دنیا وباؤں سے نمٹنے کا معاہدہ اختیار کرنے کو تیار
اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 19 مئی 2025ء) کیا دنیا کسی آئندہ وبا سے نمٹنےکے لیے بہتر طور پر تیار ہو سکتی ہے؟ یہ سوال کل جنیوا میں شروع ہونے والی ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کا بنیادی موضوع ہو گا جس میں ایک ایسے معاہدے کے لیے کوشش کی جائے گی جس کے ذریعے ہر ملک کو وباؤں اور طبی بحرانوں میں بہتر تحفظ میسر آئے۔
ورلڈ ہیلتھ اسمبلی اقوام متحدہ کا بنیادی طبی فورم ہے جہاں حکام وباؤں کا مقابلہ کرنے کی تیاری سے لے کر موسمیاتی مسائل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے طبی خطرات، ذہنی صحت، زچگی میں نگہداشت اور ماحولیاتی انصاف تک بہت سے اہم موضوعات پر گفت و شنید کرتے ہیں۔
اس وقت دنیا میں ارضی سیاسی تناؤ عروج پر ہے اور ایسے حالات میں یہ اسمبلی ان اہم معاملات پر بین الاقوامی تعاون کا امتحان ہو گا۔(جاری ہے)
19 تا 27 مئی جاری رہنے والی اسمبلی میں درج ذیل امور اور مسائل بطور خاص زیربحث آئیں گے۔
کووڈ۔19 وبا نے ثابت کیا کہ ممالک کے اندر اور ان کے درمیان بیماریوں کی تشخیص، علاج اور ان کے خلاف ویکسین کی دستیابی کے معاملے میں واضح نابرابری پائی جاتی ہے۔ اس وبا کے نتیجے میں طبی خدمات پر بھاری بوجھ آیا، معیشتیں بری طرح متاثر ہوئیں اور 70 لاکھ جانوں کا ضیاع ہوا۔
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر کے ممالک نے متحد ہو کر ایک ایسے معاہدہ طے کرنے کی ضرورت محسوس کی جس سے یقینی بنایا جا سکے کہ دنیا کسی آئندہ وبا سے منصفانہ اور مزید موثر طور پر نمٹنے کے لیے تیار ہو۔
کل اسمبلی کے مندوبین اس معاہدے کا تفصیلی جائزہ لیں گے اور اس پر بحث مباحثہ کریں گے جسے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے آنے والی نسلوں کے لیے بہت اہم قرار دیا ہے۔اگر اس معاہدے کو منظور کر لیا گیا تو وباؤں اور طبی بحرانوں سے نمٹنے کے طریقہ ہائے کار میں بہت بڑی اور مثبت تبدیلی آئے گی۔
تاہم اس پر ہونے والی بات چیت سیاسی اعتبار سے بہت نازک ہے کہ امریکہ سمیت متعدد ممالک نے قومی خودمختاری اور انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس سے متعلق خدشات کا اظہار کیا ہے۔ تاہم، ڈاکٹر ٹیڈروز نے محتاط خوش امیدی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان خدشات کو دور کیا جا سکتا ہے۔2۔ موسمیاتی تبدیلی: وجودی خطرہموسمیاتی بحران محض بڑھتی عالمی حدت کا معاملہ ہی نہیں بلکہ اس سے زندگیوں کو بھی خطرہ لاحق ہے۔
دنیا بھر میں موسمی شدت کے واقعات عام ہو گئے ہیں اور کئی طرح کی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں جن سے لاکھوں لوگوں کی صحت خطرے میں ہے۔ 'ڈبلیو ایچ او' کے تیار کردہ ایک لائحہ عمل میں موسمیاتی اور طبی پالیسیوں کو ہم آہنگ کرنے، استحکام کو بہتر بنانے اور کمزور لوگوں کو تحفظ دینے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کی بات کی گئی ہے۔اس منصوبے کا مسودہ 2024 میں جاری کیا گیا تھا اور رواں سال ہیلتھ اسمبلی کے مندوبین متوقع طور پر اسے حتمی شکل دیں گے جس میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلقہ طبی خدشات میں کمی لانے اور ان سے مطابقت پیدا کرنے کی حکمت عملی بھی شامل ہو گی۔
ہر طرح کی معیاری طبی خدمات تک تمام لوگوں کی کم خرچ اور مکمل رسائی یقینی بنانا پائیدار ترقی کا ایک اہم ہدف (ایس ڈی جی) ہے۔ تاہم، اس ہدف کے حصول کی جانب دنیا کا سفر بے سمت ہے۔ درحقیقت گزشتہ دس سال کے دوران طبی خدمات میں بہتری لانے کا عمل جمود کا شکار ہے۔
تاہم، طبی نگہداشت تک عام رسائی (یو ایچ سی) اسمبلی میں ترجیحی طور پر زیربحث آنے والے موضوعات میں شامل ہو گا۔
اس دوران مندوبین ایسی حکمت عملی پر بات چیت کریں گے جس سے بنیادی طبی نظام مضبوط بنائے جا سکیں، صحت کی خدمات کے لیے پائیدار مالی وسائل مہیا ہو سکیں اور طبی اعتبار سے غیرمحفوظ آبادیوں کو ضروری خدمات فراہم کی جا سکیں۔4۔ صحت مند آغاز: زچہ بچہ کی صحتدنیا میں ہر سال تقریباً 300,000 خواتین حمل یا زچگی کے دوران موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں جبکہ گزشتہ ماہ ہی 20 لاکھ سے زیادہ بچے اپنی عمر کے پہلے مہینے میں انتقال کر گئے تھے۔
'ڈبلیو ایچ او' نے زچہ بچہ کی قابل انسداد اموات کو روکنے کے لیے ایک سال کے عرصہ پر محیط مہم شروع کی ہے۔'صحت مند آغاز: پرامید مستقبل' کے عنوان سے چلائی جانے والی اس مہم میں حکومتوں اور طبی برادری پر زور دیا جائے گا کہ وہ زچہ بچہ کی قابل انسداد اموات کو روکنے کی کوششوں میں تیزی لائیں اور خواتین کی طویل مدتی صحت و بہبود کے لیے ترجیحی بنیاد پر اقدامات کریں۔
