Islam Times:
2025-06-30@01:54:05 GMT

موجودہ حالات کے ذمہ دار قابض ٹولہ ہے، پی ٹی آئی کوئٹہ

اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT

موجودہ حالات کے ذمہ دار قابض ٹولہ ہے، پی ٹی آئی کوئٹہ

اپنے بیان میں پی ٹی آئی رہنماؤں نے کہا کہ ایک جانب بانی پی ٹی آئی اور دوسری جانب کرپٹ ٹولہ ہے جو 70 سال سے ملک پر قابض اور ملکی دولت کو لوٹ رہا ہے۔ آج ملک کے حالات انہی کیوجہ سے ابتر ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان تحریک انصاف کوئٹہ کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ پاکستان پر 70 سال سے قابض ٹولے کے باعث موجودہ صورتحال ابتر ہے۔ آج ملک کو عمران خان کی ضرورت ہے۔ اپنے مشترکہ بیان میں پی ٹی آئی رہنماء محمد رحیم کاکڑ، سردار حسن شاہ، جمیل بوستان ایڈووکیٹ و دیگر نے کہا کہ اختلافات ہمیشہ بہادر اور اصول پسند لوگ رکھتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان ملکی تاریخ کے اصول پسند اور بہادر انسان ہیں اور ہر کارکن کو ان پر فخر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک جانب بانی پی ٹی آئی اور دوسری جانب کرپٹ ٹولہ ہے جو 70 سال سے ملک پر قابض اور ملکی دولت کو لوٹ رہا ہے۔ آج ملک کے حالات انہی کی وجہ سے ابتر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج پاکستان کو ایک نئے لیڈر کی ضرورت ہے جو عوام کے مسائل حل اور ملک کو بحرانی کیفیت سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کرسکے۔ عمران خان اس وقت پاکستان کی ضرورت ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: نے کہا کہ ا

پڑھیں:

13 ججز کے فیصلے پر 12 ججز کا نظر ثانی فیصلہ: 12 جولائی اور موجودہ فیصلہ جزوی طور پر آئین سے متجاوز؟

6 مئی 2024 کو جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پشاور ہائیکورٹ کا 25 مارچ 2024 کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں موجود سیاسی جماعتوں کو اضافی مخصوص نشستوں کی تقسیم روک دی تھی۔

اس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 13 رکنی بینچ 12 جولائی 2024کو 5 کے مقابلے میں 8 ججز کی اکثریت سے ایک فیصلہ جاری کیا جس میں نہ صرف پی ٹی آئی کو پارلیمانی جماعت تسلیم کیا گیا، 39 اراکینِ اسمبلی کو بطور پی ٹی آئی ایم این اے تسلیم کیا گیا جبکہ 41 اراکین اسمبلی کو 15 دن کا وقت دیا گیا کہ وہ الیکشن کمیشن کو درخواست دے کر پی ٹی آئی یا کسی اور سیاسی جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں۔

6 مئی 2025، پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی 12 جولائی 2024 کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیلوں پر پہلی سماعت ہوئی۔ 13 رکنی آئینی بینچ کے 2 اراکین جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے ابتدائی سماعت پر ہی اپنا فیصلہ سناتے ہوئے نظر ثانی اپیلیں خارج کر دیں۔ جس کے بعد بینچ کی تشکیل نو کی گئی، 11 رکنی آئینی بینچ جسٹس صلاح الدین پنہور کے بینچ سے الگ ہونے کے بعد 10 رکنی رہ گیا اور آج ہی اس بینچ کو دوبارہ سے تشکیل دے کر سماعت شروع کی گئی اور آج ہی مختصر حکمنامہ بھی جاری کر دیا گیا۔

آج کا مختصر حکمنامہ

4 صفحات پر مشتمل تحریری مختصر حکمنامے میں پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ بحال کر دیا گیا۔ جس کی رو سے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں خالی رہ جانے والی مخصوص نشستیں پارلیمانی جماعتوں میں تقسیم کی گئی تھیں۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی 77 مخصوص نشستیں جو 8 فروری 2024 انتخابات کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمیعت علمائے اِسلام میں تقسیم کی گئی تھیں وہ بحال ہو گئی ہیں۔ جسٹس امین الدین خان، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاھد بلال حسن، جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل 7 ججوں نے متفقہ طور پر پشاور ہائیکورٹ کے حکمنامے کو بحال کر دیا۔ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے اپنے اقلیتی فیصلے میں الیکشن کمیشن کو مخصوص نشستوں کی تقسیم کا ازسرنو جائزہ لینے کی ہدایت کی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے 12 جولائی 2024 کے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ قومی اسمبلی کے 39 اراکین کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے جنہوں نے اپنے نامزدگی فارم میں یہ لکھا اور ٹکٹ بھی جمع کروایا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے اس فیصلے کو برقرار رکھا ہے جبکہ 41 نشستوں سے متعلق اپنے فیصلے پر نظرِثانی کی ہے۔

