فوج کو سیاسی نظام سے الگ کرنے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک ہونا ہوگا، پروفیسر ابراہیم
اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT
جماعت اسلامی کے صوبائی امیر نے کہا کہ دہشت گردی کا اصل مقصد معدنی وسائل پر قبضہ ہے اور اس وقت پاکستان کا نظام وفاقی حکومت یا پارلیمان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ فیلڈ مارشل کے ہاتھ میں ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے مابین معاہدے کی خبر ہمیں امریکی صدر ٹرمپ دیتے ہیں کیا پاکستان کی پارلیمان کو اس کی خبر ہے؟ پاکستان اور امریکہ کے مابین دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے معاہدہ ہوا ہے اس وقت ملک کی اندرونی سلامتی فوج کے پاس ہے جو اصولاً فوج کے پاس نہیں ہونی چاہیے۔ فوج کو سیاسی نظام سے الگ کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک ہونا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے عوامی نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا کہ دہشت گردی کا اصل مقصد معدنی وسائل پر قبضہ ہے اور اس وقت پاکستان کا نظام وفاقی حکومت یا پارلیمان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ فیلڈ مارشل کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اپنے آپ سے بھی شکوہ ہے اور پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں سے بھی شکوہ ہے کہ ہم سیاست سے فوج کا کردار ختم کرنے کے لیے ایک نہیں ہو رہے۔
انہوں نے کہاکہ کیا یہ ممکن ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ایک میز پر بیٹھ جائیں اور اس بات پر اتفاق کریں کہ فوج کو اس نظام سے باہر نکال دیں اگر یہ ممکن ہے تو پھر سب ٹھیک ہو جائے گا مگر اس وقت یہ بات ناممکن دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں فوج آپریشن کرنے کے لیے گھروں سے نکالے تو ہمیں جی ایچ کیو میں خیمے لگانے ہوں گے انہوں نے کہا کہ بنوں میرانشاہ روڈ عوام کیلئے بند ہے اس وقت وزیرستان سمیت صوبے کے عوام کسی بھی آپریشن کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کے ہاتھ میں تمام سیاسی نے کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
حماس کی طرف سے قیدیوں کی رہائی کی پیشکش، شکست یا حکمت عملی؟
اسلام ٹائمز: حماس کی پیشکش میں کافی گنجائش ہے، وہ جنگی دباؤ میں ہے، مگر وہ پوری طرح ختم نہیں ہوئی۔ قیدیوں کی رہائی ایک سیاسی حربہ ہے، جسے وہ اپنی بقا، عوامی مفادات اور مذاکراتی حیثیت بہتر کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ لہٰذا اسے قطعی شکست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اسے ہم مشروط مذاکراتی قبولیت اور سیاسی حکمتِ عملی کے طور پر پیش کرسکتے ہیں اور ساتھ ہی واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ بیان اور زمینی عمل میں فرق ہوسکتا ہے، حقیقی نتیجہ شاید انھی اشاروں پر منحصر ہو، جو اوپر ذکر کئے گئے ہیں۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
