اللہ خیر کرے I Love Pakistan
اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آج کل امریکی صدر دونلڈ ٹرمپ پاکستان پر بہت مہربان نظر آرہے ہیں۔ ایک انڈین چینل پر ایک تجزیہ نگار کہہ رہے تھے ٹرمپ 17 مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان سیز فائر کرادیا اس نے کہا کہ یہاں تک ہوا کہ جب نریندر مودی کے ترجمان مسری نے بیان دیا کہ مودی کی ٹرمپ سے آدھا گھنٹہ فون پر بات ہوئی ہے اور انہوں نے ٹرمپ کو کہہ دیا کہ ہمیں کشمیر کے مسئلے پر کسی ثالث کی ضرورت نہیں اور سیز فائر کی درخواست ہم سے پاکستان کے ڈی جی ایم اوز نے کی تھی پھر سیز فائر ہوا ہے انڈین تجزیہ نگار نے کہا مودی جی کے ترجمان کے اس بیان کے ٹھیک پندرہ منٹ بعد پھر ٹرمپ کا یہ بیان آتا ہے کہ ہم نے پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر کرایا ہے اور پاکستان کے آرمی چیف عاصم منیر نے ہماری بات مان لی اسی لیے ہم نے ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے انہیں لنچ پر بلایا ہے۔ پھر یہ جو تاریخی ملاقات جو آدھے گھنٹے سے بڑھ کر دو گھنٹے تک ہوئی اس نے پورے ہندوستان کھلبلی مچادی وہاں غم غصے کی لہر دوڑ گئی ایک تو شکست کا غم دوسرے امریکی صدر کے اس بیانیے کی تکرار نے بھارتی حکمرانوں اور میڈیا اس غم کو دہرا کردیا۔ پھر کسی موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ کہہ دیا کہ آئی لو پاکستان اس محبت بھرے جملے نے ہمیں بھی کچھ چونکا سا دیا۔
ہمارے چار مشہور مسالک کے ائمہ کرام گزرے ہیں ان ہی میں سے کسی کے پاس وقت کے خلیفہ نے سونے چاندی اور اشرفیوں بھری تھیلی بطور تحفہ بھیجی آپ اسے دیکھ کر رو پڑے اور کہا کہ اے اللہ پہلے کوڑوں کی آزمائش تو قابل برداشت تھی یہ توڑوں کی آمائش تو اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ یعنی جب کوئی امریکی صدر پاکستانی سربراہ مملکت کو فون کر کے یہ کوڑا برسائے کہ تمہیں ہمارا ساتھ دینا ہوگا ورنہ ہم تمہیں پتھر کے دور میں پہنچا دیں گے تو پاکستانی سربراہ اس فون کال پر لیٹ جاتا ہے اور پھر اس کوڑوں کی آزمائش سے ہمارا ملک گزر تو جاتا ہے لیکن اس کے جو خوفناک منفی اثرات ہیں وہ ابھی تک پاکستان کی جان کا روگ بنے ہوئے ہیں۔ اب یہ امریکی صدر کے محبت بھرے جملے باہمی تجارت کی لالچ یعنی ہمارے لیے کوڑوں کے بجائے توڑوں کی آزمائش دیکھیے کیا گل کھلاتی ہے۔ ایک دفعہ امریکا کے سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ امریکا کی دشمنی بہت خطرناک ہے لیکن امریکا کی دوستی اس سے زیادہ خطرناک ہے۔ اگر ہم شروع سے پاکستان اور امریکا تعلقات کے اتار چڑھائو کا جائزہ لیں تو وہ ادوار جس میں امریکا اور پاکستان کے درمیان کھچائو اور تنائو کی کیفیت رہی ہے کچھ پرسکون دور تھا اور وہ دور جو امریکا کی محبت میں گزرا سخت ٹینشن والا دور رہا ہے۔ مشہور شاعر افتخار عارف کا ایک شعر ہے۔ مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے؍ وہ قرض بھی اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے۔ اس شعر میں آپ لفظ مٹی کی جگہ امریکا لکھ دیں تو آپ کے سامنے اس ایک شعر میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے اتار چڑھائو کی پوری داستان سمٹ کر سامنے آجائے گی۔
