پاکستان کے نور خان ایئر بیس پر ناکام بھارتی حملے کی ایک اور وجہ بھی سامنے آرہی ہے کہ حملے سے چند دن قبل یہاں پر ایک ایسی میٹنگ ہوئی جس نے بھارت کے معاشی اور سفارتی حلقوں میں ہلچل مچا دی تھی۔

جی ہاں جنگ سے چند دن قبل مشرق وسطیٰ میں امریکی صدر ٹرمپ کے ایڈوائزر اسٹیو وٹکاف کے بیٹے زیک وٹکاف نے نور خان ایئر بیس پر لینڈ کیا جہاں ان کی ملاقات پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف، آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور وزیردفاع خواجہ آصف سے ہوئی۔

اس موقع پر پاکستان کرپٹو کونسل (پی سی سی) اور زیک ویٹکاف کی کرپٹو کمپنی ورلڈ لبرٹی فنانشنل کے درمیان ایک لیٹر آف انٹینٹ پر دستخط کیے گئے۔

یاد رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ خود زیک ویٹکاف کی کرپٹو کمپنی ورلڈ لبرٹی فنانشنل میں پارٹنر ہیں۔

اس اجلاس کے چند دن بعد نور خان ایئر بیس پر انڈیا نے حملہ کیا جو نقصان پہنچانے میں ناکام رہا۔

کرپٹو کے میدان میں اس معاہدے اور اس اجلاس کی خبر اتنی اہم تھی کہ انڈیا کے اعلیٰ خارجہ پالیسی ماہرین بھی اس کو نظرانداز نہیں کرپائے اور پرائم ٹائم نشریات میں بھارتی تجزیہ کار روبندر سچدیوا نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان پی سی سی کو ایک سفارتی ٹول کے طور پر استعمال کررہا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پڑوسی نہ صرف ہوشیاری سے کھیل رہا ہے بلکہ اپنے مہرے ترتیب دے رہا ہے۔

اس بیان کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کیونکہ یہ بیان انہوں نے بھارتی چینل ریپبلک ٹی وی پر ارناب گوسوامی کے جنگی حالات پر مبنی پرائم ٹائم شو میں دیا، یعنی ایک ایسے وقت میں جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی عروج پر تھی۔ بھارتی میڈیا کی غیر متوقع توجہ صرف عسکری حکمتِ عملی پر نہیں بلکہ پاکستان کے ڈیجیٹل اور سفارتی اثر و رسوخ پر مرکوز تھی، خاص طور پر کرپٹو کے میدان میں۔

یہ سب اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جنگی میدان میں اپنی برتری دکھانے کے بعد پاکستان اب ڈیجیٹل میدان میں بھی آگے بڑھ رہا ہے، یعنی جنوبی ایشیا میں ایک خاموش انقلاب برپا ہو رہا ہے جو جنگی شعبے میں نہیں بلکہ ڈیجیٹل والٹس، بلاک چین پروٹوکولز اور عالمی کرپٹو اتحادوں کے ذریعے رونما ہورہا ہے۔

???? India’s own expert just admitted it on Arnab’s show, “Pakistan is playing smart… using the @cryptocouncilpk as a diplomatic tool.

”Looks like Pakistan’s Foreign Tech Policy is already winning battles—without jets. pic.twitter.com/nCzTnxaMEZ

— Ihtisham Ul Haq (@iihtishamm) May 12, 2025

پہلی بار پاکستان نے عالمی ٹیک اسٹیج پر بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور Web3 اس پیشرفت کا لانچ پیڈ بن چکا ہے اور پاکستان کرپٹو کونسل (پی سی سی) اب ملک کی پہلی ٹیک-نیٹو سفارتی قوت کے طور پر ابھر رہی ہے۔

پاکستان کی کرپٹو پیشرفت کا جنگی کوریج میں نمایاں ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ بھارت پاکستان کے Web3 میں تیز رفتار عروج کو ایک نئی ’سافٹ پاور‘ کے طور پر دیکھ رہا ہے، ایک ایسی طاقت جو عالمی سطح پر تیزی سے تسلیم کی جا رہی ہے۔

