوئی۔

گذشتہ دو سال سے زائد عرصے میں غزہ میں جاری انسانیت سوز مظالم دنیا بھر نے دیکھے، ابھی تک کوئی فلسطینی مظلوموں کی آہوں اور سسکیوں کو خوشیوں میں تبدیل نہیں کرسکا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے ازالے کا معمولی حصہ اللہ تعالیٰ نے ہر دو شیطانی قوتوں کو نیویارک میں عبرتناک شکست سے ظاہر کیا اور اس میں سے ظہران ممدانی کی شکل میں چھوٹے طبقے کو جو کامیابی ملی ہے، اطمینان بخش ہے۔ برصغیر میں جغرافیائی سیاسی تبدیلی اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح خوجہ فیملی سے تعلق رکھتے تھے، ظہران ممدانی انہی کے خاندان سے ہے۔ یہاں میں کسی کی ذاتی زندگی کو نہیں زیر بحث لانا چاہتا۔ فرقہ وارانہ تعصبات سے لگتا ہے کہ ہم مسلمان نہیں رہے، فرقوں میں بٹ چکے ہیں۔ کھلے دل کا مالک ظہران ممدانی امریکی شہری ہے۔ ہمارے لیے یہی کافی ہے کہ وہ مسلمان ہے، جو مظلوم فلسطینی عوام کا حمایتی ہے۔ اس کے مسلک پر بحث ان لوگوں کی شروع کردہ ہے، جو اسرائیل اور امریکہ کی طرف سے مسلمانوں میں اختلافات پیدا کرنے کیلئے مختص بجٹ سے مستفید ہونیوالے ہیں۔

پاکستان کے عام مسلمانوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم اس خطے میں رہنے والے ہیں کہ جہاں ایک دوسرے کیساتھ رشتے داریاں ہیں۔ لہٰذا کسی قسم کا کوئی ایسا اقدام نہیں کرنا چاہیئے، جس سے مسلمانوں کی وحدت کو نقصان ہو۔ ظہران ممدانی وہ نوجوان ہے، جس نے اسٹیبلشمنٹ کو ناکام بنایا ہے، یہ نوید ان لوگوں کیلئے ہے، جن میں سوچنے کی صلاحیت ہے۔ مجھے یوگنڈا میں پیدا ہونیوالے ظہران ممدانی کی ذاتی زندگی، نیویارک میں آمد، اس کی فلم پروڈیوسر ہندو والدہ، مسلمان والد کے خاندانی پس منظر اور تارکین وطن کی صورتحال پر کوئی بات نہیں کرنی، سوائے اس کے کہ امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام کو ایک ایشیائی نوجوان باشندے نے اپنی انتخابی مہم سے جو شکست دی ہے، اس سے بھی دنیا بھر کا اکثریتی طبقہ جسے بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ مستضعفین جہاں کہتے ہیں۔ اس مظلوم طبقے کے نمائندے نے عوامی حمایت سے امریکہ جیسے سرمایہ دارانہ نظام میں اپنی جگہ بنائی، وہ دنیا کی بڑی سپر پاور میں نظام کی تبدیلی کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔

ظہران ممدانی سابقہ صدارتی امیدوار سینیٹر برنی سینڈرز کا لگایا ہوا پودا ہے، امریکہ میں بڑی تعداد کے چھوٹے طبقے کے نمائندے نے اقلیتی سرمایہ دارانہ طبقے کو شکست دے کر جو کامیابی حاصل کی ہے، اس سے مجھ سمیت کروڑوں پاکستانیوں کی آنکھیں کھل جانی چاہیئں کہ وہ بھی ایک بڑی طاقت ہیں۔ اگر ظہران ممدانی سرمایہ دارانہ نظام کے تسلط کو ختم کرکے عام طبقے کی نمائندگی کرسکتا ہے، تو ہم بھی متحد ہوکر فرسودہ نظام کو ختم کرنے کی صلاحیت پیدا کرسکتے ہیں، جس کیلئے آج سے 1400 سال پہلے ہمارے پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے نمائندے مولائے کائنات امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اقتدار ملنے کے بعد کہا تھا کہ جن لوگوں نے ناجائز طریقے سے دولت اکٹھی کی ہے اور نظام سے فائدہ اٹھا کر اونٹنیاں خریدی ہیں اور ان سے بچے بھی پیدا ہوگئے ہیں تو وہ بھی بیت المال میں واپس لے لیے جائیں گے اور انہوں نے ایسا کیا بھی۔