اسمبلی میں ان قابل انسداد اموات کو روکنے کے لیے نئے اہداف اور نئے وعدوں کی توقع ہے۔
امراض قلب، سرطان اور زیابیطس جیسی غیرمتعدی بیماریاں (این ڈی سی) ہر سال لاکھوں لوگوں کی جان لے لیتی ہیں۔ ان میں سے تقریباً تین تہائی اموات کم اور متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک میں ہوتی ہیں۔
اگر زیادہ سے زیادہ ممالک کے پاس ان بیماریوں کی نشاندہی، طبی معائنے اور علاج کا موثر بندوبست ہو تو بہت سی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔
'این ڈی سی' اور ذہنی صحت پر ستمبر میں 'ڈبلیو ایچ او' کے اجلاس کی تیاریوں کے سلسلے میں اسمبلی کے مندوبین حکومتوں، سول سوسائٹی اور نجی شعبے کے ساتھ ادارے کے تعاون اور اشتراک کا جائزہ لیں گے تاکہ ان بیماریوں کو روکا اور ان پر قابو پایا جا سکے۔ اس موقع پر ضروری ادویات اور طبی ٹیکنالوجی تک رسائی بہتر بنانے کے طریقے بھی زیرغور آئیں گے۔
6۔ مالیاتی وسائل کا موثر انتظامرواں سال اقوام متحدہ کے لیے بہت بڑے مسائل لایا ہے اور ادارے کے مالی وسائل پر بے حد دباؤ ہے۔ امریکہ اقوام متحدہ کو عطیات دینے والا بڑا ملک رہا ہے جس نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ سال جنوری میں 'ڈبلیو ایچ او' کی رکنیت چھوڑ دے گا جبکہ دیگر ممالک نے بھی ادارے کو فراہم کیے جانے والے ترقیاتی اور امدادی وسائل میں بڑے پیمانے پر کمی کر دی ہے۔
اسمبلی میں رکن ممالک 'ڈبلیو ایچ او' کے بنیادی بجٹ میں 50 فیصد اضافے پر بھی بات چیت کریں گے جس پر 2022 میں ہونے والی اسمبلی کے بعد سے کام جاری ہے۔ اگر مالی وسائل میں اضافے کی منظوری مل گئی تو یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ 'ڈبلیو ایچ او' مزید رضاکارانہ مالی وسائل کے حصول کی کوشش بھی کر رہا ہے جبکہ رکن ممالک اور فلاحی اداروں کی جانب سے بھی اس ضمن میں وعدے متوقع ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کے اجلاس یہاں دیکھیے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ہیلتھ اسمبلی ڈبلیو ایچ او مالی وسائل اسمبلی میں اسمبلی کے طبی خدمات اور طبی اور ان کے لیے
پڑھیں:
پاکستان امت مسلمہ کی واحد امید ہے، اسپیکر قومی اسمبلی
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ دفاعی معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے تعلقات میں نئے باب کا آغاز ہے۔ انہوں نے کہا کہ پوری قوم وزیراعظم محمد شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی بصیرت اور قیادت پر فخر کرتی ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے اپنے بیان میں دونوں ممالک کے سربراہان اور عوام کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی حکومت اور عوام خادم حرمین الشریفین کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور مقامات مقدسہ کے تحفظ اور سعودی عرب کی سلامتی میں کردار ادا کرنا پاکستان کے لیے باعثِ فخر ہے۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کے لیے ایک مخلص دوست اور بھائی کا کردار ادا کیا ہے اور حالیہ دفاعی معاہدہ اس دوستی کو مزید مستحکم کرنے کی نشانی ہے۔ اسپیکر نے زور دیا کہ پاکستان اور سعودی عرب اسلام اور امن کی مشترکہ طاقت ہیں اور ان کا اتحاد ناقابلِ شکست ہے، جو ان شاء اللہ ہمیشہ قائم رہے گا۔
سردار ایاز صادق کا کہنا تھا کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے سعودی ولی عہد و وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ اعتماد اور بھائی چارے کی نئی بنیاد رکھی ہے، جو دونوں ممالک کی عوام کے مستقبل کے لیے خوش آئند ثابت ہوگی۔ ان کے مطابق یہ معاہدہ نہ صرف پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنائے گا بلکہ خطے میں امن و سلامتی کے فروغ کے لیے بھی ایک تاریخی اقدام ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پوری پاکستانی قوم اس دفاعی معاہدے پر فخر کرتی ہے اور پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی کاوشیں قابلِ ستائش ہیں۔ اسپیکر نے کہا کہ امتِ مسلمہ کی واحد امید پاکستان ہے اور یہ ملک ہر قیمت پر امت مسلمہ کا دفاع اور تحفظ یقینی بنائے گا۔
اپنے بیان کے اختتام پر اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں دونوں ممالک ترقی اور خوشحالی کی نئی منازل طے کریں گے۔
Post Views: 5