حماس کی طرف سے قیدیوں کے تبادلہ کے حالیہ بیان پر کئی طرح کے تبصرے اور تجزیئے آرہے ہیں۔ کیا یہ شکست ہے؟ سیاسی بالیدگی ہے؟ یا حکمتِ عملی کے طور پر وقتی سودے بازی؟ اس موضوع پر غیر جانبدارانہ تجزیئے کے لیے کچھ ریفرنس دیکر اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر دعوے کے ساتھ حالیہ معتبر ذرائع کے حوالہ بھی دیں گے، تاکہ حقیقت اور بیانیے دونوں کو پرکھا جا سکے۔
ایک جملے میں خلاصہ
حماس کی قیدیوں کی رہائی کی پیشکش مکمل شکست نہیں دکھاتی، بلکہ زیادہ امکان ہے کہ یہ ایک پیچیدہ سیاسی حکمتِ عملی ہو، جو دباؤ میں آنے کے باوجود سیاسی زندگی اور عسکری حیثیت برقرار رکھنے کی کوشش ہو، تاکہ حالات سے فائدہ اٹھا کر مذاکراتی و انسانی نرمی دکھانے جیسے اقدامات کے ساتھ ساتھ بیک وقت اپنی بنیادی سرخ لکیر (خصوصاً عدم واگذاریِ اسلحہ) پر قائم رہا جا سکے۔
مفصل تجزیہ
1) اب جو اعلان ہوا۔۔۔ وہ کیا ہے؟ (حقائق)
حماس نے باضابطہ کہا ہے کہ وہ ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کے تبادلے کے فارمولے کے مطابق تمام زیرِِقبضہ اسرائیلی قیدیوں (زِندہ یا لاشیں) کو آزاد کرنے پر آمادہ ہے، بشرطیکہ "میدانی حالات" (field conditions) پورے کیے جائیں اور درمیانی فریق(ثالث) مذاکرات میں شامل ہوں۔ اس اعلان کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل سے بمباری روکنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ یہ ایک مناسب موقع ہے۔ اقوامِ متحدہ اور بعض ثالثی فریقین نے بھی اس پیشکش کو سنجیدگی سے لیا ہے۔
2) حماس کے ممکنہ مقاصد (منطقی محرکات)
حماس کی یہ پیشکش ایک یا ایک سے زیادہ درج ذیل مقاصد پورے کرسکتی ہے:
A. فوری انسانی/سیاسی نفع (Relief & Legitimacy):
قیدیوں کی رہائی سے غزہ کے عوام کو فوری ریلیف (جیسے بمباری میں کمی، امداد کی آمد) مل سکتی ہے۔۔۔ اور حماس کو عالمی نگاہ میں "ذمہ دار فریق" کے طور پر دیکھا جائیگا، جس سے حماس کو مستقبل میں سیاسی فائدہ مل سکتا ہے۔
B. پراکسی/سیاسی بقا کا ہتھکنڈہ (Preservation):
اپنے فوجی ڈھانچے کو پوری طرح ختم ہونے سے بچانے کے لیے حماس کا یہ اسٹریٹجک قدم ہوسکتا ہے۔ وہ نصف راستہ طے کرسکتی ہے: قیدی چھوڑے گی مگر اسلحہ یا اندرونی نیٹ ورک کی واپسی/پھلاؤ برقرار رکھے گی۔ یہ طویل المدت بقا کا راستہ ہوسکتا ہے۔
C. دباؤ کا بَدلنا (Leverage swap):
قیدیوں کے تبادلے سے اسرائیل پر اخلاقی و سیاسی دباؤ بڑھتا ہے؛ اس کا استعمال حماس مذاکراتی فریم ورک میں مزید واپسی یا ریلیف کے لیے کرسکتی ہے۔
D. علاقائی ثالثیوں کے ذریعے بین الاقوامی قبولیت:
قطر، مصر یا اقوامِ متحدہ جیسے ثالث بیچ میں آئیں تو حماس کو بقیہ سیاسی حیثیت برقرار رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
3) کیا یہ پورے 20 نکات کی قبولیت ہے؟ (حقیقت بمقابلہ بیانیہ)
نہیں، دستیاب بیانات بتاتے ہیں کہ حماس نے قیدیوں کی رہائی میں آمادگی ظاہر کی ہے، لیکن ٹرمپ پلان کے تمام نکات بالخصوص "غزہ کی ڈیمیلٹرائزیشن" یا "حماس کا مکمل اسلحہ چھوڑنا" وغیرہ پر مکمل قبولیت کا واضح/بلاشرط اعلان نہیں کیا۔ وہ شرائط، وقت بندی، اور سکیورٹی گارنٹیز (مثلاً اسرائیلی فوجی پریزنس یا عارضی انتظامیہ) کے بارے میں سوال اٹھا رہے ہیں۔ اس کا مطلب: شرطیہ تعاون۔۔۔۔ نہ کہ غیر مشروط ترکِ اسلحہ یا مکمل سیاسی رضامندی۔