ظہران ممدانی کی انتخابی مہم میں اختیار کیا گیا طریقہ کار منفرد تھا، جس نے لوگوں کو بہت متاثر کیا اور رائے عامہ ہموار کرنے میں کردار ادا کیا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار کے طور پر ظہران ممدانی، چونکہ پہلے بھی مقامی اسمبلی کا ممبر تھا، تو وہ جانتا تھا کہ نیویارک کے مسائل کیا ہیں۔؟ ان مسائل کے حل اور ان سے آگاہی کیلئے شہریوں کے گھروں میں جا کر، سڑکوں پر کھڑے ہو کر آنے جانیوالے امریکیوں کو ان کے مسائل سے آگاہ کرتا رہا اور ان کا حل بھی پیش کرتا رہا۔ میں سمجھتا ہوں کہ چھوٹے طبقے کی خلوص دل سے نمائندگی کرتے ہوئے انہیں اپنائیت کا احساس دلایا جائے اور پیغام ان تک پہنچا دیا جائے تو وہ بھی بڑی نیک نیتی سے تبدیلی کے اس کاروان کے ہم سفر بن جاتے ہیں اور پھر مقصد اور قافلہ مضبوط سے مضبوط تر ہو جاتا ہے۔ ظہران ممدانی کہتا ہے کہ فلسطینیوں کا قاتل نیتن یاہو اگر نیویارک میں آیا تو وہ اسے گرفتار کروا دیں گے۔

میرے نزدیک حماس کیساتھ اسرائیل کی سیز فائر سے بھی مظلوموں کی بڑی کامیابی یہ ہے کہ نیویارک میں امریکی صدر کی مداخلت اور کوشش کے باوجود اس کے امیدوار کو ناکامی ہوئی اور فلسطین کے حامی کو کامیابی ملی، جبکہ اسرائیلی جارحیت اور انسانیت سوز مظالم کی حامی جماعت ریپبلکن کے امیدوار کو نیویارک کے الیکشن میں منہ کی کھانا پڑی۔ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں امریکہ اور صیہونی حکومت آرام سے تو نہیں بیٹھیں گے، مسلمان میئر کیخلاف سازشیں کریں گے، لیکن عوام کے اتحاد کیساتھ وہ اس میدان میں بھی ناکام ہوں گے۔ میں دعاگو ہوں کہ امریکی نظام میں چھوٹے طبقے کی نمائندگی اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنے کیلئے ظہران ممدانی کو اللہ تعالیٰ مزید قوت دے، تاکہ انہوں نے نئی امید کی جو داغ بیل ڈالی ہے، وہ دن بدن کامیابی کی طرف بڑھے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: سرمایہ دارانہ نظام ظہران ممدانی کی نیویارک میں کے امیدوار چھوٹے طبقے ہوں کہ اور ان

پڑھیں:

ایران کی وزارت خارجہ کا موقف

اسلام ٹائمز: ہم نے امریکی صدر کے اس دعوے کو فوری طور پر اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں ایک دستاویز کے طور پر درج کرایا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق اس اعتراف کو کسی بھی عدالت میں ایک جارحانہ عمل میں امریکہ کی شرکت کے طور پر استعمال کیا جائیگا۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہم صیہونی حکومت اور امریکہ کی فوجی جارحیت کو دستاویزی شکل دینے کے معاملے پر سنجیدگی سے پیروی کر رہے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر امریکہ کیخلاف شکایت اور مقدمہ دائر کرنے کے تمام دستیاب امکانات کا بھی جائزہ لے رہے ہیں، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جس پر صدر پزشکیان کے قانونی دفتر اور عدلیہ کے تعاون سے سنجیدگی سے غور و خوض کیا جا رہا ہے۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان  نے ایران کے جوہری حقوق کی حمایت پر زور دیتے ہوئے یاد دلایا کہ ایک دن مغربی ممالک ایران کو جوہری سائنس کے مرکز کے طور پر قبول کرنے پر مجبور ہوں گے۔ ایران کی سفارتی سروس کے ترجمان نے صحافیوں کے ساتھ سوال و جواب کی نشست میں ایران کی جانب سے معاہدے پر آمادگی کے حوالے سے امریکی صدر کے بیانات کے بارے میں کہا کہ امریکی رویہ ان کے بیانات کے برعکس ہے، ان کا نقطہ نظر موجودہ حالات میں دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ حقیقت میں وہ نہ تو خیر خواہی اور نہ ہی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے بھی گذشتہ دنوں ایران کی جوہری توانائی تنظیم میں جوہری صنعت کی نئی کامیابیوں کی نمائش کا دورہ کرتے ہوئے تنظیم کے سینیئر حکام کے ایک گروپ کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کی۔

