تبصرۂ کتب
٭ڈاکٹر مبشر حسن نے بتایا کہ بھٹو ایک فوجی ہیلی کاپٹر میں کہیں جارہے ہی، جس سے حسین نقی کو واضح ہو گیا کہ بھٹو اور فوج مل کرکام کررہے ہیں اور بھٹو اقتدار مجیب کے حوالے کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں
٭جنہوں نے 1971 کے بعد کٹے پھٹے پاکستان میں اقتدار پر قبضہ کیا، انہوں نے اپنے ” دوست” زیڈ اے بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیا اور ان کے خاندان کے اکثر ارکان کو بھی ہلاک کر دیا گیا
٭سلہری نے جواب دیا کہ میں سمجھ گیا کہ پاکستان اور میں بدل گئے ہیں۔ میں اب بھٹو کے ساتھ ہوں اور اس سے قبل میں جنرل ایوب خاں اور گزشتہ حکمرانوں کے ساتھ تھا
٭ اکثر اخباری مالکان قیام پاکستان کے بعد محض پیسہ بٹورنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پیشہ ورانہ مہارت کے حامل ایڈیٹروں کو سراہا نہیں گیا اور اکثر ان کے متبادل تلاش کر لئے گئے
٭مالکان اپنے اخبارات کے ایڈیٹرز اور ایڈیٹرز انچیف بن گئے ،اگرچہ وہ خود ایک صحیح جملہ نہیں لکھ سکتے تھے۔حسین نقی نے خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کے ابھرنے کے بعد صحافت میں گراوٹ پر روشنی ڈالی
٭حسین نقی کا کہنا ہے کہ اینکر پرسنز بھاری تنخواہیں وصول کرتے ہیں جو وہ اپنی صحافت کی وجہ سے نہیں بلکہ پروگرام ریٹنگز اور کمیشن کے ذریعہ کماتے ہیں،وہ اخبارات کی کمی پر مایوسی کا اظہار کرتے ہیں
(ڈاکٹر سید جعفر احمد کی مرتب کردہ کتاب جرأت انکار کا مطالعہ جس میں پاکستان کی سیاست و صحافت کی اصل تصویر کشی کی گئی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک نئی شائع شدہ کتاب میں سینئر صحافی اور انسانی حقوق کے سرگرم رکن حسین نقی کا تفصیلی انٹرویو در اصل ان کے نقطہ نظر سے پاکستان میں صحافت اور جمہوریت کی کہانی ہے۔
1970 کے عام انتخابات کے بعد حسین نقی اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کرنے کیلئے بھٹو کو قائل کرنے کی کوشش کرر ہے تھے تو بھٹو کے قریبی ساتھی ڈاکٹر مبشر حسن نے انہیں بتایا کہ بھٹو ایک فوجی ہیلی کاپٹر میں کہیں جارہے ہیں۔
حسین نقی کا کہنا ہے کہ اس سے مجھ پر یہ واضح ہو گیا کہ بھٹو اور فوج مل کرکام کررہے ہیں اور بھٹو اقتدار مجیب کے حوالے کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
حسین نقی کے مطابق جنہوں نے 1971 کے بعد کٹے پھٹے پاکستان میں اقتدار پر قبضہ کیا، انہوں نے اپنے ” دوست” زیڈ اے بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیااور ان کے خاندان کے اکثر ارکان کو بھی ہلاک کر دیا گیا اور وہ وسائل لوٹنے کیلئے اپنے پسندیدہ غلاموں کو لے آئے۔
کتاب "جرأت انکار "ایک صحافی کی زندگی کی تاریخی روئیداد نہیں ہے بلکہ اس ملک میں صحافت اور جمہوریت کی60 سال سے زائد کی تاریخ ہے جس نے اس کے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔
کہانی نویس سینئرصحافی حسین نقی ہر واقعہ کی پس پردہ وجوہ کی وضاحت کرتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ قوم ایک جمہوری فلاحی ریاست بننے کا ہدف کیوں حاصل نہ کر سکی؟ اس کتاب کے بعض دلچسپ موضوعات کو اجاگر کرنے سے قبل یہ بہتر ہوگا کہ پہلے اس کے پبلشر اور حسین نقی کے ہم سخن کا تعارف کرایا جائے۔
