بھارت سے تجارت سمیت 4 اہم معاملات پر مذاکرات ہوں گے، وزیراعظم کی سینیئر صحافیوں سے ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تجارت سمیت 4 اہم معاملات پر باضابطہ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ سینیئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوز میں حالیہ رابطے کے بعد پاکستان اور بھارت زمانۂ امن کی پوزیشن پر واپس آ چکے ہیں، جو خوش آئند پیشرفت ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ مذاکرات کے ایجنڈے میں کشمیر، پانی، تجارت اور دہشتگردی کے موضوعات شامل ہوں گے۔ ان کے مطابق بات چیت کے لیے دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیر کسی غیر جانبدار مقام پر ملاقات کریں گے، تاہم بھارت کی طرف سے تاحال کسی تیسرے ملک میں باضابطہ مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر نہیں کی گئی۔
مزید پڑھیں: فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے اعزاز میں گارڈ آف آنر کی خصوصی تقریب
انہوں نے بتایا کہ حالیہ کشیدگی کے دوران جنگ بندی کی درخواست بھارت کی جانب سے کی گئی، جس میں امریکی صدر، امریکی وزیر خارجہ، چین، ترکی اور دیگر دوست ممالک نے کلیدی کردار ادا کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اسرائیل نے حالیہ جھڑپوں میں بھارت کو ہتھیار اور فوجی ایڈوائزر فراہم کیے، اور سری نگر سمیت کئی علاقوں میں اسرائیلی ساختہ ہتھیاروں کے استعمال کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہے اور پاکستان جلد بھارتی دہشتگردی کے ناقابل تردید شواہد عالمی برادری کے سامنے رکھے گا۔
مزید پڑھیں: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی کا نوٹیفکیشن جاری
وزیراعظم نے واضح کیا کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل بنانے کا فیصلہ مکمل طور پر سول حکومت کا تھا اور اس میں نواز شریف کی مشاورت شامل رہی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن، ترقی اور استحکام کا خواہاں ہے اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کو ترجیح دیتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: مذاکرات کے کے لیے نے کہا
پڑھیں:
کشیدگی کے باوجود تجارت جاری، بھارت سے درآمدات 3 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پاکستان اور بھارت کے درمیان مختصر فوجی تنازع اور سرحدوں کی مسلسل بندش کے باوجود، مئی میں تجارتی سرگرمیاں جاری رہیں، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2025 کے جولائی تا مئی کے دوران بھارت سے درآمدات 3 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2025 کے پہلے 11 ماہ میں بھارت سے درآمدات 21 کروڑ 50 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئیں، جو مالی سال 2024 میں 20 کروڑ 70 لاکھ ڈالر اور مالی سال 2023 میں 19 کروڑ ڈالر سے زیادہ ہیں، صرف مئی کے مہینے میں جب پہلے ہفتے میں 4 روزہ تنازع ہوا، درآمدات ڈیڑھ کروڑ ڈالر رہیں، جو پچھلے سال کے اسی مہینے میں ایک کروڑ 70 لاکھ ڈالر تھیں۔
تاہم بھارت کو پاکستان کی برآمدات نہ ہونے کے برابر رہیں، مئی میں برآمدات صرف ایک ہزار ڈالر ریکارڈ کی گئیں، جب کہ مالی سال 2025 کے جولائی تا مئی کے دوران مجموعی برآمدات صرف 5 لاکھ ڈالر رہیں، مالی سال 2024 اور 2023 میں برآمدات بالترتیب 34 لاکھ 40 ہزار ڈالر اور 3 لاکھ 30 ہزار ڈالر تھیں، جو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کی یک طرفہ نوعیت کو ظاہر کرتی ہیں۔
تاجر اس کشیدہ صورتحال کے دوران درآمدات کے تسلسل پر بات کرنے سے گریزاں نظر آئے، ایک تاجر نے اشارہ دیا کہ یہ اشیا تیسرے ملک کے ذریعے آئی ہوں گی، اور ان کی ادائیگیاں جنگ سے پہلے کی گئی ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ ممکن ہے کہ یہ اشیا کسی تیسرے ملک سے آئی ہوں اور مئی کی درآمدات کی ادائیگی جنگ سے پہلے کی گئی ہو۔
بھارت سے درآمدات3 سال کی بلند ترین سطح پر
اگرچہ سرکاری اعداد و شمار محدود تجارت کو ظاہر کرتے ہیں، بھارت کے تحقیقی اداروں کا دعویٰ ہے کہ اصل تجارت اس سے کہیں زیادہ ہے, بھارت میں قائم گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشی ایٹو (جی ٹی آر آئی) نے گزشتہ ماہ رپورٹ کیا کہ بھارت کی پاکستان کو غیر رسمی برآمدات کا تخمینہ سالانہ 10 ارب ڈالر ہے، جو زیادہ تر دبئی، کولمبو اور سنگاپور کے راستے کی جاتی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غیر رسمی تجارت اس لیے جاری ہے، کیوں کہ پاکستان میں پیداواری لاگت بہت زیادہ ہے، اور صنعتیں غیر ملکی اجزا پر انحصار کرتی ہیں۔
ایک برآمدکنندہ نے کہا کہ ہمیں بھارت سے اسمگلنگ کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ پاکستان میں پیداواری لاگت خطے میں سب سے زیادہ ہے، جس سے بھارت، چین اور بنگلہ دیش سے اشیا کی درآمد کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان باضابطہ تجارتی تعلقات 2019 سے منجمد ہیں، لیکن اعداد و شمار اور زمینی حقائق یہ ظاہر کرتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی انحصار غیر رسمی ذرائع سے اب بھی برقرار ہے۔
کچلاک: استاد کا طالب علم کو تھپڑ مارنا جان لیوا بن گیا، پرنسپل خنجر کے وار سے قتل