Jasarat News:
2025-07-04@04:14:27 GMT

اللہ خیر کرے I Love Pakistan

اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

آج کل امریکی صدر دونلڈ ٹرمپ پاکستان پر بہت مہربان نظر آرہے ہیں۔ ایک انڈین چینل پر ایک تجزیہ نگار کہہ رہے تھے ٹرمپ 17 مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان سیز فائر کرادیا اس نے کہا کہ یہاں تک ہوا کہ جب نریندر مودی کے ترجمان مسری نے بیان دیا کہ مودی کی ٹرمپ سے آدھا گھنٹہ فون پر بات ہوئی ہے اور انہوں نے ٹرمپ کو کہہ دیا کہ ہمیں کشمیر کے مسئلے پر کسی ثالث کی ضرورت نہیں اور سیز فائر کی درخواست ہم سے پاکستان کے ڈی جی ایم اوز نے کی تھی پھر سیز فائر ہوا ہے انڈین تجزیہ نگار نے کہا مودی جی کے ترجمان کے اس بیان کے ٹھیک پندرہ منٹ بعد پھر ٹرمپ کا یہ بیان آتا ہے کہ ہم نے پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر کرایا ہے اور پاکستان کے آرمی چیف عاصم منیر نے ہماری بات مان لی اسی لیے ہم نے ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے انہیں لنچ پر بلایا ہے۔ پھر یہ جو تاریخی ملاقات جو آدھے گھنٹے سے بڑھ کر دو گھنٹے تک ہوئی اس نے پورے ہندوستان کھلبلی مچادی وہاں غم غصے کی لہر دوڑ گئی ایک تو شکست کا غم دوسرے امریکی صدر کے اس بیانیے کی تکرار نے بھارتی حکمرانوں اور میڈیا اس غم کو دہرا کردیا۔ پھر کسی موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ کہہ دیا کہ آئی لو پاکستان اس محبت بھرے جملے نے ہمیں بھی کچھ چونکا سا دیا۔
ہمارے چار مشہور مسالک کے ائمہ کرام گزرے ہیں ان ہی میں سے کسی کے پاس وقت کے خلیفہ نے سونے چاندی اور اشرفیوں بھری تھیلی بطور تحفہ بھیجی آپ اسے دیکھ کر رو پڑے اور کہا کہ اے اللہ پہلے کوڑوں کی آزمائش تو قابل برداشت تھی یہ توڑوں کی آمائش تو اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ یعنی جب کوئی امریکی صدر پاکستانی سربراہ مملکت کو فون کر کے یہ کوڑا برسائے کہ تمہیں ہمارا ساتھ دینا ہوگا ورنہ ہم تمہیں پتھر کے دور میں پہنچا دیں گے تو پاکستانی سربراہ اس فون کال پر لیٹ جاتا ہے اور پھر اس کوڑوں کی آزمائش سے ہمارا ملک گزر تو جاتا ہے لیکن اس کے جو خوفناک منفی اثرات ہیں وہ ابھی تک پاکستان کی جان کا روگ بنے ہوئے ہیں۔ اب یہ امریکی صدر کے محبت بھرے جملے باہمی تجارت کی لالچ یعنی ہمارے لیے کوڑوں کے بجائے توڑوں کی آزمائش دیکھیے کیا گل کھلاتی ہے۔ ایک دفعہ امریکا کے سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ امریکا کی دشمنی بہت خطرناک ہے لیکن امریکا کی دوستی اس سے زیادہ خطرناک ہے۔ اگر ہم شروع سے پاکستان اور امریکا تعلقات کے اتار چڑھائو کا جائزہ لیں تو وہ ادوار جس میں امریکا اور پاکستان کے درمیان کھچائو اور تنائو کی کیفیت رہی ہے کچھ پرسکون دور تھا اور وہ دور جو امریکا کی محبت میں گزرا سخت ٹینشن والا دور رہا ہے۔ مشہور شاعر افتخار عارف کا ایک شعر ہے۔ مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے؍ وہ قرض بھی اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے۔ اس شعر میں آپ لفظ مٹی کی جگہ امریکا لکھ دیں تو آپ کے سامنے اس ایک شعر میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے اتار چڑھائو کی پوری داستان سمٹ کر سامنے آجائے گی۔
