کراچی (ڈیلی پاکستان آن لائن )معروف بلاگر عارف انصاری نے اپنے ایک بلاگ میں کہا ہے کہ کیا نریندرا مودی پاکستان پر حملے کی آڑ میں آر ایس ایس کے نظریات اور بی جے پی کی کم ہوتی مقبولیت میں پھر سے نئی روح پھوکنا چاہتا تھا؟
نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق ڈائی سیک کریں، تو دونوں سوالوں کا جواب "ہاں" میں سامنے آتا ہے، تھوڑا پیچھے جائیں تو نریندرا مودی پہلی بار 2014 میں بھارتی وزیراعظم بنا، نسل پرست پالیسیوں کے باعث اس کی مقبولیت بہت جلد ملک کی ہندو اکثریت میں سر چڑھ کر بولنے لگی، ہندوتوا کے پرچار، شہروں کے نام کی تبدیلی، بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر اور ایسے ہی دیگر اقدامات کے باعث2019 کے جنرل الیکشن میں مودی پہلے سے بھی زیادہ اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب رہا۔
غیر معمولی مقبولیت کے سبب جلد ہی امبانی اور اڈانی سمیت ملک کے نمایاں کاروباری اور صنعتی گروپس نے مودی کو اپنے حصار میں لے لیا، اس کے بعد اقتدار پر مودی کی گرفت مستحکم کرنے اور اس کی شہرت کو چار چاند لگانے کیلئے ملک کا90 فیصد میڈیا خریدا گیا تاکہ یہ تاثر عام کیا جاسکے کہ اب بھارت میں مودی کے پائے کا کوئی لیڈر نہیں۔
 انڈین میڈیا پر دن رات چلنے والے اس پراپیگنڈے کو اگر کسی نے سب سے بڑی سچائی مانا تو وہ خود نریندرا مودی تھا، اسے لگنے لگا کہ وہ گاندھی، نہرو یا اندرا گاندھی کی طرح زمینی نیتا نہیں بلکہ آسمان سے اترا ہوا کوئی اوتار ہے، جسے بھگوان نے کسی خاص اور عظیم مقصد کے تحت دھرتی پر بھیجا ہے اور یہ بھِی کہ گاندھی اور نہرو تو ہندوستان کی تقسیم کا باعث بنے لیکن یہ نریندرا مودی ہے جو اکھنڈ بھارت کا سپنا سچ کرکے دِکھائے گا، یہ خود فریبی کا وہ مرض ہے جو اقتدار میں آنے کے بعد ہٹلر سے لے کر مودی تک، کئی حکمرانوں کو شہرت کی بلندیوں سے نیچے اتار کر بدنامی کی پستیوں میں پھینک چکا ہے۔
اس کھیل کا دوسرا مرکزی کردار وہ سرمایہ دار ہیں جنہوں نے پہلے ایک معمولی نیتا کو غیر معمولی ابھینیتا بنایا پھر یہ باور کرایا کہ پاور پولیٹکس میں صرف بیچنا اہم نہیں ہوتا، خریدنے کی طاقت بھی ہونی چاہئے۔یوں اڈانی اور امبانی سمیت مودی سے گٹھ جوڑ کرنے والے تمام کاروباری گروپس کیلئے اکنامک لبرلائزیشن، فارن انویسٹمنٹ اور جدید انفرا سٹرکچر کے نام پر مال بنانے کے دروازے کھول دیئے گئے، آئی ٹی، ٹیلی کام، موٹر ویز، پبلک ٹرانسپورٹ، بندرگاہوں کی تعمیر اور رافیل طیاروں کی خریداری سمیت بہت سے ترقیاتی، تجارتی اور دفاعی سودے ہیں، جن میں کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتیں اندھی کرپشن کا الزام لگاتی آرہی ہیں، بقول راہول گاندھی، اڈانی بھارت کا وہ جادو ہے جسے مودی جی کے اقتدار میں آنے سے قبل کوئی نہیں جانتا تھا مگر اب ساری دنیا جانتی ہے۔