پشاور ہائیکورٹ کا حکمنامہ کیا تھا

پشاور ہائیکورٹ نے اپنے حکمنامے میں قرار دیا تھا کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان اِضافی مخصوص نشستیں پارلیمنٹ کی دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کرنے کا مجاز ہے۔

12 جولائی کا فیصلہ اور موجودہ فیصلہ جزوی طور پر آئین سے متجاوز ہے، حسن رضا پاشا

پاکستان بار کونسل ایگزیکٹو کمیٹی کے سابق چیئرمین ایڈووکیٹ حسن رضا پاشا نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 12 جولائی 2024 کا جب فیصلہ آیا تو اُس میں کہا گیا تھا کہ 41 اراکین 15 دنوں میں پی ٹی آئی یا کسی اور جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اُس پر وکلاء نے حیرت کا اظہار کیا تھا کہ آئین میں کسی آزاد اُمیدوار کو کسی سیاسی جماعت میں شمولیت کے لئے 3 دن کا وقت دیا گیا ہے تو یہ 15 دن کا وقت کہاں سے آیا۔ اس اعتراض کا جواب یہ دیا گیا کہ یہ عارضی بندوبست ہے۔ لیکن آئین میں تو عارضی بندوبست کی گنجائش ہی نہیں وہاں تو صاف صاف 3 دن ہی لکھا ہے۔ تو اُس وقت کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے آئین کو ازسر نو تحریر کرنے کی کوشش کی ہے۔ آج آئینی بینچ نے پشاور ہائیکورٹ کے جس فیصلے جس کو موجودہ فیصلے سے بحال کیا ہے، اس کے مطابق اضافی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں میں تقسیم کر دی جائیں گی۔ یہ چیز بھی آئین سے ماورا ہے۔ جب مذکورہ نشستیں پی ٹی آئی یا سنی اتحاد کونسل کو نہیں مل سکتیں تو وہ دیگر جماعتوں کو کیسے مل سکتی ہیں۔

کیا 12 رکنی آئینی بینچ 13 رکنی سپریم کورٹ بینچ کے فیصلے پر نظر ثانی کر سکتا ہے، اس سوال کے جواب میں حسن رضا پاشا نے کہا کہ 26 ویں ترمیم سے پہلے یہ طریقہ تھا کہ نظر ثانی وہی بینچ سن سکتا تھا جس نے اصل فیصلہ دیا ہو۔ لیکن 26 ویں ترمیم کے بعد اب سارے آئینی معاملات آئینی بینچ ہی سنے گا۔ یہ چونکہ ایک آئینی معاملہ تھا تو لامحالہ اس کی سماعت آئینی بینچ ہی میں ممکن تھی۔ اسی لیے جب پی ٹی آئی نے درخواست دائر کی کہ فل کورٹ بنائی جائے اور وہی ججز شامل کیے جائیں جنہوں نے 12 جولائی کا فیصلہ دیا تھا تو وہ درخواست مسترد کر دی گئی۔ کیونکہ نئے طریقہ کار کے مطابق اگر آئینی بینچ ہی 12 ججز کا ہے تو 12 ججز ہی اس کی سماعت کریں گے۔ یہ ایک بدلتی ہوئی صورتحال ہے لیکن اس میں یہی ممکن تھا۔ آئندہ کے لیے مثال قائم ہو گئی ہے کہ آئینی معاملات سے متعلق کوئی بھی نظرِثانی آئینی بینچ ہی سن سکتا ہے۔

