Daily Mumtaz:
2025-10-04@16:55:20 GMT

ٹرمپ کاباربار کشمیرکاتذکرہ خوش آئند،انڈیا پریشان

اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT

ٹرمپ کاباربار کشمیرکاتذکرہ خوش آئند،انڈیا پریشان

اسلام آباد(طارق محمود سمیر) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خلیجی ممالک کے دورے کے آخری مرحلے میںمتحدہ عرب امارات پہنچ چکے ہیں اور امریکی صدر نے پھر
ایک مرتبہ اپنے خطاب میں پاکستان بھارت جنگ بندی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے دونوں ممالک کا تنازع حل کرا دیا ہے اور باقی چیزوں پر مذاکرات کریں ،اکٹھے بیٹھیں، اگر ایٹمی جنگ ہوجاتی تو لاکھوں لوگ مارے جاتے ،یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ امریکی صدر بار بار مسئلہ کشمیر پر ثالثی کا ذکر کرتے ہیں اس پر بھارت کے اندر بڑی پریشانی پائی جاتی ہے اور بھارتی میڈیا امریکی صدر ٹرمپ پر تنقید کررہا ہے کہ ٹرمپ کون ہوتے ہیں ہمارے معاملات میں مداخلت کرنے والے ،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 10مئی کو جب بھارت کو پاکستان سے مار پڑی اور ان کی بیسز تباہ ہوگئیں،ان کا پور ا سسٹم تباہ ہوا، جہاز تباہ ہوئے ،پھر وہ کیوں پائوں پڑے،آج ہمارے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھی اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ 10مئی کی صبح پاکستانی وقت کے مطابق سوا آٹھ بجے امریکی وزیر خارجہ مجھے ٹیلیفون کیا اور بتایا کہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے انہیں ٹیلیفون کیا اور وہ بھارت سیز فائر چاہتا ہے ،تو اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فجر کی نماز کے وقت آپریشن بنیان المرصوص شروع ہوا تو اس معرکہ حق میں پاکستان نے بڑی کامیابی حاصل کی اور جب امریکی وزیر خارجہ سوا آٹھ بجے جب پاکستانی وزیر خارجہ سے بات کررہا ہے تو اس سے آدھا گھنٹہ پہلے انہوں نے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سے بات کی اور بھارت کو یہ سمجھ آگئی تھی کہ ان کی تباہی ہوچکی ہے اور وہ مزید لڑنے کے قابل نہیں ہیں اور امریکہ کے پائوں پکڑ گئے ،اب کس منہ سے بھارتی میڈیا اور بعض بھارتی سیاستدان یا بی جے پی کے بعض رہنما امریکی صدر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ، یہ جواز ہی نہیں بنتا، اسحاق ڈار نے آج اس سارے معاملے پر بڑی جامع اور مکمل تفصیلات بتائی ہیں ، پھر سعودی وزیر خارجہ نے بھی اسحاق ڈار کو فون کیا ،اسکے علاوہ ترکیہ اور چین سے رابطے ہوئے ،پھر صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر بات کی ، سندھ طاس معاہدے کے ھوالے سے پاکستان کا واضح موقف ہے کہ اس کا بھارت معطل نہیں کرسکتا،اب تو عالمی بینک کے صدر نے بھی یہ بات کہہ دی ہے اس کے بعد کیا جواز رہ جاتا ہے ،بھارت امن کے لئے آگے بڑھنا چاہتا ہے تو فوری طور پر سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا اعلان واپس لے مسئلہ کشمیر پر جامع مذاکرات سعودی ،دبئی یا کسی اور ملک میں کرنے ہیں جہاں بھی کرنے وہ شروع کرے ، سینیٹ میں قرارداد بھی پاس کی گئی ، پاک فوج سراہا بھی گیا، دوسری جانب بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ نے بڑی بڑھکیں ماری ہیں اور بڑے اشتعال انگیز بیان دیے ہیں ،انہوں نے یہ اشتعال انگیز بیان دیا ہے کہ پاکستان کے پاس نیوکلیئر پاورز ہیں آئی اے ای اے ادارہ جو ایٹمی پروگرام کی نگرانی کرتا ہے اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی نگرانی اپنی تحویل میں لے ، یہ ان بیان پاگل پن ہے اور یہ بھارت کی ناکامی کا واضح اظہار ہے ،آئی اے ای اے نے ہمیشہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو محفوظ قراردیا ہے ،بھارتی وزیراعظم نے گزشتہ روز کہا تھا کہ نیوکلیئر بلیک میلنگ نہیں چلے گی ،پاکستانی قوم کو تین چار شخصیات کا ہمیشہ شکرگزار رہنا چاہیے ،ذوالفقار علی بھٹو، ڈاکٹر عبدالقدیر خان ، غلام اسحاق خان ، ضیاء الحق کا بھی بڑا کردار ہے پھر آخری مرحلے میں سابق وزیراعظم نوازشریف نے ایٹمی دھماکے کئے ، حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران یہ ثابت ہوگیا ہے کہ پاکستان کے پاس اگر نیوکلیئر پاور نہ ہوتی تو ہمارے لئے مشکلات ہوسکتی تھیں ، گوکہ اس کے استعمال کی ضرورت پیش نہیں آئی اور ہونی بھی نہیں چاہئے ، جب امریکہ اور عالمی قوتوں کو یہ انداز ہ ہوا کہ یہ استعمال ہوسکتا ہے تو وہ بیچ میں پڑے اور سیز فائر کرایا ،بھارت واویلا مچائے گا لیکن دنیا ان کی بات ماننے کو تیار نہیں ہے ، دونوں جانب ڈی آئی ایس آر کا غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو میں کہنا تھا کہ اگر بھارت نے سیز فائر کی خلاف ورزی کی تو تیز اور یقینی جواب دیا جائے گا، انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقت ہیں لہٰذا سنگین کشیدگی تباہی کا باعث ہو گی، اگر بھارت سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف جنگ کا محاذ کھڑا کر سکتا ہے تو یہ خطے میں تباہی کا باعث ہوگا، پاک فوج ہمہ وقت دھرتی کے دفاع کیلئے تیار ہے ۔