پاکستان کرپٹو کونسل اس وقت ابھرتی ہوئی دنیا کی سب سے جارح مزاج اور دور اندیش کرپٹو تنظیموں میں شمار ہوتی ہے، جو نہ صرف ضوابط کی تشکیل کر رہی ہے بلکہ بین الاقوامی شراکت داریوں کے ذریعے خطے میں اثر و رسوخ کا توازن بھی تبدیل کر رہی ہے۔

اس پورے معاملے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ بائنانس کے بانی سی زیڈ پی سی سی کے اسٹریٹجک مشیر کے طور پر خود پیش ہوئے جو پاکستان کی کرپٹو صلاحیت پر بے مثال اعتماد کا مظہر ہے۔

اس کے علاوہ ورلڈ لبرٹی فنانشل (امریکی کمپنی) کے ساتھ LOI پر دستخط Web3 انفراسٹرکچر میں پاکستان کو کلیدی شراکت دار کے طور پر تسلیم کیا گیا

پی سی سی کے سی ای او بلال بن ثاقب نے ملائیشیا کے وزیر خارجہ سے ملاقات کی اور مسلم ممالک اور ASEAN خطے میں بلاک چین تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔ پی سی سی کی قیادت نے یہ واضح کیا کہ یہ صرف ضابطہ سازی نہیں بلکہ خارجہ پالیسی ہے جو کوڈ میں لکھی جارہی ہے اور ہم Web3 کے ذریعے پاکستان کو عالمی نقشے پر نئے مقام پر لا رہے ہیں۔

پاکستان کرپٹو کونسل نے یہ بھی واضح کیا کہ ان کی عالمی حکمت عملی ردِعمل پر مبنی نہیں، بلکہ اثر و رسوخ کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔ اس حوالے سے جو مزید ارادے ظاہر کیے گئے وہ مندرجہ ذیل ہیں

جدید حکومتوں کے ساتھ کرپٹو پر مبنی دوطرفہ تعلقات کی تشکیل

پاکستانی نوجوانوں کو Web3 بلڈرز اور ڈیجیٹل سفیروں میں تبدیل کرنا

FATF سے ہم آہنگ ڈیجیٹل اثاثے پر مشتمل فریم ورک کی تیاری پر زور دیا جائے گا جو سرمایہ اور ساکھ کے حصول کے لیے مفید ہو۔

ترسیلات زر، ڈیجیٹل شناخت اور قومی اثاثوں کی ٹوکنائزیشن کے لیے بلاک چین بنیادوں کی تعمیر

پاکستان نے یہ بھی واضح کیا کہ اب وہ آگے بڑھ کر فیصلے کرنے کے لیے تیار ہے یعنی جہاں بھارت ہچکچا رہا ہے، وہاں پاکستان عمل کر رہا ہے، جہاں دنیا رہنمائی ڈھونڈ رہی ہے، وہاں پی سی سی راستہ دکھا رہی ہے اور جہاں ابھرتی ہوئی منڈیاں غیر یقینی کا شکار ہیں، وہاں پاکستان اتحاد قائم کر رہا ہے۔

پاکستان کرپٹو کونسل اب صرف گفتگو کا حصہ نہیں، بلکہ قیادت کر رہی ہے، جو سفارتکاری کا نیا تصور ہے۔ یہ Web3 بطور سفارتی ہتھیار ہے اور پاکستان کی نئی عالمی شناخت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان کرپٹو کونسل پاکستان کے کے طور پر کی کرپٹو پی سی سی رہی ہے ہے اور کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

عالمی سطح پر پاکستان کے حق میں دو اہم فیصلے

عالمی مستقل ثالثی عدالت نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا ہے، بھارت مغربی دریاؤں کا پانی پاکستان کے بلا روک ٹوک استعمال کے لیے چھوڑ دے، بھارت نے حال ہی میں سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس سے قبل ثالثی عدالت کی کارروائی کا بائیکاٹ بھی کیا تھا۔ یہ فیصلہ پاکستانی موقف کی فتح ہے۔

 پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ جنوبی ایشیاء میں آبی وسائل کی تقسیم کا ایک نادر اور دیرپا بین الاقوامی معاہدہ رہا ہے جس نے عشروں سے دونوں ممالک کے درمیان پانی کے حوالے سے تنازعات کو کسی حد تک روک کر رکھا ہے۔ تاہم، وقتاً فوقتاً اس معاہدے کی روح اور اس کے اطلاق کے حوالے سے مختلف نوعیت کے اختلافات جنم لیتے رہے ہیں۔

حال ہی میں عالمی مستقل ثالثی عدالت کی جانب سے پاکستان کے حق میں سنایا گیا فیصلہ، ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے جو نہ صرف پاکستان کے قانونی موقف کی توثیق کرتا ہے بلکہ بین الاقوامی قانون اور معاہدات کی پاسداری کے اصولوں کو بھی اجاگر کرتا ہے۔

اس فیصلے کی جڑیں انیس اگست دو ہزار سولہ میں اس وقت پیوست ہیں جب پاکستان نے بھارت کے خلاف عالمی عدالت سے رجوع کیا تھا۔ پاکستان کا مؤقف تھا کہ بھارت مغربی دریاؤں پر ایسے منصوبے تعمیر کررہا ہے جو سندھ طاس معاہدے کی روح کے منافی ہیں اور پاکستان کے آبی حقوق پر کاری ضرب ہیں۔

پاکستان کی طرف سے عدالت سے یہ استدعا کی گئی کہ بھارت کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ معاہدے کی مکمل پاسداری کرے اور مغربی دریاؤں جن میں دریائے سندھ، جہلم اور چناب شامل ہیں، کے پانی کو پاکستان کے بلا روک ٹوک استعمال کے لیے چھوڑ دے۔ آٹھ اگست دو ہزار پچیس کو عالمی مستقل ثالثی عدالت کی طرف سے سنایا گیا فیصلہ، پاکستان کے اس مؤقف کی تصدیق کرتا ہے کہ بھارت نے معاہدے کی خلاف ورزی کی کوشش کی اور پاکستان کے قانونی حقوق کو پامال کرنے کے اقدامات کیے۔

عدالت نے واضح الفاظ میں کہا کہ بھارت ان دریاؤں کے پانی کو نہیں روک سکتا اور اسے معاہدے کے مطابق پاکستان کو یہ پانی مہیا کرنا ہوگا۔ یہ فیصلہ نہ صرف پاکستان کی قانونی، اخلاقی اور سفارتی کامیابی ہے بلکہ یہ اس امر کا بھی اظہار ہے کہ عالمی برادری بھارت کی جانب سے معاہدوں کی خلاف ورزی پر خاموش نہیں رہے گی۔

اس فیصلے کی اہمیت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب اسے بھارت کی حالیہ حرکات و سکنات کے تناظر میں دیکھا جائے۔ حال ہی میں بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کر کے نہ صرف بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی کی کوشش کی بلکہ اس نے عالمی ثالثی عدالت کی کارروائی کا بائیکاٹ بھی کیا۔

اس بائیکاٹ کا مقصد شاید یہ تھا کہ وہ عدالت کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرے یا کارروائی کو غیر مؤثر بنا سکے، لیکن عدالت نے اس رویے کو نظر انداز کرتے ہوئے میرٹ پر فیصلہ سنایا، جو بھارت کے لیے ایک بین الاقوامی تنبیہ بھی ہے کہ قانون سے بالاتر کوئی ریاست نہیں ہوتی۔