اقتدار کے دوسرے دور میں عوامی پذیرائی اتنی زیادہ تھی کہ مودی ہر مخالف آواز کو دبانے میں کامیاب رہا لیکن 2024 کا الیکشن قریب آیا تو ہوا کا رخ بدلنے لگا، مثلاً جواہر لعل نہرو جس ایتھنک ڈائیورسٹی کو ہندوستان کی طاقت بنانا چاہتے تھے، مودی نے ہندوتوا کے جبری نفاذ کے باعث اسے برباد کردیا، کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ، وقف املاک اور زرعی شعبے میں متنازع قانون سازی سمیت ایسی کئی پالیسیز ہیں، جن کے ذریعے بھارت کی اقلیتوں کو مسلسل دیوار سے لگایا جارہا ہے۔
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ نفرت بیچ کر اقتدار خریدنے کا حربہ کچھ عرصے تک تو کارگر ہوسکتا ہے مگر داخلی ہنگامہ آرائی ایک دھائی تک پھیل جائے تو "سرحدوں پر کہیں تناو ہے کیا؟؟ کچھ پتا تو کرو، چناو ہے کیا؟" جیسی طنزیہ آوازیں اٹھنے لگتی ہیں، سو یہ آوازیں اٹھیں اور پوری طاقت سے اٹھیں، آزاد صحافتی حلقوں اور انڈین سول سوسائٹی نے برملا کہنا شروع کردیا کہ کہ مودی نے مذہبی تفریق اور نسل پرستی پر مبنی سیاست کے باعث ملک کی فیڈریشن کو کمزور کیا ہے، یہی نہیں بلکہ میرٹ کے برخلاف، من پسند تعیناتیوں سے ریاستی ادارے بھی اپنی ساکھ کھو رہے ہیں۔
دوسری طرف بھارت میں بڑھتی ہوئی غربت اور بے روزگاری صرف اقلیتوں کا نہیں بلکہ ہندو اکثریت کیلئے بھی وہ مسئلہ ہے جس کے ازالے کیلئے کھوکھلے وعدے اور جذبات سے کھیلنے والی تقریریں کافی نہیں۔انڈیا میں کرپشن اور بیڈ گورننس کے اثرات صاف ہیں مگر خاموش اور خوفزدہ اکثریت جانتی تھی کہ میڈیا سے لے کر عدلیہ اور بیورو کریسی سے لے کر پولیس تک، بیشتر ادارے مودی کی مٹھی میں ہیں اور اب ووٹ ہی تبدیلی کا واحد ذریعہ بچا ہے۔قبضہ اتنا بھرپور ہو، تو فیصلہ کن تبدیلی ایک ہی ہلے میں نہیں آتی، بھارتی عوام کو یہ کڑوا سچ2024 کے الیکشن میں بھی پینا پڑا, مودی انتخابی دنگل میں "اب کی بار چار سو پار" کے دعوے کے ساتھ کودا تھا مگر نتائج آئے تو بی جے پی لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے صرف 240 سیٹیں حاصل کرپائی۔ 
سادہ اکثریت کیلئے کم سے کم 272 سیٹیں درکار تھیں، اس لئے مودی اینڈ کمپنی کو حکومت بنانے کیلئے نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس کو ساتھ ملانا پڑا، اس الیکشن کے نتیجے میں انڈیا کا حکومتی سیٹ بھلے ہی تبدیل نہ ہوا ہو، مگر یہ صاف ہوگیا تھا کہ مودی اب بھارتی سیاست کا حرفِ آخر نہیں رہا اور مستقبل میں اسے اتحادیوں کی بلیک میلنگ کا سامنا کرنا ہوگا۔ حد تو یہ ہے کہ ایودھیا، جہاں بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنا کر بہت بڑا تیر مارا گیا تھا، وہاں بھِی مودی کو ہار کا منہ دیکھنا پڑا، اس پر سیاسیات کے انڈین ماہر برتاب بھانو مہتا کا یہ تبصرہ مقامی اور عالمی میڈیا کی زینت بنا کہ "مودی اب دیوتا سمان نہیں رہے، آج وہ صرف ایک عام سیاستدان ہیں، جو پہلے سے کافی چھوٹے ہوگئے ہیں۔"