وزیر اعظم لیاقت علی کے دور میں روس نے پاکستانی وزیر اعظم کو اپنے یہاں دورے کی دعوت دی جو ہمارے وزیر اعظم نے قبول کرلی اور دورے کی تیاریاں ہونے لگیں۔ پاکستان ایک نوزائیدہ مملکت تھی اس لیے اسے اپنی بقا اور استحکام کے لیے ضروری تھا کہ دنیا کی بڑی طاقتوں سے دوستانہ تعلقات قائم کیے جائیں اسی تناظر میں روس کے دورے کی تیاری ہورہی تھی کہ اسی اثناء میں امریکا نے پاکستانی وزیر اعظم کو اپنے یہاں دورے کی دعوت دے دی اور دورے کی ٹائمنگ وہی تھی جو روس کے دورے کی تھی حالانکہ امریکا چاہتا تو یہ بھی ہوسکتا تھا کہ روس کے دورے کے بعد اپنے یہاں بلا لیتا۔ اب پاکستان کے سامنے یہ مسئلہ آگیا کہ اگر امریکا کی دعوت مسترد کرکے وعدے کے مطابق روس جاتے ہیں تو امریکا ناراض ہوجائے گا اور اگر امریکا کی دعوت قبول کرکے روس کا دورہ کینسل کرتے ہیں تو روس ناراض ہو جائے گا۔ بہت سوچ بچار کے بعد پاکستان نے روس کو چھوڑ کر امریکا جانے کا فیصلہ کیا۔ پھر امریکا کی اس دوستی اور محبت میں ہم نے روس کو ناراض کردیا۔
بات اگر یہیں تک رکتی تو پھر بھی غنیمت تھا ہم نے امریکا کے اشتراکیت کے خلاف بنائے ہوئے بلاکس سینٹو اور سیٹو میں امریکا کے کہنے اور اس کی خوشنودی کے حصول کی خاطر شرکت اختیار کرلی امریکا سے محبت کی ایک سیڑھی اور پھلانگ لی اور اس کے نتیجے میں روس سے دوری مخالفت میں تبدیل ہوگئی۔ پھر ہم محبت میں مزید آگے بڑھے اور امریکا کو اپنے یہاں بڈھ بیڑ کا اڈہ دے دیا روس سے مخالفت اس واقع کے بعد مخاصمت میں بدل گئی پھر ایک دن یہ ہوا کہ بڈھ بیڑ کے اڈے سے اڑنے والا امریکا کا جاسوسی طیارہ روس میں مار گرایا گیا۔ اس کے نتیجے میں روس سے دوری پھر مخالفت، پھر مخاصمت اب نفرت اور دشمنی کا روپ دھار گئی اور روسی سربراہ نے پاکستان کے نقشے میں پشاور پر لال سیاہی سے گول دائرہ بنادیا کہ اس سے بدلہ لینا ہے۔ اسی دوران روس اور بھارت کا ایک بیس سالہ دفاعی معاہدہ ہوتا ہے کہ ہندوستان پر حملہ روس پر حملہ تصور کیا جائے گا اور اسی طرح روس پر حملہ ہندوستان پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ جب 1965 کی پاک بھارت جنگ ہوئی تو روس نے بھر پور انداز میں بھارت کا ساتھ دیا اس وقت ہم پوری طرح امریکا کی گود میں تھے لیکن اس جنگ میں امریکا نے پاکستان کا ساتھ نہیں دیا یہاں تک کہ اسلحہ اور اس کے پرزے تک یہ کہہ کر روک لیے کہ سینٹو اور سیٹو کا معاہدہ اشتراکی ممالک کے خلاف جنگ کے حوالے سے ہے امریکا کی دوستی اور دغا ساتھ ساتھ چلتی ہے۔
1978 میں جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو پوری دنیا میں عام خیال یہ تھا کہ افغانستان تو بہانہ ہے پاکستان نشانہ ہے اور گرم پانیوں تک پہنچنا ہی اس کا اصل مقصد ہے۔ افغان مجاہدین نے روس کے خلاف جہاد کا آغاز کیا پاکستان نے افغانستان کی اخلاقی، سیاسی اور عسکری مدد فراہم کی جب امریکا نے یہ دیکھا کہ پاکستان نے افغان مجاہدین کے ذریعے روس کو افغانستان کے پہاڑوں میں مقید کردیا ہے تو وہ بھی اپنا قرض چکانے کے لیے پاکستان کی عملی مدد کو آگیا اس وقت امریکا کو لفظ جہاد بہت اچھا لگتا تھا تمام مسلم ممالک سے روس کے خلاف مسلمان افغانستان جہاد کرنے آئے یہ الگ بات ہے کہ جب تک انہوں نے روس کے خلاف جنگ کی تو وہ جہادی کہلائے اور روس شکست کھا کر چلا گیا تو وہی جہادی امریکا کی نظر میں دہشت گرد ہوگئے۔ امریکا کی محبت میں افغان وار میں پاکستان کو چالیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو بوجھ برداشت کرنا پڑا اور یہ مہاجرین آج تک پاکستان کے لیے ایک مسئلہ بنے ہوئے ہیں اسی دوران ہمارے ملک کے نوجوانوں کے ہاتھ میں کلاشنکوف پکڑادی گئی اور انہیں ہیروئن کے نشے میں ڈبو دیا گیا۔ ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر نے پاکستان کے اخلاقی، سیاسی اور سماجی اسٹرکچر کو تباہ کرکے رکھ دیا اس کی بڑی درد ناک داستان ہے اور اس درد کی ٹیسیں ابھی تک محسوس ہورہی ہیں۔
