پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر جاری ہے۔ یہ سیز فائر فی الحال مستقل ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ میں اس رائے سے متفق نہیں کہ کچھ دن بعد بھارت پاکستان پر دوبارہ حملہ کر دے گا۔ یہ نریندر مودی کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن مودی کے لیے فی الحال یہ بہت مشکل ہے۔ وہ اکیلے بھارت کے مالک نہیں ہیں۔ وہاں ایک نظام حکومت ہے، وہ بادشاہ نہیں ہیں۔ ان کی جماعت بی جے پی میں بھی اب اختلافات نظر آرہے ہیں۔ اس لیے وہ چاہتے ہوئے بھی دوبارہ حملہ نہیں کر سکتے۔
یہ درست ہے کہ اس شکست نے مودی کو بہت کمزور کیا ہے۔ کمزور مودی زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ لیکن ابھی مودی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ سفارتی عالمی تنہائی ہے۔ بھارت میں ایک طرف شکست کا دکھ ہے دوسری طرف یہ بحث بھی ہے کہ دنیا بھارت کے ساتھ نہیں۔ دنیا کے اہم ممالک بھارت کے ساتھ نہیں۔ دنیا نے اس جنگ میں بھارت کا ساتھ نہیں دیا ہے۔
آپ بھارت کی طرف سے دیکھیں تو انھیں امریکا بھی اپنا مخالف نظر آتا ہے، چین مخالف ہے، انھیں یورپی یونین بھی اپنا مخالف نظر آتا ہے، انھیں ترکی اور آذربائیجان سے بھی بہت گلے ہیں، انھیں عرب ممالک بھی کھل کر اپنے ساتھ نظر نہیں آئے۔ بھارت کو تو یہ بھی دکھ ہے کہ روس نے بھی متوازن پالیسی رکھی۔ روس اس طرح بھارت کے ساتھ نہیں کھڑا تھا جیسے چین پاکستان کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس لیے بھارت میں ایک طرف جنگی شکست پر ماتم ہے تو دوسری طرف سفارتی شکست پر بھی بہت ماتم ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ پر بھارت میں سخت تنقید ہو رہی ہے۔ بھارت میں انھیں ایک نالائق وزیر خارجہ کہا جا رہا ہے۔ عوامی غصہ کی وجہ سے ان کے گھر کی سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ سیکریٹری خارجہ کے خلاف بھی ایک مہم نظر آئی ہے۔ اس لیے بھارت میں ملکی خارجہ پالیسی پر بہت تنقید ہے۔ وہاں سوال ہو رہا ہے کہ کونسا ملک اس لڑائی میں علانیہ بھارت کے ساتھ کھڑا تھا۔ تمام ممالک نیوٹرل ضرور تھے لیکن کوئی بھارت کے ساتھ نہیں کھڑا تھا۔ واحد ملک جو بھارت کے ساتھ کھڑا تھا وہ اسرائیل تھا۔ بھارت میں یہ سوال ہے کہ اسرائیل کے علاوہ کوئی ساتھ نہیں تھا۔
اس لیے بھارت نے اپنی عالمی سفارتی تنہائی کو دور کرنے کے لیے ایک پارلیمانی وفد دنیا کے دورے پر بھیجنے کا اعلان کیا ہے ۔ اس پارلیمانی وفد میں بھارتی اپوزیشن جماعتوں کے نمایندے بھی شامل ہیں۔ کانگریس کے ششی تھرور اس کی قیادت کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر اپوزیشن جماعتوں کے نمایندے بھی اس وفد میں شامل ہیں۔
سب نے بھارت کے لیے جانے کا اعلان کیا ہے۔ وہاں یہ بات کی جا رہی ہے کہ یہ مودی کا نہیں بھارت کا مسئلہ ہے اس لیے ہم سب جائیں گے۔ یہ پارلیمانی وفد دنیا کے اہم ممالک کا دورہ کرے گا، وہاں کے تھنک ٹینکس سے ملے گا، میڈیا سے ملے گا، حکومتی نمایندوں سے ملے گا، ان ممالک کے پارلیمنٹیرین سے ملے گا اور کوشش کرے گا کہ نہ صرف رائے عامہ بھارت کے حق میں ہموار کی جائے بلکہ پاکستان کے خلاف اس ملک کی مکمل حمایت بھی حاصل کی جائے۔ اس طرح آپ کہہ سکتے ہیں کہ بھارت نے پاکستان پر ایک سفارتی حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ جس میں وہ دنیا کے اہم ممالک سے پاکستان کے خلاف حمایت مانگے گا۔
