مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی
اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT
—فائل فوٹو
سپریم کورٹ آف پاکستان نے مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی اپیلوں پر سماعت کل دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی۔
مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی اپیلوں پر جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل حامد خان نے عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے سے متعلق متفرق درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق مرکزی کیس کی عدالتی کارروائی براہ راست دکھائی جاتی رہی۔
جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حلف اٹھانے کے فوری بعد فل کورٹ اجلاس طلب کیا، فل کورٹ اجلاس میں اکثریت نے رائے دی پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی براہ راست نشریات دکھائی جائیں، دو رکنی کمیٹی نے تمام کمرۂ عدالتوں میں براہ راست نشریات کے بندوبست کی تجاویز دیں، بھٹو ریفرنس کی عدالتی کارروائی بھی سابق چیف جسٹس کے دور میں براہ راست دکھائی گئی، ابھی بھی وہ پائلٹ پروجیکٹ ہی ہے، سپریم کورٹ نے سوشل میڈیا پر ایک چینل بھی بنایا، سوشل میڈیا چینل سے باقی پرائیویٹ ٹی وی چینلز بھی نشریات دکھاتے رہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جس کیس کا آپ حوالہ دے رہے ہیں اس پر عمل درآمد ہو چکا۔
بینچ کی تشکیل نو پر اعتراضات، مقدمہ مؤخر اور لائیو دکھانے کی درخواستوں پر مخالف فریقین کے وکیل مخدوم علی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے 14 مارچ 2024ء کو فیصلہ دیا، 12جولائی کو سپریم کورٹ نے مختصر حکم نامہ دیا، 18 جولائی کو نظرثانی اپیلیں آنا شروع ہوئیں، 23 ستمبر کو تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے وکیل مخدوم علی خان سے سوال کیا کہ کیا آج بھی سپریم کورٹ رولز کا اطلاق ہوتا ہے۔
وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ آرٹیکل 191 اے کے ہوتے ہوئے رولز کو فوقیت نہیں دی جا سکتی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ تو سیاسی کیسز ہیں چلتے رہیں گے، پتہ نہیں کل ان کیسز سے کیا فیصلے ہوتے ہیں، ہمارے سامنے پانامہ کیس اور بھٹو ریفرنس کیس کی مثالیں موجود ہیں۔
وکیل مخدوم علی نے کہا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی اپیلیں سننے والا بینچ 13 رکنی ہی ہے، دو ججز نے اختلافی نوٹ میں بینچ سے الگ ہونے کا نہیں کہا۔
جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ان دو ججز کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارا ووٹ شمار نہ کیا جائے۔
وکیل مخدوم علی نے کہا کہ کل اگر پانچ ججز مزید کہہ دیتے ہیں بینچ کی تشکیل درست نہیں تو اکثریتی فیصلہ 7 ججز کا ہوگا، آرڈر آف دی کورٹ پر کوئی پر دستخط کیے جائیں گے تو اسے آرڈر آف دی کورٹ کہا جائے گا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے وکیل سے پوچھا کہ فرض کریں اگر کچھ ججز اختلاف کرتے ہیں تو کیا وہ بینچ میں رہیں گے؟
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ میرٹس پر فیصلہ نہ دینے والے ججز بینچ کا حصہ رہ سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی وکیل مخدوم علی مندوخیل نے سپریم کورٹ براہ راست جسٹس جمال نے کہا کہ
پڑھیں:
ایک بار طے ہو جانا چاہیے کہ نظرثانی کون سا بنچ سنے گا،وکیل فیصل صدیقی کا جسٹس امین الدین سے مکالمہ
