پاکستان کی بھارتی وزیر دفاع کے بیان کی مذمت، جہالت اور لاعلمی کا مظاہرہ قرار
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
پاکستان نے بھارتی وزیردفاع کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے دیے گئے ریمارکس کی مذمت کرتے ہوئے اسے روایتی جنگ میں بھارتی جارحیت کے مقابلے میں پاکستان کی مؤثر جوابی کارروائی کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔
دفتر خارجہ کی جانب جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارتی وزیر دفاع کے یہ غیر ذمہ دارانہ ریمارکس روایتی جنگ میں بھارتی جارحیت کے مقابلے میں پاکستان کی مؤثر جوابی کارروائی اور پاکستان کی مسلمہ مضبوط دفاعی قوت کے حوالے سے اُن کے اندرونی عدم تحفظ کے احساس اور اضطراب کو ظاہر کرتے ہیں۔
’پاکستان کے پاس روایتی جنگ کے حوالے سے ہندوستان کا مقابلہ کرنے کی کافی قوت موجود ہے اور نئی دہلی اپنی خود ساختہ جوہری بلیک میلنگ کا خود ہی شکار ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں: بھارتی مہم جوئی کی صورت میں اپنی سالمیت کا دفاع کریں گے، وزیراعظم نے اقوام متحدہ کو آگاہ کردیا
دفتر خارجہ کے مطابق بھارتی وزیردفاع کے بیانات اُن کی اس جہالت اور لاعلمی کو بھی ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا میں جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے اقوام متحدہ کی ایک مخصوص ایجنسی آئی اے ای اے کام کرتی ہے جس کے پاس کچھ اختیارات اور ذمے داریاں ہیں۔
’بین الاقوامی برادری اور آئی اے ای اے کو اگر کسی بات سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت ہے تو وہ بھارت میں اکثر ایسے واقعات کا سامنے آنا جس میں جوہری مواد کی چوری اور غیر قانونی نقل و حمل شامل ہے۔‘
دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس ہی ڈیرادھون سے 5 ایسے افراد گرفتار کیے گئے جن کے پاس بھابھا ایٹمی ریسرچ سینٹر سے چرائے ہوئے افزودہ جوہری آلات تھے، ایک اور گینگ کے پاس سے غیر قانونی طور پر انتہائی جوہری اور زہریلا مواد کیلیفورنیم برآمد کیا گیا، جس کی مالیت 10 کروڑ امریکی ڈالر تھی۔
مزید پڑھیں: بھارتی وزیر دفاع نے دسہرے کے تہوار پر ہتھیاروں کی پوجا کیوں کی؟
’پاکستان ان واقعات کی مکمل تحقیق کا مطالبہ کرتا ہے اور بھارت سے مطالبہ کرتا ہے کہ جوہری تنصیبات اور جوہری مواد کی سیکیورٹی یقینی بنائے۔‘
دفتر خارجہ کے مطابق 2021 میں بھارت میں کیلیفورنیم کی چوری کے 3 واقعات منظرعام پر آئے، بار بار ہونے والے واقعات جوہری مواد کی حفاظت کے لیے نئی دہلی کے اُٹھائے گئے اقدامات پر جہاں ایک سوالیہ نشان ہیں، وہیں اس حقیقت کی طرف اشارہ بھی کرتے ہیں کہ بھارت میں جوہری اور حساس مواد کی ایک بلیک مارکیٹ موجود ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئی اے ای اے بلیک مارکیٹ بھارت پاکستان جوہری تنصیبات جوہری مواد دفتر خارجہ سیکیورٹی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا ئی اے ای اے بلیک مارکیٹ بھارت پاکستان جوہری تنصیبات جوہری مواد دفتر خارجہ سیکیورٹی کے حوالے سے پاکستان کی دفتر خارجہ جوہری مواد میں جوہری مواد کی کے پاس
پڑھیں:
اچھے تعلقات کا یہ مطلب نہیں کہ غلط چیز میں بھی امریکا کا ساتھ دیں، اسحق ڈار