بھارت کی اس حکمت عملی کے جواب میں پاکستان نے بھی دنیا میں ایک پارلیمانی وفد بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ اس وفد کے بھی وہی مقاصد ہیں جو بھارتی وفد کے ہیں۔ اس نے وہی کام پاکستان کے لیے کرنا ہے۔ پاکستانی وفد کی قیادت بلاول بھٹو کر رہے ہیں۔ اس وفد میں بھی مختلف سیاسی جماعتوں کے نمایندے شامل ہیں۔ یہ بھی دنیا کے اہم ممالک کا دورہ کرے گا اور پاکستان کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کا کام کرے گا۔
دونوں جانب سے وفود بھیجنے کے اعلان سے ایک سفارتی جنگ کا ماحول بن گیا ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ اب سفارتی جنگ کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس جنگ میں پاکستان کا پلہ بھاری ہے۔ ابھی دنیا پاکستان کے ساتھ ہے۔ بھارتی وفد کاکام مشکل ہے۔ کیا بھارتی وفد دنیا سے پاکستان کے خلاف جنگ میں حمایت مانگے گا۔ یہ تو عملی طور پر ناممکن ہوگا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں بھارتی وفد اب جنگ کی بات نہیں کرے گا۔ اس کے اہداف مختلف ہونگے ہمیں ان اہداف پر نظر رکھنی ہوگی۔
بھارتی وفد دنیا کے اہم ممالک کو پاکستان سے معاشی تعاون محدود کرنے پر قائل کر سکتا ہے۔ وہ دنیا کے اہم ممالک کو پاکستان سے تجارت محدود کرنے پر کہہ سکتا ہے۔ وہ دہشت گردی کو بہانہ بناتے ہوئے پاکستان پر معاشی پابندیوں کے لیے لابنگ کرسکتا ہے۔ جیسے پہلے پاکستان کو فیٹف کی گرے لسٹ میں پھنسایا گیا تھا۔ اب بھی کوئی ایسی چال چلی جا سکتی ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کے چکر میں معاشی پابندیوں میں پھنسایا جاسکے۔ بھارتی وفد پاکستان کو معاشی طورپر کمزور کرنے کا کام کر سکتاہے۔ کیونکہ بھارت کو اندازہ ہے کہ پاکستان ایک کمزور معیشت ہے۔ اس لیے معاشی حملہ برداشت نہیں کر سکے گا۔
جواب میں پاکستانی وفد نے بھارت کی اس ساری حکمت عملی کو ناکام بنانا ہے۔ پاکستان کے معاشی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ بھارت کے دہشت گردی کے جھوٹے بیانیہ کو ناکام بناناہے۔ بھارت دہشت گردی کے جو جھوٹے الزامات پاکستان پر لگاتا ہے ان کی حقیقت دنیا کے سامنے رکھنی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت پاکستان میں جو دہشت گردی کر رہا ہے وہ بھی دنیا کے سامنے رکھنا ہے۔ بلوچ دہشت گرد تنظیموں اور بھارت کا گٹھ جوڑ بھی دنیا کے سامنے رکھنا ہے۔
اس جنگ کے بعد ہم نے افغانستان اور بھارت کے درمیان متعدد رابطے دیکھے۔ دنیا کے بجائے بھارت افغانستان پر بہت توجہ دے رہا تھا۔ بھارت کی ایک دم جنگ کے بعد افغانستان پر غیر ضروری توجہ نے پاکستان میں بھی خطرہ کی گھنٹیاں بجائی ہیں۔ ہمیں خطرہ ہوا کہ بھارت پاکستان میں حالات کو خراب کرنے کے لیے افغانستان کو مزید استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اسی لیے دنیا کو چھوڑ کر افغانستان سے بات کر رہا ہے۔ اس کو روکنے کے لیے پاکستان نے چین کی مدد لی ہے۔ چین نے بیجنگ میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا اہتمام کیا ہے۔ چین بھی اس میں موجود ہوگا۔ مقصد افغانستان کو بھارت کی گود میں جانے سے روکنا ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ ایک اچھی حکمت عملی ہے۔جب پاکستان میں امن کی بات ہو تو افغانستان کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ بھارت ماضی میں بھی افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا رہا ہے۔ اس لیے اس موقع پر افغانستان کو روکنا بہت ضروری ہے۔ اسی طرح پاکستانی وزیر اعظم ایران بھی جا رہے ہیں تا کہ خطہ میں پاکستان کی جو حمایت موجود ہے اس کو قائم رکھا جا سکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بھارت کے ساتھ نہیں دنیا کے اہم ممالک پاکستان کے خلاف پارلیمانی وفد افغانستان کو میں پاکستان پاکستان میں بھارتی وفد پاکستان پر بھارت میں سے ملے گا بھارت کی وفد دنیا بھی دنیا کھڑا تھا میں بھی رہے ہیں اس لیے کیا ہے کرے گا کے لیے
پڑھیں:
آج کا عظیم قائد
اسلام ٹائمز: حقیقت یہ ہے کہ ایران سے باہر سوشل نیٹ ورکس پر "ہیرو" کے عنوان سے شروع ہونیوالی لہر آیت اللہ خامنہ ای کیلئے ایک ایسے راستے کا آغاز ہے، جو وقت گزرنے کیساتھ ساتھ خود کو مزید نمایاں کریگا۔ کئی سال قبل امریکہ کے کارنیگی انسٹی ٹیوشن نے ایک رپورٹ میں آیت اللہ خامنہ ای کو دنیا کا طاقتور ترین رہنماء قرار دیا تھا۔ بعد ازاں، فوربس، جو کہ امریکہ اور دنیا کے سب سے مشہور اقتصادی میگزین میں سے ایک ہے، اس نے آیت اللہ خامنہ ای کو دنیا کے طاقتور ترین لیڈروں میں سے ایک کے طور پر متعارف کرایا۔ ان دنوں دنیا کے تمام تھنک ٹینکس کی نگاہیں رہبر انقلاب کی طرف مرکوز ہیں۔ تحریر: مھدی جہانتیغی
آیت اللہ خامنہ ای کو اپنی قوم اور اسرائیل کے خلاف برسوں سے مزاحمت کا سلسلہ جاری رکھنے والے گروہوں اور اداروں کی حمایت کے حوالے سے ایک طاقتور اور دلیر رہنماء تصور کیا جاتا ہے۔ اسرائیل کی ایران کے خلاف 12 روزہ جنگ کے بعد کیے گئے حالیہ سروے میں عام لوگوں میں بھی ان کی مقبولیت اور ان پر فخر کرنے کے احساس کا گراف بلند ہوا ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں میں کہا گیا ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای اپنے لوگوں کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ ہیرو بن کر سامنے آئے ہیں۔ رائے عامہ کی نظر میں انھوں نے 35 سال تک مختلف جہتوں میں نہ صرف امریکہ اور اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی ہے، بلکہ ان بارہ دنوں میں اعلیٰ فوجی سطح پر اسرائیل و امریکہ کو حقیقی جنگ میں شکست دی ہے۔ جیسا کہ امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ نے کئی سال پہلے لکھا تھا "ایران میں امریکہ کا سب سے بڑا مسئلہ آیت اللہ خامنہ ای کے نام سے ایک "سپر مخالف" کی موجودگی ہے، جو عالمی سیاست کے روڈ میپ کو جانتا ہے اور لوگوں کا اس پر مکمل یقین کے ساتھ بھروسہ ہے۔"