ایران کی ایٹمی توانائی کی تنظیم کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور سربراہ محمد اسلامی نے بھی ملک کی ایٹمی صنعت کی تازہ ترین صورتحال، پروگراموں اور کامیابیوں کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔ اس موقع پر وزیر خارجہ نے یہ بات زور دیکر کہی کہ ایٹمی صنعت اب ایک بہت بڑی صنعت بن چکی ہے اور مختلف شعبوں میں تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میری رائے میں، مغربی ممالک کے پاس بالآخر پرامن ایٹمی صنعت کے میدان میں ایران کو ایک سائنسی مرکز کے طور پر قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ یہ بیان کرتے ہوئے کہ ایرانی سائنسدانوں نے پرامن ایٹمی صنعت کے لیے سخت محنت کی ہے اور خون بہایا ہے اور ایران نے اس صنعت کے لیے جدوجہد کی ہے، وزیر خارجہ نے تاکید کی کہ ایران میں کوئی شخص بھی اپنے اس حق سے دستبردار نہیں ہوگا۔

بات چیت کے ساتھ ساتھ ایران کو نقصان پہنچانے کا منصوبہ
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے گذشتہ دنوں ہفتہ وار پریس کانفرنس میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران کے بارے میں بیانات کے بارے میں کئی سوالات کے جوابات دیئے۔ اس سوال کے جواب میں کہ امریکی صدر نے ایران پر حملے کا اعتراف کرنے کے بعد مزید کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ایران ایک معاہدے تک پہنچ جائے،  کہا کہ ایرانی اچھے مذاکرات کار ہیں؛ وہ یہ نہیں کہتے کہ وہ کسی معاہدے تک پہنچنا چاہتے ہیں، لیکن وہ واقعی ایک معاہدے کی تلاش میں ہیں۔ اس معاملے میں آپ کی کیا رائے ہے۔؟ بقائی نے کہا کہ میں اس کا مختصر جواب دوں گا اور وہ یہ ہے کہ امریکی اس کے برعکس ہیں، جو وہ کہتے ہیں۔ جو وہ کہتے ہیں، حقیقت میں وہ ایسا نہیں کرتے۔ یہ ایک فریب ہے۔ عملی طور پر انہوں نے ثابت کیا ہے کہ اس سلسلے میں نہ ان کی نیت اچھی اور نہ ہی اس میں سنجیدگی ہے۔

سینیئر سفارت کار بقائی نے مزید کہا کہ امریکہ واضح طور پر کہہ رہا ہے کہ ہم 22 سال سے ایران کی پرامن جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کی مشق کر رہے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام سالوں میں جب بات چیت ہو رہی تھی، امریکی حکومت ایرانی قوم کو نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی کرتی رہی تھی۔ ایک سوال کے جواب میں، وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ایسی صورت حال میں، جہاں ایک فریق دوسرے فریق کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے اور بین الاقوامی قانون پر مبنی معقول مذاکراتی عمل پر یقین نہیں رکھتا تو اس صورتحال میں مذاکرات کے لیے ضروری شرائط کی تشکیل مشکل ہو جاتی ہے۔