وزیر اعظم لیاقت علی کے دور میں روس نے پاکستانی وزیر اعظم کو اپنے یہاں دورے کی دعوت دی جو ہمارے وزیر اعظم نے قبول کرلی اور دورے کی تیاریاں ہونے لگیں۔ پاکستان ایک نوزائیدہ مملکت تھی اس لیے اسے اپنی بقا اور استحکام کے لیے ضروری تھا کہ دنیا کی بڑی طاقتوں سے دوستانہ تعلقات قائم کیے جائیں اسی تناظر میں روس کے دورے کی تیاری ہورہی تھی کہ اسی اثناء میں امریکا نے پاکستانی وزیر اعظم کو اپنے یہاں دورے کی دعوت دے دی اور دورے کی ٹائمنگ وہی تھی جو روس کے دورے کی تھی حالانکہ امریکا چاہتا تو یہ بھی ہوسکتا تھا کہ روس کے دورے کے بعد اپنے یہاں بلا لیتا۔ اب پاکستان کے سامنے یہ مسئلہ آگیا کہ اگر امریکا کی دعوت مسترد کرکے وعدے کے مطابق روس جاتے ہیں تو امریکا ناراض ہوجائے گا اور اگر امریکا کی دعوت قبول کرکے روس کا دورہ کینسل کرتے ہیں تو روس ناراض ہو جائے گا۔ بہت سوچ بچار کے بعد پاکستان نے روس کو چھوڑ کر امریکا جانے کا فیصلہ کیا۔ پھر امریکا کی اس دوستی اور محبت میں ہم نے روس کو ناراض کردیا۔
بات اگر یہیں تک رکتی تو پھر بھی غنیمت تھا ہم نے امریکا کے اشتراکیت کے خلاف بنائے ہوئے بلاکس سینٹو اور سیٹو میں امریکا کے کہنے اور اس کی خوشنودی کے حصول کی خاطر شرکت اختیار کرلی امریکا سے محبت کی ایک سیڑھی اور پھلانگ لی اور اس کے نتیجے میں روس سے دوری مخالفت میں تبدیل ہوگئی۔ پھر ہم محبت میں مزید آگے بڑھے اور امریکا کو اپنے یہاں بڈھ بیڑ کا اڈہ دے دیا روس سے مخالفت اس واقع کے بعد مخاصمت میں بدل گئی پھر ایک دن یہ ہوا کہ بڈھ بیڑ کے اڈے سے اڑنے والا امریکا کا جاسوسی طیارہ روس میں مار گرایا گیا۔ اس کے نتیجے میں روس سے دوری پھر مخالفت، پھر مخاصمت اب نفرت اور دشمنی کا روپ دھار گئی اور روسی سربراہ نے پاکستان کے نقشے میں پشاور پر لال سیاہی سے گول دائرہ بنادیا کہ اس سے بدلہ لینا ہے۔ اسی دوران روس اور بھارت کا ایک بیس سالہ دفاعی معاہدہ ہوتا ہے کہ ہندوستان پر حملہ روس پر حملہ تصور کیا جائے گا اور اسی طرح روس پر حملہ ہندوستان پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ جب 1965 کی پاک بھارت جنگ ہوئی تو روس نے بھر پور انداز میں بھارت کا ساتھ دیا اس وقت ہم پوری طرح امریکا کی گود میں تھے لیکن اس جنگ میں امریکا نے پاکستان کا ساتھ نہیں دیا یہاں تک کہ اسلحہ اور اس کے پرزے تک یہ کہہ کر روک لیے کہ سینٹو اور سیٹو کا معاہدہ اشتراکی ممالک کے خلاف جنگ کے حوالے سے ہے امریکا کی دوستی اور دغا ساتھ ساتھ چلتی ہے۔
1978 میں جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو پوری دنیا میں عام خیال یہ تھا کہ افغانستان تو بہانہ ہے پاکستان نشانہ ہے اور گرم پانیوں تک پہنچنا ہی اس کا اصل مقصد ہے۔ افغان مجاہدین نے روس کے خلاف جہاد کا آغاز کیا پاکستان نے افغانستان کی اخلاقی، سیاسی اور عسکری مدد فراہم کی جب امریکا نے یہ دیکھا کہ پاکستان نے افغان مجاہدین کے ذریعے روس کو افغانستان کے پہاڑوں میں مقید کردیا ہے تو وہ بھی اپنا قرض چکانے کے لیے پاکستان کی عملی مدد کو آگیا اس وقت امریکا کو لفظ جہاد بہت اچھا لگتا تھا تمام مسلم ممالک سے روس کے خلاف مسلمان افغانستان جہاد کرنے آئے یہ الگ بات ہے کہ جب تک انہوں نے روس کے خلاف جنگ کی تو وہ جہادی کہلائے اور روس شکست کھا کر چلا گیا تو وہی جہادی امریکا کی نظر میں دہشت گرد ہوگئے۔ امریکا کی محبت میں افغان وار میں پاکستان کو چالیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو بوجھ برداشت کرنا پڑا اور یہ مہاجرین آج تک پاکستان کے لیے ایک مسئلہ بنے ہوئے ہیں اسی دوران ہمارے ملک کے نوجوانوں کے ہاتھ میں کلاشنکوف پکڑادی گئی اور انہیں ہیروئن کے نشے میں ڈبو دیا گیا۔ ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر نے پاکستان کے اخلاقی، سیاسی اور سماجی اسٹرکچر کو تباہ کرکے رکھ دیا اس کی بڑی درد ناک داستان ہے اور اس درد کی ٹیسیں ابھی تک محسوس ہورہی ہیں۔