اردو اور انگریزی میں30 کتابوں کے مصنف پروفیسراور ڈاکٹر سید جعفر احمد نے کراچی یونیورسٹی میں کئی سال تک پاکستان اسٹڈی سنٹر کے محقق اور ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا ۔اس وقت وہ کراچی میں انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ کے ڈائریکٹر ہیں۔
پروفیسر جعفر احمد انتہائی قابل احترام محقق او ررائٹر ہیں۔ ان کے علم کا اندازہ ان سوالات سے ہوتا ہے جو وہ پوچھتے ہیں جنہوں نے اس کتاب کو اہم بنا دیا ہے۔
یہ کتاب انتہائی قابل احترام حسین نقی کا تفصیلی انٹرویو ہے جو1960 کے عشرے سے صحافت کے میدان میں فعال رہے۔پروفیسر جعفر احمد قارئین کو پیش کرنے کی غرض سے صحافی سے زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
ساتھ ہی ان سے ایسے سوالات پوچھ کر دلچسپی میں اضافہ کیاجو پاکستان کی سیاسی تاریخ اور مشکل حالات میں اس کا مقابلہ کرنے والی جمہوریت کی وضاحت کر سکتے ہیں اگر صحافت کو عدسہ چشم سے دیکھا جائے۔
حسین نقی نے قیام پاکستان کے بعد لکھنؤ سے ہجرت کی اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔ اس انٹرویو کے دوران بہت سے نامعلوم حقائق کا انکشاف کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ معروف شاعر میر انیس کے پوتے اور پڑ پوتوں نے بھی پاکستان میں ہجرت کی۔
یہ کتاب ان قارئین کیلئے پوشیدہ خزانہ ہے جو یہ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ کس طرح جمہوریت اور صحافت نے آمروں کے سخت اقدامات کی حامل حکو متوں کے باوجود زندہ رہنے کیلئے جنگ لڑی جنہوں نے اس ملک پر زیادہ عرصے تک حکومت کی۔
ذاتی محاذ پر حسین نقی سے یہ جاننا دلچسپی کا باعث ہے کہ انہوں نے ڈی جے سائنس کالج کے شعبہ کیمسٹری میں ایک استاد کی مدد سے داخلہ لیا جنہوں نے بھی علی گڑھ سے ہجرت کی تھی۔
حسین نقی کا کہنا ہے کہ بہت سے ساتھیوں نے1955 میں مجھ سے پوچھا تھا کہ آیا میرے پاس آرمی،نیوی یا ائیر فورس میں "معلومات کا ذریعہ” ہیں تاکہ وہ ان میں کمیشن حاصل کر سکیں ۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ نوزائیدہ ملک میں 1958 میں پہلا مارشل لاء لگنے سے قبل بھی مسلح افواج بالادست تھیں۔ جہاں تک پاکستان میں ان کی اسٹوڈنٹ لائف کا تعلق ہے،یہ ان سرگرمیوں سے بھری پڑی ہے جنہو ں نے ان کیلئے مشکلات پیدا کیں اور انہیں یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ تاہم اس کے نتیجہ میں وہ طلبہ میں مقبول ہو گئے۔
حسین نقی ذوالفقار علی بھٹو کے بہت قریب تھے اور ان کا کہنا ہے کہ جب وہ انہیں1970 کے عام انتخابات کے بعد اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کرنے کیلئے قائل کرنے کی کوشش کرر ہے تھے تو بھٹو کے قریبی ساتھی ڈاکٹر مبشر حسن نے انہیں بتایا کہ بھٹو ایک فوجی ہیلی کاپٹر میں کہیں جارہے ہیں۔حسین نقی کا کہنا ہے کہ اس سے مجھ پر یہ واضح ہو گیا کہ بھٹو اور فوج مل کرکام کررہے ہیں اور بھٹو اقتدار مجیب کے حوالے کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