طویل اقتدار شی جن پنگ، اردوان اور مہاتیر محمد جیسے بڑے آدمیوں کو ملے تو اس کا نتیجہ امن اور ترقی کی صورت میں نکلتا ہے مگر نریندرا مودی کا معاملہ الگ ہے۔ وہ اقتدار کیلئے دنیا کے جانے مانے اصولوں کے بجائے آر ایس ایس کے انتہا پسند ایجنڈے پر کاربند ہے، تاریخ گواہ ہے کہ وہ ہزاروں مسلمانوں کو قتل کرکے وزارتِ اعلیٰ سے وزارتِ عظمیٰ تک پہنچااور اقتدار کے پہلے دن سے آج تک ، امن اور ترقی کے بجائے، نفرت اور تقسیم کے فارمولے پر عمل پیرا ہے۔
سامنے کا سچ یہ ہے کہ مودی کا یہ سودا اب بھارت کی اکثریت بھی خریدنے پر تیار نہیں۔ بی جے پی کی چنڈال چوکڑی اچھی طرح سمجھتی ہے کہ موجودہ حالات میں اس کیلئے اگلا الیکشن جیتنا ممکن نہیں ہوگا اس لئے اسے کسی ایسے سنسنی خیز ڈرامے کی ضرورت تھی، جو سارے مسائل سے توجہ ہٹادے اور سب کو مجبور کردے کہ وہ اپنی بقا کیلئے صرف اور صرف مودی کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوجائیں۔پہلگام کا فالس فلیگ آپریشن یقینی طور پر اسی منصوبہ بندی کی کڑی ہے، سوچ یہ رہی ہوگی کہ اس کی بنیاد پر پہلے امریکہ کو اعتماد میں لے کر پاکستان سے محدود پیمانے پر ایک روایتی جنگ کی جائے گی، گودی میڈیا15، 20 دن تک مودی مودی کا ڈھول پیٹے گا، اپوزیشن جماعتیں منہ دیکھتی رہ جائیں گی اور اگلے الیکشن میں مودی ایک بار پھر فتح کا دیوتا بن کر "چار سو پار" کرجائے گا۔
لیکن اس کے بعد پاک افواج نے جو کچھ کیا، وہ ہم شاید بھول کر آگے بڑھ جائیں مگر بھارت ہمیشہ م±ڑ م±ڑ کے پیچھے دیکھتا رہے گا اور ہمیشہ یاد رکھے گا۔بھارت کو غفلت اور نفرت کی نیند سے جگانے کیلئے آخری بات یہی ہے کہ اب طاقت کا مرکز مغرب کی مٹھی سے نکل کر مشرق کی گود میں گرنے والا ہے، اس نئے اتحاد کو، کون لیڈ کرے گا؟ یہ اوپن سیکرٹ پوری دنیا جانتی ہے، اہم بات یہ ہے کہ پاور شفٹنگ کے اس نازک دوراہے پر انڈیا کو فیصلہ کرنا ہے کہ اس کا وزن کس پلڑے میں ہونا چاہئے ، یہ اس لئے ضروری ہے کہ موجودہ دور میں آگے بڑھنے یا پیچھے رہ جانے کا انحصار اس بات پر نہیں ہوتا کہ آپ کی نسل یا مذہب کیا ہے بلکہ اس پر کہ آپ کس کے ساتھ اور کس کے خلاف ہیں۔

غزہ میں اسرائیلی فوج کی بمباری سے مزید 250 فلسطینی شہید

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: یہ ہے کہ کہ مودی کے باعث مودی کی

پڑھیں:

مودی کو جنگ کے بعد خواب میں بھی پاکستانی فوج نظر آتی ہے: خواجہ آصف

اسلام آباد (آئی این پی )وزیردفاع خواجہ آصف نے کہاہے کہ پاکستان نیوکلیئر بلیک میلنگ کر رہا ہے نہ ہی یقین رکھتے ہیں، پاکستان کے اثاثے پاکستان کے دفاع کیلئے ہیں، پاکستان کی ایٹمی صلاحیت سے کسی کو خطرہ نہیں ہو سکتا۔پارلیمنٹ ہائوس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے بھارتی وزیر اعظم کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے اپنے دفاع میں جنگ لڑی اور جنگ جیتی، نریندر مودی کیلئے پاکستان سے جنگ ایک ڈرانا خواب بن چکا، مودی کو اب خواب میں بھی پاکستان اور پاکستانی افواج نظر آتی ہیں۔