ٹرمپ کاباربار کشمیرکاتذکرہ خوش آئند،انڈیا پریشان
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
اسلام آباد(طارق محمود سمیر) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خلیجی ممالک کے دورے کے آخری مرحلے میںمتحدہ عرب امارات پہنچ چکے ہیں اور امریکی صدر نے پھر
ایک مرتبہ اپنے خطاب میں پاکستان بھارت جنگ بندی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے دونوں ممالک کا تنازع حل کرا دیا ہے اور باقی چیزوں پر مذاکرات کریں ،اکٹھے بیٹھیں، اگر ایٹمی جنگ ہوجاتی تو لاکھوں لوگ مارے جاتے ،یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ امریکی صدر بار بار مسئلہ کشمیر پر ثالثی کا ذکر کرتے ہیں اس پر بھارت کے اندر بڑی پریشانی پائی جاتی ہے اور بھارتی میڈیا امریکی صدر ٹرمپ پر تنقید کررہا ہے کہ ٹرمپ کون ہوتے ہیں ہمارے معاملات میں مداخلت کرنے والے ،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 10مئی کو جب بھارت کو پاکستان سے مار پڑی اور ان کی بیسز تباہ ہوگئیں،ان کا پور ا سسٹم تباہ ہوا، جہاز تباہ ہوئے ،پھر وہ کیوں پائوں پڑے،آج ہمارے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھی اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ 10مئی کی صبح پاکستانی وقت کے مطابق سوا آٹھ بجے امریکی وزیر خارجہ مجھے ٹیلیفون کیا اور بتایا کہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے انہیں ٹیلیفون کیا اور وہ بھارت سیز فائر چاہتا ہے ،تو اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فجر کی نماز کے وقت آپریشن بنیان المرصوص شروع ہوا تو اس معرکہ حق میں پاکستان نے بڑی کامیابی حاصل کی اور جب امریکی وزیر خارجہ سوا آٹھ بجے جب پاکستانی وزیر خارجہ سے بات کررہا ہے تو اس سے آدھا گھنٹہ پہلے انہوں نے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سے بات کی اور بھارت کو یہ سمجھ آگئی تھی کہ ان کی تباہی ہوچکی ہے اور وہ مزید لڑنے کے قابل نہیں ہیں اور امریکہ کے پائوں پکڑ گئے ،اب کس منہ سے بھارتی میڈیا اور بعض بھارتی سیاستدان یا بی جے پی کے بعض رہنما امریکی صدر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ، یہ جواز ہی نہیں بنتا، اسحاق ڈار نے آج اس سارے معاملے پر بڑی جامع اور مکمل تفصیلات بتائی ہیں ، پھر سعودی وزیر خارجہ نے بھی اسحاق ڈار کو فون کیا ،اسکے علاوہ ترکیہ اور چین سے رابطے ہوئے ،پھر صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر بات کی ، سندھ طاس معاہدے کے ھوالے سے پاکستان کا واضح موقف ہے کہ اس کا بھارت معطل نہیں کرسکتا،اب تو عالمی بینک کے صدر نے بھی یہ بات کہہ دی ہے اس کے بعد کیا جواز رہ جاتا ہے ،بھارت امن کے لئے آگے بڑھنا چاہتا ہے تو فوری طور پر سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا اعلان واپس لے مسئلہ کشمیر پر جامع مذاکرات سعودی ،دبئی یا کسی اور ملک میں کرنے ہیں جہاں بھی کرنے وہ شروع کرے ، سینیٹ میں قرارداد بھی پاس کی گئی ، پاک فوج سراہا بھی گیا، دوسری جانب بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ نے بڑی بڑھکیں ماری ہیں اور بڑے اشتعال انگیز بیان دیے ہیں ،انہوں نے یہ اشتعال انگیز بیان دیا ہے کہ پاکستان کے پاس نیوکلیئر پاورز ہیں آئی اے ای اے ادارہ جو ایٹمی پروگرام کی نگرانی کرتا ہے اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی نگرانی اپنی تحویل میں لے ، یہ ان بیان پاگل پن ہے اور یہ بھارت کی ناکامی کا واضح اظہار ہے ،آئی اے ای اے نے ہمیشہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو محفوظ قراردیا ہے ،بھارتی وزیراعظم نے گزشتہ روز کہا تھا کہ نیوکلیئر بلیک میلنگ نہیں چلے گی ،پاکستانی قوم کو تین چار شخصیات کا ہمیشہ شکرگزار رہنا چاہیے ،ذوالفقار علی بھٹو، ڈاکٹر عبدالقدیر خان ، غلام اسحاق خان ، ضیاء