حسین نقی نے بتایا کہ میں نے معروف صحافی زیڈ اے سلہری سے پوچھا کہ کسی زمانے میں مقابلہ کرنے والے صحافی ہونے کے باوجود وہ کیوں اپنے کاز سے دستبردار ہو گئے۔سلہری نے جواب دیا کہ میں سمجھ گیا کہ پاکستان اور میں بدل گئے ہیں۔ میں اب بھٹو کے ساتھ ہوں اور اس سے قبل میں جنرل ایوب خاں اور گزشتہ حکمرانوں کے ساتھ تھا۔حسین نقی کیلئے یہ اس امر کا اشارہ تھا کہ طویل عرصے سے خرابی کا آغاز ہو چکا تھا۔
اخباری مالکان پر نکتہ چینی کرتے ہوئے حسین نقی کا کہنا ہے کہ اکثر اخباری مالکان قیام پاکستان کے بعد محض پیسہ بٹورنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پیشہ ورانہ مہارت کے حامل ایڈیٹروں کو سراہا نہیں گیا اور اکثر ان کے متبادل تلاش کر لئے گئے۔
مالکان اپنے اخبارات کے ایڈیٹرز اور ایڈیٹرز انچیف بن گئے ،اگرچہ وہ خود ایک صحیح جملہ نہیں لکھ سکتے تھے۔انہوں نے خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کے ابھرنے کے بعد صحافت میں گراوٹ پر روشنی ڈالی۔ان کا کہنا ہے کہ اینکر پرسنز بھاری تنخواہیں وصول کرتے ہیں جو وہ اپنی صحافت کی وجہ سے نہیں بلکہ پروگرام ریٹنگز اور کمیشن کے ذریعہ کماتے ہیں۔وہ اخبارات کی کمی پر مایوسی کا اظہار کرتے ہیں۔
دریں اثناء الیکٹرانک میڈیا اپنا فرض ادا کرنے کا اہل نہیں ہے۔ذرائع ابلاغ کا بنیادی فرض عوام الناس کو سچ منتقل کرنا ہے۔صرف اسی طریقے سے جمہوریت اور صحافت پنپ سکتی ہے۔حسین نقی کی پختہ رائے ہے کہ جمہوریت اور صحافت دونوں کو اس ملک میں بدترین ظلم و ستم کا سامنا ہے۔
حسین نقی کے مطابق جنہوں نے 1971 کے بعد کٹے پھٹے پاکستان میں اقتدار پر قبضہ کیا، انہوں نے اپنے ” دوست” زیڈ اے بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیا اور ان کے خاندان کے اکثر ارکان کو بھی ہلاک کر دیا گیا اور وہ وسائل لوٹنے کیلئے اپنے پسندیدہ غلاموں کو لے آئے۔
حسین نقی اپنے کیرئیر اور اب اپنی زندگی کے اختتام پر یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس امر کا ا نحصار اب نئی نسل پر ہے کہ آیاوہ جمہوریت کے حق میں ملک کی سیاست کی اس صورتحال کو بدلنے کا انتظام کرتی ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ وہ خوش ہیں کہ میں نے فلاحی ریاست کے قیام کیلئے جدو جہد جاری رکھی۔
اگرچہ وہ کامیاب نہیں ہوئے،وہ خوش ہیں کہ انہوں نے کم ازکم کاز میں حصہ لیا۔ انہیں کالج سے نکالا گیا،صحافی کی حیثیت سے جیل گئے،اکثر ملازمت کے بغیر رہے اور ان اخبارات کو بند دیکھا جن کیلئے انہوں نے کام کیا لیکن ان سب نے ان کے کاز کیلئے ان کے جذبے کو کم نہیں کیا جسے انہوں نے اختیار کیا۔
کتاب کے آخر میں حسین نقی کے فکر انگیز سات کالم شامل کئے گئے ہیں۔
یہ کالم مختلف عرصوں میں لکھے گئے جو ان کی سیاسی بصیرت اور جمہوریت اور صحیح صحافت کیلئے جدوجہد میں اپنی زندگی گزارنے کیلئے آمادگی کو ظاہر کرتے ہیں ۔یہ کتاب ان سب کیلئے تحفہ ہے جو اپنے ملک کو ایک تجربہ کا رصحافی اور واضح مشن کے ساتھ دیانت دار شخص کی نظروں سے اپنے ملک کو جاننے کے خواہشمند ہیں۔