خواجہ آصف نے کہا کہ مودی کے لیے دوسری جنگ بھارت کے اندر نظر آرہی ہے، بھارت میں نریندر مودی کے خلاف آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں، نریندر مودی بنیادی طور پر اپنے ووٹرز کو مطمئن کررہے ہیں۔ بھارتی شہری خود کہہ رہے ہیں کہ مودی کے رویئے سے جنگ کی نوبت آئی۔وزیر دفاع نے کہا کہ نریندر مودی پر کانگریس سمیت چھوٹی ریاستوں کے شہری بھی تنقید کررہے ہیں، مودی بیانات دے کر گھر میں اٹھنے والا طوفان روکنے کی کوشش کررہاہے، مودی جانے اور بھارت کے سیاسی لوگ جانیں،پاکستان کا کوئی تعلق نہیں۔انہوں نے کہا کہ آج سے کچھ عرصہ قبل بھارت کا سیاسی و معاشی مقام کچھ تھا، نریندر مودی کے ہاتھوں بھارت اپنا مقام کھو بیٹھا ہے، نریندر مودی کی ناکامی بھارتی اپوزیشن کے لیے ایک موقع ہے، بھارت کی اپوزیشن مودی کی ناکامیوں سے فائدہ اٹھا رہی ہے، بھارتی اپوزیشن کے لیے موقع ہے کہ پھر اپنا مقام بنا سکے، بھارت کے اندرونی معاملات سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ مودی کی قیادت نے بھارت کو اندرونی اور بین الاقوامی سطح پر نقصان پہنچایا، بھارت نے دہشت گردی کی پشت پناہی کی،بین الاقوامی سطح پر بھی بدنام ہوا، کینیڈا اور پاکستان میں دہشت گردی بھی نریندر مودی نے ہی کرائی۔ نریندر مودی کے چہرے پر دہشت گردی کا دھبہ لگ چکا ہے۔وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان میں کالعدم بی ایل اے اور تحریک طالبان بھارت کی پراکسیز ہیں، پاکستان نے بھارتی دہشت گردی کے ثبوت عالمی فورم پر جمع بھی کرائے، اگر اچھے ہمسایوں کی طرح رہا جائے تو برصغیر میں امن ممکن ہے، برصغیر کے عوام بھی معاشی ترقی حاصل کرسکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • اجیت دوول اورامیت شاہ بھارتی حکومت اور مودی کو لے ڈوبیں گے، محسن نقوی
  • جب بھی آر ایس ایس اور بی جے پی اقتدار میں آتے ہیں تب تاریخ کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں، اسد الدین اویسی
  • اسلام آباد میں ’غیر قانونی‘ مساجد کے تنازع کا حل کیا ہے؟
  • بھارت چین سے نہیں بیٹھے گا، مقابلہ کرنے کیلئے ایشین ٹائیگر بننا پڑے گا، ایس ایم تنویر
  • پاکستان پر دنیا کے کسی ملک نے سوالات نہیں اٹھائے، سابق بھارتی میجر جنرل نے مودی کو آئینہ دکھادیا
  • بھارت چین سے نہیں بیٹھے گا، مقابلہ کرنے کیلئے ایشین ٹائیگر بننا پڑے گا: ایس ایم تنویر
  • اقتدار میں رہنے کیلئے بی جے پی کسی بھی حد تک جا سکتی ہے، ملکارجن کھرگے
  • مودی کو جنگ کے بعد خواب میں بھی پاکستانی فوج نظر آتی ہے: خواجہ آصف
  • بھارتی وزیراعظم کے ایٹمی دھمکیوں اور جھکنے سے انکار کے بیان پر وزیردفاع خواجہ آصف کا ردعمل بھی آگیا
  • کسی کو بلیک میل نہیں کرتے، جوہری صلاحیت دفاع کی ضمانت ہے،خواجہ آصف