 

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پاکستان اور میں امریکا پاکستان کے نے پاکستان امریکی صدر امریکا کی اپنے یہاں امریکا کے سیز فائر دورے کی کی دعوت پر حملہ جائے گا کے خلاف کے دور کے لیے ہے اور دیا کہ اور اس روس کے تھا کہ

پڑھیں:

مسئلہ کشمیر میں امریکی دلچسپی: چند تاریخی حقائق

اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب ، عاصم افتخار احمد ، نے ایک انٹرویو میں کہا ہے :’’ مسئلہ کشمیر (تازہ پاک بھارت جنگ کے بعد) پھر (عالمی سطح پر) زندہ ہو گیا ہے‘‘۔ لاریب!حالیہ 6تا 10مئی2025 کی مختصر مگرنتیجہ خیز پانچ روزہ جنگ میں واضح طور پر پانسہ پاکستان کے حق میں پلٹا رہا ۔بھارت مگر ڈھٹائی سے مان نہیں رہا ۔

’’انڈیا ٹوڈے‘‘ سے وابستہ نامور بھارتی اخبار نویس ،سرڈیسائی راجدیپ، نے صاف الفاظ میں اعتراف کیا ہے کہ تازہ پاک بھارت جنگ میں پاکستان نے بھارت کے جنگی طیارے مار گرائے ، لیکن اِن کی تعداد کتنی تھی ، یہ نہیں معلوم ۔ بھارت نے اپنی جنگی شکست کو سفارتی فتح میں بدلنے کے لیے اپنے 7سفارتی وفود( جن میں51سیاستدان شامل تھے اور اِن کی قیادت کانگریس کے ششی تھرور کررہے تھے) دُنیا  بھر میں بھجوائے، بات مگر پھر بھی نہیں بنی ۔

مودی حکومت اور کئی بھارتی سیاستدان اِس بات پر نالاں اور ناراض ہیں کہ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، یہ دعویٰ کیوں کرتے ہیں کہ حالیہ پاک بھارت جنگ امریکا نے رکوائی۔ اپنے ووٹروں اور سپورٹروں کا دل رکھنے اور لبھانے کے لیے بھارتی نیتاؤں کا دعویٰ ہے (اور غلط دعویٰ ہے) کہ یہ پاکستانی DGMOتھے جنھوں نے بھارتی DGMOسے ، عین جنگ کے دوران، رابطہ کیا اور یوں دونوں ممالک میں ، افہام و تفہیم سے، سیز فائر ہو گیا ۔ حقائق مگر واضح ہیں کہ پاکستانی افواج کے ہاتھوں عبرتناک شکست دیکھ کر بھارت نے امریکا سے رابطہ کیا اور جنگ بندی کی درخواست کی ۔

بھارت،ایک وسیع ایجنڈے کے تحت، مگر یہ ماننے سے انکاری ہے کہ کسی تیسرے فریق نے ( موثر) بیچ بچاؤ کرتے ہُوئے پاکستان اور بھارت میں جنگ بندی کروائی۔ بھارتی اپوزیشن پارٹی، کانگریس، بڑھ چڑھ کر مقتدر بی جے پی کے لتّے لے رہی ہے کہ جنگ بندی کے لیے تھرڈ پارٹی ( امریکا) کا دباؤ کیوں قبول کیا ؟ مثال کے طور پر انڈین نیشنل کانگریس کے جنرل سیکریٹری اور رکن پارلیمنٹ، جئے رام رمیش، نے کہا :’’ بھارتی ارکانِ پارلیمنٹ کا فُل ہاؤس اجلاس ، وزیر اعظم نریندر مودی کے زیر صدارت، بلانا چاہیے اور پوچھا جانا چاہیے کہ پاک بھارت جنگ بندی اور امریکی صدر (ڈونلڈ ٹرمپ)کا یہ دعویٰ کہ مَیں کشمیر پر بھی پاکستان اور بھارت کو اکٹھا کروں گا، در حقیقت بھارت اور امریکا کے درمیان کیا کھچڑی پک رہی ہے؟ ‘‘ جئے رام رمیش نے مزید مطالبہ کیا:’’ ہمیں مودی حکومت اور مقتدر بی جے پی بتائے کہ آپریشن سندور کا نتیجہ کیا نکلا؟ پہلگام کے ذمے داران کی گرفتاریوں کا کیا بنا؟ اور یہ بھی بتایا جائے کہ آیا پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک چینل رابطے بحال ہونے جا رہے ہیں؟ کیا ہم نے مسئلہ کشمیر پر تھرڈ پارٹی (امریکا) کی ثالثی قبول کر لی ہے؟‘‘۔