4) کیا اسے شکست کہا جا سکتا ہے؟
یہ حماس کی شکست ہے، کہنے والے دلیل دیتے ہیں کہ: فوجی دباؤ، فضائی تباہی اور معاشی قحط نے حماس کو عملی طور پر راستہ بدلنے پر مجبور کیا؛ قیدی چھوڑنا قوت کا نقصان ہے۔ ایک بڑے پیمانے پر قیدی ریلیز کرنے سے حماس کی جنگی دسترس اور مذاکراتی پوزیشن کمزور پڑ سکتی ہے۔ لیکن اس کے خلاف دلیل یہ ہے: قیدی ریلیز کرنے کو سیاسی کامیابی کے طور پر بھی پیش کیا جا سکتا ہے: حماس نے شرطیہ پیشکش کرکے دکھایا کہ وہ مذاکراتی فریم میں بات کرسکتی ہے اور اگر وہ لازمی سکیورٹی گارنٹیز یا انتظامی شرائط حاصل کر لے تو وہ اسے آگئے بڑھا سکتی ہے۔ متحرک سیاسی مذاکرات میں فریق جب بھی مواقعے کے مطابق نرم لہجہ اختیار کرتا ہے تو یہ بالیدگی کا اشارہ ہوتا ہے، شکست کا نہیں۔
5) آئندہ ممکنہ مناظر (Scenarios)۔۔۔ کِس حد تک ممکن ہیں؟
1۔ تبادلہ + معاہدہ (Likely-ish): قیدیوں کا فوری ایک بڑا پیکج جاری، عارضی/فیزڈ فائر بندی، ثالثی انتظام، تعمیراتی امداد۔۔۔۔ اور احتجاجی/مسلح سرگرمیوں میں وقتی کمی۔ (زیادہ امکان)
2۔ نیم قبولیت، کشیدگی دوبارہ (ممکن): قیدیوں کا تبادلہ جاری، مگر بنیادی مسائل (اسلحہ، کنٹرول) برقرار رہیں۔۔۔۔۔ چھ مہینے میں دوبارہ جھڑپیں۔ (نمایاں امکان)
3۔ حماس کا مکمل خاتمہ (کم امکان): حماس اپنی مسلح شاخ ختم کر دے اور صرف سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئے۔۔۔۔ مگر زمینی حقائق، عوامی حمایت اور علاقائی بیک اپ کو دیکھتے ہوئے یہ کم ہی ممکن ہے۔
6) اس کا علاقائی و بین الاقوامی مطلب کیا ہوگا؟
اسرائیل/امریکہ کیلئے قلیل مدت میں سیاسی فتح: اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کی صورت میں امریکہ اسرائیل کو سیاسی و اخلاقی جیت مل سکتی ہےــ مگر اگر حماس نے اپنا وجود برقرار رکھا تو حقیقی سکیورٹی خطرات باقی رہیں گے۔
حماس کو اندرونی پشت پناہی برقرار رکھنے کا موقع: عوامی ہمدردی یا سیاسی برتری حاصل کرنے کی کوشش کرسکتی ہے، خاص طور پر اگر امداد اور تعمیر نو پر شفاف وعدے ہوں۔ علاقائی ثالثوں (Egypt, Qatar) کی اہمیت بڑھے گی۔ اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق گروپس بھی معاہدے کی نگرانی چاہتے ہیں۔
7) کن اشاروں (Indicators) پر نظر رکھیں
یہ پتہ لگانے کے لئے کہ یہ واقعتاً سیاسی کامیابی ہے یا عارضی سودہ، درج ذیل نکات پر توجہ کرنا ہوگی۔
1۔ کیا حماس نے باضابطہ طور پر "عدم اسلحہ" قبول کیا؟ (اگر نہیں تو وہ بقا کی پالیسی اختیار کر رہی ہے)۔
2۔ قیدیوں کی رہائی کا شیڈول اور ثالث کون ہے؟ (قطر/مصر/اقوامِ متحدہ کی کیا ضمانتیں ہیں)۔
3۔ اسرائیل کا فائر بندی واپس لینے یا بمباری روکنے کا عملی اقدام صرف بیانیہ کافی نہیں۔
4۔ حماس کے عسکری گروپس کی منظم سرگرمی۔۔۔۔ کیا وہ پھیل رہے یا منجمد؟ (سرنگیں، میزائل فائرنگ، بیرونی کوآرڈینیشن)۔
