راج ناتھ سنگھ ساکھ بچانے کیلئے بڑھکیں مار رہے ہیں، عطا تارڑ
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیراطلاعات کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے ساری صورتحال میں بڑا اچھا کردار ادا کیا، اگر کسی کے کوئی کیسز ہیں تو وہ عدالتی معاملات اپنی جگہ ہے، اپوزیشن کے ساتھ افہام تفہیم کا ماحول جاری رہنا چاہیے، یہ ماحول معاشی استحکام کے لیےجاری رہنا چاہیے۔ اسلام ٹائمز۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ سیاسی ساکھ بچانے کے لیے بڑھکیں مار رہے ہیں۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ بھارت میں اب وہ سکت نہیں رہی، پاکستان نے بھارت کے 6 طیارے گرائے، نریندر مودی بڑھکیں ماررہے ہیں، فوری حملہ ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے پاس پہلگام کا کوئی ثبوت نہیں تھا، بھارت کو حملہ کرنے پر منہ کی کھانی پڑی، امریکی صدر نے خطے میں امن کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔
وفاقی وزیراطلاعات کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے ساری صورتحال میں بڑا اچھا کردار ادا کیا، اگر کسی کے کوئی کیسز ہیں تو وہ عدالتی معاملات اپنی جگہ ہے، اپوزیشن کے ساتھ افہام تفہیم کا ماحول جاری رہنا چاہیے، یہ ماحول معاشی استحکام کے لیےجاری رہنا چاہیے۔ عطا تارڑ کا مزید کہنا تھا کہ راج ناتھ سنگھ سیاسی ساکھ بچانے کے لیے بڑھکیں مار رہے ہیں، نریندرمودی اور اس کا وزیر دفاع سیاسی ساکھ بچانے کے لیے باتیں کر رہے ہیں، بھارت نے پہلگام کی تحقیقات کرانے کا کوئی جواب نہیں دیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کہنا تھا کہ رہنا چاہیے ساکھ بچانے عطا تارڑ رہے ہیں کے لیے
پڑھیں:
بالفور ڈیکلریشن میں اسرائیل جیسی ریاست کا کوئی ذکر نہیں تھا، لارڈ روڈریک بالفور کا انکشاف
العربیہ نیوز چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں سابق برطانوی وزیر خارجہ پے پرپوتے نے کہا کہ ڈیکلریشن کو اکثر غلط سمجھا جاتا ہے۔ "اس میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ حکومتِ برطانیہ فلسطین میں یہودی عوام کیلئے قومی وطن کے قیام کی حامی ہے، لیکن اسرائیلی ریاست کے قیام کا وعدہ کہیں نہیں، یہ صرف ہمدردی کا اظہار تھا، بس۔ اسلام ٹائمز۔ برطانیہ کے سابق وزیرِخارجہ آرتھر بالفور کے پڑپوتے لارڈ روڈریک بالفور نے کہا ہے کہ1917 کا بالفور ڈیکلریشن صرف یہودیوں کیلئے "قومی وطن" کے قیام پر ہمدردی ظاہر کرتا تھا، لیکن اس میں کہیں بھی اسرائیل جیسی ریاست بنانے کا ذکر نہیں تھا۔ العربیہ نیوز چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ڈیکلریشن کو اکثر غلط سمجھا جاتا ہے۔ "اس میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ حکومتِ برطانیہ فلسطین میں یہودی عوام کیلئے قومی وطن کے قیام کی حامی ہے، لیکن اسرائیلی ریاست کے قیام کا وعدہ کہیں نہیں، یہ صرف ہمدردی کا اظہار تھا، بس۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ڈیکلریشن کی وہ شرط اکثر نظرانداز کی جاتی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ فلسطین میں موجود غیر یہودی برادری کے شہری اور مذہبی حقوق متاثر نہیں ہوں گے۔
ان کے مطابق جو کچھ آج ہو رہا ہے، وہ اُس وقت کے برطانوی موقف کے مطابق نہیں۔ لارڈ بالفورکا کہنا تھا کہ اس معاملے پر ان کے خاندان میں کبھی زیادہ بات نہیں ہوئی، مگر وہ اپنے خاندانی نام کی وجہ سے وضاحت کیلئے سامنے آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اُس دور میں فلسطینی آبادی کو مظلوم یا مظلومیت زدہ نہیں سمجھا جاتا تھا، اس لیے چند یہودیوں کے پرامن طور پر آ کر بسنے میں کسی مسئلے کی توقع نہیں کی گئی۔ برطانیہ کے حال ہی میں فلسطین کو تسلیم کرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ علامتی لیکن اہم قدم ہے، مگر اصل حل دو ریاستی فارمولے میں ہے، جس کیلئے علاقائی تعاون اور بڑی طاقتوں کی ضمانت درکار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈیکلریشن کو جیسے لکھا گیا، ویسے ہی سمجھنا چاہیے، اور یہ افسوس کی بات ہے کہ فلسطینی اور یہودی مل کر ایک مضبوط معیشت قائم نہیں کر سکے۔