Post Views: 5.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: بھارتی وزیر پاکستان کے امریکی صدر ہے اور

پڑھیں:

ٹرمپ مودی کشیدگی کی وجہ پاکستان سے ٹرمپ کی قربت

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

مودی کی ہٹ دھرمی اور انا نے خطہ میں عدم استحکام پیدا کر دیا ہے ۔جنگ میں شکست فاش ہوئی جو کہ مودی نے مسلط کی تھی۔اگر جنگ زیادہ طویل ہوتی تو بہت زیادہ تباہی اور انسانی ہلاکتوں کا خدشہ تھا۔اس وقت جنگ بندی میں ٹرمپ نے اہم کردار ادا کیا۔بھارت نے خود جنگ بندی پر سکون کا سانس لیا کیونکہ بہت بری طرح بھارت کی فضائیہ رافیل طیارے پاکستان ائیر فورس نے تباہ کر دیے ۔پاکستانی افواج مسلسل بھارت کی حدود میں پیشرفت کر رہی تھی۔مودی کے ہتھیار ڈالنے پر بھارت کی اپوزیشن اور عوام نے اظہار برہمی اور ناراضی کا اظہار کیا۔
ٹرمپ اور مودی کے درمیان تعلقات کی خرابی کی اصل وجہ بظاہر پاک بھارت جنگ اور اس کے بعد پیدا ہونے والا بحران بنا۔ مئی میں کشمیر میں ہونے والے حملوں اور جھڑپوں نے خطے کو ایک بار پھر خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس موقع پر خود کو ثالث ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی اور اعلان کیا کہ جنگ بندی کا کریڈٹ انہیں جاتا ہے ۔ یہ وہ اعلان تھا جسے پاکستان نے خوش آمدید کہا اور کئی حلقوں نے ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کا مستحق قرار دیا۔ مگر یہی معاملہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ مودی حکومت نے اس پر سخت ردعمل دیا اور دونوں رہنماؤں کے تعلقات میں تناؤ کی پہلی بڑی دراڑ یہیں سے پیدا ہوئی۔پاکستان کی جانب سے ٹرمپ کو امن کا سفیر قرار دینے اور نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی مہم نے مودی کو مزید مشتعل کر دیا۔ بھارت کے لیے یہ صورت حال اس وجہ سے زیادہ پریشان کن تھی کہ عالمی سطح پر پاکستان کی سفارتی پوزیشن بہتر دکھائی دینے لگی تھی، جبکہ بھارت یہ تاثر دینے میں ناکام رہا کہ وہ ہی خطے کا بڑا اور فیصلہ کن کردار ہے ۔ ٹرمپ نے اس دوران پاکستان کے ساتھ توانائی، کرپٹو کرنسی اور معدنیات کے شعبوں میں بڑے معاہدے کیے ۔ یہ معاہدے نہ صرف پاکستان کے لیے معاشی لحاظ سے اہم تھے بلکہ بھارت کے لیے یہ ایک واضح پیغام بھی تھے کہ امریکا اب خطے میں توازن قائم کرنے کے لیے اسلام آباد کے ساتھ نئے باب کا آغاز کر رہا ہے ۔