اس فیصلے کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک جانب تو یہ فیصلہ جنوبی ایشیائی خطے میں پانی کے مسئلے پر موجود غیر یقینی صورتحال کو کسی حد تک واضح سمت دے گا، اور دوسری جانب بین الاقوامی برادری کو بھی یہ پیغام دے گا کہ پانی جیسے قیمتی اور حساس وسائل کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی معاہدات کا احترام لازم ہے۔ بھارت کے لیے بھی یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنی داخلی سیاست یا علاقائی بالادستی کے جنون میں بین الاقوامی اصولوں کو پامال نہ کرے کیونکہ ایسا طرزِ عمل نہ صرف خطے کے امن کے لیے خطرہ بن سکتا ہے بلکہ خود بھارت کے عالمی تشخص کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ایک اور اہم پہلو جس پر غور کیا جانا چاہیے وہ ماحولیاتی تبدیلی اور پانی کے بڑھتے ہوئے عالمی بحران کا ہے۔

دنیا بھر میں آبی ذخائر پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اور بارشوں کے نظام میں بے ترتیبی پیدا ہو چکی ہے۔ ایسے میں دریاؤں کا بہاؤ روکنا، ان پر بند باندھنا یا ان کے قدرتی نظام میں مداخلت عالمی ماحولیاتی نظام پر بھی منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ سندھ طاس معاہدہ نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کا ایک فریم ورک ہے بلکہ یہ ایک ماحولیاتی توازن قائم رکھنے کا ذریعہ بھی ہے۔

بھارت کے منصوبے نہ صرف پاکستان کے لیے خطرناک ہیں بلکہ پورے خطے کے ماحول اور زراعت پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔پاکستان کو بھی اس کامیابی کے بعد اپنی سفارتی کوششوں کو مزید مؤثر بنانا ہوگا تاکہ یہ عدالتی فیصلہ نہ صرف کاغذی حد تک محدود رہے بلکہ اس پر مکمل عملدرآمد بھی یقینی بنایا جا سکے۔

دوسری جانب امریکا کی جانب سے بی ایل اے (بلوچ لبریشن آرمی) اور مجید بریگیڈ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر کے دہشت گرد قرار دینا، ایک پیش رفت ہے ۔ یہ فیصلہ پاکستان سمیت ان خطوں میں استحکام، امن اور قانون کی حکمرانی کے قیام کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہے۔

بی ایل اے ایک مسلح دہشت گرد گروپ ہے، جو بلوچستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہے ۔ دوسری جانب، مجید بریگیڈ نے اپنے آپریشنز میں جہاں حکومتی تنصیبات کو نشانہ بنایا، وہاں سیکیورٹی فورسز، عام شہریوں اور سرکاری اہلکاروں کے خلاف کارروائیاں بھی کیں، جس سے انسانی جانوں کا نقصان ہوا اور ملک کے اندرونی امن کو دھچکا لگا۔

دہشت گردی ایک عالمگیر مسئلہ ہے۔ جب ایک ریاست خود اپنی داخلی سیکیورٹی کے لیے کارروائی کرتی ہے، تو اسے کبھی کبھی بین الاقوامی سطح پر الجھنوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے، جب ایک بین الاقوامی طاقت جیسے امریکا اس معاملے میں واضح موقف اختیار کرتی ہے، تو اس سے پاکستان کو نہ صرف قانونی اور اخلاقی حمایت ملتی ہے بلکہ اسٹرٹیجک اعتبار سے بھی ایک مضبوط موقف پر قائم رہنے کی قوت ملتی ہے۔

یہ فیصلہ اُن حکومتوں اور انھیں گروہوں کی پالیسیوں کو ایک عالمی سطح پر جھٹکا دیتا ہے جو دہشت گردی کو ایک سیاسی اوزار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بعض حلقے ان گروہوں کو آزادی پسند تحریکیں قرار دیتے آئے ہیں، لیکن امریکی موقف نے ایک واضح لکیر کھینچ دی ہے کہ یہ گروہ دہشت گرد تنظیموں کی ہی شاخ ہیں، اور ان کے اہداف میں عوام کی حفاظت شامل نہیں، بلکہ انتشار، نفرت اور تشدد کو فروغ دینا شامل ہے۔