بدقسمتی سے کتب بینی اس قوم کا مشغلہ نہیں رہا ہے۔ نئی نسل اس علم کے حاصل کرنے کی خواہش کے بغیر کہ اپنے حقوق کیلئے کس طرح لڑا جائے ،صرف اقتصادی کامیابی حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
اسے ماضی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔اکثر سیاسست دانوں کے پاس کتابیں پڑھنے کیلئے وقت نہیں ہے۔ لیکن صحافیوں کو کتابیں پڑھنی چاہئے۔ یہ کتاب ان تمام صحافیوں کیلئے ہے جو اب بھی جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔(ترجمہ: عبدالرحیم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: مجیب کے حوالے کرنے کیلئے حسین نقی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت اور حسین نقی کے میں دلچسپی یہ کتاب ان بتایا کہ کرتے ہیں صحافت کی انہوں نے جنہوں نے دیا گیا بھٹو کے کے ساتھ نہیں ہے بھٹو کو گیا اور واضح ہو کہ بھٹو گیا کہ کہ میں کے بعد اور ان زیڈ اے ہیں کہ
پڑھیں:
سندھ طاس معاہدے سے ’فرار‘ اختیار کرنے کی بھارتی کوشش، پاکستان کی کڑی تنقید
وفاقی وزیر برائے آبی وسائل محمد معین وٹو نے بھارت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ سندھ طاس معاہدے (IWT) سے ’فرار‘ اختیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جب کہ بھارتی وزارتِ خارجہ نے ہیگ کی عدالت کے اس فیصلے کو مسترد کر دیا ہے جس میں بھارت کو معاہدے کے تحت دریاؤں پر نئے پن بجلی منصوبوں کے ڈیزائن میں طے شدہ شرائط کی پابندی کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
1960ء کے سندھ طاس معاہدے کے تحت 3 مغربی دریا پاکستان کو اور 3 مشرقی دریا بھارت کو دیے گئے تھے۔ 2023ء میں پاکستان نے مغربی دریاؤں پر بھارت کے پن بجلی منصوبوں کے ڈیزائن کے معاملے پر مستقل ثالثی عدالت (PCA) ہیگ سے رجوع کیا تھا۔
واضح رہے کہ اس ہفتے پیر کو عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اسے اس تنازع پر مکمل دائرہ اختیار حاصل ہے اور واضح کیا کہ معاہدہ بھارت کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ مغربی دریاؤں پر پن بجلی کے منصوبے ’انجینئرنگ کے مثالی یا بہترین طریقہ کار‘ کے تحت تعمیر کرے، بلکہ ان منصوبوں کا ڈیزائن معاہدے میں درج شرائط کے عین مطابق ہونا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیے انڈس واٹر ٹریٹی: کیا پاکستان کے حق میں فیصلہ آنے کی کچھ خاص وجوہات ہیں؟
عدالت نے مزید کہا کہ بھارت کو عمومی طور پر مغربی دریاؤں کا پانی پاکستان کے ’غیر مشروط استعمال‘ کے لیے بہنے دینا ہوگا۔
پاکستانی حکومت نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا تھا۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا تھا کہ عدالت نے پاکستان کا مؤقف تسلیم کر لیا ہے۔
تاہم بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے ہفتہ وار پریس بریفنگ میں کہا:
’بھارت نے کبھی بھی اس نام نہاد ثالثی عدالت کی قانونی حیثیت، اختیارات یا دائرہ اختیار کو تسلیم نہیں کیا، لہٰذا اس کے فیصلے بھارت کے پانی کے استعمال کے حق پر کوئی اثر نہیں ڈالتے۔‘