.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پاکستان اور میں امریکا پاکستان کے نے پاکستان امریکی صدر امریکا کی اپنے یہاں امریکا کے سیز فائر دورے کی کی دعوت پر حملہ جائے گا کے خلاف کے دور کے لیے ہے اور دیا کہ اور اس روس کے تھا کہ
پڑھیں:
اوول آفس کی سفارت کاری: بدلتا ہوا عالمی منظرنامہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251003-03-3
ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی
پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے بین الاقوامی سیاست میں ایک اہم موڑ پر رہے ہیں۔ حالیہ امریکی دورہ اس تناظر میں نہایت اہمیت کا حامل ہے، جب وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اوول آفس میں تفصیلی ملاقات کی۔ اس ملاقات نے سفارتی دنیا میں ایک نئی ہلچل پیدا کر دی ہے کیونکہ دو دنوں میں یہ تیسری باضابطہ ملاقات تھی، جو اپنے اندر کئی پہلو لیے ہوئے ہے۔ ملاقات کا دورانیہ اسّی منٹ سے زائد رہا اور ماحول میں غیر معمولی گرم جوشی اور باہمی احترام نمایاں نظر آیا۔ صدر ٹرمپ نے پاکستانی وزیراعظم کو ’’شاندار شخصیت‘‘ اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کو ’’بہترین انسان‘‘ قرار دے کر تعلقات کو ایک نیا رنگ دیا۔ اس طرح کی غیر معمولی تعریفیں عمومی طور پر سفارتی محفلوں میں کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔
پاکستان اور امریکا کے تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو یہ سفر ہمیشہ اُتار چڑھاؤ کا شکار رہا ہے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی دونوں ملکوں کے مابین تعلقات قائم ہوئے اور سرد جنگ کے دور میں پاکستان نے امریکا کا بھرپور ساتھ دیا۔ 1950 کی دہائی میں سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدے پاکستان کو امریکی بلاک کا لازمی حصہ بنا گئے۔ تاہم، 1971 کی جنگ اور بنگلا دیش کے قیام کے بعد پہلی بار اس رشتے میں واضح دراڑیں آئیں۔ اس کے برعکس 1980 کی دہائی میں افغانستان میں سوویت افواج کے خلاف جنگ نے ایک بار پھر امریکا اور پاکستان کو قریب کر دیا اور یہ دور تعلقات کی نئی بلندیوں کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن 1990 کی دہائی میں پابندیوں نے پاکستان کو تنہا کر دیا۔ پھر 2001 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ نے دونوں ملکوں کو دوبارہ قریب کیا، مگر اعتماد کا فقدان ہمیشہ آڑے آتا رہا۔ 2011 میں ایبٹ آباد آپریشن نے خلیج کو مزید بڑھا دیا۔ آج کا دور اسی تاریخی تسلسل کی نئی قسط معلوم ہوتا ہے، جہاں باہمی مفادات ایک بار پھر دونوں کو قریب لانے پر مجبور کر رہے ہیں۔
حالیہ امریکی دورہ کئی محرکات کا حامل ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد سلامتی کے نئے خطرات نے امریکا کو مجبور کیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعاون بڑھایا جائے۔ دوسری طرف پاکستان اور بھارت کے درمیان مئی 2025 کی چار روزہ جنگ نے خطے میں طاقت کا توازن بدل دیا ہے۔ اس جنگ کے دوران امریکی صدر ٹرمپ نے خود کو ثالثی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی اور آج کی ملاقات اسی تسلسل کی کڑی سمجھی جا رہی ہے۔ اقتصادی پہلو بھی اس ملاقات میں نمایاں رہے۔ پاکستان کو شدید معاشی بحران کا سامنا ہے اور وزیراعظم نے امریکی کمپنیوں کو توانائی، معدنیات اور زراعت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔ اس کے بدلے میں امریکا پاکستان کو چین کے بڑھتے اثر رسوخ سے الگ رکھنے کی کوشش کرتا دکھائی دیتا ہے۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر کی موجودگی نے ملاقات کو مزید اہم بنا دیا۔ ان کی شمولیت اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ پاکستان کا فوجی ادارہ اب بھی خارجہ پالیسی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے اسے ’’ہائبرڈ نظام کی پارٹنرشپ‘‘ سے تعبیر کیا، جو پاکستان کے داخلی سیاسی ڈھانچے کی حقیقت کو بیان کرتا ہے۔ ماضی میں بھی امریکی حکام ہمیشہ پاکستانی فوجی قیادت سے قریبی تعلقات رکھتے آئے ہیں، لیکن اس بار فیلڈ مارشل کا براہِ راست اور نمایاں کردار مستقبل کی نئی سمت کی نشان دہی کرتا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے امور پر بھی اس ملاقات کے دوران اہم گفتگو ہوئی۔ صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیل کو مغربی کنارے پر قبضے کی اجازت نہیں دیں گے اور غزہ میں جنگ بندی جلد ممکن ہے۔ انہوں نے قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کی بھی امید ظاہر کی۔ یہ بیانات امریکا کی مشرق وسطیٰ پالیسی میں تبدیلی کے اشارے سمجھے جا رہے ہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ترکی کے صدر رجب طیب اردوان بھی انہی امن کوششوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ پاکستان نے فلسطینی عوام کے حق ِ خود ارادیت پر اپنی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا اور وزیراعظم شہباز شریف نے صدر ٹرمپ پر زور دیا کہ وہ اس مسئلے کے حل میں فعال کردار ادا کریں۔
علاقائی جغرافیائی سیاست کے تناظر میں یہ ملاقات اور بھی زیادہ اہم ہو جاتی ہے۔ بھارت کے ساتھ امریکا کے گہرے تعلقات کسی سے پوشیدہ نہیں، لیکن پاکستان کے ساتھ اس نئی گرم جوشی کو اس بات کا ثبوت سمجھا جا رہا ہے کہ واشنگٹن جنوبی ایشیا میں توازن قائم رکھنا چاہتا ہے۔ مئی کی جنگ میں پاکستان کی فوجی کارکردگی نے اسے خطے میں ایک مؤثر قوت کے طور پر منوایا ہے اور امریکا اب اس حقیقت کو تسلیم کرتا دکھائی دیتا ہے۔ چین کے ساتھ پاکستان کی قربت اور سی پیک جیسے منصوبے امریکا کے لیے ہمیشہ سے تشویش کا باعث رہے ہیں۔ اس لیے امریکا کی کوشش ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری لا کر چین کے اثر کو کم کیا جائے۔
مستقبل کے امکانات کا تجزیہ کیا جائے تو امیدیں بھی ہیں اور چیلنجز بھی۔ اقتصادی تعاون اور سرمایہ کاری پاکستان کے لیے نئی راہیں کھول سکتی ہیں۔ دفاعی شعبے میں معلومات کے تبادلے سے خطے میں دہشت گردی کے خطرات کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ لیکن داخلی سیاسی عدم استحکام، بھارت کے ساتھ کشیدگی اور افغانستان کی غیر یقینی صورتحال ان تعلقات کو کمزور بھی کر سکتی ہے۔ مزید یہ کہ امریکا کی اندرونی سیاست، خاص طور پر آئندہ انتخابات، بھی ان تعلقات کے مستقبل پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں۔
کہا جا سکتا ہے کہ حالیہ امریکی دورہ پاکستان کے لیے سفارتی طور پر نہایت اہم ثابت ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ کی غیر معمولی تعریفیں اور اوول آفس کی گرم جوش فضا اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ دونوں ممالک ایک بار پھر قریبی تعاون کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ تاہم، اس عمل کی کامیابی کا انحصار صرف امریکا اور پاکستان کی سیاسی قیادت پر نہیں بلکہ خطے کے بدلتے ہوئے حالات اور عالمی طاقتوں کے باہمی تعلقات پر بھی ہے۔ اگر پاکستان اپنی خود مختاری کو برقرار رکھتے ہوئے امریکا کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم کرنے میں کامیاب رہا تو یہ نئی سفارتی کاوشیں خطے میں امن اور استحکام کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ بصورت دیگر، یہ ملاقاتیں بھی ماضی کے واقعات کی طرح تاریخ کے اوراق میں محض ایک یادگار بن کر رہ جائیں گی۔