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 جون2025ء)نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان نے ایران پر اسرائیلی جارحیت کی بھرپور مذمت کی، امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات کا یہ مطلب نہیں کہ غلط چیز میں بھی امریکا کا ساتھ دیں، ہمیں پتا تھا ایران بدلہ لیے بغیر نہیں رہے گا۔نائب وزیر اعظم و وزیرخارجہ اسحٰق ڈار نے پریس کانفرنس کے دوران او آئی سی اجلاس سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اجلاس میں سب سے زیادہ ایران اور اسرائیل کا معاملہ زیر بحث آیا، ایران کے حوالے سے ہماری تجویز پر وزرائے خارجہ نے طے کیا کہ او آئی سی کا ایک سیشن صرف ایران پر کیا جائے چنانچہ پاکستان کی کوششوں سے ایران سے متعلق خصوصی سیشن ہوا۔اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاکستان نے ایران پر اسرائیلی جارحیت کی بھرپور مذمت کی، میں ایرانی وزیر خارجہ سے مسلسل رابطے میں رہا، وزیر اعظم شہبازشریف کی ایرانی صدر سے کشیدگی کے دوران کئی بار گفتگو ہوئی۔(جاری ہے)
نائب وزیراعظم نے کہا کہ ایران کیلئے پاکستان باعزت جنگ بندی کا خواہاں تھا، ہم نہیں چاہتے تھے کہ ایران کو کوئی نیچا دکھایا جائے، یہ ہمارا اسلامی و اخلاقی فرض ہے کہ ہم ایران کو سپورٹ کریں، ایران نے سلامتی کونسل میں سب سے پہلے پاکستان کی کوششوں کو سراہا اور اپنی پارلیمنٹ میں بھی ایسا ہی کیا۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے صدر نے پارلیمنٹ میں تقریر کی تو پوری پارلیمنٹ نے تشکر پاکستان کے نعرے لگائے۔انہوں نے کہا کہ ایران کو پس پردہ ہماری بھرپور سیاسی حمایت حاصل تھی تاکہ ایران کو نیچا نہ دکھایا جاسکے اور ایران اس بحران سے باہر نکلے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ جب امریکا نے ایران پر حملہ کیا اور آرمی چیف جب پاکستان آرہے تھے تو ہماری تجویز پر آرمی چیف استنبول میں رک گئے، صدر اردوان سے ہماری ملاقات طے ہوچکی تھی چنانچہ اس ملاقات میں فیلڈ مارشل اور پاکستانی سفیر موجود تھے جبکہ دوسری جانب صدر اردوان، ان کے وزیر خارجہ، انٹیلی جنس چیف اور سینئر ارکان موجود تھے، اس ملاقات میں ایران کے معاملے پر بات ہوئی۔نائب وزیراعظم نے کہا کہ امریکی حملے کے جواب میں ایران نے ہمیں بتایا کہ وہ امن پسند ہیں ایٹمی ہتھیار بنانے کے حامی نہیں مگر حملے کا جواب دیے بغیر نہیں رہیں گے، انہوں نے قطر کو آگاہ کرکے قطر میں امریکی ایئر بیس پر حملہ کیا۔وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات کا یہ مطلب نہیں کہ غلط چیز میں بھی امریکا کا ساتھ دیں، ایران پر حملے کے بعد قیاس آرائیاں ہوئیں کہ پاکستان کیا کرے گا، ہم نے اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے بیان جاری کیا، ہمیں پتا تھا ایران بدلہ لیے بغیر نہیں رہے گا، ہماری کوشش ہے کہ سیز فائر جو ہوچکا ہے وہ مستقل رہے۔اسحٰق ڈار نے کہا کہ امریکی حملوں کے بعد ایران نے باور کرادیاتھا کہ تحمل کے باوجود بدلہ لے گا، ایران نے قطر کو بھی باور کرایا کہ حملہ دشمن کے اڈوں پر ہے۔نائب وزیراعظم نے کہا کہ استنبول اعلامیے میں بھی ہم نے ایران، شام اور لبنان پر اسرائیلی حملوں کی واضح مذمت کی جبکہ فلسطینیوں کے قتل عام کی بھی مذمت کی گئی۔انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کی وطن سے جبری بے دخلی کو او آئی سی ارکان نے مستردکیا، پاک بھارت مسائل کے حل کی کوششیں بھی استنبول اعلامیہ میں شامل ہیں۔