اصل یہ ہے کہ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، نے حالیہ ایام میں مسئلہ کشمیر بارے جو موقف اختیار کیا ہے ، اِس کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر پر بھارتی موقف کا محل لرز کررہ گیا ہے۔ پچھلے75برسوں سے بھارتی بنیا اپنے چانکیائی ہتھکنڈوں کے تحت ، مسئلہ کشمیر پر، دُنیا کو جس طرح گمراہ کرتا چلا آ رہا ہے اور مسئلہ کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو جس بہیمیت سے پسِ پشت ڈالتا رہا ہے ، اب اس کی بنیادیں ہل گئی ہیں ۔

90ء کے عشرے میں جب نائب امریکی وزیر خارجہ ( برائے جنوبی و وسطی ایشیا امور) رابن رافیل نے امریکی سوچ کی عکاسی کرتے ہُوئے مسئلہ کشمیر پر کھل کر بیان دیا تھا ، تب بھی نئی دہلی کو اِس سے بڑی تکلیف پہنچی تھی ۔ تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر پیدا ہوتے ہی امریکا نے، اپنے تئیں، اِسے سلجھانے کی کوششیں شروع کر دی تھیں ، لیکن خاطر خواہ کامیاب نہیں ہو سکا ۔ امریکا کی اِن کوششوں کا باقاعدہ آغاز 1950 سے ہوتا ہے ۔ اُن دنوں سرد جنگ ( سوویت رُوس اور امریکا کے درمیان) عروج پر تھی۔ امریکی سوچ تھی کہ اگر وہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کو راضی کر لیتا ہے تو اُسے (سوویت رُوس کے مقابل) جنوبی ایشیا میں اطمینان رہے گا ۔

اِس پس منظر میں اگر ہم نامور سابق امریکی سفارتکار ہوورڈ بی شیفر (Howard B Schaffer) کی معرکہ خیز کتاب The Limits of Influence: America,s Role in Kashmirکا مطالعہ کریں تو انکشاف ہوتا ہے کہ امریکی صدر جان ایف کینیڈی ہی کے زمانے سے امریکا ،اپنے مفادات کی خاطر، مسئلہ کشمیر حل کروانے کی کوششیں کرتا رہا ہے ۔

اِن کوششوں کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ اگر امریکا مسئلہ کشمیر حل کروا دیتا ہے تو یہ کامیابی اُسے سوویت رُوس کے مقابل فتح سے ہمکنار کرے گی۔ اِسی مقصد کے لیے ، مذکورہ کتاب کے مصنف شیفر کے بقول، امریکی صدر ( کینیڈی) نے اپنا ایک خاص نمایندہ ( W Averell Harriman) پاکستان اور بھارت بھیجا۔ کینیڈی نے اپنے اس نمایندہ خصوصی ، ہیری مین، کو بھارتی وزیر اعظم ( جواہر لعل نہرو) اور صدرِ پاکستان ( جنرل ایوب خان) کے نام الگ الگ خطوط بھی ارسال کیے ۔ اِن خطوط میں مبینہ طور پر پاکستان اور بھارتی سربراہان کو زوردار الفاظ میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے، براہِ راست، مل بیٹھنے پر اصرار کیا گیا تھا ۔ شومئی قسمت سے یہ امریکی کوشش بھی ناکامی پر منتج ہُوئی ۔

امریکی مصنف (Howard B Schaffer) نے اپنی مذکورہ بالا کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ساٹھ کے عشرے میں چین کے ہاتھوں بھارت کے شکست کھا جانے کے بعد ایک بار پھر امریکا نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کو بٹھانے کی کوشش کی۔ اِس مقصد کے لیے ، بقول مصنف، 1962-63، میں پاکستانی وزیر خارجہ ( ذوالفقار علی بھٹو) اور بھارتی وزیر خارجہ ( سردار سورن سنگھ) میں جو تفصیلی ملاقاتیں ہُوئی تھیں، وہ امریکا ہی کی بدولت تھیں۔