یہ حقیقت عوام کے شعور کو بیدار کرنے میں مددگار ہے، اور انھیں سمجھنے میں معاون ہے کہ معاشرتی ترقی، امن اور خوشحالی دہشت گردی کے خاتمے سے ممکن ہے، دہشت گردی کے پھیلاؤ سے نہیں۔یہاں ایک اور پہلو قابلِ ذکر ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف عسکری محاذ پر محدود نہیں رہنی چاہیے۔ اس میں سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ، نوجوانوں میں نظریاتی تربیت، تعلیم اور معاشرتی شعور میں اضافہ، معاشی مواقع کی فراہمی، اور سیاسی شمولیت کے راستوں کو بھی مستحکم کرنا ضروری ہے۔ دہشت گردی کے خلاف مقابلہ اگر تمام جہتوں سے کیا جائے۔

عسکری، معاشی، نظریاتی، تعلیمی اور سیاسی تو اس سے نہ صرف وہ گروہ جو تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہیں ختم ہو سکتے ہیں، بلکہ اس کا اثر دیگر ریاست دشمن رجحانات پر بھی پڑے گا۔ دنیا کو محفوظ بنانے کے لیے ہمیں اپنے گھروں اور معاشروں کو پہلے محفوظ بنانا ہوگا۔ پاکستان کا مضبوط ہونا، معاشرتی انصاف کی بنیاد پر، ہی عالمی امن کی ضمانت ہے۔

امریکا کا فیصلہ ایک با معنی پیغام بھی دیتا ہے کہ دہشت گردی ایک ایسی وبا ہے جو صرف علاقائی یا مخصوص ریاستی مسئلے کا نام نہیں، بلکہ یہ بین الاقوامی سطح پر ایک مشترکہ جرم ہے۔ اس کا مقابلہ صرف اپنے عسکری یا سیاسی نقطہ نظر سے نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں اس جنگ میں علاقے کے امن، قانون کی حکمرانی، معاشرتی شمولیت اور بین الاقوامی اتحاد کو بطور اساسی اوزار اختیار کرنا ہوگا۔

بلاشبہ یہ فیصلہ پاکستان کی قربانیوں، عسکری و سیاسی جدوجہد اور مسلسل کوششوں کا اعتراف ہے۔ اب وقت ہے کہ پاکستان اس اعتراف کو عملی اقدامات میں ڈھالے۔ بلوچستان میں تعمیری ترقیاتی پروگرام، نوجوانوں کی شمولیت، سیاسی شفافیت، انسانی حقوق کی پاسداری اور بین الاقوامی تعاون کو بنیاد بنا کر اس تشدد آمیز تاریخ کو تبدیل کیا جائے۔ ایک ایسا پاکستان جس کا ہر حصہ امن، ترقی، انصاف اور شمولیت کا پیامبر ہو، ہی دنیا کو زیادہ محفوظ اور خوشحال بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • ’’شنگنس لمحہ‘‘: شائستگی کی فتح
  • امن یا کشیدگی: پاکستان بھارت تعلقات کے مستقبل پر نظر ثانی
  • پرینکا گاندھی کا فلسطین کے حق میں بیان، بھارت میں اسرائیلی سفیر نے شرمناک قرار دے دیا
  • عالمی سطح پر پاکستان کے حق میں دو اہم فیصلے
  • فیلڈ مارشل عاصم منیر کے دورۂ امریکا پر وائٹ ہاؤس میں پذیرائی، بھارت ناخوش ، فنانشل ٹائمز
  • پاکستان اور ٹرمپ حکومت کی بڑھتی قربت ، بھارت کی تشویش بڑھ رہی ہے . فنانشل ٹائمز
  • پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں غیر متوقع بہتری نے بھارت کو گہری تشویش میں مبتلا کر دیا، فنانشل ٹائمز
  • پاکستان اور ٹرمپ حکومت کی بڑھتی قربت نے بھارت کی تشویش میں اضافہ کردیا، فنانشل ٹائمز
  • پاکستان اور ٹرمپ حکومت کی بڑھتی قربت پر بھارت میں تشویش بڑھ گئی، فنانشل ٹائمز
  • پاک امریکا تعلقات بہتری کی جانب رواں