انہوں نے کہا کہ بھارت اپنے فیصلے پر قائم ہے کہ معاہدے کو معطل رکھا جائے۔
#WATCH | Delhi | On a question by ANI regarding the award by the Court of Arbitration under the Indus Water Treaty, MEA spokesperson Randhir Jaiswal says, “India has never accepted the legality, legitimacy, or competence of the so-called Court of Arbitration. Its pronouncements… pic.twitter.com/cx8zdrAtYN
— ANI (@ANI) August 14, 2025
وفاقی وزیر معین وٹو نے ترجمان وزارت خارجہ کے اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا:
’بھارت اس معاہدے سے فرار چاہتا ہے۔ معاہدے کی کسی بھی شق کے تحت بھارت یا پاکستان اسے ختم نہیں کر سکتے۔‘
انہوں نے بھارتی مؤقف کو ’بے بنیاد اور غلط‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اسے مکمل طور پر مسترد کرتا ہے۔
وزیر نے بتایا کہ بھارت کا معاہدے میں ترمیم کے لیے بھیجا گیا خط کسی قانونی حیثیت کا حامل نہیں، اور بھارت یکطرفہ طور پر اس معاہدے میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا۔
یاد رہے کہ بھارت نے اپریل میں مقبوضہ کشمیر کے پہلگام میں ایک حملے کے بعد، جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے، معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ نئی دہلی نے اس حملے کا الزام بغیر شواہد کے اسلام آباد پر عائد کیا تھا۔
پاکستان نے واضح کیا تھا کہ پانی کے حصے کی یکطرفہ معطلی ’جنگی اقدام‘ کے مترادف ہے کیونکہ معاہدے میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ بعد ازاں، پاکستان نے اسے ویانا کنونشن 1969 کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے عدالت جانے پر غور کیا۔
جون میں PCA کے اضافی فیصلے میں کہا گیا کہ بھارت معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل نہیں کر سکتا۔ بھارت نے اس فیصلے کو بھی ماننے سے انکار کر دیا۔
یہ بھی پڑھیے ثالثی عدالت کا فیصلہ پاکستانی مؤقف کی تائید، بھارت یکطرفہ سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کرسکتا، وزیراعظم
بین الاقوامی قانون دان عائشہ ملک نے کہا کہ بھارت کا مؤقف ظاہر کرتا ہے کہ وہ ’ایک ذمہ دار اور قانون کا احترام کرنے والے ریاست‘ کے کردار سے کس حد تک پیچھے ہٹ چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ PCA کا فیصلہ نہ صرف سندھ طاس معاہدے بلکہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں بھارت کی ذمہ داریوں پر مبنی ہے، اور یہ کہنا غلط ہے کہ بھارت نے کبھی عدالت کی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا، کیونکہ 2013ء کے کشن گنگا کیس میں اس نے ایسا کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ عدالت کی فریقین کے درمیان مذاکرات کی اپیل ’بھارتی حکومت کے کانوں تک نہیں پہنچی‘، اور مودی کی ہندوتوا پالیسی کے تحت بھارت تعاون کے بجائے مسلسل محاذ آرائی کو ترجیح دے رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وفاقی وزیر برائے آبی وسائل محمد معین وٹو