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ آئینی بنچ میں پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کیخلاف نظرثانی کیس میں جسٹس امین الدین نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ مزید کتنا وقت لیں گے، سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے کہاکہ اعتراضات پر تفصیل سے دلائل دوں گا،کوئی فرق نہیں پڑے گا اگر میں ایک سماعت اور لے لوں گا،میں کل بھی یہاں ہوں گا کل دلائل دے دوں گا۔
جسٹس امین الدین نے کہاکہ آپ اعتراضات پر اتنے لمبے دلائل دے رہے ہیں،فیصل صدیقی نے کہاکہ میرے لیے یہ کیس ضروری نہیں اور میرا موکل بھی ضروری نہیں ہے، میرے لیے عدالت کا نظرثانی دائرہ سماعت ضروری ہے، ایک بار طے ہو جانا چاہیے کہ نظرثانی کون سا بنچ سنے گا۔
پاکستانی کن ممالک میں بغیر ویزے کے داخل ہو سکتے ہیں؟ فہرست سامنے آ گئی
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق سپریم کورٹ آئینی بنچ میں پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کیخلاف نظرثانی کیس کی سماعت ہوئی،جسٹس امین الدین کی سربراہی میں گیارہ رکنی آئینی بنچ نے سماعت کی،سنی اتحاد کونسل نے کیس میں تین متفرق درخواستیں دائر کر رکھی ہیں،سنی اتحاد کونسل نے بنچ پر اعتراض اٹھا رکھا ہے،جسٹس منصور علی شاہ کو بنچ میں شامل کرنے کو استدعا کی گئی ہے ،سماعت 26 ویں آئینی ترمیم کے فیصلے تک موخر کرنے کی استدعا کی گئی ہے،سنی اتحاد کونسل نے کیس کی کاروائی براہ راست نشر کرنے کی بھی استدعا کر رکھی ہے۔
بھارت کی جانب سے9 روز سے بندکرتارپور راہداری کھولی جائے :دربار انتظامیہ
وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہاکہ نظرثانی ہمیشہ مرکزی کیس سننے والا بنچ سنتا ہے،مرکزی کیس13 رکنی بنچ نے سنا تو وہی بنچ اب نظرثانی سنے،جسٹس امین الدین نے کہاکہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد نظرثانی کیس اب چھوٹا بنچ بھی سن سکتا ہے،ترمیم کے بعد 13 رکنی بنچ کا فیصلہ اب 8 یا 9 رکنی آئینی بنچ بھی سن سکتا ہے،وکیل فیصل صدیقی نے کہاکہ میرے لیے تمام ججز قابل احترام ہیں،میرا بنچ کے کسی ممبر کے وقار پر بھی کوئی اعتراض نہیں،میرے گیارہ رکنی بنچ کی تشکیل پر آئینی و قانونی اعتراضات ہیں۔
جسٹس امین الدین نے کہاکہ میں واضح کردوں کہ دونوں ججز نے خود بنچ سے علیحدگی اختیار کی،دو ممبران کی خواہش پر گیارہ رکنی بنچ تشکیل دیا ہے،وکیل فیصل صدیقی نے کہاکہ نظرثانی کیلئے ججز تعداد کا ایک جیسا ہونا ضروری ہے، جسٹس امین الدین نے کہاکہ یہاں تیرہ رکنی بنچ تھا دو خود علیحدہ ہوگئے،جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ دو ممبران نے نوٹس نہ دینے کا خود فیصلہ کیا، آپ ان ججز کو کیوں شامل کرنے کی کوشش کررہے ہیں،ججز کے اپنے اعتراض کے بعد پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟
بنگلہ دیش اور بھارت پھر آمنے سامنے
جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ وہ دونوں ججز اب بیٹھ کر کیا کریں گے،دونوں ججز اپنا فیصلہ دے چکے ہیں،جسٹس امین الدین خان نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ مزید کتنا وقت لیں گے، سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے کہاکہ اعتراضات پر تفصیل سے دلائل دوں گا،کوئی فرق نہیں پڑے گا اگر میں ایک سماعت اور لے لوں گا،میں کل بھی یہاں ہوں گا کل دلائل دے دوں گا،جسٹس امین الدین نے کہاکہ آپ اعتراضات پر اتنے لمبے دلائل دے رہے ہیں،فیصل صدیقی نے کہاکہ میرے لیے یہ کیس ضروری نہیں اور میرا موکل بھی ضروری نہیں ہے، میرے لیے عدالت کا نظرثانی دائرہ سماعت ضروری ہے، ایک بار طے ہو جانا چاہیے کہ نظرثانی کون سا بنچ سنے گا۔عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کردی۔
سارہ خان اور فلک شبیر دوسرے بچے کو خوش آمدید کرنے والے ہیں؟ ویڈیو وائرل
مزید :