اسی پس منظر میں ٹرمپ نے مودی سے اپنی نوبیل امن انعام کی مہم میں حمایت طلب کی۔ مگر مودی نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا۔ یہ انکار صرف انکار نہیں تھا بلکہ ٹرمپ کی انا کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے۔ ٹرمپ نے اس کا بدلہ لینے کے لیے بھارت پر بھاری ٹیرف عائد کر دیے ۔ اگست میں امریکی صدر نے بھارت پر 50 فیصد ٹیرف لگا دیا، جس نے بھارتی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ اقدام واضح کرتا تھا کہ ٹرمپ اپنے ذاتی سیاسی مقاصد کے لیے عالمی تجارتی نظام کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ۔
مودی نے اس صورتحال کا جواب عالمی سطح پر اپنی خارجہ پالیسی کے ذریعے دیا۔ انہوں نے چین کے صدر شی جن پنگ کی دعوت پر سات سال بعد بیجنگ کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ قریبی رابطہ کیا۔ یہ سفارتی سرگرمیاں دراصل امریکا کو یہ پیغام دینے کے لیے تھیں کہ بھارت کسی ایک ملک پر انحصار نہیں کرے گا اور اپنی خارجہ پالیسی کو کثیر جہتی رکھے گا۔ تاہم اس سب کے باوجود مودی نے چین کے فوجی پریڈ میں شریک نہ ہو کر یہ باور کرا دیا کہ بھارت اور چین کے تعلقات میں بنیادی بداعتمادی بدستور موجود ہے اور یہ قریبی تعلقات کسی بھی وقت محدود ہو سکتے ہیں۔ٹائم میگزین کے کالم نگار کے مطابق ٹرمپ اور مودی کے درمیان اصل تنازع روس نہیں بلکہ کشمیر میں ہونے والی جھڑپیں تھیں۔ ٹرمپ کی ثالثی کی کوشش اور اعلان کہ جنگ بندی کا کریڈٹ انہیں جاتا ہے ، بھارت کے لیے ناقابل قبول تھا۔ پاکستان نے ٹرمپ کے اس کردار کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ انہیں نوبیل امن انعام کے لیے مستحق قرار دینے کی فضا بھی بنائی۔ یہ وہ نکتہ تھا جس نے مودی کو سب سے زیادہ ناراض کیا۔ اس کے بعد ٹرمپ کے پاکستان کے ساتھ معاہدے اور مودی سے نوبیل مہم کی حمایت کی فرمائش نے تعلقات کو مزید خراب کر دیا۔
امریکا کے 50فیصد ٹیرف کے اعلان کے بعد بھارتی حکومت پر اندرونی دباؤ بھی بڑھ گیا۔ ایک طرف مقامی صنعت کار اور تاجر برادری پریشان تھی، تو دوسری طرف بھارت کی عالمی سطح پر کمزور ہوتی پوزیشن نے مودی کو مجبور کیا کہ وہ نئی راہیں تلاش کریں۔ چین اور روس کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش اسی دباؤ کا نتیجہ تھی۔ لیکن بھارت کے لیے یہ بھی ممکن نہ تھا کہ وہ مکمل طور پر امریکا سے تعلقات توڑ لے ، کیونکہ دفاعی، ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری کے میدان میں امریکا اب بھی ایک بڑی طاقت ہے ۔یہ ساری صورت حال ظاہر کرتی ہے کہ ٹرمپ اور مودی کی لڑائی ذاتی انا اور عالمی سیاست کے امتزاج سے پیدا ہوئی۔ ٹرمپ نے ثالثی کا کریڈٹ لے کر خود کو امن کا سفیر ثابت کرنے کی کوشش کی، پاکستان نے اس کردار کو تسلیم کر کے ان کے نوبیل انعام کے امکانات کو بڑھایا، لیکن بھارت نے اسے اپنی توہین سمجھا۔ پھر معاہدے ، نوبیل مہم کی حمایت کا انکار، بھاری ٹیرف اور چین و روس کی طرف مودی کا جھکاؤ، یہ سب عوامل ایک دوسرے سے جڑ کر امریکا اور بھارت کے تعلقات میں ایسی دراڑ لے آئے جس نے عالمی سیاست کو متاثر کیا۔
