اسلام آباد میں کال سینٹر کے دو ملازمین بازیاب، اغواکار گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
اسلام آباد میں ڈکیت گینگ نے کال سینٹر پر دھاوا بول کر دو ملازمین کو اغوا کرکے دو کروڑ تاوان مانگ لیا، پولیس نے مقابلے کے بعد مغویوں کو بازیاب کراتے ہوئے گینگ کو گرفتار کرلیا جس میں ایک پولیس کانسٹیبل بھی شامل ہے۔
اس حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی آئی جی اسلام آباد پولیس محمد جواد طارق نے کہا کہ 17 اور 18 مئی کی رات سیکٹر آئی ایٹ میں کال سینٹر میں ایک گینگ نے موبائل فون اور دیگر سامان لوٹا، یہی گینگ وہاں سے نکلا اور جی ایٹ میں ایک کال سینٹر میں لوٹ مارکی، گینگ نے اس کال سینٹر سے دو ملازمین کو اغواء بھی کیا اور بازیابی کے لیے دو کروڑ روپے تاوان طلب کیا۔
انہوں نے بتایا کہ اغواء شدگان میں ایک غیر ملکی شہری بھی شامل تھا، ملازمان نے مغویوں کو تھانہ کرپا کے علاقے میں ایک ڈیرے پر رکھا ہوا تھا، پولیس نے تھانہ کرپا کے علاقے میں چھاپہ مارا تو ملزمان نے فائرنگ کردی، پولیس نے مقابلے کے بعد ملزمان کو گرفتار کرکے مغویوں کو بازیاب کرالیا ہے۔
ڈی آئی جی اسلام آباد نے مزید بتایا کہ اس گینگ میں اسلام آباد پولیس کا ایک معطل شدہ کانسٹیبل بھی شامل ہے، گرفتار کانسٹیبل سے تفتیش کی جارہی ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
مغوی اسسٹنٹ کمشنر حنیف نورزئی بازیاب، خصوصی طیارے کے ذریعے کوئٹہ منتقل
کوئٹہ:بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے تمپ سے اغوا ہونے والے اسسٹنٹ کمشنر محمد حنیف نورزئی کو چار ماہ بعد کامیاب آپریشن کے ذریعے بازیاب کروا لیا گیا ہے۔ بازیابی کے بعد انہیں وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خصوصی طیارے کے ذریعے تربت سے کوئٹہ منتقل کیا گیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر کیچ، بشیر احمد بڑیچ نے میڈیا کو تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ کامیاب ریسکیو آپریشن بلوچستان کی سیکیورٹی فورسز بشمول فرنٹیئر کور (ایف سی)، لیویز فورس، اور کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق یہ کارروائی انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر ایران سرحد کے قریب خفیہ مقام پر کی گئی۔
یاد رہے کہ اسسٹنٹ کمشنر حنیف نورزئی کو 4 جون 2025 کو عید کی تعطیلات کے دوران کوئٹہ جاتے ہوئے ٹیگران آباد کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے اغوا کر لیا تھا۔
وہ اس وقت اپنے خاندان، ڈرائیور اور گن مین کے ہمراہ سفر پر تھے۔ اغوا کار صرف انہیں اپنے ساتھ لے گئے جبکہ دیگر افراد کو چھوڑ دیا گیا۔
واقعے کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے قبول کی تھی، جس نے اسے ایک انٹیلیجنس پر مبنی کارروائی قرار دیا تھا۔
ڈی سی کیچ کے مطابق بازیابی کے دوران اغوا کاروں کے ساتھ شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں چند ملزمان ہلاک جبکہ کچھ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
اسسٹنٹ کمشنر حنیف نورزئی کو بازیابی کے فوراً بعد تربت کے سول ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ابتدائی طبی امداد کے بعد ڈاکٹروں نے ان کی صحت کو تسلی بخش قرار دیا ہے۔ اگرچہ جسمانی طور پر وہ محفوظ ہیں تاہم طویل قید کے باعث وہ نفسیاتی دباؤ کا شکار نظر آتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خصوصی طیارے کے ذریعے انہیں کوئٹہ منتقل کیا گیا ہے جہاں ان کے مکمل علاج اور آرام کے انتظامات کیے گئے ہیں۔
حنف نورزئی بلوچستان سول سروس کے سینئر افسر ہیں جو ماضی میں مختلف اضلاع میں اہم انتظامی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔
ان کا اغوا بلوچستان میں سرکاری افسران کو درپیش خطرات کی ایک اور مثال ہے۔ حالیہ دنوں میں زیارت میں بھی ایک اسسٹنٹ کمشنر اور ان کے بیٹے کے اغوا کا واقعہ پیش آ چکا ہے۔
مقامی افراد، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ علاقے میں سیکیورٹی اقدامات کو مزید مؤثر بنائے اور سرحد پار عناصر کی مداخلت کو روکا جائے۔
ضلعی انتظامیہ نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے جبکہ سیکیورٹی فورسز نے مزید سرچ آپریشنز بھی شروع کر دیے ہیں تاکہ مفرور ملزمان کو گرفتار کیا جا سکے۔
حنف نورزئی کی بحفاظت واپسی پر مقامی آبادی نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے صوبے میں امن و امان کی بحالی کی جانب ایک مثبت قدم قرار دیا ہے۔ اسپتال ذرائع کے مطابق وہ جلد اپنی ذمہ داریوں پر دوبارہ کام شروع کر دیں گے۔