بالکل غیر آئینی اور غیر منصفانہ فیصلہ ہے، امان اللہ کنرانی

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان کنرانی ایڈووکیٹ نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ بالکل غیر آئینی اور غیر منصفانہ ہے۔ 12 جولائی 2024 کا وہ فیصلہ جس کی رو سے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دی گئیں وہ 13 رکنی بینچ کا فیصلہ تھا۔ اصولی طور پر نظرِثانی بینچ اس بینچ سے بڑا ہونا چاہیے تھا جس کے اراکین کی تعداد کم از کم 14 یا 15 ہوتی۔ لیکن 13 رکنی بینچ بنایا گیا جو جسٹس صلاح الدین پنہور کے بینچ سے علیحدہ ہونے کے بعد 12 رکنی رہ گیا۔ اب یہ 12 رکنی بینچ 13 رکنی بینچ کے فیصلے پر نظر ثانی نہیں کر سکتا تھا۔ دوسری بات یہ کہ اصولی طور پر نظرِثانی بینچ میں وہ تمام جج صاحبان شامل ہوتے ہیں جنہوں نے اصل فیصلہ صادر کیا ہوا۔ ان جج صاحبان کو بھی شامل نہیں کیا گیا۔ کسی وقت حالات بدلے تو پر۔انکیوریم یعنی قانون کے غلط استعمال کی بنیاد پر اِس طرح کے فیصلے مسترد ہو جائیں گے۔

اس وقت سب سے بڑا مسئلہ 26 ویں آئینی ترمیم کا ہے، سب سے پہلے 26 ویں آئینی ترمیم کے بارے میں فیصلہ ہونا چاہیے کہ وہ درست ہے یا غلط۔ اس کے بعد یہ سارے فیصلے کیے جانے چاہییں تھے۔ اس وقت مفادات کے ٹکراؤ کی بنیاد پر فیصلے کیے جا رہے ہیں، سیاسی مقاصد کے تحت فیصلے کیے جا رہے ہیں، عجلت اور بد نیتی کی بنیاد پر فیصلے کیے جا رہے ہیں جو نہیں ہونے چاہییں۔

پاکستان تحریک انصاف ٹیکنیکل ناک آؤٹ ہوئی ہے، صدر سپریم کورٹ بار

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے موجودہ صدر میاں رؤف عطاء نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے آئینی بینچ کے فیصلے کو درست قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ درست تھا جس میں حکمران پارلیمانی جماعتوں نے کہا کہ ہم نے الیکشن میں حصہ لیا اور تناسب کے حساب سے ہمیں نشستیں الاٹ کی جائیں۔ سپریم کورٹ کا 12 جولائی کا فیصلہ اختیارات سے تجاوز تھا اس میں سپریم کورٹ نے درخواست گزار کو وہ ریلیف دیا جو اس نے مانگا ہی نہیں تھا، سپریم کورٹ کو آرٹیکل 188 کے تحت اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کا اختیار حاصل ہے۔

میاں روؤف عطاء نے کہا کہ اس فیصلے کی رو سے پاکستان تحریک انصاف ٹیکنیکل ناک ہوئی ہے اس نے بروقت ترجیحی نشستوں کی فہرست بھی جمع نہیں کرائی تھی۔ تکنیکی بنیادوں پر یہ درست فیصلہ دیا گیا ہے لیکن فطری انصاف کے رو سے آپ اس سے اختلاف کر سکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

تحریک انصاف نشستیں ریزرو سیٹس سپریم کورٹ کا مخصوص نشستوں کا فیصلہ مخصوص نشتوں کا فیصلہ

متعلقہ مضامین

  • اجنبی جو قابض بنے
  • جنین، طولکرم اور نورشمس میں صیہونی فوج کے ہاتھوں 1 ہزار مکانات مسمار
  • ٹرمپ کی غزہ میں جنگ بندی کی کوشش ناکام ،اسرائیلی حملوں میں مزید 81 فلسطینی شہید
  • بلاول نے پاکستان کا مقدمہ دنیا میں لڑا جسے سراہا گیا؛ سردار سلیم حیدر
  • فوج سیاسی جماعتوں سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی(ترجمان پاک فوج کی عمران خان سے مذاکرات یاپس پردہ رابطوں کی تردید)
  • موجودہ کاروباری ایکو سسٹم میں ایگری ٹیک کی اہم ہے،چیئرپرسن آئی پی او
  • 13 ججز کے فیصلے پر 12 ججز کا نظر ثانی فیصلہ: 12 جولائی اور موجودہ فیصلہ جزوی طور پر آئین سے متجاوز؟
  • فوج کو برائے مہربانی سیاست میں ملوث نہ کیا جائے، ڈی جی آئی ایس پی آر کی عمران خان سے مذاکرات یا پس پردہ رابطوں کی تردید
  • فوج سیاسی جماعتوں سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی،ڈی جی آئی ایس پی آر کی عمران خان سے مذاکرات یا پس پردہ رابطوں کی تردید
  • برائے مہربانی ہمیں سیاست میں ملوث نہ کیا جائے، ترجمان پاک فوج کی عمران خان سے مذاکرات کی تردید