اب جبکہ کچھ اشارے مل رہے ہیں کہ امریکا اور بھارت تعلقات میں دراڑ کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا یہ تعلقات دوبارہ اعتماد کی سطح پر بحال ہو سکیں گے ؟ خطے کے امن کے لیے اصل سوال یہ ہے کہ کیا پاک بھارت تعلقات میں کوئی بہتری آ سکتی ہے ؟ کیونکہ جب تک کشمیر کا تنازع حل نہیں ہوتا، ٹرمپ یا کوئی اور رہنما ثالثی کے دعوے کرتے رہیں، امن محض ایک خواب رہے گا۔ امریکا، چین اور روس اپنی اپنی بساط پر کھیلتے رہیں گے ، مگر اصل بوجھ پاکستان اور بھارت پر ہے کہ وہ اپنے عوام کے مستقبل کو جنگ کی نذر کرتے ہیں یا امن کی طرف قدم بڑھاتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری خصوصاً اقوام متحدہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے ۔ پاکستان اور بھارت دونوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات کی راہ اپنائیں اور اپنی توانائیاں جنگ کی تیاری کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں۔ امریکا جیسے طاقتور ملک کو بھی چاہیے کہ وہ ثالثی کو ذاتی مفاد کے بجائے حقیقی امن کے لیے استعمال کرے ۔ اگر یہ اقدامات کیے جائیں تو نہ صرف ٹرمپ اور مودی جیسے رہنماؤں کی سیاست خطے پر منفی اثر ڈالنے سے رُک سکتی ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں ایک پائیدار امن کی بنیاد بھی رکھی جا سکتی ہے۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • امریکی صدر ٹرمپ کے شکر گزار ہیں، فلسطین میں جنگ بندی کے قریب ہیں: شہباز شریف
  • امریکی ٹیرف: انڈیا واٹس ایپ اور مائیکروسافٹ کے متبادل دیسی ایپس کو فروغ دینے کے لیے کوشاں
  • پاکستان کی امریکا کو پسنی پورٹ ٹرمینل میں سرمایہ کاری کی پیشکش
  • انڈیا پر پابندیوں کے بعد پاکستانی چاول امریکی مارکیٹوں میں نظر آنا شروع ہو گیا، سینیئر صحافی انور اقبال
  • غزہ امن منصوبہ ، امریکی صدر کے20 نکات مسترد،ڈرافت میں تبدیلی کی گئی،نائب وزیراعظم
  • ٹرمپ مودی کشیدگی کی وجہ پاکستان سے ٹرمپ کی قربت
  • یہ کووڈ نہیں، پریشان نہ ہوں بس علامات کا فرق جانیں
  • آئی ایس او پاکستان آج ملک گیر یوم احتجاج منائے گی
  • شہباز ٹرمپ ملاقات اور جنرل اسمبلی سے خطاب
  • ابراہیمی معاہدہ پر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کی مُبینہ حمایت کی مذمت کرتے ہیں، علامہ باقر زیدی