الحق کا بھی بڑا کردار ہے پھر آخری مرحلے میں سابق وزیراعظم نوازشریف نے ایٹمی دھماکے کئے ، حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران یہ ثابت ہوگیا ہے کہ پاکستان کے پاس اگر نیوکلیئر پاور نہ ہوتی تو ہمارے لئے مشکلات ہوسکتی تھیں ، گوکہ اس کے استعمال کی ضرورت پیش نہیں آئی اور ہونی بھی نہیں چاہئے ، جب امریکہ اور عالمی قوتوں کو یہ انداز ہ ہوا کہ یہ استعمال ہوسکتا ہے تو وہ بیچ میں پڑے اور سیز فائر کرایا ،بھارت واویلا مچائے گا لیکن دنیا ان کی بات ماننے کو تیار نہیں ہے ، دونوں جانب ڈی آئی ایس آر کا غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو میں کہنا تھا کہ اگر بھارت نے سیز فائر کی خلاف ورزی کی تو تیز اور یقینی جواب دیا جائے گا، انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقت ہیں لہٰذا سنگین کشیدگی تباہی کا باعث ہو گی، اگر بھارت سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف جنگ کا محاذ کھڑا کر سکتا ہے تو یہ خطے میں تباہی کا باعث ہوگا، پاک فوج ہمہ وقت دھرتی کے دفاع کیلئے تیار ہے ۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: بھارتی وزیر پاکستان کے امریکی صدر ہے اور
پڑھیں:
وینزویلا میں فوجی کارروائی کرنے کیلئے اپنا فیصلہ کرچکا ہوں، ٹرمپ
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اشارہ دیا ہے کہ اس ہفتے کئی اعلیٰ سطح کی بریفنگز اور خطے میں امریکی فوجی قوت کی بڑھتی ہوئی موجودگی کے بعد انہوں نے وینزویلا میں ممکنہ کارروائی کے لیے فیصلہ لے چکا ہوں۔
سی این این کی رپورٹ کے مطابق 4 ذرائع نے بتایا کہ حکام نے اس ہفتے صدر ٹرمپ کو وینزویلا میں ممکنہ فوجی کارروائیوں کے آپشنز کے بارے میں بریف کیا ہے، جب کہ وہ یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ صدر نکولس مادورو کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے کسی مہم کی ابتدا کے کیا فوائد اور خطرات ہیں۔
اس دوران، امریکی فوج نے خطے میں ایک درجن سے زائد جنگی جہاز اور 15 ہزار فوجی اہلکار تعینات کر دیے ہیں، جسے پینٹاگون نے ’آپریشن سدرن اسپئیر‘ کا نام دیا ہے۔
جمعہ کو صدر ٹرمپ نے اشارہ دیا کہ وہ غیر قانونی مہاجرین اور منشیات کے بہاؤ کو کم کرنے کی کوششوں اور رجیم چینج کے امکان پر آگے بڑھنے کے راستے کے قریب ہیں۔
ٹرمپ نے ایئر فورس ون میں صحافیوں سے کہا کہ میں نے کچھ حد تک فیصلہ کر لیا ہے، ہاں، میں یہ نہیں بتا سکتا کہ یہ کیا ہوگا، لیکن میں نے کچھ حد تک فیصلہ کر لیا ہے۔
ٹرمپ کو کس بارے میں بریف کیا گیا؟
سیکریٹری دفاع پیٹ ہیگسیتھ اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل ڈین کیئن نے بدھ کے روز صدر کو بریف کیا تھا، جب کہ قومی سلامتی کے بڑے گروپ (جس میں سیکریٹری اسٹیٹ مارکو روبیو اور دیگر اعلیٰ حکام شامل تھے) نے جمعرات کو صدر سے سیچویشن روم میں ملاقات کی تھی۔
دونوں اجلاسوں میں ٹرمپ اور ان کی ٹیم نے ہدف کے آپشنز کا جائزہ لیا۔
صدر کو وینزویلا کے لیے مختلف آپشنز پیش کیے گئے، جن میں فوجی یا حکومتی تنصیبات پر فضائی حملے اور منشیات کی اسمگلنگ کے راستوں پر کارروائی، یا مادورو کو براہ راست ہٹانے کی کوشش شامل ہے، پہلے رپورٹس کے مطابق صدر وینزویلا میں کوکین پیداوار کی سہولیات اور منشیات کے راستے نشانہ بنانے پر غور کر رہے تھے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کوئی کارروائی نہ کریں۔
ٹرمپ نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ انہوں نے سی آئی اے کو ملک میں آپریشن کی اجازت دی تھی، لیکن انتظامیہ کے اہلکاروں نے قانون سازوں کو بتایا کہ امریکی حملوں کے لیے قانونی جواز موجود نہیں، اگرچہ ممکن ہے کہ بعد میں یہ امکان پیدا کیا جا سکے، حالاں کہ ٹرمپ نے حال ہی میں ’سی بی ایس‘ کے پروگرام ’سکسٹی منٹس‘ میں کہا تھا کہ وہ وینزویلا میں فضائی حملوں پر غور نہیں کر رہے، حالاں کہ پہلے وہ اس خیال کے حق میں نظر آ رہے تھے۔