یہ کوششیں بھی مگر بے ثمر ثابت ہُوئیں ۔ اِس ناکامی کی وجہ بھی بھارت ہی تھا ۔ شیفر لکھتا ہے کہ بھارت ڈھٹائی سے مقبوضہ کشمیر سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے سے انکاری تھا اور پاکستان مقبوضہ کشمیر میں استصوابِ رائے ( Plebiscite)سے دستکش ہونے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اِن پے در پے ناکامیوں کے بعد مسئلہ کشمیر پر امریکی کوششیں ، رفتہ رفتہ، تقریباً ماند پڑتی چلی گئیں۔پاکستان اور بھارت میں مگر کشیدگی بھی بدستور جاری رہی ۔

لیکن ایک سُپرپاور ہونے کے ناتے امریکا جنوبی ایشیا کے دونوں ممالک کے آئے روز کے محاربے سے لاتعلق نہیں رہ سکتا تھا ؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب پاکستان اور بھارت کے درمیان ’’کارگل‘‘ کا خونی معرکہ شروع ہُوا اور اِس سے قبل کہ یہ معرکہ باقاعدہ کسی بڑی جنگ کی شکل اختیار کر لیتا ، امریکا نے آگے بڑھ کر اور بیچ بچاؤ کرواتے ہُوئے دونوں ممالک میں سیز فائر کروا دیا ۔ کہا جاتا ہے کہ اِس کے لیے اُس وقت کے وزیر اعظم ، جناب نواز شریف ، کو واشنگٹن جا کر ذاتی حیثیت میں بھی امریکی صدر (بل کلنٹن) سے خصوصی گزارشات کرنا پڑی تھیں ۔ اور جب پاکستان کے خلافOperation Parakramکے تحت بھارت اپنی فوجیں پاکستان کی سرحدوں پر لے آیا تھا ( پاکستان پر ایک سنگین الزام عائدکرتے ہُوئے ) تو اُس وقت بھی یہ امریکا ہی تھا جس نے اپنی وزیر خارجہ (کونڈو لیزا رائس) کے توسط سے پاکستان اور امریکا کے درمیان امن قائم کروایا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ بعد ازاں پاکستانی صدر ( جنرل پرویزشرف) اور بھارتی وزیر اعظم ( اٹل بہاری واجپائی ) کے درمیان (آگرہ میں) جو مذاکرات ہُوئے ، وہ بھی امریکی درمیان داری کا نتیجہ تھے ۔ مسئلہ کشمیر کے کسی حل کے لیے یہ مذاکرات بھی ناکام رہے ۔ یہ ناکامی بھی دراصل بھارتی ڈھٹائی کا نتیجہ تھی ۔

اور صدر پرویز مشرف سے پہلے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی جب وزیر اعظم ، جناب نواز شریف، کے دَور میں لاہور آئے اور مینارِ پاکستان پر حاضری بھی دی ، تو خیال یہی تھا کہ اب پاک بھارت حالات دگرگوں نہیں رہیں گے ۔ لیکن یہ اُمید بَر نہیں آئی ۔ واجپائی اور نواز شریف ملاقات کسی تیسرے فریق کے بغیر تھی ۔ مگر اب ایک بار پھر ، تھرڈ پارٹی کی حیثیت میں ، امریکا کو پاک بھارت کشیدگی کم کروانے کے لیے قدم آگے بڑھانا پڑے ہیں ۔ اور بھارت منافقت کرتے ہُوئے اِس اقدام پر چیں بہ جبیں ہورہا ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • مائننگ پالیسی میں بڑی پیشرفت، امریکا، چین اور روس کو مساوی مواقع
  • مسئلہ کشمیر میں امریکی دلچسپی: چند تاریخی حقائق
  • شوہر نے دوسری شادی کی لیکن پھر لوٹ آئے؛ سینیئر اداکارہ نے ’صبر آزما‘ داستان سنادی
  • پاکستان کو ابراہیمی معاہدے پر عرب ممالک کے ساتھ جانا چاہیے. رانا ثنا اللہ
  • اداکارہ زارا ترین کے یک طرفہ محبت اور طلاق سے متعلق اہم انکشافات
  • اداکارہ زارا ترین کے یک طرفہ محبت اور طلاق سے متعلق اہم انکشافات
  • اہل بیت اورصحابہ سے محبت رکھنا ایمان کا حصہ ہے ،دعوت اسلامی
  • امریکا سے آئی خاتون نے اسلام قبول کرکے شادی کرلی
  • چین جون 2025