حالیہ برسوں میں، آیت اللہ خامنہ ای، کشمیر اور پاکستان سے لے کر بحرین، کویت، عراق، فلسطین اور لبنان تک، عالم اسلام کے مختلف حصوں میں ہمیشہ توجہ اور دلچسپی کا موضوع رہے ہیں، لیکن پچھلے چند سالوں میں جیسے جیسے اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ ایران کی جنگیں زیادہ واضح ہوئی ہیں، یورپ اور امریکہ کے دیگر عرب، افریقی اور مسلم ممالک میں بھی رہبر انقلاب کی طرف توجہ کی سطح میں اضافہ ہوا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای کی طرف سے فلسطینی عوام کے مخلصانہ دفاع نے عالم اسلام کے بہت سے دلوں کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ تاہم رہبر انقلاب نے اسرائیل اور امریکہ کے خلاف حالیہ جنگ میں جس غیر معمولی جرأت کا مظاہرہ کیا، اس نے ان کی مقبولیت کو اسلامی دنیا میں بالخصوص اور عالمی برادری میں بالعموم عروج پر پہنچا دیا ہے۔
دنیا انہیں ایک ہیرو کی طور پر دیکھ رہی ہے۔ ایک ایسے دور میں جب بہت سے حکام سفارتی عہدوں پر بھی اسرائیل اور امریکہ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے، وہاں آیت اللہ خامنہ ای نے عین الاسد اور العدید کے امریکی اڈوں پر ایرانی میزائل حملے کرنے کے فوجی احکامات دیکر رائے عامہ کا دل جیت لیا ہے۔ اسی طرح اسرائیل پر "وعدہ صادق 1 ، 2" 3" اور بشارت الفتح" کے نام پر حملے کرکے اپنی جرأت کا لوہا منوا لیا ہے۔صیہونی حکومت نے ایران پر حملہ کرکے اور پھر امریکہ نے اس جنگ میں داخل ہو کر اسلامی جمہوریہ کو عالم اسلام سے باہر بھی عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ جب دنیا اس عظیم مہم کو دیکھ رہی تھی، آیت اللہ خامنہ ای اس جنگ کے جواب میں نہ صرف پیچھے نہیں ہٹے بلکہ جیسا کہ انھوں نے پہلے وعدہ کیا تھا، انھوں نے حیفا اور تل ابیب کو نشانہ بنانے کا حکم جاری کیا، اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے قطر میں امریکی اڈے کو بھی نشانہ بنانے کے احکامات جاری کئے۔
دو ایٹمی قوتوں کے مقابلے میں آیت اللہ خامنہ ای کی جرأت دنیا اور عالمی رائے عامہ کے وسیع حلقوں کے لیے قابل تعریف تھی، جس کی وجہ سے صیہونی حکومت کی مجرمانہ تصویر طوفان الاقصی کے بعد پہلے کے مقابلے میں بتدریج اور زیادہ وسیع اور گہری ہوتی جا رہی ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای کے بین الاقوامی ہیرو بننے کی نشانیاں حالیہ واقعات کے بعد واضح طور پر نظر آرہی ہیں۔ واضح مثال کے طور پر، ایک مشہور کوریائی اداکارہ، گلوکارہ اور انفلوئنسر جیہن نے ایک مہم انسٹاگرام پر شروع کی ہے، جس میں رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کو انقلاب کا "ہیرو" کہا گیا اور بہت سے غیر ملکی صارفین اسے بار بار پوسٹ کر رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ایران سے باہر سوشل نیٹ ورکس پر "ہیرو" کے عنوان سے شروع ہونے والی لہر آیت اللہ خامنہ ای کے لیے ایک ایسے راستے کا آغاز ہے، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خود کو مزید نمایاں کرے گا۔ کئی سال قبل امریکہ کے کارنیگی انسٹی ٹیوشن نے ایک رپورٹ میں آیت اللہ خامنہ ای کو دنیا کا طاقتور ترین رہنماء قرار دیا تھا۔ بعد ازاں، فوربس، جو کہ امریکہ اور دنیا کے سب سے مشہور اقتصادی میگزین میں سے ایک ہے، اس نے آیت اللہ خامنہ ای کو دنیا کے طاقتور ترین لیڈروں میں سے ایک کے طور پر متعارف کرایا۔ ان دنوں دنیا کے تمام تھنک ٹینکس کی نگاہیں رہبر انقلاب کی طرف مرکوز ہیں۔