ماہرین کے مطابق ملاقاتوں میں صدر نے ناکامی یا امریکی فوجی اہلکاروں کے خطرے کے امکانات کے پیش نظر کارروائی کے احکامات دینے میں احتیاط کا مظاہرہ کیا۔
خطے میں دستیاب فوجی وسائل
حالیہ ہفتوں میں امریکی بحریہ نے کیریبین میں اپنی فوجی قوت جمع کی ہے، جب کہ ٹرمپ انتظامیہ نے منشیات کی اسمگلنگ کرنے والے کم از کم 20 جہازوں پر حملے کیے، جس کا مقصد امریکی حکام کے مطابق منشیات کے بہاؤ کو روکنا ہے۔
دنیا کا سب سے بڑا ایئرکرافٹ کیریئر یو ایس ایس جیرالڈ آر فولڈ اس ہفتے خطے میں پہنچ گیا تھا، ایئرکرافٹ کیریئر کے علاوہ، امریکی فوج نے تقریباً 15 ہزار فوجی اہلکار تعینات کیے ہیں۔
اس کے علاوہ ایک درجن سے زائد جنگی جہاز، بشمول کروزر، ڈیسٹروئرز، ایئر اور میزائل دفاعی کمانڈ شپ، ایمفیبیئن حملہ آور جہاز، اور ایک حملہ آور سب میرین۔ اس کے علاوہ 10عدد ایف-35 فائٹر جیٹس پورٹو ریکو بھیج دیے گئے ہیں، جو کیریبین میں امریکی فوج کے بڑھتے ہوئے فوکس کا مرکز بن گیا ہے۔
ماہرین اس سطح کی فوجی تیاری کو اہم اور غیر معمولی قرار دیتے ہیں۔
سینئر ایسوسی ایٹ سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز ایریک فارنس ورتھ نے کہا کہ میں اس پیمانے اور رفتار سے حیران ہوں، اور یہ بے مثال ہے، یہ اس صدی کی سب سے اہم فوجی تیاری ہے، حقیقت میں 1989 میں امریکا کی پاناما پر انٹری تک جانے کی ضرورت ہے کہ اس کے مترادف کچھ ہو۔
وینزویلا نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ فوجی اہلکاروں، ہتھیاروں اور سازوسامان کی بڑی تعیناتی کر رہا ہے۔
ممکنہ خطرات اور فوائد
وینزویلا میں رجیم چینج کے لیے امریکا کی سنجیدہ وابستگی ضروری ہوگی اور یہ اعلیٰ خطرہ رکھتی ہے، لیکن صدر مادورو کو ہٹانے سے ٹرمپ اور ان کی ٹیم کو وہ کریڈٹ مل سکتا ہے جو متعدد امریکی انتظامیہ میں سے کوئی حاصل نہیں کرسکا۔
اپنے پہلے دور میں، ٹرمپ نے وینزویلا کے اپوزیشن لیڈر جوان گوائیڈو کو ملک کا جائز رہنما تسلیم کیا تھا، لیکن 2019 میں ناکام بغاوت کے بعد گوائیڈو اقتدار حاصل نہیں کر سکے۔
اگر ٹرمپ مادورو کو ہٹاتے ہیں تو وہ بڑے فوائد کا دعویٰ کر سکتے ہیں کہ طاقتور شخص کو ہٹاکر اور منتخب رہنما کو اقتدار میں لے آئے ہیں، منشیات اور مہاجرین کے بہاؤ پر تعاون، اور ممکنہ تیل کے معاہدے جیسے فوائد سمیٹ سکتے ہیں۔
لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر ٹرمپ نے مادورو کو ہٹانے کے لیے وینزویلا میں حملوں کے احکامات دیے تو امریکی صدر کو اپوزیشن کے ٹوٹے ہوئے عناصر اور بغاوت کے لیے تیار فوج کے ساتھ سنگین چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
جمعہ کو کراکس سے مادورو نے خبردار کیا تھا کہ امریکی فوجی مداخلت ایک اور غزہ، نیا افغانستان یا دوبارہ ویتنام کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔
انہوں نے امریکی عوام کے لیے براہ راست پیغام دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان لوگوں کے پاگل ہاتھ کو روکو جو بمباری، قتل اور جنوبی امریکا اور کیریبین میں جنگ لا رہے ہیں، جنگ بند کرو جنگ نہیں چاہیے۔
امریکی فوجی مداخلت کی توسیع اس سیاسی اتحاد کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے جس نے ٹرمپ کو وعدوں پر ووٹ دیا تھا کہ امریکا کو بیرونی جنگوں میں نہیں داخل کیا جائے گا، نائب صدر جے ڈی وینس اور ہیگسیتھ نے عراق جنگ میں خدمات انجام دی ہیں اور بعد میں غیر ملکی تنازعات میں امریکی مداخلت پر شکوک کا اظہار کیا تھا۔
ایک کانگریسی اہلکار نے کہا کہ امریکی عوام نے ٹرمپ کو اس لیے ووٹ نہیں دیا کہ وہ امریکا کو لاطینی امریکا میں مسلسل تنازع میں کھینچے، اپوزیشن کے لیے طویل مدتی حمایت کے لیے ٹرمپ کی وابستگی حاصل کرنا ایک چیلنج ہوگا، اور اس حمایت کے بغیر یہ کام نہیں کرے گا۔