5۔ مقامی عوامی ردعمل، کیا غزہ کی عوام حماس کی اس حکمت عملی کو سپورٹ کر رہی ہے یا وہ براہِ راست مزاحمت یا حکومت مخالف ہو رہی ہے۔؟
6۔ ثالثی شواہد اور مانیٹرنگ رسائی اقوامِ متحدہ یا نیوٹرل نگران ٹیم کی رسائی۔
8) آخر میں نتیجے کے طور پر یہ کہا جاسکتا ہے
حماس کی پیشکش میں کافی گنجائش ہے، وہ جنگی دباؤ میں ہے، مگر وہ پوری طرح ختم نہیں ہوئی۔ قیدیوں کی رہائی ایک سیاسی حربہ ہے، جسے وہ اپنی بقا، عوامی مفادات اور مذاکراتی حیثیت بہتر کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ لہٰذا اسے قطعی شکست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اسے ہم مشروط مذاکراتی قبولیت اور سیاسی حکمتِ عملی کے طور پر پیش کرسکتے ہیں اور ساتھ ہی واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ بیان اور زمینی عمل میں فرق ہوسکتا ہے، حقیقی نتیجہ شاید انھی اشاروں پر منحصر ہو، جو اوپر ذکر کئے گئے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
حوالہ جات
1۔ حماس کی قیدیوں کی رہائی کی پیشکش: رپورٹس کے مطابق حماس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کے تناظر میں قیدیوں کو رہا کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، البتہ کچھ شرائط کے ساتھ۔ (ماخذ: Reuters، Al Jazeera)
2۔ ٹرمپ اور اقوامِ متحدہ کا ردعمل: ٹرمپ نے اسرائیل پر دباؤ ڈالا کہ بمباری روکے اور اس موقع کو مذاکرات کے لیے استعمال کرے؛ اقوام متحدہ اور ثالثی ممالک نے بھی اس پیشکش کو اہم قرار دیا۔ (ماخذ: The Guardian، UN statements)
3۔ حماس کے ممکنہ مقاصد: سیاسی فائدہ، بقاء کی حکمتِ عملی اور عالمی سطح پر اپنی ساکھ دکھانے کے لیے اس قدم کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ (ماخذ: Al Monitor، Middle East Eye)
4۔ 20 نکات کی مکمل قبولیت نہیں: حماس نے غیر مشروط طور پر تمام نکات تسلیم نہیں کیے، خاص طور پر اسلحہ چھوڑنے اور مکمل ڈیمیلٹرائزیشن کے حوالے سے۔ (ماخذ: Times of Israel، AFP)
5۔ شکست کا مؤقف: بعض مبصرین اسے حماس کی کمزوری اور اسرائیلی دباؤ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ (ماخذ: BBC Analysis)
6۔ بالیدگی کا مؤقف: کئی تجزیہ کار اسے حماس کی سیاسی حکمت عملی قرار دیتے ہیں کہ وہ مزاحمت کے ساتھ ساتھ سیاسی راستہ بھی کھلا رکھنا چاہتی ہے۔ (ماخذ: Al Jazeera، Carnegie Endowment)
7۔ آئندہ ممکنہ مناظر: یا تو قیدیوں کا تبادلہ اور وقتی فائر بندی ہوگی، یا دوبارہ جھڑپیں شروع ہوسکتی ہیں، یا (کم امکان) حماس کا مکمل عسکری ڈھانچہ ختم ہو جائے گا۔ (ماخذ: Foreign Policy، Brookings)
8۔ علاقائی اثرات: قطر اور مصر جیسے ممالک کی ثالثی بڑھے گی، اسرائیل وقتی فائدہ اٹھائے گا اور حماس اندرونی طور پر اپنی ساکھ بچانے کی کوشش کرے گی۔ (ماخذ: UN، Al Arabiya)
9۔ کلیدی اشارے: قیدیوں کی رہائی کا شیڈول، ثالث کی شمولیت، اسرائیل کی بمباری کا رکنا یا جاری رہنا، حماس کا اسلحہ رکھنا یا چھوڑنا، یہ سب مستقبل کے نتائج طے کریں گے۔ (ماخذ: Human Rights Watch، UN OCHA)