Juraat:
2025-05-20@20:15:21 GMT

دوبارہ حملہ کیا تو ردعمل وحشیانہ ہوگا(ترجمان پاک فوج)

اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT

دوبارہ حملہ کیا تو ردعمل وحشیانہ ہوگا(ترجمان پاک فوج)

(بھارت اسرائیل ہے نہ پاکستان فلسطین)
پاکستان دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ دہشتگردی کا شکار ملک ہے، جنوری 2024 سے اب تک ملک میں 3700 سے زائد دہشتگردی کے واقعات رونما ہو چکے ہیں،ڈی جی آئی ایس پی آر
دہشتگردی کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی بھارت کر رہا ہے، کشمیر میں یا بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھارتی جبر کی وجہ سے ہے، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری ترکیہکی خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ بھارت اسرائیل ہے اور نہ پاکستان فلسطین، اگر اب بھارت نے حملہ کیا تو ہمارا ردعمل تیز اور وحشیانہ ہوگا۔ترکیہ کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کو پاک بھارت صورتحال پر خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا کہ پاکستان دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ دہشتگردی کا شکار ملک ہے، جنوری 2024 سے اب تک ملک میں 3700 سے زائد دہشتگردی کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ان حملوں میں 3896 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں سے 1314 سکیورٹی اہلکار شامل ہیں، جبکہ 2500 سے زائد افراد اپنے اعضائ سے محروم ہو چکے ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہمارے لاکھوں لوگ اس جنگ میں جان کی بازی ہار چکے ہیں اور اس ساری دہشتگردی کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی بھارت کر رہا ہے، کشمیر میں یا بھارت میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ بھارتی جبر کی وجہ سے ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ کشمیر ایک بین الاقوامی تسلیم شدہ تنازعہ ہے اور بھارت اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے جبر سے اندرونی مسئلہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے خبردار کیا کہ ہم امن پسند لوگ ہیں، اگر بھارت نے ہمیں اکسایا یا حملہ کیا تو ہمارا ردعمل تیز اور وحشیانہ ہوگا، حقیقت یہ ہے کہ بھارت امریکہ نہیں اور پاکستان افغانستان نہیں ہے، بھارت اسرائیل نہیں ہے اور پاکستان فلسطین نہیں ہے، پاکستان، بھارتی تسلط کے سامنے نہیں جھکے گا۔انہوں نے کہا کہ بھارت کو یہ حقیقت جتنی جلدی سمجھ آ جائے، وہ اتنا ہی علاقائی اور عالمی امن کیلئے اچھا ہوگا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بھارت پہلگام واقعے میں پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا کر کوئی بھی ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہا، نئی دہلی حکومت ان واقعات کو دہشت گردی کے بہانے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔انہوں نے جعفر ایکسپریس پر حملے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ حملہ کرنے والی بلوچ علیحدگی پسند تنظیم (بی ایل اے) نے کھلے عام بھارت سے فوجی مدد کی درخواست کی تھی، نئی دہلی میں کچھ رہنماؤں، سیاست دانوں اور ریٹائرڈ جنرلوں نے بی ایل اے کی حمایت میں بیانات دیئے تھے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید انکشاف کیا کہ حالیہ کشیدگی کے دوران پاکستان نے بھارت کے پانچ جنگی طیارے مار گرائے، جن میں تین جدید رافیل طیارے بھی شامل تھے، پوری دنیا جانتی ہے پاکستان نے بھارتی طیارے مار گرائے لیکن نئی دہلی اسے ماننے کو تیار نہیں۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: ڈی جی ا ئی ایس پی ا ر ہو چکے ہیں کہ بھارت بھارت اس رہا ہے

پڑھیں:

اب بھارت سے صرف دہشتگردی اور مقبوضہ کشمیر پر ہی بات ہونی چاہیئے

اسلام ٹائمز: ہندوستان و پاکستان دونوں طرف کے عوام اور عالمی برادری کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا مطلب صرف زمین کی آزادی نہیں، بلکہ کشمیر میں بسنے والے انسانوں کی عزت، آبرو اور زندگیوں کا بھارتی فورسز کی دہشتگردی سے تحفظ ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہد صرف کشمیر کی جغرافیائی خود مختاری کیلئے نہیں، بلکہ انسانی حقوق اور کرامت کے تحفظ کیلئے ہے۔ بھارت سے بات چیت اب صرف دہشت گردی کے موضوع پر ہونی چاہیئے، تاکہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے ظلم کا خاتمہ ہو اور کشمیریوں کو انکے بنیادی حقوق مل سکیں۔ عالمی برادری کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیئے، تاکہ مقبوضہ کشمیر میں مظلوم انسانیت کیخلاف بھارتی دہشتگردی کو روکا جا سکے۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم

بھارت سے بڑا دہشت گرد کون ہے؟ 5 اگست 2019ء کو بھارتی حکومت (بی جے پی) نے پارلیمنٹ میں آرٹیکل 370 اور 35A کو یک طرفہ طور پر منسوخ کر دیا۔ اس سے مقبوضہ کشمیر کا الگ آئین، جھنڈا اور قانون سازی کا اختیار سلب کر لیا گیا۔ بھارتی شہریوں کو مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خریدنے کی اجازت مل گئی اور بھارتی قوانین براہِ راست مقبوضہ کشمیر میں نافذ کر دیئے گئے۔ سوال یہ ہے کہ اگر بھارتی حکومت مذکورہ آرٹیکلز کو منسوخ نہ کرتی تو کیا اس سے پہلے مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم کچھ کم تھے۔؟ سچ تو یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کئی سالوں سے بھارت کا اخلاقی دیوالیہ پن سب کے سامنے عیاں ہے۔ اس سے پہلے بھی مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں فوجی تعینات تھے، آئے روز فوجی لاک ڈاؤن اور کرفیو کا دور دورہ تھا۔ مواصلاتی بلیک آؤٹ تو اُس سے بھی پہلے کا ہے۔ انٹرنیٹ، موبائل نیٹ ورکس، حتیٰ کہ لینڈ لائن سروسز بھی مہینوں بند رہتی ہیں۔

سیاسی قیادت اور دیگر سینیئر رہنماؤں کو حراست میں لینا، میڈیا پر قدغن، مقامی صحافیوں کو ہراساں کرنا اور سینسرشپ کا عائد ہونا کبھی رُکا نہیں۔ اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کی سرزمین پر بھارتی افواج کا قبضہ، غیر کشمیریوں کو زمین خریدنے کی اجازت اور ڈیموگرافک تبدیلی کو یقینی بنانا، یہ ہر دور کی بھارتی حکومت کا وطیرہ رہا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی اور مقبوضہ کشمیر کے آبی ذخائر پر ناجائز قبضہ کرکے پاکستان کا پانی بند کرنا، یہ بھی کوئی آج کی دہشت گردی نہیں۔ اقوام متحدہ نے بھارتی دہشت گردی کے خلاف کبھی تشویش کے اظہار کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی محدود پیمانے پر جو رپورٹس جاری کیں، وہ بھی بھارت جیسے دہشت گرد نے نظر انداز کر دیں۔ دوسری طرف پاکستان نے بھی ہمیشہ ایسے اقدامات کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دینے تک ہی اپنے آپ کو محدود رکھا۔

خیر پاکستان و بھارت کو ایک طرف رہنے دیجئے۔ مقبوضہ کشمیر میں آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) 1990ء اور دیگر کالے قوانین مودی سے بہت پہلے کے زمانے سے مقبوضہ کشمیر میں رائج ہیں۔ ان قوانین کے باعث بغیر وارنٹ گرفتاری، اچانک فائرنگ اور ٹارگٹ کلنگ کی اجازت، عدالتی کارروائی سے استثنائی قتل و اغوا کا ایک لامتناہی سلسلہ مقبوضہ کشمیر میں جاری ہے۔ بھارت کی دہشت گرد قابض فورسز کے ہاتھوں پیلٹ گنز (چھرے والی بندوقیں) کے استعمال سے سینکڑوں کشمیری اندھے ہوچکے ہیں اور ہزاروں افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور بے شمار خواتین کی عصمت دری کی گئی ہے۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں نہ صرف بڑے پیمانے پر سیاسی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں، بلکہ حالیہ مہینوں میں ایک نہایت تکلیف دہ مسئلہ سامنے آیا ہے، جس کی  طرف عالمی میڈیا نے توجہ نہیں دی۔ مودی حکومت نے کشمیر کی تاریخ میں سفاکیت کے ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ آزاد کشمیر کی جن خواتین کی مقبوضہ کشمیر میں شادیاں ہوئی تھیں، مودی سرکار نے اُن شادی شدہ کشمیری خواتین کو مقبوضہ کشمیر سے بے دخل کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔

حقیقتِ حال یہ ہے کہ بارڈر کے دونوں طرف کشمیری آپس میں رشتہ داریاں رکھتے ہیں اور ان کی آپس میں شادیاں ریاستی قانون کے مطابق ہوتی رہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے مردوں سے شادیاں کرنے والی خواتین کو جبری طور پر اپنے بچوں اور شوہروں سے الگ کرنے کی اجازت نہ تو کوئی قانون دیتا ہے اور نہ ہی مذہب۔ کثیر تعداد میں ایسی خواتین کو بھارت نے واپس آزاد کشمیر جانے کی اجازت بھی نہیں دی۔ کئی خواتین اس وقت بھارت کی جیلوں میں بند ہیں یا انہیں ڈی پورٹیشن مراکز میں رکھا گیا ہے یا پھر وہ لاپتہ کر دی گئی ہیں۔ بعض کیسز میں مقامی انتہاء پسند ہندو گروپوں نے خواتین کو زبردستی گھروں سے نکالا اور آرمڈ فورسز کی آشیرباد سے انہیں نامعلوم مقام پر لے گئے۔ کچھ خواتین نے عدالتوں سے رجوع کیا، مگر قومی سلامتی کے نام پر ان کی فریاد سنی نہیں گئی۔ یہی بھارت اور مودی کا اصلی چہرہ ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے محدود سطح پر آواز اٹھائی، مگر بھارت نے اسے ’’داخلی مسئلہ‘‘ قرار دے کر نظرانداز کر دیا۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستانی عوام اس دُکھ سے بالکل الگ تھلگ ہے، لوگ اسی میں خوش ہیں کہ پاکستان نے بھارت کے پچیس اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا اور سات جہازوں کو تباہ کر دیا۔ گویا جنگیں صرف فوجی میدانوں میں جیتی جاتی ہیں۔ ہماری توجہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی پر ہے ہی نہیں۔ بھارت کی جانب سے کشمیری خواتین کے حقوق کی پامالی صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے، جو انسانی وقار اور آزادی کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ لہٰذا، اگر بھارت ماتا کو ان خواتین کا وجود اتنا ناگوار گزرتا ہے، تو انہیں ایک موقع فراہم کیا جائے کہ وہ باعزت طریقے سے اپنے وطن (آزاد کشمیر) واپس لوٹ سکیں۔ اگر انہیں واپسی کا موقع نہیں دیا جاتا تو ہم انسانی بنیادوں پر مطالبہ کرتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی خواتین کو وہاں مستقل رہائش، شہریت یا خصوصی قانونی تحفظ دیا جائے، کیونکہ ان کے حقوق کو نظر انداز کرنا صرف ظلم نہیں، بلکہ  ایک عسکری،   اخلاقی اور قانونی دہشت گردی ہے۔

ہندوستان و پاکستان دونوں طرف کے عوام اور عالمی برادری کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا مطلب صرف زمین کی آزادی نہیں، بلکہ کشمیر میں بسنے والے انسانوں کی عزت، آبرو اور زندگیوں کا بھارتی فورسز کی دہشت گردی سے تحفظ ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہد صرف کشمیر کی جغرافیائی خود مختاری کے لیے نہیں، بلکہ انسانی حقوق اور کرامت کے تحفظ کے لیے ہے۔ بھارت سے بات چیت اب صرف دہشت گردی کے موضوع پر ہونی چاہیئے، تاکہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے ظلم کا خاتمہ ہو اور کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق مل سکیں۔ عالمی برادری کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیئے، تاکہ مقبوضہ کشمیر میں مظلوم انسانیت کے خلاف بھارتی دہشت گردی کو روکا جا سکے۔ میرا تمام منصف مزاج ہندوستانیوں سے بھی یہ خصوصی طور پر مطالبہ ہے کہ بھارت ماتا کے نام پر سیاست نہیں انسانیت بچائیں۔ اب بھارت سے بھارت کے اندر اور باہر ہر فورم پر بات صرف اور صرف دہشت گردی کے موضوع پر ہی ہونی چاہیئے، جی ہاں! بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی دہشت گردی۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کی جانب سے شاہین میزائل سے حملہ کرنے کا بھارتی الزام غلط ہے:ترجمان دفترخارجہ
  • بھارت نے ہمیں اکسایا یا حملہ کیا تو ہمارا ردعمل تیز اور وحشیانہ ہوگا:  ڈی جی آئی ایس پی آر
  • ہم امن پسند لوگ، بھارت نے حملہ کیا تو ہمارا ردعمل تیز اور وحشیانہ ہوگا: ترجمان پاک فوج
  • اب بھارت سے صرف دہشتگردی اور مقبوضہ کشمیر پر ہی بات ہونی چاہیئے
  • پاکستانی ردعمل کے نتائج دہائیوں تک محسوس کئے جائینگے، بھارت نے پانی روکا تو اقدامات دنیا دیکھے گی: ڈی جی آئی ایس پی آر
  • بھارتی حملے کی پیشگی اطلاع کا دعویٰ مسترد، دوبارہ ایڈونچر کیا تو بھرپور جواب دینگے: اسحاق ڈار
  • بھارت نے ہمارا پانی روکا تو ایسا ردعمل دیں گے کہ اس کے نتائج دہائیوں تک محسوس کیے جائیں گے، ترجمان پاک فوج
  • بھارت نے پانی روکا تو ہمارے ردعمل کے نتائج دہائیوں تک محسوس کیے جائیں گے ، ترجمان پاک فوج
  • بھارت پاکستان میں دہشتگردی کی سرپرستی کر رہا ہے ، ترجمان پاک فوج