جرم پر فخر، بات کرنے پر آمادگی؟!
پارلیمنٹ کے 80 اراکین کی جانب سے وزیر خارجہ کو حال ہی میں پیش کی گئی ایک یادداشت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ 12 روزہ جنگ میں امریکی جرم کا بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائے اور اس بات پر زور دیا جائے کہ اس جنگ کو شروع کرنے میں براہ راست کردار کی وجہ سے امریکہ کو دنیا میں "جنگی مجرم" کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیئے، وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ایران کے ماضی کے تجربے اس پر شاہد ہیں، لیکن ہم ماضی میں نہیں رہیں گے، ہماری نگاہیں آگے کی طرف ہیں۔ ماضی کے تجربات پر نظر رکھتے ہوئے، یہ دیکھنے کے لیے 1953ء یا 1953ء میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایرانی قوم کے بارے میں امریکہ کا رویہ کیا تھا اور کیا ہے، اس کے لئے تین ماہ قبل جون کے مہینے کے امریکی اقدامات پر غور کرنا کافی ہے۔

ایران اور خطے کے بارے میں امریکہ کی کارکردگی کو نظر انداز کرنے والے خیالات پر تنقید کرتے ہوئے، سینیئر سفارت کار اسماعیل بقائی نے کہا ہے کہ یہ خیالات، جو میرے خیال میں یک طرفہ طور پر پیش کیے جاتے ہیں اور ایران اور خطے کے بارے میں امریکہ کی کارکردگی کو نظر انداز کرتے ہیں، حقائق سے دور ہیں۔ ایران کے خلاف امریکہ کے معاندانہ اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ نے اعلیٰ سطح پر ایران کے خلاف جرم کیا ہے اور وہ اس جرم پر مسلسل فخر کر رہا ہے اور دوسری طرف یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ ہم ایران کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت کے خواہاں ہیں۔ بقائی نے تاکید کی کہ سب کو سمجھنا چاہیئے کہ ایران پر حملہ مذاکراتی عمل کے درمیان ہوا، اب یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے۔ پہلے کہتے تھے کہ یہ حملہ صیہونی حکومت کا کام ہے، لیکن اب امریکی صدر کے اعتراف سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اس حملے میں امریکہ کا براہ راست کردار تھا۔

ایران امریکہ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر رہا ہے
وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس پریس کانفرنس میں ایران کے خلاف صیہونی حکومت کی فوجی جارحیت میں ٹرمپ کے ملوث ہونے کے اعتراف اور امریکی حکام کو جوابدہ بنانے کے ایران کے اقدامات کے بارے میں بھی کہا ہے کہ ہم نے امریکی صدر کے اس دعوے کو فوری طور پر اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں ایک دستاویز کے طور پر درج کرایا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق اس اعتراف کو کسی بھی عدالت میں ایک جارحانہ عمل میں امریکہ کی شرکت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہم صیہونی حکومت اور امریکہ کی فوجی جارحیت کو دستاویزی شکل دینے کے معاملے پر سنجیدگی سے پیروی کر رہے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر امریکہ کے خلاف شکایت اور مقدمہ دائر کرنے کے تمام دستیاب امکانات کا بھی جائزہ لے رہے ہیں، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جس پر صدر پزشکیان کے قانونی دفتر اور عدلیہ کے تعاون سے سنجیدگی سے غور و خوض کیا جا رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • حضور ؐ کی سنتوں اور حرمت کے محافظ بن جاؤ، دنیا و آخرت سنور جائیگی، تبلیغی اجتماع جاری
  • علامہ اقبال اور جدید سیاسی نظام
  • ظہران ممدانی: دہلی کے بے گھر بچوں کے خواب سے نیویارک تک
  • ایران کی وزارت خارجہ کا موقف
  • عدلیہ کو زیر کرنے کا پورا بندوبست کیا گیا، کوئی آئین سے بالاتر نہیں: حافظ نعیم 
  • جوزف عون نے اسرائیل سے مذاکرات کیلئے امریکہ سے مدد مانگ لی
  • صدر، وزیراعظم یا کوئی جرنیل، آئین سے کوئی بھی بالاتر نہیں، حافظ نعیم الرحمن
  • ریاست شخصیات سے نہیں،نظام سے چلتی ہے
  • احمد الشرع کی وائٹ ہاوس یاترا